حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
أَمَّابَعْدُ، فَإِنَّ الْجِھَادَبَابٌ مِنْ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَتَحَہُ اللّٰہُ لِخَاصَّۃِأَوْلِیَاءِہِ وَھُوَلِبَاسُ التَّقْوَیٰ، وَدِرْعُ اللّٰہِ الْحَصِیْنَۃُ، وَجُنَّتُہُ الْوَثِیْقَۃُ، فَمَنْ تَرَکَہُ رَغْبَۃً عَنْہُ الْبَسَہُ اللّٰہُ ثَوْبَ الذُّلِّ، وَشَمِلَہُ الْبَلَاءُ، وَدُیِّثَ بِالصَّغَارِوَالْقَمَاءَ ۃِ، وَضُرِبَ عَلَی قَلْبِہِ بِالْاِشْھَابِ وَأُدِیْلَ الْحَقُّ مِنْہُ بِتَضِیِیْعِ الْجِھَادِ، وَسِیْمَ الْخَسْفَ، وَمُنِعَ النِّصَفَ۔
جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لیے کھولا ہے ۔یہ پرہیز گاری کا لباس، اللہ کی محکم ذرہ اور مضبوط سپر ہے ۔جو اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے، خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہناتا اور مصیبت و ابتلا کی ردااوڑھادیتا ہے اور وہ ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے اور مدہوشی اور غفلت کا پردہ اسکے دل پر چھاجاتا ہے، اور جہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اسکے ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے، ذلت اسے سہنا پڑتی ہے اور وہ انصاف سے محروم ہو جاتا ہے ۔ (نہج البلاغہ۔ خطبہ ۲۷)
جہاد کی اہمیت
اسلامی شریعت کے مصادر (قرآنِ کریم اور سنتِ مطہر ) کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص بخوبی جان سکتا ہے کہ ان میں جہاد کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔صرف قرآنِ کریم میں ایسی تقریباً چالیس آیات موجود ہیں جن میں لفظ ”جہاد“ اور اس سے نکلنے والے الفاظ کے ذریعے جہاد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، مثلاً :
یٰٓاَیُّھَاالنَّبِیُّ جَاہِدِالْکُفَّارَوَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ۔
اے پیغمبر ! کفار اور منافقین سے جہاد کیجیے اور ان پر سختی کیجیے ۔ (سورۂ توبہ ۹۔آیت ۷۳)
نیز ارشاد ہے :
اِنْفِرُوْا خِفَافًاوَّثِقَالاً وَّجَاہِدُوْابِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔
(مسلمانو! ) تم ہلکے ہو یا بھاری، گھر سے نکل پڑو اور راہِ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو ۔ (سورۂ توبہ ۹۔آیت ۴۱)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
وَ فَضَّلَ اﷲُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا۔
اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلے میں اجرِ عظیم عطا کیا ہے ۔ ( سورۂ نسا ۴۔آیت ۹۵)
اسی طرح ایک سو سے زیادہ آیاتِ قرآنی ایسی ہیں جن میں جہاد کا تذکرہ لفظ ”قتال“ اور اس سے نکلنے والے الفاظ کے ذریعے آیا ہے ۔مثال کے طور پر :
فَقَاتِلُوْآ اَءِمَّۃَ الْکُفْرِاِنَّہُمْ لَآااَیْمَانَ لَہُمْ۔
توکفر کے سربراہوں سے کھل کر جہاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (سورۂ توبہ ۹۔آیت ۱۲)
فرمایا گیا ہے :
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۔
اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنے کا وجود نہ رہ جائے ۔ (سورۂانفال ۸۔آیت۳۹)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتًابَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَرَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ۔
اور خبر دار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا، وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں ۔ (سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۱۶۹)
علاوہ ازایں متعدد آیات میں غزوہ، حرب، شہادت اور ان سے ماخوذ الفاظ کے ذریعے جہاد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔جبکہ قرآنِ کریم میں حج کے مسئلے پر محض پانچ آیات، خمس کے موضوع پر صرف ایک آیت اور روزے کے بارے میں فقط دس آیات پائی جاتی ہیں ۔
جب ہم معصومین ؑ کی سنت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی سینکڑوں احادیث کا مشاہدہ کرتے ہیں جو جہاد کے موضوع پر تاکید کرتی ہیں، اور وضاحت کے ساتھ، صاف صاف الفاظ میں کہتی ہیں کہ حتمی طور پر جہاد کو دوسرے اعمال وعبادات کی نسبت انتہائی اہمیت اور خاص فضیلت حاصل ہے ۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
فوق کل ذی بربرحتیٰ یقتل الرجل فی سبیل اللّٰہ فاذاقتل فی سبیل اللّٰہ فلیس فوقہ بر۔
ہر نیکی اور خوبی سے برتر ایک نیکی اور خوبی موجود ہے، یہاں تک کہ کوئی راہِ خدا میں قتل ہوجائے۔پس اگر کوئی راہِ خدا میں مارا جائے تو اس سے بڑھ کر کسی نیکی کا وجود نہیں ۔ ( بحار الانوار ۔ج۷۴۔ص۶۱)
اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
الجہاد الذی فضلہ اللّٰہ علی الاعمال وفضل عاملہ علی العمال تفضیلا فی الدرجات والمغفرۃ۔
جہاد ہے جسے خدا وندِ عالم نے تمام اعمال پر فضیلت دی ہے اور مجاہد کو تمام عمل کرنے والوں پر مغفرت کے لحاظ سے بھی اور درجے کے اعتبار سے بھی برتری بخشی گئی ہے ۔
نہج البلاغہ کے صفحات پر طائرانہ نگاہ ڈالنے ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے جہاد کی عظمت اور اہمیت کو خاص مقام اور بلند مرتبے پر رکھا ہے، اور اسے ایک عظیم صفت کے طور پر یاد فرمایا ہے ۔ایک مقام پر فرماتے ہیں :
وَالْجِہَادَعِزًالِلْاِسْلَامِ ۔۔۔۔
اورجہاد اسلام کی عزت اور سرفرازی ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۲۵۲)
ایک اور مقام پر کہتے ہیں :
وَاللّٰہَ اَللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
اور اللہ سے ڈرو اپنے جان، مال اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے بارے میں۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۴۷)
ایک وصیت کے دوران فرماتے ہیں :
وَجَاھِدْ فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہِ، وَلَا تَأْخُذْکَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃُ لَاءِمٍ۔
راہِ خدا میں جہاد کا حق ادا کردینا اور خبر دار اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنا ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۳۱)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
اِنَّ اَفْضَلَ مَاتَوَسَّلَ بِہِ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَیٰ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی الْاِیْمَانُ بِہِ وَبِرَسُوْلِہِ وَالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِہِ، فَاِنَّہُ ذِرْوَۃُ الْاِسْلَامِ، وَکَلِمَۃُ الْاِخْلَاصِ۔
اللہ والوں کے لیے اسکی بارگاہ تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان اور راہِ خدا میں جہاد ہے کہ جہاد اسلام کی سر بلندی ہے اور کلمۂ اخلاص ہے۔ (نہج ا لالبلاغہ ۔خطبہ ۱۰۸)
جہاد، صدرِ اسلام کے مسلمانوں کی زندگی اور حیاتِ عملی کا ناجدا ہوسکنے والا جز تھا، ان لوگوں نے جہاد کی صورت میں جنت تک پہنچنے کا مختصر اور سریع راستہ دریافت کر لیا تھا ۔ ان میں سے ہر ایک جہاد فی سبیل اللہ کے موقع کا منتظر رہتا تھا اور اس سلسلے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا اور ایک دوسرے کو اسکی نوید و بشارت دیا کرتا تھا ۔
صدرِ اسلام کے ایسے ہی مجاہدین کی ایک نمایاں مثال ”حنظلہ بن ابی عامر“ تھے۔ انہوں نے جوانی میں انتہائی محنت مشقت کے بعد اپنی شادی کے لیے کچھ پیسہ اکٹھا کیا، عین شبِ زفاف جبکہ وہ اپنی عمر بھر کی جدوجہد کا پھل پانے کو تھے اور عین اس وقت جبکہ ان کے خواب تعبیر کا روپ دھارنے کو تھے، ناگاہ انہوں نے ایک منادی کی صدا سنی جو مسلمانوں کو جہاد کے لیے پکار رہا تھا۔ انہوں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا، مسلمانوں کو دیکھا کہ منادی کی ندا کے جواب میں آمادۂ سفر ہیں ۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ انہوں نے اپنی زوجہ کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اور غسلِ جنابت سے پہلے ہی جہاد کے لیے بلانے والے کی صدا پر لبیک کہا ۔ان کی زوجہ نے راہِ خدا کے اس مجاہد کے جذبات کو تحریک دے کر کوشش کی انہیں محاذِ جنگ پر جانے سے روکے، لیکن وہ مصر تھے کہ دین خدا کی نصرت کے لیے ضرور جائیں گے اور یوں انہوں نے اپنی شادی کی صبح فیضِ شہادت حاصل کیا ۔
ایسی ہی دوسری مثال ” عمرو ابن الجموع“ کی ہے، جو اپنی عمر کے برسہا برس گزار چکے تھے۔ ایک غزوہ میں ایک پیر سے بھی محروم ہوچکے تھے ۔اس نقص کے با وجود جب انہوں نے جہاد کی ندا سنی اور اپنے چار بیٹوں کو جہاد پر جانے کی تیاریوں میں مشغول پایا، تو خود بھی میدانِ جہاد میں جانے کو بے تاب ہوگئے اور اپنے بیٹے اور بیوی کی مخالفت کے باوجود کفار سے جنگ کے موقع پر دوسروں سے پیچھے رہنے پر تیار نہ ہوئے ۔لہٰذا اسی طرح لنگڑاتے ہوئے گھر سے نکلے اور کہا: میں اس ناقص پیر اور لنگڑاھٹ کے ساتھ جنت میں جانا چاہتا ہوں ۔
ایک اور مثال ”قاسم ابن الحسن ؑ“ کی ہے کہ روزِ عاشورہ جبکہ ابھی آپ کی عمر چودہ برس سے زیادہ نہ تھی، آپ اپنے چچا امام حسین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے جنگ کی اجازت طلب کی ۔اس گفتگو کے دوران امام حسین ؑ نے ان سے دریافت کیا : بیٹا قاسم ! موت کو کیسا پاتے ہو؟ انہوں نے بے ساختہ جواب دیا : آپ کی رکاب میں آجائے، تو شہد سے بھی زیادہ شیریں ۔
حیرت انگیز بات
اسلام کی جانب سے جہاد کے موضوع پر اس اہتمام اور تاکید کے باوجود اور اس بات کے با وصف کہ ہم مبارزے اور ایثار اور فدا کاری کی ایک پر شکوہ اور روشن تاریخ رکھتے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ عصرِ حاضر کے مسلمانوں کے نزدیک جہاد کا موضوع بے اہمیت موضوعات کے زمرے میں شامل ہے ۔اور اس کے بارے میں گفتگو ان کے نزدیک مکمل طور پر ایک فضول گفتگو بن چکی ہے۔ گویا آج ان باتو ں کا وقت نہیں ۔اس صورتحال کا نتیجہ جسدِ امت پر فلسطین، اریٹیریا اور فلپائن (۱) جیسے زخموں کی صورت میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔کیونکہ آج امتِ مسلمہ جنگ و جہاد کے میدانوں سے کوسوں دور ہے جبکہ اسلام دشمن قوتیں اپنے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں ۔
کیا فریضۂ جہاد منسوخ ہوچکا ہے ؟ اور اب مسلمانوں پر واجب اور ان سے مطلوب نہیں ہے ؟ یا یہ کہ امتِ اسلامی کو جہاد کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے ؟
پس کیا بات ہے کہ مومنین جہاد سے منہ پھیر ے ہوئے ہیں ؟ کیوں جہاد کے بارے میں گفتگو کو مہمل چھوڑ دیا ہے، اور اسے عملی اور واقعی بات نہیں سمجھا جاتا ہے ؟کیوں جہاد کا نام سن کر اکثر لوگوں کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوجاتی ہے ؟
ہم آئندہ سطور میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔
نفسانی برائیوں کے خلاف جنگ (جہادِ اکبر)
انسان اپنے فہم وشعور، سوجھ بوجھ کی رہنمائی میں عمل انجام دیتا ہے ۔مثال کے طور پر ہم بہت سے سرمایہ داروں کو دیکھتے ہیں جو شہروں سے دور بڑی بڑی زمینیں خریدتے ہیں۔ یہ زمینیں ایسی دور دراز ہوتی ہیں کہ اگر کسی دوسرے انسان کو اس قیمت پر یا اس سے بھی کم قیمت پر یہ زمینیں پیش کی جائیں تو وہ ہر گز انہیں خریدنے پر تیار نہ ہو ۔جب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر ان لوگوں نے کیوں یہ زمینیں خریدی ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ دراصل سرمایہ دار نے اپنی دور رس نگاہ کی بنا پر اس زمین کو خریدا ہے، وہ اپنے فہم و بصیرت کی بنا پر جانتا
ہے کہ آئندہ پانچ برس بعد اس زمین کی قیمت کیا ہوگی اور اسے اس سے کتنا نفع حاصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے جس نے اسے یہ زمین خریدنے پر آمادہ کیا ہے ۔جبکہ دوسرا فرد جو اس زمین کو خرید نے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں، اسکی وجہ اسکا مستقبل میں اس زمین کی اہمیت سے ناواقف ہونا ہے ۔اور یہی سوجھ بوجھ اور نا واقفیت ان دونوں قسم کے لوگوں کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
بنا برایں جہاد زندگی میں انسان کی طرف سے خطرناک ترین عمل اور تصور ہے اور ایک ایسی معین اور مشخص فکر کی ضرورت ہے جو انسان کو اس بلند فریضے کی ادائیگی پر آمادہ کرے ۔
صدرِ اسلام میں مسلمان اس قسم کی فکر اور جذبات کے مالک تھے، لہٰذا جہاد کی طرف شوق اور اشتیاق کے ساتھ بڑھتے تھے لیکن عصرِ حاضر کے مسلمان نہ صرف اس قسم کی فکر اور جذبے کے مالک نہیں، بلکہ جہاد کے حوالے سے ایک قسم کے منفی تصور اور روحِ جہاد کے منافی جذبات میں گرفتار ہیں ۔اور ان نکات اور منفی تصورات نے مسلمانوں اور جہاد کے درمیان ایک فاصلہ پیدا کردیا ہے ۔
اسلام اس فکر کے ذریعے سے بُری اقدار کے خلاف جنگ، اور انسان کے اندر پائے جانے والے منفی نقاط اور تصورات کو مسترد کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔اور انسانی روح میں اسلامی اقدار، جیسے جہاد اور راہِ حق میں جدوجہد کے بیج کاشت کرنے کو لازم سمجھتا ہے اور اس عمل کو ”جہادِ اکبر“ کا نام دیتا ہے ۔وہی جہاد جو انسان کو ضرورت پڑنے پر ایثار و فداکاری کے لیے چوکس اور تیار حالت میں رکھتا ہے ۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ رسو لِ کریم ؐنے مجاہدین اسلام کے ایک گروہ کو کفار کے خلاف جنگ کے لیے روانہ کیا، جب یہ گروہ میدانِ جنگ سے واپس پلٹا، تو آپ نے فرمایا :
مرحبابقوم قضواالجھادالاصغروبقی علیھم الجھادالاکبر۔
مرحبا اے گروہ مجاہدین (اے وہ لوگو)جنہوں نے جہادِ اصغر کو انجام دیا ہے اور اب ان کے لیے جہادِ اکبر باقی ہے ۔
کہا گیا : اے اللہ کے رسولؐ ! جہادِ اکبر کیا ہے ؟
فرمایا :
ان افضل الجھاد من جاھد نفسہ التی بین جنبیہ۔
افضل ترین جہاد، اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے جو انسان کے دو پہلو ؤں کے درمیان واقع ہے ۔ (وسائل ۔ج۱۱۔ص۱۲۴)
اسی طرح امیر المومنین ؑ نے اس موضوع کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :
میدانکم الاول انفسکم فان قدرتم علیھاکنتم علی غیرھا اقدروان عجزتم عنھاکنتم عن غیرھا اعجز فجربوا معھا الکفاح اولا۔
مقابلے کا اوّلین میدان خود تمہارا نفس ہے، پس اگر تم نے اس پر غلبہ پالیا، تو اسکے علاوہ پر بھی غلبہ پالوگے، اور اگر اسکے مقابلے میں ناتواں اور عاجز رہے، تو اسکے علاوہ کے مقابل بھی نا تواں اور عاجز رہو گے ۔پس سب سے پہلے اس سے مقابلے میں اپنے آپ کو آزماؤ ۔
۱ ۔ کتاب ہذا قریباً پچیس سا ل پیشتر لکھی گئی ہے، اس میں اس دور کے مسائل کا ذکر ہے، آج امت کے مسائل اور زخموں کی فہرست کافی طویل ہوچکی ہے جس میں کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان اور عراق بھی شامل ہوگئے ہیں ۔البتہ آج امت کے جوانوں میں جہاد اور شہادت کی تڑپ بھی روز افزوں ہے ۔