نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی

ظلم کے مقابل ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے

نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی   •   حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار

اب جبکہ ہم معاشرے میں موجود ظلم کی مختلف شکلوں سے آگاہ ہوچکے ہیں اور اس قابل ہوگئے ہیں کہ معاشرے میں موجود ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان سکیں، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات اور صورتوں کے مقابل ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے ؟کیا صرف تماش بین بنے رہیں؟یا یہ کہ معاشرتی ظلم کے خلاف اپنی ذمے داری محسوس کریں اور اس ظلم کے خاتمے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں؟

اس سلسلے میں امیر المومنین ؑ بیدار ضمیر مسلمانوں کی کیا ذمے داری قرار دیتے ہیں، درج ذیل سطور اس موضوع کی وضاحت پر مشتمل ہیں ۔

۱۔ ظلم دیکھ کر غم اور دکھ کا احساس کرنا

اگر کوئی معاشرتی ظلم ہماری نظروں میں آئے، یا ایسے کسی ظلم کی خبر ہم سنیں، تو ہم پر واجب ہے کہ اس سے لاتعلقی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ ہمارے ضمیر میں ایک کشمکش کی حالت پیدا ہوجائے، جو ہمیں اسکے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرے ۔ امیر المومنین ؑ ایک خطبے میں اس دور میں ہونے والے مظالم بیان کرتے ہوئے اپنے سامعین کو ترغیب دیتے ہیں کہ ان حالات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کریں، بلکہ انہیں اس راہ میں موت و شہادت کو گلے لگانے پر بھی آمادہ کرتے ہیں ۔فرماتے ہیں :

وَلَقَدْ بَلَغَنِیْ أَنَّ الرَّجُلَ مِنْھُمْ کَانَ یَدْخُلُ عَلَی الْمَرْأَۃِ الْمُسْلِمَۃِ، وَالْأُ خْرَیٰ الْمُعَا ھَدَۃِ، فَیَنْتَزِ عُ حِجْلَھَا وَقُلْبَھَاوَقَلَا ءِدَھَا وَرُعُثَھَا، مَا تَمْتَنِعُ مِنْہُ إِلَّابِالْاِسْتِرجَاعِ وَالْاِسْتِرْحَامِ، ثُمَّ انْصَرَنُوْاوَافِرِیْنَ مَانَالَ رَجُلًا مِنْھُمْ کَلْمٌ وَلَاأُرِیْقَ لَھُمْ دَمٌ، فَلَوْأَنَّ امْرَأًمُسْلِماًمَاتَ مِنْ بَعْدِ ھٰذَا أَسَفاًمَاکَانَ بِہِ مَلُوْماً، بَلْ کَانَ بِہِ عِنْدِیْ جَدِیْراً۔

اور مجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک سپاہی مسلمانوں یا مسلمانوں کے معاہدے میں رہنے والی عورت کے پاس آتا تھا اور اسکے پیروں کے کڑے، ہاتھوں کے کنگن، گلے کے گلوبند اور کان کے گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے استرجاع (اناللہ وانا الیہ راجعون) پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی اوروہ سارا ساز وسامان لے کر چلا جاتا تھا، نہ کوئی زخم کھاتا تھا اورنہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔اس صورتحال (کو دیکھنے)کے بعد اگر کوئی مردِ مسلمان صدمے سے مر بھی جائے تو قابلِ ملامت نہیں ہے، بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۷)

۲۔ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا

امام ؑ نے اپنے فرزند وں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو جو آخری وصیت تحریر کی اس میں فرمایا :

کُوْنَالِلظَّالِمِ خَصْماً، وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْناً۔

ظالم کے سر سخت دشمن اور مظلوم کے مونس و مددگار بننا ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب۴۷)

۳۔ عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کرنا

عدالتِ اجتماعی کے قیام اور ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد ہر بیدار اور روشن ضمیر انسان کی ذمے داری ہے ۔حضرت فرماتے ہیں :

أَخَذَ اللّٰہُ عَلَی الْعُلَمَاءِ أَ لَّا یُقَارُّوْاعَلَیٰ کِظَّۃِ ظَالِمٍ، وَلَا سَغَبِ مَظْلُوْمٍ۔

خدا وندِ عالم نے علما سے عہد و پیمان لیا ہے کہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۳)