نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی

۲ ۔ دین اور زندگی کے بارے میں ایک فکری مغالطہ

نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی   •   حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار

کثر لوگ حیات اور زندگی کے بارے میں صحیح طرزِ فکر کے مالک نہیں ہوتے اور زندگی کو خوردوخواب اور لذت و آسائش کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ۔ان لوگوں کے نزدیک ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے لیے ان اشیا کو فراہم کرے، لیکن یہی لوگ اپنی عزت و شرافت کے لیے معمولی قیمت ادا کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے اور اس مہم کو ضرور ی اور لازم نہیں سمجھتے اور صرف کھانے پینے اور لذت و آسائش کو اپنا بہترین سرمایہ قرار دیے ہوئے ہیں ۔

لیکن ایک مومن اور بیدار ضمیر انسان جانتا ہے کہ زندگی کو عزت و سربلندی کے ساتھ بسر کرنا چاہیے، اگر اس میں یہ فضیلت نہ پائی جائے، تو ایسی زندگی کی کوئی قدرو قیمت اور حیثیت نہیں اور ایسی صورت میں انسان ذلت و پستی اور غلامی کے جوہڑ میں زندگی گزاررہا ہوتا ہے ۔

اس بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :

فَالْمَوْتُ فِیْ حَیَا تِکُمْ مَقْھُوْرِیْنَ، وَالْحَیَاۃُ فِیْ مَوْتِکُمْ قَاھِرِیْنَ۔

تمہارا ان سے دب کے رہنا جیتے جی موت ہے اور (ان پر ) غالب آکے مرنا جینے کے برابر ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ۵۱)

اور آپ کے فرزند امام حسین ؑ نے بھی فرمایا ہے :

انی لااری الموت الاسعادۃ، والحیاۃ مع الظالمین الابرما ۔

بے شک میں موت کو صرف سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ اور ان کے غلبے میں زندگی کوذلت وخواری شمار کرتا ہوں ۔

کچھ دوسرے لوگ اسلامی جہاد کے بارے میں فکری مغالطے کا شکار ہیں اور غلط فہمی سے دوچار ہیں ۔ایسے لوگ کہتے ہیں : جہاد کے لیے شرائط پوری نہیں ۔کیونکہ امامِ معصوم ؑ موجود نہیں، جو جہاد کا حکم دے ۔اور دوسرے یہ کہ امامِ معصوم ؑ کی نیابت میں کوئی مجتہد نہیں جو جہاد کی دعوت دے اور اسکی قیادت کرے ۔یہ طرزِ فکر نرامغالطہ ہے، اور ایک ایسا شخص جو اسلام میں جہاد کی فقہ سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتا ہو، وہ اس مغالطے کو پہچان سکتا ہے اور اسے مسترد کر سکتا ہے ۔

فقہا ئے عظام کی نظر میں جہاد کی دو قسمیں ہیں :

الف : جہادِ ابتدائی : جو دوسرے معاشرے میں اسلام کی نشرو اشاعت اور روئے زمین پر نامِ خدا کو بلند کرنے کی غرض سے ہو ۔اس میں امامِ معصوم ؑ کی قیادت اور اجازت شرط ہے ۔

یہ جہاد واجبِ کفائی ہے اور اگر امتِ اسلامی کے کچھ لوگ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو دوسروں کے ذمے سے اسکا و جوب ساقط ہوجاتاہے ۔اس بارے میں حضرت علی ؑ کا ارشاد ہے :

لا یخرج المسلم فی الجہادمع من لا یومن علی الحکم ولا ینفذفی الفیء امراللّٰہ عزوجل۔

مردِ مسلمان کسی ایسے شخص کے ہمراہ جہاد کے لیے نہیں نکلتا جو حکمِ خدا پر ایمان نہیں رکھتا اور مالِ غنیمت کی تقسیم میں خدا وندِ عالم کے حکم کا اجرا نہیں کرتا۔ (وسائل الشیعہ ۔ج۱۱۔ص۳۴)

ب: جہادِدفاعی : دین اور مملکت، اپنے ذاتی یا ملی حقوق اور مال اور عزت و آبرو کا دفاع اور محرومین اور کمزور بنادیے گئے لوگوں کی حمایت کے لیے جہاد ۔

اس قسم کی جنگ اور محاذ آرائی نہ صرف جائز ہے بلکہ ہر فردِ مسلم پر واجب ہے اور اس میں امام ؑ یا مرجع کی اجازت کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی مجاہد ان میں سے کسی مقصد کی راہ میں مارا جائے تو خدا کے نزدیک شہید ہے ۔

اس بارے میں رسو لِ گرامئ اسلام حضرت محمد مصطفی ؐنے فرمایا ہے :

من قتل دون عیالہ فھو شھید، ومن قتل دون مظلمۃ فھو شھید، ومن قتل دون مالہ فھوشھید۔

اگر کوئی اپنے گھر انے کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، تو وہ شہید ہے ۔

اور جو کوئی اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، تو وہ شہید ہے ۔

اور جو کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، تو وہ شہید ہے۔ (وسائل ۔ج۱۱۔ص۹۲، ۹۳)

نہج البلا غہ میں ایک مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ، معاویہ کے لشکر کے حملے کے موقع پر مزاحمت اور مقابلہ نہ کرنے پر ایک گروہ کو لعنت ملامت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ثُمَّ انْصَرَفُوْا وَافِرِیْنَ مَانَالَ رَجُلًا مِنْھُمْ کَلْمٌ، وَلَا أَرِیْقَ لَھُمْ دَمٌ۔

وہ کثیر مالِ غنیمت لے کر پلٹ گئے، بغیر اسکے کہ انکا ایک بھی فرد زخمی ہوا ہو یا ان کے خون کا ایک بھی قطرہ بہا ہو ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۷)

نیز اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

فَقُبْحاً لَکُمْ وَتَرَحاً، حِیْنَ صِرْتُمْ غَرَضاً یُرْمَیٰ یُغَارُعَلَیْکُمْ وَلَا تُغِیْرُوْنَ، وَتُغْزَوْنَ وَلَا تَغْزُوْنَ۔

تمہارا برا ہو اور تم غم و اندوہ میں مبتلا رہو ۔تم تواز خود تیروں کا نشانہ بنے ہوئے ہو، تمہیں ہلاک اور تاراج کیا جارہا ہے، مگر تمہارے قدم حملے کے لیے نہیں اٹھتے، وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جی چراتے ہو ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۷)

استاد العلما صاحبِ جواہر فرماتے ہیں :

” اگر کافر دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہوں اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو جائے کہ اسلام کی اصل و اساس خطرے میں پڑجائے گی، یا یہ کہ وہ لوگ اسلامی سرزمینوں پر قبضہ کر لیں گے، یا مسلمانوں کے مال و دولت کو غارت کر دیں گے، تو تمام مسلمان مرد و زن، بندۂ آزاد، بیمار وغیربیمار، حتیٰ ناقص الاعضاافراد، مختصر یہ کہ ایک ایک مسلمان پر دفاع واجب ہو جاتا ہے ۔اور دفاع کے واجب ہونے کے لیے معصوم امام کی موجودگی اور اس کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی ۔اور یہ (حکم ) صرف ان لوگوں کے لیے مختص نہیں ہے جن پر حملہ ہوا ہے، بلکہ ان تمام لوگوں پر واجب ہے جن کی اطلاع میں یہ صورتحال آئے، اگرچہ دشمن نے ان سے تعرض نہ کیا ہو ۔اور یہ اس صورت میں ہے جب ایسے لوگ جو دشمن کے تعرض کا نشانہ بنے ہیں انہیں یہ بات معلوم نہ ہو کہ وہ دشمن سے دفاع اور اسکے حملے کا مقابلے کرنے کی توانائی رکھتے ہیں یا نہیں ۔“