امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
فَلَا یَکُنْ اَفْضَلَ مَانِلْتَ فِیْ نَفْسِکَ مِنْ دُنْیَاکَ بُلُوْغُ لَذَّۃٍ أَوْشِفَاءُ غَیْظٍ، وَلٰکِنْ إِطْفَاءُ بَاطِلٍ اَوْاِحْیَاءُ حَقٍّ۔
لذت کا حصول اور جذبۂ انتقام کو ٹھنڈا کرنا ہی تمہاری نظروں میں دنیا کی بہترین و برتر ین چیز نہ ہو ۔بلکہ تمہاری نظروں میں بہترین امور با طل کو مٹانا اور حق کو زندہ کرنا ہونے چاہئیں ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب ۶۶)
ثابت اور صحیح امر کو ”حق“ کہتے ہیں، اسکی ضد باطل یا نا معقول چیز ہے، جس کا وجود ناپائیدار ہوتا ہے ۔بنابرایں حق ایک ایسا چوکھٹا (frame) ہے جس کے اندر زندگی کے تمام فکری اور عملی معاملات داخل ہیں، ( یا ایک ایسا دائر ہ ہے جو زندگی کے تمام فکری اور عملی مسائل کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے ) پس یہاں فکرِ حق اور فکرِ باطل، گفتارِ حق اور گفتارِباطل، عملِ حق اور عملِ باطل، مؤقفِ حق اورمؤقفِ باطل پائے جاتے ہیں ۔لہٰذا ایسی فکر جو حقیقت سے موافق و ساز گار ہو اسے فکرِ حق کہتے ہیں، ایسی گفتار جو حقیقت پر مبنی ہو اسے گفتارِ حق کہتے ہیں اور ایسا عمل جو حقیقت پر استوار ہو وہ عملِ حق ہے ۔
امیر المومنین ؑ حق کی وسعت اور اسکے احاطے کے بارے میں فرماتے ہیں :
حَقٌّ وَ بَاطِلٌ، وَلِکَلٍّ أَھْلٌ۔
(ہر چیز میں ) ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں اور کچھ باطل والے ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶)
انسان کو ہر معاملے میں، خواہ اس معاملے کا تعلق فکری مسائل سے ہو خواہ عملی مسائل سے، حق کا تابع ہونا چاہیے اور اپنے آپ کو با طل خیالات رکھنے، باطل کی حمایت میں بولنے، یا باطل عمل انجام دینے سے باز رکھنا چاہیے ۔کیونکہ ایسا فرد جو باطل کی جانب میلان رکھتا ہو، وہ در اصل اپنے آپ کو فریب دیتا ہے اور اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے ۔اس لیے کہ آخر کار اسے حق و حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
لہٰذا اگر کفار خود کو فریب دیتے ہوئے قیامت، روزِ حساب اور محشر کا انکار کرتے ہیں، تو ان کا یہ باطل عقیدہ حق کو بدل نہیں سکتا بلکہ وہ ایک روز اچانک خود کو حق و حقیقت کے سامنے پائیں گے اور اس موقع پر حق کے سامنے سر جھکادینے کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوگا، لیکن اس وقت تک موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا ۔اس بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے :
وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاعَلَی النَّارِاَلَیْسَ ہٰذَابِالْحَقِّ قَالُوْابَلٰی وَ رَبِّنَاقَالَ فَذُوْقُواالْعَذَابَ بِمَاکُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ۔
اور جس دن یہ کفار جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے کہ کیا یہ حق نہیں ہے ؟ تو سب کہہ دیں گے کہ بے شک پروردگار کی قسم یہ سب حق ہے ۔تو ارشاد ہوگا کہ اب عذاب کا مزہ چکھو کہ تم پہلے اسکا انکار کر رہے تھے۔ ( سورۂ احقاف ۴۶۔آیت ۳۴)
ایک وقت تھا کہ کمیونزم کے پیرو کار یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ شخصی مالکیت اور حبِ ذات انسان کی اصل جبلتیں(instincts) نہیں بلکہ انہیں اس نے خارج سے کسب کیا ہے۔ لہٰذا انہیں مسترد کرنا اور سرے سے ختم کرنا ممکن ہے ۔لیکن جب کمیو نسٹ انقلاب کے بعد ان کا سامنا حقیقت سے ہوا، تو وہ شخصی ملکیت کی رد پر مبنی اپنے نظریات سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ شخصی ملکیت کے خاتمے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے اور انہوں نے اس مدت اور زمانے کو سوشلسٹی مرحلے کانام دیا ۔
دوسری طرف مغرب عرصۂ دراز تک قاتل کے لیے سزائے موت کا مخالف رہا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ سزائے موت کی جگہ عمر قید لوگوں کو اس جرم سے باز رکھنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے اور ان پر ثابت ہو گیا ہے کہ قصاص ہی میں حیات ہے اور درحقیقت خون کا بدلہ خون ہی ہے ۔اب مغرب سے بھی حق و حقیقت پر مبنی اس قانون کی طرف پلٹنے کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔اس صورتحال کے بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَہُ۔
جوحق سے ٹکرائے گا حق اسے پچھاڑ دے گا ۔ ( نہج البلاغہ ۔کلمات قصار ۴۰۸)
مَنْ أَبْدَیٰ صَفْحَتَہُ لِلْحَقِّ ھَلَکَ۔
جو حق کے مقابلے میں سر اٹھاتا ہے، وہ تباہ ہوجاتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶)
وَاَنَّہٗ لَنْ یُغْنِیَکَ عَنِ الْحَقِّ شَیْءٌ أَبَداً۔
اور دیکھو کوئی چیز تمہیں حق سے بے نیاز نہیں بناسکتی ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب۵۹)