نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی

۱ ۔ دنیاوی زندگی اور آرام طلبی سے لگاؤ

نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی   •   حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار

سامنے کی بات ہے کہ ہر انسان میں زندگی اور دنیا سے محبت پائی جاتی ہے اور وہ دنیاوی آسائش و آرام کے حصول اور ان کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔جبکہ جہاد انسان سے راحت و آرام سلب کر لیتا ہے اور اسے دنیاوی زندگی سے محرومی کے خطرے سے دوچار کر دیتا ہے۔

اس مقام پر انسانی نفس اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کی روح کے مابین جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔انسانی نفس کا میلان دنیاوی زندگی اور راحت طلبی کی جانب ہوتا ہے جبکہ روحِ جہاد انسان کو ایثار و فدا کاری کی دعوت دیتی ہے ۔اگر انسان گہرے ایمان کا مالک ہو، جو اسلام کی پُرنور تعلیمات سے سیراب ہوتا ہے، تو اپنی بُری خصلتوں پر غلبہ پالیتا ہے اور فداکاری اور جہاد کی راہ اپناتا ہے۔ بصورتِ دیگر اپنے نفس کی برائیوں اور نقائص سے محفوظ نہیں رہ پاتا اور اُن کا شکار ہوجاتا ہے ۔

دین اسلام اس مشکل کی اصلاح اور علاج کے لیے انسانوں سے نہایت کھلے الفاظ میں سخت اور حقیقی منطق کی بنیاد پر گفتگو کرتا ہے ۔کہتا ہے : اے انسان ! تو جو موت کے خوف یا راحت طلبی اور دنیا دوستی کی بنا پر جہاد سے روگرداں ہے، کیا تو اس راحت و چین اور اس زندگی کے دوام و بقا کی ضمانت دے سکتا ہے ؟ کیا تو کسی ایسی بیماری کا شکار نہیں ہو سکتا جو تجھ سے تیرا سکھ چھین لے، یا کوئی ایسا حادثہ تجھے پیش نہیں آسکتا جو تجھے زندگی سے محروم کردے ؟ کیا تو ملک الموت سے امان میں ہے ؟

اگر ان سوالات کے جواب نفی میں ہوں، اور یقیناًً ایسا ہی ہے، تو کیوں اس گر انقدر موقع کو ہاتھ سے کھو رہا ہے اور ایک ایسی موت کو اپنے لیے پسند کرتا ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور اسکے عوض تجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا، جبکہ (راہِ خدا میں ) اپنی جان نثار کر کے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسکے عوض عزت و کرامت اور بے حساب جزا و ثواب حاصل کر سکتا ہے۔

دوسری طرف کیا تو جہانِ آخرت، بہشت اور دوزخ پر ایمان نہیں رکھتا ۔پس کیوں روگرداں ہے اور میدانِ جہاد کی جانب قدم نہ اٹھا کے اپنے آپ کو آتشِ جہنم کے خطرے اور جنت کے خسارے سے دوچار کررہا ہے اور وہ بھی صرف چند دن مزید زندہ رہنے کے لیے، یا دنیا کی پُر مشقت زندگی کے مزید چند برسوں کے لیے ؟

خدا وندِ متعال فرماتا ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَٰامَنُوْامَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَامَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌاِلَّا تَنْفِرُوْایُعَذِّبْکُمْ عَذَابًااَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ۔

اے اہلِ ایمان ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہِ خدا میں جہاد کے لیے نکلو، تو تم زمین سے چپک کے رہ گئے (تمہارے قدم نہ اٹھے اور تم سستی کے مرتکب ہوئے ) کیا تم آخرت کے بدلے، دنیاوی زندگی کو پسند کر بیٹھے ہو ۔ (اگر ایسا ہے ) تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس دنیاوی زندگی کے سرمائے کی حقیقت بہت قلیل ہے ۔اگر تم راہِ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا ۔ (سورۂ توبہ ۹۔آیت ۳۸، ۳۹)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِیْثٌ لاَ یَفُوْتُہُ الْمُقِیْمُ، وَلاَ یُعْجِزُہُ الْھَارِبُ، اِنَّ اَکْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ!وَا لَّذِیْ نَفْسُ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ بِیَدِہِ، لَاَلْفُ ضَرْبَۃٍ بِا لسَّیْفِ اَھْوَنُ عَلَیَّ مِنْ مِیْتَۃٍ عَلَیٰ الْفِرَاشِ فِیْ غَیْرِطَاعَۃِ اللّٰہِ۔

موت تیزی کے ساتھ تمہاری طرف بڑھ رہی ہے، کوئی بھی اس کی گرفت سے نہ بچ سکے گا نہ وہ لوگ جو (اس کے مقابل) کھڑے ہوئے ہیں اور نہ وہ جو اس سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں ۔بہترین موت (راہِ خدا میں )قتل ہونا ہے ۔ اس (خدا ) کی قسم جس کے دست (قدرت) میں ابو طالب کے بیٹے کی جان ہے ۔ پروردگارِ عالم کی اطاعت کے بغیر بسترِ مرگ پر جان دینے سے مجھ پر تلوار کی ہزارہا ضربیں آسان ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۲۱)

ایک دوسرے خطبے میں فرماتے ہیں :

وَاَیْمُ اللّٰہِ لَءِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَیْفِ الْعَاجِلِۃِ، لَا تَسْلَمُوْامِنْ سَیْفِ الْاَخِرَۃِ ۔۔۔۔۔اِنَّ فِی الْفِرَارِ مَوْجِدَۃَ اللّٰہِ، وَالذُّلَّ اللَّازِمَ، وَالعَارَالْبَاقِی، وَاِنَّ الْفَارَّ لَغَیْرُمَزِیْدٍ فِیْ عُمُرِہِ، وَلَامَحْجُوْزٍبَیْنَہُ وَبَیْنَ یَوْمِہِ۔

اورخدا کی قسم اگر دنیا کی تلوار سے راہِ فراراختیار کرو گے، تو آخرت کی تلوار سے نہیں بچ سکو گے۔۔۔۔ فرار میں خدا کا غضب ہے اور ہمیشہ کی ذلت اور ننگ، راہِ فرار اختیار کرنے والا اپنی عمر میں اضافہ نہیں کرتا اور اپنے اور اپنی موت کے درمیان کوئی رکاوٹ ایجاد نہیں کرتا ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۲۲)

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

وان تکن الابدان للموت انثئت فقتل امرء فی اللّہ اولی وافضل۔

جب یہ بات طے شدہ ہے کہ ان جسموں کا انجام موت ہے، تو پس خدا کی راہ میں مارے جانا اولیٰ اور افضل ہے ۔