حق کی کسوٹی
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
دو چیزیں حق کی کسوٹی ہیں :
۱۔ عقل : یعنی وہ صلاحیت جسے خداوندِ متعال نے انسان کو سوچنے سمجھنے کے لیے عطا کیا ہے اور جس کی روشنی میں وہ راہِ حق تلاش کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لوگ اپنی عقل استعمال کریں، اور اس کے ذریعے حق تک رسائی کے بارے میں سوچیں ۔اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں فرماتا ہے :
قُلْ اِنَّمَآاَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْالِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْ مَابِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍاِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔
آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ایک ایک دو دوکر کے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کا جنون نہیں ہے ۔وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے ۔ ( سورۂ سبا ۳۴۔آیت ۴۶)
ایک دوسری آیت میں اپنی عظمت کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْافِیْٓ اَنْفُسِہِمْ مَاخَلَقَ اﷲُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآاِلَّابِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی۔
کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے کہ خدا نے آسمان و زمین اور اس کے مابین موجود تمام مخلوقات کو بر حق ہی پیدا کیا ہے اور ایک معین مدت کے ساتھ ۔ (سورۂروم ۳۰۔آیت ۸)
۲۔ وحی : کیا خدا وندِ عالم نے اپنے بندوں پر حق کے سوا کسی اور چیز کی وحی کی ہے ؟ یا انہیں کوئی باطل حکم دیا ہے ؟
انسانوں پر واجب ہے کہ اپنے دلوں میں دین اور اسکی حقیقت کے بارے میں ذرّہ برابر شک کو جگہ نہ دیں کیونکہ دین کی حقیقت ایک مسلم امر ہے، کہ جس میں شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا، اس بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔
یہ حق آپ کے پروردگار کی طرف سے ہے، لہٰذا آپ ان شک و شبہ کرنے والوں میں نہ ہوجائیں ۔ (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۱۴۷)
نیز ارشاد ہے :
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُم۔
اے انسانو ! پروردگار کی طرف سے حق لے کر رسول تمہارے پاس آگیا ہے۔ (سورۂ نسا۴۔آیت ۱۷۰)
امام ؑ نے نہج البلاغہ میں متعدد مرتبہ اور بار ہا فرمایا ہے کہ خدا وندِ متعال نے رسولِ اسلام کو حق کی جانب لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہے :
ثُمَّ اِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ بَعَثَ مُحَمَّدًا( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ) بِا لْحَقِّ حِیْنَ دَنَا مِنَ الدُّنْیَاا لاِ نْقِطَاعُ، وَ اَقْبَلَ مِنَ الْآخِرَۃِ الْاِطِّلَاعُ۔
اسکے بعد اللہ نے حضرت محمد کو حق کے ساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۶)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ، اَرْسَلَہُ بِاَمْرِہِ صَادِعاً، وَبِذِکرِہِ نَاطِقاً فَاَدَّیٰ اَمِیْناً، وَمَضَیٰ رَشِیداً، وَخَلَّفَ فِیْنَا رَایَۃَ الْحَقِّ۔
اور محمدؐ اسکے بندے اور رسول ہیں جنہیں اس نے اپنے امر کے اظہار اور اپنے ذکر کے بیان کے لیے بھیجا، تو انہوں نے نہایت امانت داری کے ساتھ اسکے پیغام کو پہنچادیااورراہِ راست پر اس دنیا سے گزرگئے اور ہمارے درمیان ایک پرچمِ حق چھوڑ گئے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۹۸)
حق اور اسکے پیروکاروں کی تلاش
حق کی جستجو ہر انسان پر لازم ہے اور ضروری ہے کہ تمام انسان ہر مسئلے اور معاملے کے لیے صحیح معیارات اور پیمانوں کے ذریعے حق کے متلاشی رہیں، اگر چہ ان کے لیے حق کی پہچان اور اس تک رسائی انتہائی مشکل ہو، اور خواہ اس سلسلے میں انہیں بہت زیادہ کوشش، مشقت اور جدوجہد ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔اس بارے میں حضرت علی ؑ کا قول ہے:
وَخُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَیْثُ کَانَ۔
حق کی خاطر جہاں بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۳۱)
کبھی کبھی باطل، حق کے لبادے میں ظاہر ہوتا ہے، خود کو ہر انداز سے آراستہ کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو حالِ حاضر میں ہمیں پریشان کیے ہوئے ہے ۔آج کے دور میں ”حق“ کے نعرے طرح طرح کی صورتوں میں لگائے جاتے ہیں، مثلاً اتحاد، آزادی، انصاف اور تہذیب کے نعرے۔ بلاشک وشبہ ان نعروں کی اصل اور جوہر حق ہے لیکن جو لوگ بظاہر ان سے وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں وہ ”حق“ کے نام پر اپنے پس پردہ باطل مقاصد کا حصول چاہتے ہیں ۔لہٰذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ بیدار اور ہوشیار رہے اور کسی صورت میں ان نعروں کے فریب میں نہ آئے ۔
حضرت علی ؑ نے اس اہم حقیقت (حق کے پردے میں باطل ) کی جانب اس وقت انگشت نمائی فرمائی جب آپ نے اپنے زمانے میں خوارج کے نعرے ”لاحُکْمُ اِلَّاللّٰہُ“ کو سنا۔ کیا کسی میں ہمت تھی کہ اس نعرے پر اعتراض کرتا اور اسے وجہ نزاع قرار دیتا ؟ ہاں! صرف علی ابن ابی طالب ؑ تھے جنہوں نے اس فتنے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لوگوں پر واضح کیا کہ :
کَلِمَۃُ حَقٍّ یُرَادُبِھَا بَاطِلٌ۔
یہ کلمہ حق ہے، لیکن اس سے باطل معنی مراد لیے گئے ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۱۹۸)
اور اس سے بھی زیادہ خطرناک چیز، حق اور باطل کی آمیزش ہے ۔ایسی صورتحال میں لوگ با آسانی فریب اور گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو مسائل کا گہرا ادراک و شعور رکھتے ہیں، ان کے درمیان تمیز کرسکنے کی قدرت کے مالک ہوتے ہیں اور حق و باطل میں امتیاز کر سکتے ہیں ۔
اس سلسلے میں بعنوانِ مثال کھیل کود کو لے لیجیے۔جسمانی صحت اور تقویت کے لیے کھیل کود کی ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن آج کل جن کھیلوں کا رواج ہے ان کے لیے اس قدر وقت کی بربادی، ایک باطل اور عبث کام ہے۔ لیکن یہ دونوں باتیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہوگئی ہیں ۔ لہٰذا یہ باطل کھیل لوگوں کو دھوکا دے کر ان کی توجہ اپنی سمت مبذول کرالیتے ہیں ۔امام ؑ اس خطرناک چیز سے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَلَوْاَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ یَخْفَ عَلَی الْمُرْتَادِیْنَ، وَلَوْاَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ، اَنْقَطَعَتْ عَنْہُ اَلْسُنُ الْمُعَانِدِیْنَ، وَلٰکِنْ یُؤْخَذُ مِنْ ھٰذَا ضِغْثٌ، وَ مِنْ ھٰذَاضِغْثٌ، فَیُمْزَجَانِ ! فَھُنَالِکَ یَسْتَوْلِیْ الشَّیْطَانُ عَلَی اَوْلِیَاءِہٖ، وَیَنْجُوالَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِنَ اللّٰہِ الْحُسْنَیٰ۔
اگر باطل میں حق کی آمیزش نہ کی جاتی تو یہ حق کے متلاشی لوگوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا، تو دشمنوں کی زبانیں کھل نہ سکتی تھیں ۔لیکن ایک حصہ اس (حق ) میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس (باطل) میں سے، اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ۔اور ایسے ہی موقع پرشیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہوجاتا ہے اور صرف وہی لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لیے توفیقِ الٰہی اور عنایتِ خداوندی پہلے سے موجود ہو ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۵۰)
اسی طرح فرماتے ہیں:
وَاِنَّمَا سُمِّیَتِ الشُّبْھَۃُ شُبْھَۃًلِاَنَّھَا تُشْبِہُ الْحَقَّ۔
یقیناًً شبہے کو شبہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے مشابہ ہوتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۳۸)
پس حق کو پہچان لینے کے بعد واجب ہے کہ انسان اسکی پیروی کرے اور اسی کی بنیاد پر اپنے مؤقف کا چناؤ کرے اور طرزِ عمل اختیار کرے ۔اگرچہ یہ عمل اسکے ذاتی نفع اور مفادات کے منافی اور اسکی خواہشات اور تمایلات کے بر خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات اور تما یلات سے متضاد ہونے کی وجہ سے حق کوپس پشت ڈال دیتا ہے ۔یہاں تک کہ یہ چیز انسان کو حق سے علیحدہ ہونے پر ابھارتی ہے اور وہ حق کے مخالف مؤقف اپنا لیتا ہے اور اپنی خواہشات اور رجحانات کی پیروی کے لیے باطل کو اختیار کر لیتا ہے ۔اس بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
اِنَّ الْحَقَّ ثَقِیْلٌ مَرِی ءٌ، وَاِنَّ الْبَاطِلَ خَفِیْفٌ وَبِی ءٌ۔
حق گراں مگر خوش گوارا ہوتا ہے اور باطل آسان مگر و بال ہوتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۳۷۶)
نیز فرماتے ہیں :
اِنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَاللّٰہِ مَنْ کَانَ الْعَمَلُ بِا الْحَقِّ اَحَبَّ اِلَیْہِ وَاِنْ نَقَصَہُ وَکَرَثَہُ مِنَ الْبَاطِلِ، وَاِنْ جَرَّاِلَیْہِ فَاءِدَۃًوَزَادَہُ۔
یاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عمل کرنا (چاہے اس میں اسکا نقصان ہی کیوں نہ ہو ) باطل پر عمل کرنے (چاہے اس میں اس کا فائدہ ہی کیوں نہ ہو )سے زیادہ محبوب ہو۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۲۳)
حق کے حوالے سے ہماری ذمے داری
اب تک کی گفتگو سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ حق کے مقابل ہم پر درجِ ذیل ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں :
۱۔حق کی جستجو : حق کی خاطر جہاں بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا ۔
۲۔حق کا اتباع : خدا کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عمل کرنا باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو۔
۳۔ حق کے شانہ بشانہ اسکے محاذ پر کھڑے ہونا : جب حق و باطل کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہو، تو کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تماش بین کا کردار ادا کرے ۔بلکہ اس پر واجب ہے کہ حق کے طرفدار کی حیثیت سے میدانِ مبارزہ میں اتر جائے ۔بصورتِ دیگر حق کی شکست اور اسکے پچھڑ جانے کی ذمے داری اس کے کاندھوں پر بھی عائد ہوگی۔
ایسے لوگوں کے بارے میں جنہوں نے حق و باطل کی معرکہ آرائی کے دوران گوشہ نشینی اختیار کی اور باطل کے خلاف جنگ سے پرہیز کیا، حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
خَذَلُواالْحَقَّ، وَلَمْ یَنْصُرُواالْبَاطِلَ۔
ان لوگوں نے حق کو بھی چھوڑ دیا اور باطل کی بھی مدد نہیں کی ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۱۷)
ایسی صورتحال میں اگر باطل کامیاب ہوجائے، تو کیا تماش بین لوگ اس کے فتنے سے امان میں رہیں گے ؟ اور کیا باطل انہیں اپنے حال پر چھوڑ دے گا کہ وہ آزادی کے ساتھ حق سے جاملیں ؟۔۔۔۔نہیں، ہر گز نہیں ۔حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
لَوْلَمْ تَتَخَاذَلُوْاعَنْ نَّصْرِالْحَقِّ، وَلَمْ تَھِنُوْاعَنْ تَوْھِیْنِ الْبَاطِلِ، لَمْ یَطْمَعْ فِیْکُمْ مَنْ لَیْسَ مِثْلَکُمْ، وَلَمْ یَقْوَمَنْ قَوِیَ عَلَیْکُمْ۔
اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرتے اور باطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے، تو تم پر وہ قوم دانت لگائے نہ بیٹھتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶۴)
۴۔حق کو زندہ کرنے کی خاطر اس طرح کوشش کرنا کہ انسانوں کی تمام عمر حق کے احیا اور باطل کی نابودی کے لیے وقف ہو، اس بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں :
فَلَا یَکُنْ اَفْضَلُ مَانِلْتَ فِیْ نَفْسِکَ مِنْ دُنْیَاکَ بُلُوغُ لَذَّۃٍ اَوْ شِفَاءُ غَیْظٍ، وَلٰکِنْ إِطْفَاءُ بَا طِلٍ اَوْاِحْیَاءُ حَقٍّ۔
تمہاری نظر میں دنیا کی سب سے بڑی نعمت کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام کی تسکین ہی نہ رہ جائے، بلکہ بہترین نعمت باطل کے مٹانے اور حق کے زندہ کرنے کو سمجھو ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب ۶۶)
اپنے عہدے اور منصب کو صرف حق کے مقاصد کی ترویج اور نفاذ کے لیے مددگار وسائل سمجھنا چاہیے۔ لیکن اگر عہدہ اور مقام خود مقصد و ہدف میں تبدیل ہو جائے، تو انسانیت کے لیے ضرر اور خسارے کا باعث ہوگا ۔عبداللہ ابن عباس کا بیان ہے :میں مقامِ ذی قار میں امیر المومنین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اس وقت آپ اپنی جوتی کی مرمت کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا :
مَاقِیْمَۃُ ھٰذِہِ النَّعْلِ؟ فَقُلْتُ:لَا قِیْمَۃَ لَھَا! فَقَالَ:وَاللّٰہِ لَھِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنِ امْرَتِکُمْ اِلَّااَنْ اُقِیْمَ حَقًّااَوْاَدْفَعَ بَاطِلًا۔
ان جوتیوں کی کیا قیمت ہوگی ؟ میں نے عرض کیا : کچھ نہیں ! فرمایا : خدا کی قسم !یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہیں، مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں کسی حق کو قائم کرسکوںیاکسی باطل کو دفع کر سکوں ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۳۳)