نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی

حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں فرمایا :

أَنْصِفِ اللّٰہَ وَأَنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِکَ، وَمِنْ خَاصَّۃِ أَھْلِکَ، وَمَنْ لَکَ فِیْہِ ھَویً مِنْ رَعِیَّتِکَ۔فَإِنَّکَ إِلَّاتَفْعَلْ تَظْلِمْ، وَمَنْ ظَلَمَ عِبَادَاللّٰہِ کَانَ اللّہُ خَصْمَہٗ دُوْنَ عِبَادِہِ، وَمَنْ خَاصَمَہُ اللّٰہُ أَدْحَضَ حُجَّتَہُ، وَکَانَ لِلّٰہِ حَرْباً حَتَّیٰ یَنْزِعَ اوْیَتُوْبَ، وَلَیْسَ شَیْءٌ أَدْعیٰ إِلَیٰ تَغْیِیْرِ نِعْمَۃِ اللّہِ وَتَعْجِیْلِ نِقْمَتِہِ مِنْ إِقَامَۃٍ عَلیٰ ظُلْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیعُ دَعْوَۃَ الْمُضْطَھَدِیْنَ وَھُوَ لِلظَّالِمِیْنَ بِالْمِرْصَادِ۔

اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایامیں سے اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھہروگے اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کا حریف و دشمن بن جاتا ہے اور جس کا وہ حریف و دشمن ہو اس کی ہر دلیل کو کچل ڈالتا ہے، اور ایسا شخص اللہ سے برسرِ پیکار شمار کیا جائے گا جب تک کہ اپنے ظلم سے باز نہ آجائے یا تو بہ نہ کر لے ۔اور اللہ کی نعمتوں کی بربادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے کیونکہ اللہ مظلوموں کی پکار سنتا ہے اور ظالموں کی تاک میں رہتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۵۳)

عدالتِ تکوینی (کائنات میں پایا جانے والا توازن )

نظامِ ہستی پر معمولی سا غور و فکر، ہر انسان پر واضح کردیتا ہے کہ عناصرِ کائنات کے درمیان ایک گہرا توازن موجود ہے ۔خدا وندِ عالم نے کائنات کے ہر عنصر اور مادّے کے لیے ایسی معین حدود کا تعین کیا ہے جن سے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا نقصان کا موجب ہوتا ہے۔ با لفرض اگر عناصرِ کائنات کے معین اور متعین حدود بگڑ جائیں تو اس صورت میں پوری کائنات درہم برہم ہو کر تباہ وبرباد ہوجائے ۔مثلاً :

۱۔زمین کے حجم کا تعین ایسی باریکی کے ساتھ کیا گیا ہے جو اس پر موجود اشیا اوریہاں زندگی بسر کرنے والوں کے مفادات سے معمولی سا بھی متصادم نہیں ۔پس اگر فرض کریں کہ زمین کا حجم موجودہ حجم سے زیادہ ہوتا تو اسکی قوتِ جاذبہ (کشش ثقل ) بڑھ جاتی ۔اور اگر اسکے برعکس ہوتا اور زمین کا حجم کم ہوتا تو اس صورت میں قوتِ جاذبہ کے کم ہوجانے کی وجہ سے کائنات تباہ و برباد ہوجاتی، ہوا زمین کی فضا سے باہر نکل جاتی اور پانی بخارات بن کے اڑجاتا ۔

۲۔زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ۹۳ملین میل ہے ۔اس مسافت کا تعین بھی ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ عدالتِ تکوینی جو کائنات کے ہر ہر ذرّے میں کار فرما ہے کس قدر گہری اور منظم ہے۔ اب اگر زمین اور سورج کا با ہمی فاصلہ اس فاصلے سے زیادہ ہوتا تو زمین پر گرمی اور حرارت کم ہوجاتی اور سردی بڑھ جانے کی وجہ سے کرۂ زمین پر زندگی نا ممکن ہوجاتی اور اگر اسکے برعکس فرض کیا جائے یعنی زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ موجودہ فاصلے سے کم ہوتا تو سورج کی گرمی کی وجہ سے روئے زمین کی ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی اور زمین پر زندگی کا نام و نشان نہ ملتا ۔

۳۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں زمین پر ایک کرۂ ہوا (atmosphere) چھایا ہوا ہے، جو ایک معین ضخامت رکھتا ہے ۔یہ ہوائی خول زمین پر زندگی کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔اگر اس خول کی ضخامت میں تھوڑی سی بھی کمی واقع ہو جائے تو آسمانی پتھروں اور فضا سے گرنے والے شہابِ ثاقب کی وجہ سے زمین پر زندگی دوبھر ہوجائے۔ یاد رہے کہ ایک دن میں فضا سے ڈیڑھ لاکھ شہابِ ثاقب اور آسمانی پتھر زمین کی سمت آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی رفتار بندوق سے چلائی جانے والی گولی کی رفتار سے ۹۰ گنا زیادہ ہوتی ہے ۔اور اگر اس کے بر عکس فرض کیا جائے ۔یعنی اس ہوائی خول کی ضخامت موجودہ ضخامت سے زیادہ ہوجائے تو اسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین پر سورج کی شعائیں نہیں پہنچ پائیں گی اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

نظامِ کائنات میں نظر آنے والے اس گہرے توازن کی حالت کو، جس کی بنیاد پر کائنات کا ایک ایک عنصر اپنی معین حدود میں عمل کر رہا ہے ہم ”عدل یا عدالت“ کا نام دے سکتے ہیں اور ہمارے مفروضہ حالات جن میں کائنات کا مواد اور اسکے عناصر اپنی معین حدود سے خارج ہوتے ہیں، اسے ہم ”ظلم“ کہہ سکتے ہیں ۔

نظامِ ہستی پر جب تک ”عدالت“ کا راج ہے اس وقت تک کائنات خیر و سعادت سے معمور رہے گی لیکن اگر نظامِ ہستی پر ”ظلم“ کی حکومت ہوجائے تو اس صورت میں خرابی اور نابودی کے سوا دنیا کا مقدر کچھ اور نہ ہوگا ۔

پس اس وضاحت کے نتیجے میں ہم نے یہ جان لیا ہے کہ ”عدالتِ تکوینی“ اور ” ظلمِ تکوینی“ کیا چیز ہے، اب ہم ”عدالتِ تکوینی“ اور ”ظلمِ اجتماعی“ کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

عدالتِ اجتماعی

کائنات میں موجود تمام مواد، ہر نوع کا مادّہ، ہر ایک جسم معین حدود رکھتا ہے اور ان ہی حدود میں رہنے کا پابند ہے ۔اسی چیز کو عدالت کہتے ہیں، جبکہ ان حدود سے تجاوز ظلم کہلاتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں خداوندِ عالم نے معاشرے کے ہر فرد اور گروہ کے حدود اور حقوق معین کیے ہیں ۔لہٰذا اگر کسی معاشرے میں انسان اپنے معین شدہ حدود کے مطابق عمل کریں اور اپنے طے شدہ حقوق پائیں تو یہ ایک عادلانہ معاشرہ کہلائے گا ۔لیکن اگر افرادِ معاشرہ اپنی حدود سے تجاوز کریں اور ان کے حقوق سلب کیے جارہے ہوں، تو یہ معاشرے میں ظلم کا دور دورہ کہلائے گا ۔

جس طرح ”عدالتِ تکوینی“ کائنات کے استحکام اور بقا کی محافظ ہے اور ” ظلمِ تکوینی“ اس کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوتا ہے، با لکل اسی طرح ”عدالتِ اجتماعی“ معاشرے اور اسکی سعادت نیز خیر و صلح کی محافظ ہے، اور ”ظلمِ اجتماعی“ معاشرے کے پیکر کو درہم برہم کرنے والا اور اسکی بدبختی کا باعث ہے ۔آئیے اسی بات کو امیر المومنین ؑ کی زبانی سنتے ہیں، آپ فارس میں اپنے گورنر سے فرماتے ہیں :

اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ، وَاحْذَ رِالْعَسْفَ وَالْحَیْفَ، فَإِنَّ الْعَسْفَ یَعُوْدُ بِالْجَلَآءِ، وَالْحَیْفَ یَدْعُوْإِلَیٰ السَّیْفِ۔

عدل و انصاف کی راہ پر چلو اور بے جا دباؤ اور ظلم سے پرہیز کرو کیونکہ بے جا دباؤ عوام کی تم سے دوری اور گریز کا سبب بنے گا اور ظلم تمہارے خلاف لوگوں کو تلوار اٹھانے پرمجبور کردے گا ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۴۷۶)

اس مقام پر ایک اہم حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے اور وہ یہ کہ انسان کی خالق بھی وہی ہستی ہے جس نے اس کون و مکاں کو پیدا کیا ہے اور انسانی سماج اسی کائنات کا ایک اٹوٹ جزو ہے جس پر عدالت حاکم ہے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ خدا وندِ متعال کائنات کے ذرّے ذرّے پر تو عدالت نافذ کرے لیکن انسانی معاشرے کو ظلم و ستم کے ساتھ رہنے کی اجازت دے ؟

درحقیقت جس طرح خالقِ کائنات ایک ہی ہے اسی طرح اسکا عطا کردہ نظام بھی ایک ہی ہونا چاہیے ۔قرآنِ کریم اس حقیقت پر تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے :

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًامَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَکَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُخَاسِءًا وَّہُوَحَسِیْرٌ۔

اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے ہیں اور تم رحمان کی خلقت میں کسی طرح کی بے نظمی اور فرق نہ دیکھو گے ۔ پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھو کہیں کوئی خلل نظرآتا ہے ؟ اسکے بعد بار بار نگاہ ڈالو دیکھو، نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی لیکن کوئی عیب نظر نہ آئے گا ۔ (سورۂ ملک ۶۷۔آیت ۳، ۴)

خدا وندِ متعال انسان کو کرامت اور سر بلندی کا مالک دیکھنا چاہتا ہے اور اسے اپنی دوسری مخلوقات پر فضیلت بخشنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے انسان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ خود سے منزلیں سر کرتا ہوا کمال حاصل کرے ۔اللہ رب العزت انسان پر عدالت کو بالجبر فرض نہیں کرتا، جیسا کہ اس نے سورج اور زمین کو جبراً ایک عادلانہ نظام کا تابع بنایا ہوا ہے بلکہ انسان کو عدالت کا راستہ دکھا کر اسے اس پر چلنے کی تاکید و تشویق کرتا ہے اور اسی طرح ظلم و ستم کے راستے کی نشاندہی کر کے انسان کو اس پر چلنے سے منع اور متنبہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے سلسلے میں انسان کو آزاد چھوڑتا ہے، چاہے تو انسان ظلم کا راستہ اپنائے، چاہے تو عدالت کی راہ اختیار کرے ۔