نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی

امیر المومنین ؑ نے حضرت امام حسن ؑ کے نام اپنی وصیت میں تحریر فرمایا :

لَا تَکُنْ عَبْدَ غَیْرِ کَ وَقَدْ جَعَلَکَ اللّٰہُ حُرًّا۔

کسی دوسرے کے غلام نہ بنو، کیونکہ اللہ نے تمہیں آزاد خلق کیا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۳۱)

کائنات کی عبودیت

اگر ہم اپنے طائرِ فکر کو اس کائنات میں کھلی پرواز کا موقع دیں اور تمام گوشہ و کنارِعالم اور اس میں پائی جانے والی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر کریں، تو با آسانی دریافت کرلیں گے کہ اس کائنات کے معمولی ترین ذرّے سے لے کر عظیم ترین کہکشاں تک ایک جبری حرکت کے تابع ہے، ایک ایسی حرکت جو گویا ان پر فرض اور واجب کر دی گئی ہے ۔

پس اللہ رب العزت جس نے حیات اور کائنات کو خلق کیا ہے، اس نے ہر ذرّے اور ہر حرکت کے لیے ایک معین کردار اور خاص وظیفے کا تعین بھی کیا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ۔اسی بنا پر آسمان اور زمین جو ایک معین نظام کے حامل ہیں اس نظم کی پابندی یا اس سے رو گر دانی کا اختیار نہیں رکھتے ۔

اس بارے میں خدا وندِ منان فرماتا ہے :

ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَاوَ لِلْاَرْضِ اءْتِیَاطَوْعًااَوْکَرْہًاقَالَتَآاَتَیْنَاطَآءِعِیْنَ۔

اسکے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا جو با لکل دھواں تھا اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا چاروناچار ہماری طرف آؤ، تو دونوں نے عرض کیا کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں ۔ (سورۂ فصلت ۴۱ ۔آیت ۱۱)

نیز چاند اور سورج بھی قطعی اوراٹل قوانین کے پابند ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے ۔اس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے :

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّہَاذٰلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ وَالْقَمَرَقَدَّرْٰنہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَکَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآاَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَوَلاََاالَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِوَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ۔

اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے اور چاند کے لیے بھی ہم نے منزلیں معین کردی ہیں، یہاں تک کہ وہ آخر میں پلٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے ۔نہ آفتاب کے بس میں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لیے ممکن ہے کہ وہ دن سے آگے بڑھ جائے۔ اور یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار میں تیرتے ہیں ( سورۂ یٰسین ۳۶ ۔آیت ۳۸تا ۴۰)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :

اَلاَوَاِنَّ الْاَرْضَ الَّتِیْ تَحْمِلُکُمْ وَالسَّمَاءَ الَّتِیْ تُظِلُّکُمْ مُطِیْعَتَانِ لِرَبِّکُمْ، وَمَا اَصْبَحَتَا تَجُوْدَانِ لَکُمْ بِبَرَ کَتِھِمَا تَوَجُّعاًلَکُمْ، وَلَازُلْفَۃًاِلَیْکُمْ، وَلَالِخِیْرٍتَرْجُوَانِہِ مِنْکُمْ، وَلٰکِنْ اُمِرَتَا بِمَنَا فِعِکُمْ فَاَطَاعَتَا، وَاُقِیْمَتَا عَلَی حُدُوْدِ مَصَالِحِکُمْ فَقَامَتَا۔

یا د رکھو کہ جو زمین تمہارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور جو آسمان تمہارے سروں پر سایہ کیے ہوئے ہے، دونوں تمہارے رب کے اطاعت گزار ہیں اور یہ جو اپنی برکتیں تمہیں عطا کررہے ہیں، تو اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کا دل تمہارے حال پر کڑھ رہا ہے، یا یہ تمہارا تقرب چاہتے ہیں، یا تم سے کسی بھلائی کے امید وار ہیں، بلکہ یہ تمہارے لیے منفعت رسانی پر مامور ہیں ۔اور اپنی اس ڈیوٹی کو ادا کر رہے ہیں اور تمہاری مصلحتوں کی حدوں پر انہیں ٹھہرایا گیا ہے، چنانچہ یہ ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۴۱)

حد یہ ہے کہ حیوانات بھی کچھ جبلی(instinct)میلانات کے تابع اور فرما نبردار ہیں، جو خدا وندِ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے ایک مقصد و ہدف تک پہنچنے کے لیے ان پر واجب اور فرض کیے گئے ہیں ۔لہٰذا حیوانات ان جبلتوں(instincts)کی بنیاد پر اپنی زندگی اور طور طریقوں میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔مثلاً شہد کی مکھی، جب سے انسان نے اسے دیکھا ہے اس وقت سے اب تک اپنی زندگی میں ایک خاص اور محدوداسلوب اور طریقے کی پیروی میں مشغول ہے، جس میں قیامت تک کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوگی ۔اور یہی معاملہ چیونٹیوں اور دوسرے حشرات اور حیوانات کا ہے، جو ایک جبری اور نظامِ کائنات سے ہم آہنگ حرکت میں مصروف ہیں۔

انسان کی آزادی

لیکن انسان، اپنے جسمانی اور روحانی پہلوؤں کی بنا پر کائنات کے دوسرے تمام اجزا سے مختلف اور ممتاز ہے، البتہ وہ مادّی پہلو سے دوسرے تمام مخلوقاتِ عالم ہی کی مانند ہے ۔ کیونکہ اس جہت سے وہ بھی دوسرے موجودات کی طرح ایک جبری نظام کا پابنداور فرمانبردار ہے اور اس سلسلے میں کسی ارادے اور اختیار کا مالک نہیں ہے ۔وہ اپنے والدین، پیدائش کے وقت اور اپنی شکل و صورت اور جنس کا انتخاب اپنے ارادے اور خواہش سے نہیں کر سکتا ۔اپنے فزیا لو جیکل نظام، اپنے بدن اور جسم میں دخل اندازی اور تصرف نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا وہ اپنے جسم کے اندرونی نظام اور حرکات وافعال، جیسے خون کے ذرّات، گردے، جگر وغیرہ میں کسی قسم کی تبدیلی اور ردّو بدل پر قادر نہیں ۔ان میں سے کوئی بھی انسان کے ارادے اور اختیار کی حدود میں نہیں ۔

البتہ انسان اپنے دوسرے پہلو کے لحاظ سے تمام حیوانات اور کائنات میں موجود مخلوقات پر فوقیت رکھتا ہے ۔کیونکہ وہ دوسری مخلوقات کی مانند صرف مادّی اشیا کا ایک مجموعہ نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ خداوندِ عالم کی طرف سے پھونکی ہوئی روح کا بھی حامل ہے، جو اسے برتری اور فضیلت بخشتی ہے ۔اس بارے میں خداوندِ منان کا ارشاد ہے :

اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَاسَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْن۔

انہیں یا د دلائیے جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ۔جب اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب (میرے حکم سے) سجدے میں گر جانا ۔ ( سورۂ ص۳۸۔آیت ۷۱، ۷۲)

نیز حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَہُ مِنْ حَزْنِ الْاَرْضِ وَسَھْلِھَا، وَعَذْبِھَا وَسَبَخِھَا، تُرْبَۃً سَنَّھَا بِالْمَاءِ حَتَّی خَلَصَتْ، وَلَا طَھَا بِا لْبَلَّۃِ حَتَّی لَزَبَتْ، فَجَبَلَ مِنْھَاصُوْرَۃً ذَاتَ أَحْنَاءٍ وَوُصُوْلٍ، وَأَعْضَاءٍ وَفُصُوْلٍ أَجْمَدَھَا حَتَّی اسْتَمْسَکَتْ وَأَصْلَدَ ھَا حَتَّی صَلْصَلَتْ لِوَقْتٍ مَعْدُودٍ، وَأَمَدٍ مَعْلُوْمٍ، ثُمَّ نَفَخَ فِیْھَا مِنْ رُوْحِہِ فَمَثُلَتْ اِنْسَا ناً ذَاأَذْ ھَانٍ یُجْیِلُھَا، وَفِکَرٍ یَتَصَرَّفُ بِھَا، وَجَوَارِحَ یَخْتَدِ مُھَا، وأَدَ وَاتٍ یُقَلِّبُھَا، وَمَعْرِفَۃٍ یَفْرُقُ بِھَا بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَا طِلِ۔

اس کے بعد پروردگار نے زمین کے سخت و نرم اور شور و شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیااور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لیسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی، اعضابھی تھے اور جوڑو بند بھی ۔پھر اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئی اور اس قدر سخت کیا کہ کھنکھنانے لگی ۔ایک وقت معین اور مدتِ معلوم تک اسے یونہی رہنے دیا ۔پھر اس میں روح پھونکی اور اسے ایسا انسان بنا دیا جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اور فکر کے تصرفات بھی، کام کرنے والے اعضا وجوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی اور حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱)

اس الٰہی روح کی بنا پر انسان، دوسری تمام موجودات سے برتر و افضل ہے ۔اس الٰہی روح کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ارادہ اور تفکر ہے ۔پس اگر انسان اپنے اعمال و کردار میں جبر و قہر کا تابع ہو، تو پھر اسے حاصل غور و فکر کی صلاحیت اور ارادہ کس مقصد کے لیے ہے ؟

تفکر اور سوچ سمجھ وہاں مؤثر ہے جہاں اختیار حاصل ہو

خدا وندِ منان نے انسانوں کو عمل کی آزادی اور غور و فکر کی صلاحیتیں عطا کی ہیں ۔ لہٰذا قرآنِ کریم تمام عالمِ ہستی اور موجودات کی عبودیت اور خدا وندِ سبحان کے فرامین کے سامنے ان کے سرِتسلیم خم ہوجانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، ان بے شمار انسانوں کے اس جبر و قہر سے استثناکی جانب اشارہ کرتا ہے جو خدا کی عبودیت سے روگرداں ہیں اور فرامینِ الٰہی کے سامنے گردن نہیں جھکاتے، اور فرماتا ہے :

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اﷲَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ کَثِیْرٌحَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ۔

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد، سب ہی (انتہائی شوق کے ساتھ) اللہ کے لیے سجدہ گزار ہیں اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو (نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے) عذاب کے حقدار ہیں۔ ( سورۂ حج ۲۲۔آیت ۱۸)

حتیٰ خداوندِ عالم نے اپنی تمام تر قدرت اور توانائی کے با وجود اپنے اوپر ایمان اور اپنی وحدانیت اور وجود کے اعتراف کے سلسلے میں انسانوں پر جبر و قہر نہیں کیا ہے ۔کیونکہ اس دنیا میں انسان مکمل آزاد ی سے بہرہ مند ہیں ۔فرمانِ الٰہی ہے :

وَ لَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰامَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا۔

اور اگر خدا چاہتاتو روئے زمین پر رہنے والے سب ایمان لے آتے ۔ (سورۂیونس ۱۰۔آیت ۹۹)

اسی طرح فرماتا ہے :

اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا۔

یقیناً ہم نے اسے راستے کی ہدایت دے دی ہے، چاہے تو وہ (ہدایت قبول کرے اوراس نعمت پر ) شکر گزار ہوجائے یا کفر انِ نعمت کرنے والا ہوجائے ۔ (سورۂ انسان ۷۶۔آیت ۳)

قضا و قدر

بہت سے لوگ بعض اسلامی اصطلاحات اور دینی معارف کے سلسلے میں غلط فہمیوں سے دوچار ہیں اور آیتِ قرآنی اور رسول ؐاور اُن کے اہلِ بیت ؑ کی احادیث کی تاویل میں خطا اور غلطی کے شکار ہیں ۔ایسی ہی اصطلاحات میں قضاو قدر کی اصطلاح اور آیاتِ ضلالت اور ہدایت شامل ہیں ۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ قضا وقدر کے معنی انسان کے اختیار اور آزادی کو محدود کرنا ہے ۔اسی لیے یہ لوگ انسان کے بارے میں جبر و قہر کے قائل ہیں ۔

ہم اس گفتگو میں قضا و قدر کی بحث کی گہرائیوں میں نہیں جانا چاہتے، بلکہ صرف اس جانب اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیاتِ قرآنی اور ان کے مفاہیم تمام کے تمام ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور آیات کے درمیان کسی قسم کا اختلاف اور تضاد نہیں پایا جاتا ۔لہٰذا جب کبھی ہمیں آیاتِ قرآنی میں تضاد وتناقص محسوس ہو، تو اسے ہمیں خود اپنے فکر و فہم کی کوتاہی سمجھنا چاہیے اور اسے قرآنی مسائل کی صحیح شناخت سے اپنی عاجزی اور عدم ادراک کا نتیجہ قرار دینا چاہیے، نہ کہ قرآنِ کریم میں (نعوذ با للہ ) نقص کے قائل ہو بیٹھیں ۔

شام سے تعلق رکھنے والا ایک شخص امام علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کیا : کیا شام کی جانب ہمارا سفر قضا و قدر کی بنیاد پر تھا ؟

حضرت ؑ کو اس کے سوال سے اندازہ ہو گیا کہ یہ شخص قضا و قدر کے مسئلے میں غلط فہمی کا شکار ہے، اور اسکا خیال ہے کہ یہ ایک طرح کا جبر ہے اور انسان کی آزادی کو محدود کرنا ہے۔ پس آپ نے تفصیل کے ساتھ اسے جواب دیا :

وَیْحَکَ ! لَعَلَّکَ ظَنَنْتَ قَضَاءً لَازِمًا، وَقَدَرًاحَاتِماً ! وَلَوْکَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَالْعِقَابُ، وَسَقَطَ الْوَعْدُوَالْوَعِیْدُ، اِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ أَمَرَعِبَادَہُ تَخِیِیْرًا، وَنَھَاھُمْ تَحْذِیْرًا، وَکَلَّفَ یَسِیْرًا، وَلَمْ یُکَلِّفْ عَسِیْرًا۔

شاید تیرا یہ خیال ہے کہ اس سے مراد قضائے لازم اور قدرِ حتمی ہے ۔اگر ایسا ہے، تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے ہیں اور نہ ہی وعید کے (ایسا ہر گز نہیں ہے ) خداوندِ عالم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اور اختیار بھی اور نہی کی ہے، تو (عذاب سے) ڈراتے ہوئے ۔اور اس نے سہل اور آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے ۔ ( نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۷۸)

وراثت اور تربیت

جدید علم انسان کے لیے نہ صرف اسکے قد کا ٹھ، اسکی شکل و صورت میں وراثت کے اثرات کا قائل ہے، بلکہ انسانی طرزِ عمل اور اعمال و افعال میں بھی موروثی اثرات کو قبول کرتا ہے ۔

لہٰذا یہ انسانی ذات کی تشکیل میں تربیت کے کردار کو کم اہمیت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی تربیت کے سلسلے میں انسان کی جدوجہد محدود ہوگئی ہے ۔

جدید علم کے یہ انکشافات مذہب کے لیے کوئی نئی حقیقت نہیں ہیں ۔دین شروع ہی سے انسان کی زندگی میں وراثت اور تربیت کے اثرات کا قائل ہے، تا ہم اس حد تک کہ انسان کی آزادی اور اس کا اختیار سلب نہ ہو ۔لہٰذا تربیت اور وراثت کے عامل اس رفتار و کردار کی جانب انسان کے صرف میلان کے عوامل ہیں جسے انسان اپنی زندگی میں اپنانا چاہتا ہے ۔لیکن آخری فیصلہ خود انسان کے ہاتھ میں ہے ۔وہ اپنے والدین کے طور طریقوں اور معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق بھی زندگی بسر کر سکتا ہے اور اس بات کی قدر ت بھی رکھتا ہے کہ ان کے برخلاف راستہ اختیار کرے اور ایک با لکل نئی راہ کا انتخاب کرے ۔

خدا کے ایک پیغمبر حضرت نوحؑ کے بیٹے نے وراثت میں اپنے والد سے ایمان اخذ نہیں کیا اور ان کے عقائد اختیار نہیں کیے ۔اس بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے :

وَ نَادٰای نُوْحُ نِابْنَہٗ وَ کَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَ لاَ تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ قَالَ لاَ عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اﷲِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَ حَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔

اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی جو الگ جگہ پر تھا کہ بیٹے ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا (تاکہ نجات پاجائے ) اور کافروں کے ساتھ نہ ہوجا (کہ ہلاک ہوجائے گا) اس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا ۔نوح نے کہا کہ آج حکمِ خدا سے کوئی بچانے والا نہیں ہے سوائے اسکے جس پرخود خدا رحم کرے، اور پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ کافروں کے ساتھ غرق ہو گیا ۔ (سورۂ ہود ۱۱۔آیت ۴۲، ۴۳)

تاریخ میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں اور نمونے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان آزاد ہے اور اپنے گھرانے کے عقائد و عادات اور اپنے معاشرے کی رسوم و رواج سے بغاوت کرسکتا ہے ۔اس کا ایک نمونہ حضرت مصعب بن عمیرؓ ہیں، جو زمانۂ جاہلیت کے عیش کوش گھرانوں میں سے ایک گھر میں پیدا ہوئے اور اپنے گھرانے کی جاہلیت پر مبنی اور پر تعیش زندگی سے بغاوت کی اور اسلام کے پرچم تلے کمزور و ناتواں افراد اور غلاموں سے آملے ۔

اسی طرح دنیائے معاصر میں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو عیش کوش سرمایہ داروں کے گھروں میں پیدا ہوئے، اور بورژواری تربیت اور استکبار ی ماحول میں پروان چڑھے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے ماحول سے سرکشی کی اور اسکے خلاف انقلاب وجود میں لائے اور انقلابیوں اور مجاہدین راہِ خدا کی جماعتوں میں شامل ہوئے ۔