۳۔ عذر بد تر ازگناہ
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ اور جہاد کے ضروری ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن خود اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتے ہوئے اپنے جمود اور کاہلی کی ایسی توجیہ کرتے ہیں جو عذر بدتر ازگناہ کے زمرے میں آتی ہے ۔کبھی تعلیم کے جاری رکھنے اور تجارتی یا پیشہ وارانہ ذمے داریوں کو بطورِ عذر پیش کرتے ہیں اور کبھی بیوی بچوں کی نگہداشت کو بہانہ بناتے ہیں اور کبھی حالاتِ زمانہ اور اپنی بُری مالی حالت کو ملامت کرتے ہیں ۔قرآنِ کریم ان تمام بہانوں اور عذر تراشیوں کی سختی کے ساتھ مذمت اور انہیں مسترد کرتا ہے اور ایسی سوچ کے مالک لوگوں کو بُرے انجام کی خبر دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمَْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالْنِاقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰیآا یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔
آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ دادا، اولاد، برادران، ازواج، عشیرہ وقبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارے کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ، اسکے رسول اور راہِ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں، تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امرِ الٰہی (خدا کا عذاب) آجائے ۔اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ۔ (سورۂ توبہ ۹۔آیت ۲۴)
اور جب حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اصحاب کے ایک گروہ کی طرف سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا، وہ جہاد سے گریز کرتے تھے اور اسکی ذمے داری اٹھانے پر تیار نہ تھے اور اپنے اس عمل کی توجیہ میں کہا کرتے تھے کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں، صورتحال پہلے کی سی نہیں رہی ۔ آپ نے ان لوگوں سے ایک ولولہ انگیز خطاب فرمایا، جس کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے :
فَإِذَاأَمَرْتُکُمْ بِالْسَّیْرِإِلَیْھِمْ فِیْ أَیَّامِ الْحَرِّ قُلْتُمْ ھٰذِہِ حَمَّارَۃُالْقَیْظِ أَمْھِلْنَا یُسَبِّخْ عَنَّا الْحَرُّ، وإِذَااَمَرْتُکُمْ بِالسَّیْرِإِلَیْھِمْ فِی الشِّتَاءِ قُلْتُمْ ھٰذِہِ صَبَارَّۃُ الَقُرِّأَمْھِلْنَا یَنْسَلِخْ عَنَّاالْبَرْدُکُلُّ ھٰذَافِرَارًامِّنَ الْحَرِّوَالْقُرِّ۔۔۔۔ فَاَنْتُمْ وَاللّٰہِ مِنَ السَّیْفِ أَفَرُّ! یَاأَشْبَاہَ الرِّجَالِ وَلَارِجَالَ! حُلُوْمُ الْاَطْفَالِ وَعُقُوْلُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ لَوَدِدْتُّ اَنِّی لَمْ اَرَکُمْ وَلَمْ اَعْرِفْکُمْ۔
اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لیے کہتا ہوں، توتم کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے، اتنی مہلت دیجیے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے۔اور اگر سردیوں میں چلنے کے لیے کہتا ہوں، تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہرجائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے ۔یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کے بہانے ہیں ۔جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح (وحشت زدہ ہو کے) بھاگتے ہو، تو پھر خدا کی قسم تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ تیز بھاگو گے۔اے مردوں کی شکل و صورت والے نا مردو، اے کم عقل بچوں کی صفت رکھنے والو، اے حجلہ نشین عورتوں کی مانند (لوگو)، مجھے کتنا پسند ہے کہ نہ تم کو دیکھتا اور نہ تم سے جان پہچان ہوتی ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۷)