فقہ زندگی

سوال : کیا عورت، عقدِ نکاح کے موقع پر یہ شرط عائد کر سکتی ہے کہ اسے حقِ طلاق حاصل ہو گا؟ اس صورت میں اگر مرد اس شرط کو ملحوظ نہ رکھے، یا اسے باطل سمجھے، توکیا عقدِ نکاح بھی باطل ہو گا؟
جواب : اس شرط کی دو صورتیں ہیں۔
ایک یہ کہ یہ شرط عائد کی جائے کہ طلاق کا حق عورت کے پاس ہو گا۔لیکن یہ شرط عائد کرنا باطل ہے۔ کیونکہ اﷲ رب العزت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور یہ شرط عائد کرنا کہ طلاق کا حق عورت کے ہاتھ میں ہو گا، قرآنی حکم کی مخالفت ہے۔ ہر وہ شرط جو حکمِ قرآن کے خلاف ہو، باطل ہے، اسکی کوئی حیثیت نہیں۔
اس شرط کی دوسری صورت یہ ہے کہ یہ شرط رکھی جائے کہ عورت اپنے شوہر کی طرف سے طلاق کے اجراء کی وکیل ہے ۔یعنی کسی بھی دوسرے وکیل کی طرح اپنے شوہر کی طرف سے اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے۔ یہ وکالت درست ہے۔ اگر اس وکالت کی بنیاد یہ شرط ہو تو یہ لازم الاجراء ہے اور مرد عورت کو اپنی وکالت سے معزول نہیں کر سکتا۔ اگر اس شرط میں پہلے سے طے شدہ شرائط وقوع پذیر ہو جائیں تو عورت اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے۔
لیکن اگر طلاقِ رجعی ہو تو مرد رجوع کر سکتا ہے۔ اور رجوع کر لینے کے بعد عورت کو دوبارہ اس شرط سے استفادے کا حق نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ حق ایک مرتبہ استفادے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن، اگر شرط اس انداز سے رکھی گئی ہو کہ طلاق، طلاقِ خلع (۱) ہوگی۔ یعنی طلاق کے عوض وہ اسے کوئی چیز بخشے گی، تو مرد رجوع نہیں کر سکے گا۔

سوال : تنہائی کے اوقات یا اوقاتِ حرمت جن کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے کون سے ہیں؟
اور ان اوقات میں بچوں پر کن امور کا لحاظ رکھنا لازم ہے؟
جواب : قرآنِ کریم میں ان اوقات کا ذکر آیا ہے جن میں عرب مشرقی معاشروں میں مرد اپنی عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرتے ہیں۔ عرب علاقوں، بالخصوص جہاں سخت گرمی پڑتی ہے، وہاں کے لوگوں کا معمول یہ ہے کہ وہ بعد از ظہر بھی کچھ دیر کیلئے استراحت کرتے ہیں۔
مذکورہ حکم کی بنیاد یہ ہے کہ جن اوقات میں والدین تنہائی اختیار کرتے ہیں، ان اوقات میں بچے بغیر اجازت لئے ان کے کمروں میں داخل نہ ہوں۔ البتہ یہ بات صرف انہی اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اور اسی طرح ان پر کوئی معین احکام بھی مرتب نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کا تعلق سماج کے عرفی احکامات سے ہے۔

۱۔ طلاقِ خلع اس صورت میں ہوتی ہے جب بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مائل نہ ہو اور اس سے متنفر ہو اور اگراس کا شوہر اسے طلاق نہ دے تواسکے خدا کی نافرمانی کا مرتکب ہونے کا امکان ہو۔ اس موقع پر عورت اپنے شوہر کو طلاق پرراضی کرنے کیلئے اپنا مہر یا اس سے کچھ زیادہ بخش دیتی ہے۔