بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیا سی اور اجتماعی امور میں امت کی رہبری اور رہنمائی امام کی ایک اہم ذمے داری ہے۔ائمۂ معصومین ؑ میں دوسرے ائمہ ؑ کی بہ نسبت امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ، امام حسن ؑ ؑ اور امام حسین ؑ کو سیاسی اور اجتماعی امور میں زیادہ اور علانیہ فعالیت کا موقع نصیب ہوا ۔گو باقی ائمہؑ بھی ان امور سے لاتعلق نہ رہے اور حالاتِ زمانہ اور سیاسی فضا کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی اپنے اس فریضے سے عہد ہ بر آ ہوئے لیکن اس سلسلے میں سرگرم کردار کی ادائیگی کے سب سے زیادہ مواقع امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کو حاصل رہے اور آپ نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا ۔ بالخصوص اپنی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعی کی تطہیر اور از سرِ نو تعمیر کے دوران تقر یباً تمام ہی اجتماعی میدانوں کے لیے آپ نے ہدایات دیں، پالیسیاں بیان فرمائیں، ان کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت فرمائی اور ان کے نفاذ کے سلسلے میں جانفشانی کی حد تک جدو جہد کی ۔نہج البلاغہ کے اکثر خطبات اور مکتوبات انہی امور کے متعلق امام ؑ کی گفتگو پر مشتمل ہیں۔
زیرِ نظر کتاب حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ الصفار کے ان لیکچرز کا مجموعہ ہے جن میں اُنہوں نے نہج البلاغہ میں موجود خطبات، مکتوبات اور حکیمانہ کلمات کے ذریعے حیاتِ اجتماعی کے مختلف شعبوں کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے مؤقف اور تعلیمات پر روشنی ڈالی ہے ۔اصل کتاب عربی میں تالیف کی گئی، ایران میں اس کا فارسی ترجمہ شائع ہوا اور اب اس فارسی ترجمے سے کیا گیا اردو ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔یہ لیکچرز کیونکہ جوانوں کے روبرو دیے گئے تھے اس لیے ان میں اختصار اور آسانی کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، امید ہے یہ تالیف نسلِ نو کے لیے اسلام کی اجتماعی تعلیمات کو سمجھنے اور خود کو معاشرے اور اجتماع کے حوالے سے اپنے فریضے کی ادائیگی کے لیے تیار کرنے کی راہ میں ایک قدم ثابت ہوگی ۔
آخر میں ہم ان تمام مومن بھائیوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس کتاب کی طباعت کے مختلف مراحل میں ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ اپنے قارئین کے تبصروں، آراء اور تجاویز کا ہمیں انتظار رہے گا ۔
مقدمہ
دنیا میں ۸۰ ملین مسلمان بستے ہیں (۱)، کُرّۂ عرض کے ایک بڑے حصے پر اہلِ اسلام کو اقتدار و اختیار حاصل ہے، اسلامی ممالک جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین خطوں میں واقع ہیں، جیسے ایشیا، افریقہ اور یورپ کا ایک بڑا حصہ، اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اکثر اہم ترین سمندروں، جیسے بحرۂ ہند، بحرۂ اطلس، بحرۂ احمر اور میڈیٹرین سی پر انہیں غلبہ و تسلط حاصل ہے اور اکثر اسٹرے ٹیجک راستوں اور آبناؤں پر ان کی حکمرانی ہے، جیسے نہر سوئز، اور آبنائے ہر مز وغیرہ ۔
بعض اسلامی ممالک تیل کی برآمد کے لحاظ سے ان ممالک میں سے ہیں جو دنیا کو سب سے زیادہ تیل برآمد کرتے ہیں ۔دنیا کے تیل کے ۶۰ فی صد سے زیادہ ذخائر اسلامی ممالک کے پاس ہیں ۔دنیا بھر میں پائی جانے والی فاسفیٹ کے ایک تہائی ذخائر اور تانبے، لوہے اور میگنیزیم (Magnezim) کے بڑے بڑے ذخائر بھی مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں ۔اسی طرح انتہائی زرخیز زمینیں بھی مسلم ممالک کے پاس ہیں ۔
ایک طرف تو صورتحال یہ ہے، لیکن دوسری طرف بہت سے مسلمان علاقے، جیسے فلسطین، صحرائے سینا، جولان کی پہاڑیاں، ارییٹریا، فلپائن اور قبرص استعماری اور قابض اقوام کے پنجوں میں ہیں ۔بڑی طاقتوں اور استعماری ممالک نے تمام دنیا اور اسلامی ممالک کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے درمیان تقسیم کر رکھا ہے اور ان پر تسلط اور اثر و نفوذ رکھتے ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے بھی خود کو ان طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے، کسی بھی میدان میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں، حتیٰ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی خود کفیل نہیں ۔اسلامی ممالک اسلحہ، کپڑا، مشنری، آلات، کھانے پینے کی اشیا، حتیٰ جوتے، نیل کٹر اور ٹشو پیپر تک بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں ۔
امتِ اسلامیہ کا عظیم الشان مال و دولت کی مالک ہونے کے با وجود، حال یہ ہے کہ اکثر اسلامی ممالک کے عوام غربت و افلاس اور محرومیت اور بے سروسامانی کے عالم میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں ۔حد یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک جو تیل کی بیش بہا دولت سے مالا مال ہیں، وہاں بھی بہت سے گھرانے چھپروں اور جھو نپڑوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
امتِ اسلامی سادہ ترین علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں اور لوگوں کی بنیادی ترین ضروریات جیسے آب رسانی، زراعت، ڈیری فارمنگ وغیرہ کے سلسلے میں بھی غیروں کی محتاج ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے اکثر ذہین افراد اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین سے اغیار فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امتِ اسلامیہ کی صورتحال کی ان دو باہم متضاد تصویروں کو دیکھنے والا ہر با شعور اور درد مند فرد، حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا ہے، اس صورتحال پر کڑھتا اور روتا ہے، اور پھر اس صورتحال کو وجود میں لانے والے اسباب و عوامل کو تلاش کرتا ہے اور بے شک اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ امت کی ذلت، زبوں حالی ا ور پسماندگی کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ خداداد نعمتوں سے محروم ہے، اسکے پاس زیر زمین خزانوں کی کمی ہے ۔کیونکہ ہم خود اپنے زمانے میں دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ممالک، اپنے محدود وسائل اور سادہ قوتوں کے ساتھ ایک بہتر سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں اور انتہائی ترقی اور پیشرفت کے حامل ہیں، جیسے جاپان ۔
پس امتِ اسلامیہ کو جس درد ناک پسماندگی نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اسکی حقیقی وجہ کچھ اور ہے، اور وہ ہے ایک متعین اور واضح پروگرام کی جانب توجہ کا نہ ہونا ۔لہٰذا نہ وہ اپنے کردار سے واقف ہیں، نہ اپنے پاس موجود وسائل و امکانات کی اہمیت اور قدر و قیمت سے باخبر ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ۔
با الفاظ دیگر اس دور میں مسلمانوں کی حالت ایک ایسے بچے کی سی ہے جس کا باپ کثیر مال و دولت اس کے لیے چھوڑ کر انتقال کر گیا ہو ۔اور وہ بچہ اپنی کم سنی کی بنا پر یہ نہ جانتا ہو کہ اس دولت کو کیسے اپنے تصرف میں لائے، کس طرح اس سے استفادہ کرے ؟ اور کس طرح اپنے روشن کل اور کامیاب زندگی کے لیے اسے استعمال کرے ؟
نتیجے کے طور پر یہ کثیر مال و دولت غلط استعمال اور فضول خرچی کی و جہ سے برباد اور ختم ہونے لگتا ہے اور آخر کار وہ بچہ فقر و ناداری کا شکار ہو کر اپنی عزت اور مقام سے محروم ہوجاتا ہے ۔
درحقیقت ہر قوم کو ایک خاص طرزِ فکر اور مخصوص لائحۂ عمل کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اسکی روشنی میں اپنی زندگی کا راستہ طے کرسکے ۔ایسی قوم جو اپنی زندگی کے لیے کسی واضح لائحہ عمل کی مالک نہ ہو، وہ جہالت اور نادانی کے گڑھے میں ہاتھ پاؤں مارتی رہ جاتی ہے ۔
متعین طرزِ فکر اور لائحہ عمل (programme)کے لیے ضروری ہے کہ حقائقِ کائنات اور اس قوم کی تاریخ ان کا سرچشمہ ہوں، تاکہ ان میں با ہمی یگانگت پائی جائے اور قوم اپنی توانائیوں کو ابھار سکے اور خداداد نعمتوں کو اپنی ترقی اور پیشرفت کے لیے استعمال کر سکے ۔
اس کے بر عکس اگر کوئی قوم اپنا طرزِ فکر اور لائحۂ عمل ایسے معاشروں سے حاصل کرے جو حقائقِ کائنات، امکانات و وسائل اور اس قوم کی تاریخ سے بے گانے ہوں اور اس قوم سے بنیادی فرق رکھتے ہوں، تو ایسی صورت میں اس قوم کو بکثرت خطرات اور مشکلات کا خدشہ لاحق رہے گا۔
ایک ایسا شخص جس نے اپنی آنکھوں پر اپنے نمبر کی عینک نہ لگائی ہو ئی ہو، اسے کن مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ؟ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں، ہر صاحبِ فہم اس کا تصور کر سکتا ہے ۔سادہ طورپر عرض کر دیں کہ وہ اپنے سامنے رکھی ہوئی چیز وں کو بھی صحیح طور پر نہ دیکھ سکے گا، وہ چیزوں کو الٹا، یا ان کے اپنے حجم سے بڑا یا چھوٹا دیکھے گا، اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اسے ایک کے دو یا اس سے بھی زیادہ نظر آئیں، اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اسکے اپنی رہی سہی بینائی سے محروم ہوجانے کا خطرہ بھی موجود ہے ۔
کیا ہم نے کچھ غلط کہا ؟
ایک ایسی قوم جو اپنے اصل واصول سے مختلف درآمدی (imported) نظریات، پروگراموں اور اجنبی تہذیب و تمدن کو اپنے معاشرے میں لاگو کرے گی اسے لازماً مذکورہ بالا نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔زندگی کے بارے میں اسکے تصورات و افکار اضطراب اور تشویش کا شکار ہوجائیں گے ۔یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ قوم کو بہت جلد پسماندگی اور ذلت و خواری سے دوچار کردے گی بلکہ اس میں موجود تمام اچھی قدروں اور مثبت صلاحیتوں کی بربادی پر منتج ہوگی ۔
یہ وہی صورتحال ہے جس کا آج امتِ اسلامی کو سامنا ہے اور جو اس کی پسماندگی اور زبوں حالی کا بنیادی سبب ہے ۔
البتہ اب جبکہ امتِ اسلامیہ کی نسلِ نو خوابیدگی سے بیدار ہوچکی ہے، اسے ہوش آچکا ہے، اپنی پسماندگی اور اپنے تاریک مستقبل کو محسوس کر رہی ہے اور دوسری اقوام کی قابلِ تحسین ترقی اور پیشرفت بھی جس کے سامنے ہے، اور جو اپنے قدموں میں پڑے قدرتی وسائل اور زیر زمین ذخائر سے بھی آگاہ ہے، تو ایسے میں ان بیش بہا خزانوں اور کثیر سرمایوں سے صحیح صحیح استفادے کے لیے ایک عملی پروگرام اور لائحہ عمل کی ضرورت واضح ہے۔ تاکہ یہ امت بھی اپنی اس پسماندگی سے نجات حاصل کرے اور تمدن، ٹیکنالوجی، سائنس اور صنعت کے رواں دواں کارواں میں شامل ہوجائے ۔
ظاہر بات ہے کہ استعماری ممالک اور بڑی طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں آئے گی کہ ترقی پذیر ممالک ہوش میں آئیں اور ترقی و کمال کے راستے تلاش کریں ۔بلکہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اس بات کے لیے سرگرم ہوں گی کہ ان ممالک کی ترقی کا پہیہ جام کردیں اور ان کے راستے میں کانٹے بو دیں، تاکہ یہ اقوام ہمیشہ ان کی ناجائز خواہشات اور احکامات کے آگے سرِ تسلیم خم اور ان کے مشیروں اور ماہرین کی محتاج رہیں ۔اس مقصد کے لیے استعمار خود کو حاصل بے حد و حساب مواقع سے خوب اچھی طرح فائدہ اٹھاتا ہے ۔
اب جبکہ اس امت کے فرزند، زندگی کے لیے ایک نظریے اور لائحۂ عمل کی تلاش میں ہیں، ایک ایسے نظریے اور پروگرام کی جستجو میں ہیں جو امت کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکے، تو استعمار اس موقع کو کیوں نہ غنیمت سمجھے اور کیوں نہ اس نئی نسل کے سامنے ایک ایسا نظام اور پروگرام پیش کرے جو اسکی استعماری خواہشات کو پورا کرتے ہوئے ہماری نئی نسل کے مستقبل کو اسکے ہاتھوں میں دیدے اور اس ذریعے سے اپنے مطلب کے لوگ اور اپنے پٹھو تیار کرے ؟
یہ کوئی خیالی بات نہیں، بلکہ عملاً ایسا ہوتا رہا ہے ۔برسوں سے ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ بین الاقوامی لٹیرے، پروپیگنڈے کے کثیر اور وسیع ذرائع کے ذریعے، اپنی علمی اور فنی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے دوران اور دیگر گمراہ کن اور فریبی راستوں سے ہماری نسلِ نو کے سامنے زندگی گزارنے کے ایسے نظریے اور پروگرام پیش کرتے ہیں جو ہماری قوم کی اصل و اصول سے متصادم ہیں اور کائنات کی حقیقتوں اور ہماری اقدار سے کسی طرح بھی ساز گار نہیں ہیں اور جو قوم میں فکری تشویش اور اضطراب کا سبب ہوتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟
امت کی نئی نسل کیوں دوسروں کے افکار اور نظریہ ہائے حیات قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہے ؟
کیا امتِ اسلامی کے پاس زندگی کا کوئی دستور اور تمدن کا اپنا کوئی خاکہ نہیں ؟
یا اس حوالے سے کوئی اور مسئلہ درپیش ہے ؟
درحقیقت، امتِ اسلامی تاریخِ بشریت کے بہترین قانون اور عظیم الشان میراث یعنی اسلامی قانون و میراث کی مالک ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے مناسب ترین اور جامع ترین پروگراموں کا حامل ہے ۔اور یہ قانون اپنی جامعیت اور بشیریت کی تمام ضروریات کا احاطہ کرسکنے کی اپنی صلاحیت سے انسانیت کو حیرت و استعجاب سے دوچار کر سکتا ہے ۔اور اگر ہم اس عظیم الشان میراث کے تمام حصوں کا علمی جائزہ لیں تو اس کے اندر زندگی کے تمام میدانوں کے لیے معقول اور پسندیدہ پروگراموں کا مشاہدہ کریں گے ۔
اس عظیم میراث سے تعلق رکھنے والی صرف ایک کتاب ” وسائل الشیعہ“ کا مطالعہ کریں تو دیکھتے ہیں کہ اس میں:
۴۰۸۲، احادیث، صرف میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں ہیں ۔
۲۴۲۹، احادیث، کھانے پینے کے آداب کے بارے میں ہیں ۔
۴۶۴، احادیث، صفائی اور پاکیزگی کے بارے میں ہیں ۔
۸۲، احادیث، دانتوں کی صفائی اور انہیں مسواک کرنے کے بارے میں ہیں ۔
البتہ اس عظیم میراث کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، جن کی وجہ سے یہ دورِ جدید کے تقاضوں کا جواب دینے سے عاجز ہے ۔یہاں تک کہ نسلِ نو اس نعمت کی موجودگی اور اس کی قدر و قیمت تک نہیں جانتی ۔یہ مشکلات درج ذیل ہیں :
۱۔ یہ اسلامی میراث اپنی ساخت اور اسلوب کے لحاظ سے اس زمانے سے متاثر ہے جس میں یہ ظاہر ہوئی اور جس ابتدائی دور میں اسکی تبلیغ ہوئی ۔لہٰذا یہ ہر دور کے لحاظ سے اپنی ساخت اور اسلوب میں تجدید کی محتاج ہے، تاکہ ہر زمانے سے ہم آہنگ ہوسکے، اور اس تجدید کے لیے کوئی کوشش ہمیں اپنے دور میں نظر نہیں آتی ۔(۲)
۲۔ اس میراث کی تبلیغ اور تشہیر بھی خاطر خواہ پیمانے پر نہیں ہورہی ۔
۳۔ افسوس کہ بعض مسلکی تعصبات، سیاسی رجحانات، اور فکری جمود بھی اس عظیم میراث سے استفادے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔
ان حالات میں نسلِ نو فکری خلا سے دوچار اور خود کو غیر وں کے نظریات اور افکار کی محتاج محسوس کرتی ہے، اور یوں استعمار کواس فکری خلا سے فائدہ اٹھانے اور ہماری عقول و اذہان کو اپنے غلیظ افکار سے بھرنے کا موقع ملتا ہے، تاکہ جب ہم اپنی اصل اور بنیاداور اپنی اسلامی میراث کی جانب پلٹنے کا ارادہ کریں اور اس بارے میں علمی بحث و تحقیق کرنا چاہیں تو مغرب کی یہ فکر ی یلغار رکاوٹ بنے ۔
مزید بر آں مغرب مختلف حربوں اور سازشوں سے ہمیں اس عظیم الشان میراث سے اپنی زندگی کے لیے دستورِ عمل اور پروگرام اخذ کرنے کا موقع نہیں دیتا ۔
اسلام کی ابتدائی میراث سے تعلق رکھنے والی ایک اورکتاب ”نہج البلاغہ“ ہمارے پاس موجود ہے، جو امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے دل نشین اور فکر انگیز خطبات، مکتوبات اور مختصر حکیمانہ کلمات کا مجموعہ ہے ۔گو کہ علما، دانشوروں، مؤرخین اور شارحین نے اس کتاب کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس پر قابلِ قدر علمی کام ہوئے ہیں، لیکن اس کے با وجود اب بھی اس کتاب کی روشنی میں ایسے موضوعات پر تحقیقی کام کی ضرورت باقی ہے، جن کے ذریعے حیاتِ اجتماعی کے مختلف گوشوں کے لیے جا مع اور کامل خاکے حاصل کیے جاسکیں اورا ن کے ذریعے اس خطرناک فکری خلاکو پر کیا جاسکے جس سے ہماری نسلیں دوچار ہیں اوراس طرح ترقی اور استحکام کی جانب اس امت کی رہنمائی اور اس راہ پر اسکے سفر کا امکان پیدا ہوسکے ۔
یہ کتاب، جس کے یہ ابتدائی صفحات آپ کے زیر مطالعہ ہیں، نہج البلاغہ کے تعلق سے ان خطبات اور لیکچر ز کا مجموعہ ہے جنہیں ہم نے موضوعاتی اسلوب اختیار کرتے ہوئے ۱۹۷۸ء کی تعطیلات میں نوجوانوں اور جدید تعلیم یافتہ روشن فکر افراد کے سامنے پیش کیا تھا۔ امید ہے ہمیں اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق نصیب ہوگی، تاکہ اسلامی مسائل کے بارے میں سوچ بچار کرنے والے دیگر افراد اس قسم کی بحثوں کو پھیلانے کے لیے آگے بڑھنے کی ہمت کریں ۔
واللہ ولی التوفیق
حسن موسیٰ الصفار
جزیرۃ العرب ۔ قطیف
۱۔ کتاب ہذا اب سے تقریباً پچیس برس قبل تحریر کی گئی، لہٰذا مؤلف نے اس وقت موجود مسلمانوں کی تعداد تحریر کی ہے، اب بحمد اللہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے ۔
۲۔ خوش قسمتی سے عصر حاضر میں امام خمینی علیہ الرحمہ کی رہنمائی میں بپا ہونے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے یہ مسئلہ بھی حل ہوا ہے اور دین اپنی زندہ اور حیات آفرین صورت میں سامنے آیا ہے ۔