مسئلۂ تقلیدکا تاریخی پس منظر
فقہ زندگی • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال: بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلید ایک نیا مسئلہ ہے، جس کا ذکرفقہی کتب میں نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اعمال اور معاملات کی صحیح انجامدہی کیلئے(مجتہد کی) تقلید ضروری نہیں ۔ اس دعوے کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: اس دعوے میں کوئی گہرائی دکھائی نہیں دیتی۔اسلئے کہ تقلید تو فطری مسائل میں سے ہے اور اس کی ضرورت وہ تمام افراد محسوس کرتے ہیں جو میدانِ حیات میں اپنی براہ راست اور بالواسطہ ذمے داریوں کا علم نہیں رکھتے۔ایسے افراد رہنمائی کے حصول کیلئے از خود فطری طور پر ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان کو درپیش مسائل کے ماہر ہوں ۔تاکہ اگر ان سے اپنے فیصلے کی حجت اور عذر دریافت کیاجائے توبتا سکیں۔
ہمیشہ ہی مسلمانوں کے درمیان ایسے بہت سے لوگ رہے ہیں جو اسلامی احکام کا وسیع علم نہیں رکھتے، بلکہ یہ ایک قدرتی سی بات ہے۔ اسلام جس پر مسلمان عقیدہ رکھتے ہیں اس نے قطعی طور پر انسان کو پروردگارِ عالم کے سامنے جوابدہ قرار دیا ہے اور اُسے اِس دین کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا مکلف قرار دیا ہے۔ کیونکہ اسے بارگاہِ الٰہی میں ان امور کا جواب دینا ہے جن کی انجام دہی کا خدا نے اُسے حکم دیا ہے یا جنہیں انجام دینے سے اُسے روکا ہے ۔اورجواب میں لازماً یا تو اسے اپنے اعمال کی دلیل پیش کرنا ہو گی یا کم از کم ان کا عذر اسے پیش کرنا پڑے گا۔
یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس روش کی بنیاد پر جس پر ان کی تربیت ہوئی ہے اور جس پر ان کی عادت استوار ہے اس قسم کے مسائل میں اپنے علما سے رجوع کرتے ہیں۔ حیاتِ پیغمبرؐ میں لوگ آنحضرتؐ سے رجوع کرتے تھے کیونکہ آنحضرتؐ صاحبِ رسالت اوراُس دور میں دین کے تمام امور سے آگاہ ترین فرد تھے۔ وہ تمام آیاتِ قرآنی جن میں یَسْءَلُوْنَکَ (آپ سے پوچھتے ہیں)کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے واضح ہے کہ مسلمان قدرتی طور پر اور از خود پیش آمدہ مسائل و مشکلات اور علمی ضروریات کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔
قرآنِ مجید، اُن افراد پرتنقید و اعتراض کرتے ہوئے، جوبغیر کسی دلیل اور حجت کے دعوتِ حق قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، اس فطری مسئلے پر تاکید کرتا ہے کہ : فَسْءَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لااَا تَعْلَمُوْنََ(اگر تم نہیں جانتے، تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔ سورۂ نحل ۱۶ ۔ آیت ۴۳)
ایک دوسرے مقام پر جب قرآنِ مجید لوگوں کے ایک گروہ کے میدانِ جہاد سے دور رہنے کی ضرورت کا تذکرہ کرتا ہے تو اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:ٌ لِّیَتَفَقَّہُوْافِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ(تاکہ علم دین حاصل کرے اور پھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تو اسے عذابِ الٰہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں۔ سورۂ توبہ ۹۔ آیت ۱۲۲)
اس طرح کی رہنمائی (guidance ) کا عوامی زندگی پر مثبت اثرلازم ہے، کیونکہ پروردگارِ عالم چاہتا ہے کہ علما اور دینی امور کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد، لوگوں کومتنبہ کریں، ان تک دین کا پیغام پہنچائیں، جو ان کے اذہان کودین کے بارے میں یکسو اور مطمئن کرنے کا باعث ہو۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور سے تعلق رکھنے والے مسلمان، فقہی مسائل سے ایک حد تک آگاہ وآشنا اصحابِ رسولؓ سے دینی مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ یہ معمول دورِ ائمہؑ تک جاری رہا۔ ائمۂ اطہار ؑ اپنے گھروں یامسجدوں میں خاص اس مقصدکیلئے نشست کیا کرتے تھے کہ لوگ مختلف (عقیدتی اور شرعی) میدانوں میں اپنے مسائل کے بارے میں ان سے سوال کر کے، ان کے جواب حاصل کریں۔ احکامِ شرع کے بیان پر مشتمل ہم تک پہنچنے والی ائمۂ اہلِ بیت ؑ کی زیادہ تر احادیث و روایات، کسی فقہی قاعدے اور اسکی تشریح و تفصیل کو گفتگو کا محور بنانے سے زیادہ سوال و جواب کی صورت میں ہیں۔
شیعوں کا بھی یہ دستور رہا ہے کہ وہ اصحابِ ائمہ ؑ کی خدمت میں اپنے شرعی مسائل پیش کیا کرتے تھے، اور اس عمل نے تقلید کی بنیاد ڈالی۔ غیبتِ کبریٰ کے بعد بھی شیعوں نے علما کی طرف رجوع کرنے کی اس روش کو جاری رکھا۔ اس روش کو امامِ زمانہ ؑ کے اس قول سے مزید تقویت ملی کہ :واماالحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھاالیٰ رواۃأحادیثنا فإنھم الحجۃ علیکم ( پیش آمدہ حوادث کے موقع پر ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو، کہ وہ تمہارے لئے حجت ہیں۔ وسائل الشیعہ۔ج ۷۔ ص ۱۴۰ ۔ روایت ۳۳۴۲۴)
ایک اور روایت، جس کے حجیت اور دلالت کے لحاظ سے مقبول ہونے کے باوجود، بعض لوگ اس پر نزاع کھڑا کرتے ہیں، اس میں فرمایا گیا ہے کہ : من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ، حافظاً لدینہ، مخالفاً لھواہ، مطیعاً لأ مرمولاہ فللعوام
ان یقلدوہ (فقہا کے درمیان جو شخص پرہیز گار، اپنے دین کامحافظ، اپنی نفسانی خواہشات کا مخالف اور احکامِ الٰہی کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو لوگوں کو چاہئے کہ اس کی تقلید کریں۔ وسائل الشیعہ۔ ج ۲۷۔ ص ۱۳۱۔ روایت ۳۳۴۰۱)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ اپنے زمانے کے علما سے رجوع کیا کرتے تھے۔ لیکن جس طرح آج نظر آتا ہے کہ تمام شیعہ یا ان کا ایک بڑا گروہ کسی ایک مرجع سے رجوع کرتا ہے، ایسی بڑی اور وسیع دینی مرجعیت کا وجود (اُس دور میں) واضح نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس زمانے کے حالات ایک شخص کے شیعوں سے اس قدر وسیع روابط کے قیام کیلئے ساز گار نہ تھے، اور ان حالات نے شیعوں کے لئے اپنے تمام امور و معاملات میں، تمام علما سے رجوع کرنے کو غیر حقیقی اور غیر ممکن بنا دیا تھا۔
لہٰذا شیعہ اپنے اپنے علاقوں کے علما سے رجوع کرتے تھے اور کچھ چوٹی کے شہرت یافتہ شیعہ علما جیسے شیخ مفیدؒ اور سید مرتضیٰ ؒ سے، دوردراز رہنے والے شیعہ بھی استفادہ کرتے تھے اوران کی خدمت میں اپنے سوال پیش کرتے اور ان کے جواب پاتے تھے۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی کتب میں ہمیں ”المسائل الطرابلسیہ“ نامی کتاب بھی نظر آتی ہے جو ”طرابلس“ میں رہنے والے شیعوں کے سوالات اور شیخ مفیدؒ کے جوابات پر مشتمل ہے، اسی طرح سید مرتضی علیہ الرحمۃ کی کتب سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ البتہ اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس زمانے میں ”اعلیٰ اور ہمہ گیر مرجعیت“ نامی کوئی چیز موجود تھی، جو آئندہ ادوار میں بھی جاری رہی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مسئلۂ تقلید کی صورت یہ تھی کہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ ایرانی علما سے رجوع کرتے تھے اور عراق و لبنان کے شیعہ اپنے ممالک کے علما سے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ علما میں سے کوئی ایک عالم غیر معمولی شخصیت کا حامل ہو جاتااورلوگ اس کی طرف رجوع کرنے لگتے، لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ لوگ اس بات کے پابند نہیں ہوتے تھے کہ ہر مسئلے میں اسی کی طرف رجوع کریں گے۔ بلکہ صرف اضطراری اور اسی طرح کے حالات میں اس کی رائے دریافت کرتے تھے۔ اس بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اگرچہ تاریخ کے اُس دور میں شیعی مرجعیتِ اعلیٰ کا وجود نہ تھا، البتہ تقلید موجود تھی۔ کیونکہ جاہل کے عالم کی جانب رجوع کرنے کی بنیاد پر انسانی زندگی میں تقلید ایک فطری اور طبیعی بات ہے۔