حیاتِ امام علی ؑ
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
اَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ قَدْ بَثَثْتُ لَکُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِیْ وَعَظَ الْاَنْبِیَآءُ بِھَا اُمَمَھُمْ۔ وَاَدَّیْتُ اِلَیْکُمْ مَّااَدَّتِ الْاَ وْصِیَآءُ اِلٰی مَنْ بَعْدَ ھُمْ ۔ وَاَدَّبْتُکُمْ بِسُوْطِیْ فَلَمْ تَسْتَقِیْمُوْاوَحَدَوْتُکُمْ بِالزَّوَاجِرِفَلَمْ تَسْتَوْسِقُوْ لِلّہِ اَنْتُمْ!اَتَتَوَقَّعُوْنَ اِمَاماً غَیْرِیْ یَطَأُبِکُمُ الطَّرِیْقَ وَیُرْشِدُکُمُ السَّبِیْلَ؟
اے لوگو ! میں نے تمہارے لیے وہ تمام نصائح پیش کردی ہیں جو انبیا نے اپنی امتوں کے سامنے پیش کی تھیں اور تم تک ان تمام ہدایتوں کو پہنچادیا جو اوصیا نے بعدوالوں کے حوالے کی تھیں ۔میں نے اپنے تازیانے سے تمہیں تنبیہ کی لیکن تم سیدھے نہ ہوئے اور تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے ہنکانا چاہا لیکن تم متحد نہ ہوئے ۔اللہ ہی تمہیں سمجھے ! کیا میرے علاوہ کسی اورامام کے منتظر ہو، جو تمہیں سیدھے راستے پرچلائے گااور راہِ حق کی جانب تمہاری راہنمائی کرے گا؟ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۸۰)
اصل موضوع (نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی ) پر گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی حیاتِ مبارک پر ایک سرسری نگاہ ڈال لی جائے ۔نیز نہج البلاغہ کے اہم ترین موضوعات کا بھی مختصر جائزہ لے لیا جائے ۔
ہم حضرت علی علیہ السلام کی تاریخی زندگی مثلاً آپ کی ولادت، میدانِ جنگ میں آپ کے کارناموں، آپ کے معجزات، آپ کے فضائل اور آپ کی پر افتخار شہادت کے بارے میں بارہا سنا کرتے ہیں ۔اسکے باوجود اب بھی بہت سی باتیں رہتی ہیں اور ہم نے حضرت کی زندگی کے دوسرے گوشوں پر بہت کم سنا ہے ۔مثلاً اپنے حق کے حصول کے لیے آپ کی جدوجہد اور آپ کی زندگی میں آپ کا انسانی کردار وغیرہ جیسے موضوعات ۔
کیونکہ امام ؑ بھی ایک زمانے میں جوان تھے اور آپ پر بھی ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کے ادوار گزرے ہیں ۔لہٰذا ہم دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی کے ان مختلف ادوار میں وہ کونسی چیزیں ہیں جو تا سی اور تقلید کے لیے ایک ممتاز نمونہ دکھائی دیتی ہیں تاکہ ہم ان کی پیروی کرسکیں ۔
امام ؑ کی جوانی کا دور
دورِ جوانی، جو امیر المومنین ؑ کی حیات کا اہم ترین اور حساس ترین دور تھا، اس دور میں بھی آپ میں ممتاز اور نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں ۔مثلاً آپ کھلے ذہن کے مالک تھے ۔یعنی آپ میں حق و حقیقت اور جدید افکار و نظریات قبول کرنے کی صلاحیت پائی جاتی تھی ۔اسی طرح آپ معاشرے کی غلط رسوم و رواج، اندھی تقلید حتیٰ اپنے گرد و پیش موجود افراد کے رجحانات کے برخلاف اسلام پر عمل اور اسکی پیروی کے معاملے میں بھی شدید تھے۔ آپ کی سوچ یہ تھی کہ اگر کوئی نئی فکر اور نظریہ درست ہو تو اس سے وابستگی اور اسکے قیام و رواج کے لیے جدوجہد واجب ہے۔ آپ کی اس صفت کا مشاہدہ ہم رسولِ کریم کی جانب سے دعوت کی ابتدا ہی میں آپ کی طرف سے اسکی قبولیت اور اسلام کی تبلیغ و ترویج کے سلسلے میں آپ کی جدوجہد اور سعی و کوشش میں کرتے ہیں ۔لہٰذا جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ :اے علی ؑ ! دین اسلام قبول کرنے سے پہلے، کیا آپ نے اپنے والد سے مشورہ کر لیاتھا؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : جس وقت خداوندِ متعال نے مجھے خلق کیا، تو کیا اس نے میرے والد سے مشورہ کیا تھا، جو میں اللہ رب العزت کی عبودیت اختیار کرنے کے بارے میں اُن سے مشورہ کرتا۔
حضرت علی علیہ السلام کی ایک اور صفت، بلند ہمتی اور جوانمردی تھی ۔ایامِ جوانی میں آپ کی سوچ کا مرکز و محور محض اپنے ذاتی مستقبل کی تعمیر نہ تھا ۔آج کے اکثر جوانوں کی طرح آپ صرف اپنی تعلیم کی تکمیل، فارغ التحصیل ہونے کے بعد اچھی ملازمت اور عہدے کے حصول، خوبصورت شریکِ حیات اور پر تعیش رہائش ہی کے بارے میں سوچا نہ کرتے تھے۔بلکہ آپ امت کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے اور آپ کی تمام تر وابستگی اسلام کے ساتھ تھی ۔
آپ کی فکرذاتی خواہشات اور شخصی آرزوؤں سے بلند تھی، آپ رسولِ کریم ؐ کے بعد عالم خلقت کی دوسری بڑی شخصیت ہونے کے ناتے عالمِ انسانیت کی سعادت اور کامیابی کی سمت رہنمائی کے سلسلے میں فکر مند اور کوشاں رہا کرتے تھے ۔
اسی ابتدائی مرحلے میں، جبکہ رسولِ مقبول ؐ نے خدا کے حکم : وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (اور اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرا ئیے ۔سورہ شعرا ء ۲۶۔ آیت ۲۱۴) کی تعمیل میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا اور اس اجتماع میں اپنے اعزہ و اقربا کے سامنے اپنی دعوت کے مقاصد پیش کیے اور رسالت کی بھاری ذمے داریوں میں شریکِ کار ہونے کے لیے ان سے مدد و نصرت طلب کی اور فرمایا کہ کارِ رسالت میں میرا مددگار اور معاون فرد ہی میرے بعد میرا جانشین اور وصی ہوگا ۔اس موقع پر سب سے پہلے حضرت علی ؑ ہی اپنی جگہ سے اٹھے اور اٹل لہجے میں فرمایا:اے اللہ کے رسول ؐ ! میں آپ کا ناصر و مدد گار ہوں ۔
عمر کے اس حصے میں ”خود اعتمادی“ بھی حضرت علی ؑ کی ایک منفرد صفت تھی ۔با وجود یہ کہ آپ کم سن تھے اور ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے تھے جہاں عمر اور جسمانی طاقت کو معیارِ فضیلت سمجھا جاتا تھا ۔لیکن حضرت علی ؑ نے ان رسوم و روایات اور زمانۂ جاہلیت کے معیارات سے ماورأ قدم اٹھایا اور جسمانی طاقت اور عمر رسیدگی جیسے معیاروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے خدا پر بھروسے اور اپنی خود اعتمادی کے بل بوتے پر خطرناک ترین حوادث کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات میں اپنی کامیابی کے پرچم نصب کیے۔ اسکی ایک مثال ”جنگِ خندق“ ہے ۔جب جنگجو اور دیو پیکر پہلوان ” عمر وبن عبدود“ نے میدان میں اتر کر مسلمانوں کو للکارا تو لشکرِ اسلام پر سناٹاطاری ہوگیا سب وحشت زدہ ہوکر دم سادھے بیٹھے تھے، کوئی نہ تھا جو اسکی للکار کا جواب دیتا۔ اس موقع پر رسول اؐللہ کی آواز بلند ہوئی : تم میں ہے کوئی جو ”عمرو“ کے مقابلے پر آئے ؟ یہ سن کر حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کھڑے ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ؐ! میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ آنحضرت ؐنے فرمایا : علی ! جانتے ہو کس سے مقابلے کی بات کر رہے ہو، یہ ”عمرو“ ہے !!؟ آپ نے جواب دیا : ہاں ! اللہ کے رسول، میں اسے جانتا ہوں، اور میں بھی ”علی“ ہوں۔
کبر سنی کا زمانہ
پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد امتِ مسلمہ کے درمیان وجود میں آنے والی ایک انحرافی لہر کے خلاف آپ نے نہایت دانشمندانہ انداز سے قائدانہ کردار ادا کیا ۔آپ کا یہ کردار آخر کار آپ کی دینی اور شرعی قیادت پر منتج ہوا جس کے لیے خدا وندِ عالم نے آپ کو منتخب کیا تھا۔
جس موقع پر آپ نے اپنے حق کے حصول کے لیے مخالفین سے ٹکراؤ اور جنگ و جدال کو اسلام، مسلمانوں اور رسول کریم کی تحریک کے مفاد میں محسوس نہ کیا اس موقع پر آپ نے اپنے مسلمہ حق سے چشم پوشی کی، لیکن وہاں بھی آپ نے حالات کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دیے تھے اور خانہ نشین ہوکے نہیں رہ گئے تھے، آپ نے ایک تماش بین کی حیثیت سے حالات کا نظارہ نہیں کیا تھا ۔بلکہ اس دور کے بالا دست طبقات کے خلاف ایک حکیمانہ طرزِ عمل اپنایا اور موقع سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی عقائد اور صحیح اسلامی اصولوں کی نشر و اشاعت میں مصروف رہے ۔اس دور میں آپ نے اسلام سے مخلصانہ وابستگی رکھنے والے ایک گروہ کی تربیت کی، جو بگاڑ اور با طل کے خلاف ایک عوامی تحریک اور انقلاب کا با عث بنا۔
حضرت ابوذرغفاریؓ جیسے اصحاب، جنہوں نے اموی استبداد کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا، حضرت عمار یاسرؓ جنہوں نے امیر المومنین حضرت علی ؑ کی حکومت کے قیام کے سلسلے میں نہایت فعال اور سرگرم کردار ادا کیا، اسی طرح محمد ابن ابی بکر مالک اشتر اور ہاشم مرقال جیسے جلیل القدر افراد اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے ۔
دورِ آخر
اب جبکہ آپ کے جسمِ مبارک پر پیرانہ سالی اپنے اثرات جما چکی تھی، تغیراتِ زمانہ اور مختلف حوادث کے بعد حکومتِ اسلامی کی باگ ڈور آپ کے سپرد کی گئی ۔اپنے انتہائی مختصر دورِ حکومت میں آپ نے ایک اسلامی حکمران کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا، اسلامی احکام کے اجراء و نفاذ میں کسی طرح کی تاخیر کو روانہ سمجھا اور تمام تر مشکلات اور دشوار حالات کے با وجود دنیا کے سامنے اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کی بے عیب تصویر پیش کردی ۔
آپ اپنی حکومت کے استحکام اور بقا کے لیے کسی قسم کی غیر اصولی سیاست پر رضا مند نہ ہوئے ۔لہٰذا جب آپ کو طلحہ و زبیر اور معاویہ ابن ابی سفیان سے سمجھوتا کر لینے کا مشورہ دیا گیا، تو آپ نے سختی کے ساتھ یہ مشورہ مسترد کر دیا۔
آپ نے معاشرتی عدل و انصاف کی خوبصورت ترین تصویر پیش کی اور اپنے دورِ اقتدار میں اپنے اقربا میں سے کسی کو بھی دوسروں پر نا حق ترجیح نہ دی اور حقوق کے مسئلے میں اپنے دوست احباب، حتیٰ بھائی سے بھی کوئی رورعایت نہ برتی ۔
نہج البلاغہ کیا ہے ؟
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی زندگی کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا۔اب ہم نہج البلاغہ کے بارے میں کچھ عرض کریں گے ۔
علی ؑ صرف ایک حکمراں نہ تھے، جو احکام و فرامین صادر کرتے ہیں، لوگوں پر اپنا حکم مسلط کرتے ہیں اور لوگوں کا کام بلاچوں و چرا ان کی اطاعت ہوتا ہے ۔بلکہ آپ خدا اور پیغمبر اسلاؐم کی طرف سے تفویض کردہ ایک ذمے داری کے حامل تھے، اور یہ ذمے داری الٰہی پیغام کی نشرو اشاعت اور اس کا نفاذ تھی ۔
لوگوں کو بیدار کرنے اور اسلامی پیغام کی تشریح و توضیح کے لیے آپ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ۔لہٰذا اسلام کے تقاضوں کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنے کے سلسلے میں آپ نے بہت زیادہ جدوجہد کی ۔اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے تعلیم و تربیت کے ذرائع اور خطبات و نصائح سے استفادہ کیا۔
ہمارے علم میں نہیں کہ لوگوں کی ہدایت اور امتِ اسلامی کی رہنمائی کے لیے حضرت علی ؑ کی مانند کسی اور حکمراں نے اس قدر وسیع فکری میراث چھوڑی ہو ۔جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت علی ؑ کے بعد جن حکمرانوں نے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی انہوں نے آپ کی اس فکری میراث اور اس کی نشر و اشاعت کی شدت کے ساتھ مخالفت کی، لیکن ان لوگوں کی خواہشات اورا قدامات کے برخلاف خوش قسمتی سے اس عظیم میراث کا ایک بڑا حصہ محفوظ رہا اور مختلف صورتوں میں امتِ اسلامی کی بعد کی نسلوں تک پہنچا ۔
سن چار سو ہجری میں سید رضی علیہ الرحمہ نے اس عظیم الشان علمی میراث کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ۔البتہ کیونکہ سید رضی کے پیش نظر مولا ؑ کے کلام کا صرف ادبی پہلو تھا لہٰذا انہوں نے صرف اسی نقطۂ نظر سے امام ؑ کے کلام کو جمع کیا اور صرف اس کلام کا انتخاب کیا جس میں بلاغت اور ادب کا پہلو نمایاں تھا ۔اگرچہ مولا کی یہ علمی میراث دوسرے پہلوؤں سے بھی بے انتہا اور اعلیٰ قدرو قیمت کی حامل ہے لیکن سید رضی نے اس سے صرفِ نظر کیا ۔ خود انہوں نے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے مقدمے میں تحریر کیا ہے کہ :ہم نے یہاں مولا ؑ کے کلام میں سے غیر منظم فصلوں اور وقتاً فوقتاً ارشاد فرمائے گئے خوبصورت کلمات کا انتخاب کیا ہے ۔ کیونکہ ہمارا ارادہ آپ کے ارشادات میں موجود گرانقدر نکات کو ترتیب وار پیش کرنا نہیں تھا ۔
سید رضی کا اس کتاب کو ” نہج البلاغہ“ نام دینا ہی، اس بات کے اظہار کے لیے کافی ہے کہ ان کی نظر مولا ؑ کے کلام کے ادبی پہلو اور اسکی بلاغت پر تھی ۔جبکہ امام ؑ کے ارشادات زندگی کے لیے ایک سیدھے راستے کی نشاندہی کرنے والے اور اس راہ میں جدوجہد اور کدو کاوش کی تلقین پر مبنی ہیں، لہٰذا کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس مقدس کتاب کا نام ” نہج الحیاۃ“ یعنی روشِ زندگی، یا ”نہج النضال“ یعنی روشِ مبارزہ، یا ” نہج الجہاد“ یعنی روشِ جہاد رکھا جاتا ۔لیکن کیونکہ سید رضی چاہتے تھے کہ مولاؑ کے ارشادات کے ادبی پہلو کو اجاگر کیا جائے لہٰذا انہوں نے کتاب کا نام ”نہج البلاغہ“ رکھا۔
خود امام ؑ نے بھی یہ کلمات اور خطبات اپنی فصاحت وبلاغت کے اظہار کے لیے ارشاد نہیں فرمائے تھے ۔بلکہ اس پہلو (یعنی کلام کی ظاہری خوبصورتی) سے اہم مضامین کی وضاحت کے لیے استفادہ کیا ہے اور امام ؑ کا مقصد زندگی ساز مفاہیم کا بیان اور انسانی فرائض اور ذمے داریوں کی توضیح و تشریح اور اس سلسلے میں جدوجہد کی تلقین تھا۔ یہی وجہ (یعنی سید رضی کی امام ؑ کے کلام کے ادبی پہلو پر توجہ ) ہے کہ سید رضی نے امام ؑ کے بہت سے کلمات و خطبات اور مکتوبات کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا ہے اور نہج البلاغہ میں اکثر مقامات پر یوں تحریر ہے ”ومن خطبۃ لہ، یا ومن کلام لہ، یا و من کتاب لہ۔“ یعنی آپ کے خطبات میں سے ایک خطبہ، یا آپ کے کلام میں سے ایک کلام، یا آپ کے مکتوبات میں سے ایک مکتوب ۔
اسی کے ساتھ ساتھ سید رضی اس بات کا دعویٰ بھی نہیں کرتے کہ اس مجموعے (نہج البلاغہ ) میں انہوں نے امام ؑ کے تمام فصیح و بلیغ کلمات کو جمع کر دیا ہے ۔خود انہوں نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ انہوں نے ہر باب کے خاتمے پر کچھ اوراق سادہ چھوڑ دیے ہیں تاکہ امام ؑ کے مزید کلمات کے حصول کے بعد ان ابواب کو مکمل کر دیں ۔وہ کہتے ہیں : ( میں نے ) ہر صنف کے لیے الگ الگ باب تجویز کیے ہیں اور ہر باب کے بعد چند اوراق سادہ چھوڑ دیے ہیں تاکہ جو کلام مجھ سے چھوٹ جائے اور بعد میں دستیاب ہو اس کا اندراج ان (سادہ اوراق ) میں ہوجائے ۔
ابھی حال ہی میں ایک عالمِ دین نے اپنی مسلسل اور انتھک جدوجہد کے بعد امام ؑ کے مزید کلام کو جمع کیا اور ” نہج السعادۃفی مستدرک نہج البلاغہ“ کے نام سے، چند جلدوں کی صورت میں اسے طبع کیا ہے ۔
درحقیقت نہج البلاغہ کو علمائے امتِ اسلامیہ کے درمیان ایک بڑا مقام حاصل ہے اور مشہور و معروف اسلامی مفکر ین اسے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اسکاایک ثبوت یہ ہے کہ اب تک نہج البلاغہ کی ایک سو دو سے زیادہ شرحیں لکھی جاچکی ہیں ۔اور اسکے شارحین میں شیخ محمد عبدہ، علامہ شیخ عبدالحمید محی الدین، سید عبد العزیز سید الاھل، ڈاکٹر صبحی صالحی اور مشہور عیسائی دانشور اور ادیب جارج جرداق جیسے افراد کے نام شامل ہیں ۔
نہج البلاغہ کی اہمیت
جیسا کہ ہم (میں سے اکثر لوگوں ) نے بھی نہج البلاغہ کے صرف انہی کلمات کو سنا ہے جو زہد اور دنیا سے پرہیز جیسے مضامین پر مشتمل ہیں اور نہج البلاغہ سے ماخوذ امیر المومنین ؑ کی فقط ایسی ہی ناصحانہ گفتگو اور خطبات سنے ہیں جو آخرت کی فکر اور موت کو یاد رکھنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایسی باتوں کا ذکر بھی فاتحہ خوانی اور مرحومین کو ایصال ثواب کی مجالس ہی میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر جوان نہج البلاغہ کوایسی ہی کتاب سمجھتے ہیں جو صرف انہی میدانوں میں رہنمائی اور ہدایت کی صلاحیت رکھتی ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہج البلاغہ ایک عظیم اسلامی میراث اور انتہائی قیمتی علمی سرمایہ ہے، جو درج ذیل نمایاں خصوصیات کی حامل ہے:
۱۔ اس اہم کتاب میں اخلاقی اصول، جنگی قوانین، معاشرتی نظم و نسق، سیاست و معاشرت اور اقتصاد کے خطوط کا ذکر اور ان کی تشریح و توضیح ملتی ہے ۔
۲۔ نہج البلاغہ درحقیقت ایک آئینۂ تمام نما ہے، جو بہت سے تاریخی حوادث کو منعکس کرتی ہے ۔یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس نے ان تمام حوادث کا مقابلہ کیا اور ان حوادث اور واقعات کے ظہور میں کما حقہ کردار اداکیا ۔
۳۔ یہ کتاب ایک عظیم ادبی سرمایہ ہے، جو بلند ادبی ذوق اور بلاغت سے بھر پور ہے۔جس کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ : یہ کلام، خالق کے کلام سے کم تر لیکن تمام مخلوق کے کلام سے برتر حیثیت کا حامل ہے ۔
نہج البلاغہ پر اعتراضات
گزشتہ چند برسو ں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ نہج البلاغہ کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی غرض سے اس پراعتراضات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔مثلاً مصری مجلے ”الکاتب“ کے مئی ۱۹۷۵ء کے شمارے میں ”استاد محمود محمد شاکر“ نے نہج البلاغہ پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نہج البلاغہ کو امام علی ؑ کی طرف جھوٹی نسبت دی جاتی ہے ۔اسکے تھوڑے ہی عرصے بعد ایک اور مصری مجلے ”الھلال“ کے دسمبر ۱۹۷۵ء کے شمارے میں ”ڈاکٹر شفیع السید“ کا اسی طرح کا ایک مقالہ شائع ہوا، جس میں اسی موضوع کو آگے بڑھایا گیا تھا ۔اور حال ہی میں کویتی مجلے ”العربی“ کا فروری ۱۹۷۵ء کا شمارہ نظر سے گزرا ہے جس میں ”ڈاکٹر محمد الدسوقی“ نے انہی باتوں کا ذکر کیا ہے ۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حملوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیوں کیا گیا ہے جب امتِ اسلامی اپنی حقیقی میراث کی جانب پلٹ رہی ہے ؟ کیا یہ لوگ امتِ اسلامی کو اس با عظمت اورپر شکوہ میراث سے استفادے سے محروم کرنا چاہتے ہیں ؟ یا اسے مسلم اور ٹھوس مسائل کے بارے میں بحث و جدال کے میدان میں دھکیلنا ان لوگوں کا مقصد ہے ؟
اس موقع پر ہم نہج البلاغہ کے مخالفین کی جانب سے کیے جانے والے چند اعتراضات کے بارے میں کچھ عرض کرناچاہیں گے ۔
*۔ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سید رضی ایک غیر معمولی ادیب اور عالم تھے اور نہج البلاغہ انہی کے قلم کا شاہکار ہے، حضرت علی ؑ کاکلام نہیں ہے ۔
ٌٍ *۔اس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ جب ہم سید رضی کی ولادت سے بھی پہلے تالیف ہونے والی ادبی اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اعتراض خود بخود لغو ہوجاتا ہے۔ ان قدیم (کتب) میں جابجا امیر المومنین ؑ کے ایسے خطبات، مکتوبات اور کلمات ملتے ہیں جنہیں سید رضی نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے ۔مثلاً نہج البلاغہ کے بعض خطبات ۲۵۵ھ میں وفات پانے والے ”جاحظ“ کی کتاب ”البیان والتبیین“ میں ملتے ہیں ۔اسی طرح ۲۰۲ھ میں وفات پا نے والے ”نصر بن مزاحم“ کی کتاب ”صفین“ میں، ۳۱۰ھ میں وفات پانے والے ”طبری“ کی ”تاریخِ طبری“ میں اور ۳۵۶ھ میں وفات پانے والے ”اصفہانی“ کی تالیف ”اغانی“ میں بھی امیر المومنین ؑ کے ایسے کلمات ملتے ہیں جن سے سید رضی نے نہج البلاغہ کی تالیف کے دوران استفادہ کیا ہے ۔
اب اگر یہ حقیقت پیش نظر ہو کہ سید رضی کی وفات کا سال ۴۰۶ھ ہے، تو پھر کس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کلام کے خالق سید رضی ہیں ۔جسے ان کی ولادت سے قبل کے علما اور مؤلفین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے ؟
علاوہ ازایں حال ہی میں ایک دانشور نے ایک انسائیکلو پیڈیا ترتیب دیا ہے جس میں انہوں نے نہج البلاغہ کے پورے کلام کی اسناد اور ماخذ کو ثابت کیا ہے ۔
*۔ ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نہج البلاغہ میں رسولِ کریم ؐکے بعض اصحاب پر تنقید اور ان کی مذمت کی گئی ہے اور ان باتوں کا حضرت علی ؑ سے صادر ہونا بعید ہے ؟
* ۔اس کا جواب یہ ہے کہ امام ؑ اسلامی اصولوں پر ایمان رکھتے اور ان کے پابند تھے، آپ کی نظر میں معیاراور پیمانہ اسلامی اصول تھے، نہ کہ افراد ۔پس جو کوئی اسلامی اصولوں اور معیارات پر پورا اترتا ہو وہی قابلِ احترام اور لائقِ تقدیس ہے ۔چاہے وہ آج کے دور کا کوئی غلام ہی کیوں نہ ہو، اور جو کوئی اسلامی اصولوں اور معیاروں کا مخالف ہو، اسلام کی بتائی ہوئی راہ سے ہٹ کر چلے، اسے خطاوار سمجھا جائے گا، اگرچہ اس نے پیغمبر اسلام ؐ کے ساتھ ایک ہی گھر میں زندگی بسر کیوں نہ کی ہو، کیونکہ ”اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقکُمْا۔“
* ۔ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نہج البلاغہ میں غیب کی خبریں دی گئی ہیں، جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور غیب کا علم نہیں رکھتا ؟
*۔یہ اعتراض بھی، اس وقت باطل ہو جاتا ہے جب ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ اس موقع پر جبکہ مولا ؑ غیب سے تعلق رکھنے والے کچھ موضوعات پر گفتگو فرمارہے تھے تو ”بنی کلب“ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ؑ ! آپ کو تو علمِ غیب حاصل ہے ! یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا : اے برادرِ کلبی ! یہ علمِ غیب نہیں بلکہ ایک صاحبِ ِ علم (رسول ؐ ) سے حاصل کی ہوئی باتیں ہیں ۔علمِ غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے جنہیں اللہ سبحانہ نے ” اِنَّ اﷲَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ۔“ (سورۂ لقمان ۳۱۔آیت ۳۴) والی آیت میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ بطون (ماؤں کے پیٹ ) میں کیا ہے، نرہے یا مادہ، بدصورت ہے یا خوبصورت، سخی ہے یا بخیل، بدبخت ہے یا خوش نصیب اور کون جہنم کا ایندھن ہوگا اور کون جنت میں انبیا کا رفیق ۔یہ وہ علمِ غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبی کو دیا اور نبی ؐ نے مجھے بتایا اور میرے لیے دعا فرمائی کہ میرا سینہ اسے محفوظ رکھے اور میری پسلیاں اسے سمیٹے رہیں ۔(نہج البلاعہ ۔خطبہ ۱۲۶)
کیا یہ بات قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے کہ خدا وندِ عالم اپنے نبی کو بعض غیبی علوم سے مطلع کرتا ہے جبکہ خود قرآنِ کریم اس بارے میں فرماتا ہے : ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ۔۔۔۔( یہ غیب کی خبر یں ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں ۔سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۴۴) اور پھر کیا رسولؐ اپنے جانشین اور خلیفہ کو بعض غیبی علوم سے مطلع نہیں کرسکتا ؟