آزادی کے مظاہر
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
جس طرح خداوندِ منان نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ انسان آزادانہ زندگی بسر کرے اور اپنے ارادے اور اختیار سے عمل کرے ۔خداوندِ عالم نے کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ دوسروں کے ارادے و اختیار کو سلب کرے، یا یہ کہ دوسروں کی آزادانہ کوششوں کے سامنے رکاوٹ بنے ۔آسمانی ادیان بھی انسانوں کے لیے آزادی کے قائل رہے ہیں اور اسکی حفاظت اور حمایت کرتے ہیں۔
وہ امور جن میں اسلام انسان کو آزادی کا حامل سمجھتا ہے اور اس سے استفادے کی توانائی دیتا ہے، وہ درجِ ذیل ہیں ۔
۱ ۔ فکر اور عقیدے کی آزادی
اسلام انسانوں پر با لجبر اور زبردستی کسی عقیدے کو ٹھونسنا درست نہیں سمجھتا :
لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَا انْفِصَامَ لَہَا وَ اﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌٌ۔
دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے ۔ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے ۔اب جوشخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اسکی مضبوط رسی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ۔ (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۲۵۶)
ایک اور مقام پر ارشادِ الٰہی ہے :
اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔
تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مومن بن جائیں ۔ ( سورۂ یونس ۱۰۔آیت ۹۹)
ایک اور جگہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
مَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ۔
اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہو جائے ۔ (سورۂ کہف ۱۸۔آیت ۲۹)
اسلام اور اسلامی احکام کے سائے میں یہود و نصاریٰ اپنے دین اور عقائد پر باقی رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اور اہلِ ایمان اسلامی عقیدے کے ان اساسی اصولوں کے سوا جن کی رعایت ہر مومن انسان پر لازم ہے مکمل ارادے اور آزادی کے حامل اور اس سے بہرہ مند ہیں۔ اور یہ آزادی اس وقت تک محترم ہے جب تک اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم نہ ہو ۔مثال کے طور پر ”عالمِ ذر“ کی معروف تفاصیل کے بارے میں انسان آزاد ہے چاہے، تو ان پر ایمان رکھے اور چاہے تو ان پر یقین نہ رکھے ۔(۱) ۔جو چیزجہاں تک اسکے لیے مسلّم ہو اور وہ جس حد تک اُس کی صحت پر یقین و اعتماد رکھتا ہو وہاں تک اس پر ایمان لائے اور جہاں اسے یقین نہ ہو، تو وہاں کوئی جبر نہیں اور اس سے سوال نہ ہوگا ۔
نیز طبیعی اور قدرتی علمی مسائل کو انسانی فکر و شعور پر چھوڑا گیا ہے اور اس بارے میں کسی قسم کا جبر واکراہ نہیں، مثلاً زمین کی حرکت یا سورج کی گردش وغیرہ جیسی چیزوں پر اعتقاد اور ان مسائل کے بارے میں کوئی رائے رکھنے پر کسی قسم کا اجبار نہیں اور ہمارا یہ نظریہ قرونِ وسطیٰ کے عیسائی کلیساکے بر خلاف ہے کہ جس نے اس دور میں اپنے رجعت پسندانہ نظریات کو عیسائی معاشرے پر ٹھونسنے کی کوشش کی اور اس بارے میں جو کوئی بھی عیسائی کلیسا کے عقائد کی مخالفت کرتا اسے یہ لوگ کافر قرار دے کر قتل کر دیتے ۔
۲ ۔بیان اور تنقید کی آزادی
اسلام کی عنایات کے سائے میں، انسان کو حسبِ دلخواہ اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے اور جس چیز کو وہ انحراف سمجھتا ہو اسکی مخالفت کا بھی حق رکھتا ہے ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے اپنی اس آزادی سے تعجب انگیز حد تک اور انتہائی جرأت کے ساتھ استفادہ کیا ۔اس دور میں ایک معمولی شخص بھی خلیفہ پر تنقید اور اس سے بحث و جدل کرتا تھا، یہاں تک کہ ایک عام عورت بھی خلیفۂوقت کے فیصلے پر اعتراض کرتی تھی اور اسے پیچھے ہٹنے اور اپنے فیصلے کو بدل دینے پر مجبور کر دیتی تھی ۔
حضرت عمر نے ایک ایسے قانون کی تصویب کی جس کے تحت عورتوں کا مہر محدود کیا جانا قرار پایا ۔یہ جاننے کے بعد ایک عورت نے خلیفہ کے اس فیصلے پر اعتراض کیا اور سند کے طور پر درجِ ذیل آیت پیش کی:
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّ ٰاتَیْتُمْ اِحْدٰہُنَّ قِنطَارًا۔
اگر تم ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ کو لانا چاہو اور ایک کو کثیر مال بھی دے چکے ہو، تو خبر دار اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ ( سورۂ نسا ۴۔آیت ۲۰)
اس دلیل کی روشنی میں خلیفہ کے لیے اپنی خطا کا اعتراف ناگزیر ہوگیا اور انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور اسی موقع پر وہ معروف جملہ کہا کہ: ”اصابت امراۃ واخطا عمر۔“ (ایک عورت نے درست بات کی اور عمر نے خطا اور غلطی کی )
اسی طرح ایک عورت حضرت علی ؑ کی خلافت کے زمانے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے ایک اہلکار کی شکایت کی ۔امیر المومنین ؑ نے اس عورت کی شکایت کو بہت اہمیت دی اور اس شکایت کی وجہ سے اس اہلکار کی معزولی کا حکم صادر فرمایا ۔
اس چیز کے مظاہر ہم رسولِ کریم ؐاور دیگر معصومین ؑ کی زندگیوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ آپ حضرات دوسروں کو اپنی رائے اور عقیدے کے اظہار کا موقع دیا کرتے تھے اور لوگ انتہائی آزادی کے ساتھ آپ کے سامنے گفتگو کرتے تھے ۔اگر ان کے نظریات اورآراء ائمہ ؑ کی رائے کے مخالف ہوتیں، تو ائمہ ؑ انہیں سمجھاتے اور اُن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک دیہاتی عرب آنحضرت ؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔وہ آپ کی خدمت میں اپنی رائے عرض کرنا چاہتا تھا لیکن بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس پر خوف طاری ہوگیا اور اسکی زبان لڑکھڑانے لگی ۔یہ دیکھ کر رسولِ کریمؐ نے فرمایا : ”خوف نہ کھاؤ مطمئن رہو، میں اسی نادار اور خشک روٹی کھانے والی عورت کا بیٹا ہوں ۔“
جب امتِ اسلامیہ نے حضرت علی ؑ کی بیعت کی، تو چند اصحابِ رسول جیسے عبداللہ ابن عمر نے حضرت علی ؑ کی بیعت سے اجتناب کیا ۔حضرت علی ؑ کے بعض اصحاب نے مشورہ دیا کہ آپ ان سے با لجبر اور طاقت کے زور پر بیعت لیجیے، لیکن امیر المومنین ؑ نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔
جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی تو آپ کو اپنے بہت سے اصحاب کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان ہی میں سے ایک ”حجر ابن عدی“ امام حسن ؑ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ: سلام ہو آپ پر اے مومنین کو ذلیل کرنے والے ! اے کاش آپ مر جاتے اور معاویہ سے صلح نہ کرتے ۔امام حسن ؑ نے فراخ دلی اور خو شروئی کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور ان کے سامنے اُن وجوہات کو بیان کیا جو صلاح کا موجب بنیں اور انہیں مطمئن کردیا ۔
۳۔ عمل کی آزادی
اسلام نے انسان کو کردار و عمل کی مکمل آزادی دی ہے، وہ جیسا چاہے طرزِعمل اختیار کرے، انفرادی ملکیت، تجارتی معاملات اور معاشرتی سرگرمیوں کے سلسلے میں اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، بشرطیکہ اسکا کردار و عمل دوسروں کے حقوق اور آزادی پر تجاوز اور تعدی کا موجب نہ ہو یا، اسلامی معاشرے کے لیے ضر ررساں نہ بنے ۔
پھر یہ پابندیاں اور سزائیں کیوں ہیں ؟
آپ میں سے بعض دوستوں کے ذہن میں لازماً یہ سوال آئے گا کہ پھر ان پابندیوں کا کیا مقصد ہے اور زنا، شراب نوشی اور چوری وغیرہ جیسے جرائم کے لیے اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں وہ کیوں ہیں ؟ کیا یہ انسان کی آزادی اور اسکے ارادے اور اختیار کو محدود کر دینا نہیں ؟
پہلا جواب : وہ محرمات جنہیں خداوندِ عالم نے انسان پر حرام کیا ہے، ان سے منع کر کے درحقیقت اس نے ان کے ضرر رساں ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے اور ان چیزوں سے پرہیز کے حکم میں صرف انسان کی فلاح اور بہبود پیش نظر ہے اور خداوندِ عالم کسی عنوان اور کسی حالت میں انسان کو خود اپنے آپ کو آزار پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا ۔
وَلاَاتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ۔
اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ( سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۱۹۵)
دوسرا جواب : اکثر ان جرائم کے اثرات خود انسان کے اپنے دائرے اور حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور دوسروں کو متاثر کرنے لگتے ہیں اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز اور ان کی آزادی کو سلب کرنے پر منتج ہوتے ہیں ۔مثلاً چوری دوسروں پر ظلم اور تجاوز ہے اور زنا، لواط، شراب نوشی وغیرہ جیسے جرائم کا نتیجہ بھی اسی قسم کا ہے ۔اسلام انسانوں کو دوسروں کے حقوق، آسائش اور آزادی میں مداخلت کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔
تیسرا جواب : جن چیزوں کا انسانوں کو پابند کیا گیا ہے ان کی خلاف ورزی پر ان کا مواخذہ ان کی آزادی پر قد غن لگانا نہیں ہے ۔مثال کے طور پر آپ مجھ سے ملاقات کرنے اور مجھ سے ملنے کے لیے آنے کے سلسلے میں آزاد ہیں، لیکن اگر آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ میں فلاں وقت پر آپ سے ملاقات کے لیے آؤں گا، اور مقررہ وقت پر آپ نہ آئیں، میں آپ کا انتظار کرتا رہوں اور آپ اپنے وعدے پر عمل نہ کریں ۔پھر کچھ دن بعد جب میری آپ سے ملاقات ہو، تو کیا میں آپ سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا کہ بھائی آپ نے مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا، آپ اس روز کیوں تشریف نہ لائے ؟ اور میرے پوچھنے پر کیا آپ کا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میں آزاد انسان ہوں، میری مرضی میں آؤں یا نہ آؤں۔ ۔۔ یہ درست ہے کہ آپ آزاد ہیں، لیکن اس موقع پر آپ نے وعدہ کیا ہے اور خود کو پابند کیا ہے کہ وقتِ مقررہ پر مجھ سے ملاقات کے لیے آئیں گے۔ لہٰذا آپ کے لیے اپنے اس وعدے پر عمل لازم ہے ۔
ایک اور مثال پیشِ خدمت ہے ۔رنگ و روغن کرنے والا ایک کاریگر جو مارکیٹ میں بیٹھا ہے، آزاد ہے، چاہے تو آپ کے گھر رنگ کرے، چاہے تو نہ کرے، لیکن جوں ہی وہ آپ سے آپ کے گھر رنگ کرنے کا معاہدہ کرتا ہے، آپ کا پابند ہو جاتا ہے ۔اب اس نے اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ خود کو آپ کے گھر پر رنگ کرنے کا پابند کیا ہے ۔
یہی صورت اس وقت ہوتی ہے جب انسان اسلام اور اسکے قوانین پر ایمان لاتا ہے۔ اس موقع پر درحقیقت وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اب آئندہ اسلامی نظام اور اسکے قوانین کا پابند رہے گا۔ اب گویا وہ ایک ایسی قرار داد پر دستخط کرتا ہے جس میں تحریر ہے کہ اسلام کے واجب کیے ہوئے اعمال کی پیروی کرے گا اور اسکی حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کرے گا ۔
اب جبکہ اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے دین اسلام کا انتخاب کیا ہے، کسی بیرونی قوت نے اس پر دین اسلام مسلط نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے مکمل آزادی کے ساتھ اسلام کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کو قبول کیا ہے، تو اس صورت میں اسلامی احکام و قوانین کی پابندی کی ذمے داری اسکے اپنے کاندھوں پر ہے ۔پس اگر وہ ان قوانین کی مخالفت کرے اور مثلاً شراب نوشی کرے یا زنا کا مرتکب ہو، تو معاہدہ توڑنے پر اس کا مواخذہ ہوگا اور اسے بازپرس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔تاہم کیا اسلام شراب نوشی یا روزہ ترک کرنے وغیرہ جیسی چیزوں پر ایک عیسائی کا مواخذہ کرے گا ؟ یا ایک مجوسی کا اپنے محارم سے نکاح کرنے پر مواخذہ کرے گا ؟
قدرتی بات ہے کہ جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اس دنیا میں ان سے کوئی حساب نہیں لیا جاسکتا اور نہ انہیں نا مناسب باتوں پر کوئی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن آخرت، روزِ قیامت اور دوسری دنیا میں حساب کتاب ایک علیحدہ موضوع ہے ۔(۱)
انسان کس طرح غلام بنتا ہے ؟
خدا وندِ عالم نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے اور اس نے انبیا بھیج کر اور ان کے ذریعے اپنے قوانین بیان کر کے اس دنیا میں انسان کی آزادی کی ضمانت فراہم کی ہے ۔یہ جان لینے کے بعد سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کون ہے جو انسان سے آزادی چھینتا ہے ؟ کون ہے جو غیر خدا کی بندگی کا طوق اس کی گردن میں ڈالتا ہے ؟ اور دین با لخصوص نہج البلاغہ کا مؤقف اس بارے میں کیا ہے کہ کس نے انسان کی آزادی کو سلب کیا ہے ؟
۱ ۔ غرائزاور دنیوی خواہشات
حیوانی غرائز اور خواہشاتInstincts) ( انسان کو ان چیزوں کی طرف کھینچتی ہیں جو اسکی عقل اور ضمیر کے بر خلا ف ہوتی ہیں ۔پس ایک ایسا انسان جو ان غرائز اور خواہشات سے مقابلے کی جرات نہ رکھتا ہو وہ ان کے زیر اثر آجاتا ہے اور اپنی آزادی سے دستبردار ہو کر ان کے سامنے تسلیم اور ان کا فرمانبردار ہوجاتا ہے ۔اس حال میں وہ اپنی غرائز اور
۱ ۔ یہ نظریہ جسے محترم مصنف نے پیش کیا ہے اس زمانے سے تعلق رکھتاہے جب کسی خطے میں اسلامی حکومت قائم نہ ہو لیکن اگر کسی ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے، تو وہاں مذہبی اقلیتوں پر اسلامی قوانین کی پابندی لازم ہے جو جزیہ کی ادائیگی، فساد نہ پھیلانا اور جو کچھ اسلامی قوانین کے خلاف ہے اس کا اظہار نہ کرنا ہے۔ (مترجم)
شیطانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے ۔یہاں تک کہ ان کے شر کے شکنجے سے نجات کے قابل نہیں رہتا ۔
اس بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
وَکَذٰلِکَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِہِ وَکَبُرَمَوْقِعُھَامِنْْ قَلْبِہِ، اَثَرَھَا عَلَیٰ اللّٰہِ تَعَالَیٰ، فَانْقَطَعَ اِلَیْھَا، وَصَارَ عَبْداًلَھَا۔
یہی حال اس شخص کا بھی ہے جس کی نظر میں دنیا عظیم اور با اہمیت ہوتی ہے اور اسکے دل میں اسکی عظمت اور وقعت بڑھ جاتی ہے، تو وہ (اس) دنیا کو اللہ پر ترجیح دیتا ہے، اسی کی طرف رخ کر لیتا ہے اور اسی کا غلام ہوکے رہ جاتا ہے ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۵۸)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
قَدْخَرَقَتِ الشَّھَوَاتُ عَقْلَہُ، وَاَمَا تَتِ الدُّنْیَا قَلْبَہُ، وَوَلِھَتْ عَلَیْہَا نَفْسُہُ، فَھُوَعَبْدٌ لَھَا، وَلِمَنْ فِیْ یَدِ یْہِ شَیْءٌ مِنْھَا، حَیْثُمَا زَالَتْ زَالَ اِلَیْھَا، وَحَیْثُمَا اَقْبَلَتْ اَقْبَلَ عَلَیْھَا۔
خواہشات نے اسکی عقل کو پارہ پارہ کردیا ہے اور دنیا نے اس کا دل مردہ بنا دیا ہے، وہ اس پر مر مٹاہے ۔یہ دنیا کا اور جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھوڑی سی بھی دنیا ہے ان کا بندہ اور غلام بن گیا ہے، جس طرف وہ مڑتی ہے اسی طرف یہ مڑتا ہے، جس طرف اسکا رخ ہوتا ہے اسی طرف اسکا رخ ہوجاتاہے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۰۷)
۲۔ اندھی تقلید
دوسروں کی دیکھا دیکھی بغیر سوچے سمجھے ان کے کاموں کی پیروی کرنا اندھی تقلید کہلاتی ہے۔جب انسان اپنے ارد گرد لوگوں، معاشرے کے سرکردہ افراد اور سرداروں کو کسی رسم کا پابند دیکھتا ہے، کسی عقیدے کا معتقد پاتاہے اور بلا تحقیق اور اپنی آزادی اور اختیار سے استفادہ کیے بغیر ان کے اس عقیدے اور راہ و رسم کو اپنا لیتا ہے، تو اس طرح دراصل وہ اپنے معاشرے اور بزرگوں کی اندھی تقلید کا مرتکب ہوتا ہے ۔
امیر المومنین ؑ ایسے لوگوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَ لَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَۃِ سَادَاتِکُمْ وَکُبَرَاءِکُمْ۔
دیکھو اپنے سرداروں اور بڑوں کی اتباع سے محتاط رہو ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۰)
۳ ۔ دوسروں کا تسلط اور ان کی طاقت
بسا اوقات دوسروں کا تسلط انسان کو اپنی آزادی اور اختیار سے فائدہ اٹھانے سے روک دیتا ہے اور صاحبِ قدر ت افراد اپنی آراء و افکار اور اپنے وضع کردہ اصول و قوانین اس پر مسلط کردیتے ہیں ۔اسلام اس مشکل کے حل کے لیے دو طریقے اختیار کرتا ہے ۔
*ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ استبداد کرنے والے، دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرنے والے اور انہیں اپنے غلام بنانے والے کو اس روش سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔
* اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ استبداد کا شکار اور ذلت وخواری سے دوچار افراد کو آزادی اور خود مختاری کے حصول کے لیے جدوجہد اور کوشش پر ابھارتا ہے اور انہیں ظالموں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے اور ان کی غلامی قبول کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کرتا ہے ۔
دوسروں پر جبر و تسلط کی مذمت کرتے ہوئے احادیث میں آیا ہے :
شرالناس من احترم مخا فۃ شرہ۔
بد ترین انسان وہ شخص ہے جس کے شرکے خوف سے اس کا احترام کیا جائے۔
اس بارے میں امیرالمومنین ؑ نے مالک اشتر کو تحریر کیا :
وَأَشْعِرْ قَلْبَکَ الرَّحْمَۃَ لِلرَّعِیَّۃِ، وَالْمَحَبَّۃَ لَھُمْ، وَاللُّطْفَ بِھِمْ، وَلَا تَکونَنَّ عَلَیْھِمْ سبُعاً ضَارِیاً تَغْتَنِمُ أَکْلَھُمْ، فَاِنَّھُمْ صِنْفَانِ:إِمَّا أَخٌ لَکَ فِی الدِّیْنِ، اوْنَظِیْرٌ لَکَ فِی الْخَلْقِ۔
رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت ورحمت کو اپنے دل میں جگہ دو اور خبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندے کی مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگو ۔اس لیے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوسرے خلقت میں تم جیسے بشر ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۵۳)
ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا :
ولا تقسروااولا دکم علی آدابکم فانھم مخلوقون لزمان غیرزمانکم۔
اپنے بچوں اور اولادوں کو اپنے زمانے کے آداب اور روش کے مطابق پروان نہ چڑھاؤ، کیونکہ وہ تمہارے زمانے سے جدا ایک دوسرے زمانے کے لیے خلق ہوئے ہیں ۔ ( شرح نہج البلاغہ ازابن الحدید ۔ج۲۔کلمہ ۱۰۲۔ ص ۲۶۷)
ایسے لوگ جو اپنی آزادی اور خودمختاری چھین لیے جانے پر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، اور ایسے حالات میں صبر و قرار سے بیٹھے رہتے ہیں، ان کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْوٰ ھُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا۔
جن لوگوں کو فرشتوں نے اس حال میں اٹھایا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے، ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ۔انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور بنادیے گئے تھے ۔فرشتوں نے کہا کہ کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کر جاتے ۔ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے ۔ ( سورۂ نسا ۴۔آیت ۹۷)
اور امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں :
لَا تَکُنْ عَبْدَ غَیْرِ کَ وَقَدْ جَعَلَکَ اللّٰہُ حُرًّا۔
دوسروں کے غلام نہ بنو کیونکہ خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب۳۱)
روزِ عاشورہ امام حسین علیہ السلام کے شعائر میں سے ایک شعاریہ بھی تھا کہ :
ان لم یکن لکم دین وکنتم لا تخافون المعاد فکونوا احرارافی دنیا کم ۔
اگر تم دیندار نہیں، تمہیں روزِقیامت کا کوئی خوف نہیں، تو کم از کم دنیا ہی میں آزاد مردوں کی طرح رہو ۔
اور اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے :
ان اللّٰہ فوض الی المومن امورہ کلھا ولم یفوض الیہ ان یذل نفسہ، ان المومن اعزمن الجبل ۔
بے شک خدا نے مومن کو اسکے تمام امور تفویض کر دیے ہیں، لیکن اس امر کو اسے تفویض نہیں کیا کہ وہ خود کو ذلیل و خوار بنائے، کیونکہ مومن پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور سر بلند ہے ۔ (مشکوۃ الانوار ۔ص۲۴۵)
۱۔ محترم مصنف کی مراد ”عالمِ ذر“ کی ماہیت سے نہیں جو ایک مسلّم قرآنی اصول ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ ”عالمِ ذر“ کی تفاصیل اور اسکی مختلف تفاسیر کے بارے میں اختلافِ نظر اور مختلف خیالات کو مسترد یا قبول کیا جاسکتا ہے ۔ (مترجم)