حق کا معیار کیا ہونا چاہیے
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
شاید بہت سے لوگ حق کی پیروی کی جانب مائل ہوں اور حق کے پابند ہوناچاہتے ہوں، لیکن حق کی پہچان اور تشخیص کے سلسلے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہو۔ایسے لوگوں کی اکثریت حق تک پہنچنے کے لیے غلط معیارات اور پیمانوں سے استفادہ کرتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ باطل کے کیمپ میں جاپھنستے ہیں جبکہ وہ خود کوحق کا پیروکار سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید ایسے لوگوں کوبدترین لوگ اور انتہائی خسارہ اٹھانے والا قرار دیتا ہے :
قُلْ ہَلْ نُنَبِّءُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالاً اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔
پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارے میں ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں۔ ( سورۂ کہف ۱۸۔آیت ۱۰۳، ۱۰۴)
حضرت علی ؑ خوارج کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کی خامی یہ بتاتے ہیں کہ وہ حق تک پہنچنے کے معیار اور پیمانے کی تشخیص میں غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں، گو کہ حق کی پیروی اور متابعت کے خواہاں ہیں ۔فرماتے ہیں :
لَا تُقَا تِلُوالْخَوَارِجَ بَعْدِیْ، فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاَخْطَأَہُ کَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَدْرَکَہُ۔
میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا، اس لیے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پاسکے وہ اسکی طرح نہیں ہے کہ جوباطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اسے پا بھی لے۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۵۹)
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت کی نظر میں حق کا پیمانہ کیا ہے ؟
کیا معیار یہی ہے کہ جس چیز کے بارے میں لوگوں کی اکثریت رائے دے، یا جس کے زیادہ ماننے والے ہوں، وہی حق ہے ۔جیسا کہ اکثرلوگوں کا یہی خیال ہے اور وہ اسی سے استدلال کرتے ہیں ؟
قرآنِ کریم اس غلط پیمانے کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے :
وَاَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کٰرِہُوْنَ۔
اور ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے ۔ ( سورۂ مومنون ۲۳۔آیت ۷۰)
ایک اور مقام پر ارشادِ الٰہی ہے :
وَ مَآاَکْثَرُالنَّاسِ وَلَوْحَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْن۔
اور آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے۔ (سورۂیوسف ۱۲۔آیت ۱۰۳)
خداوندِ عالم ایک اور مقام پر فرماتا ہے:
وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَمَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ۔
اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کی پیروی کریں گے، تو یہ آپ کو خدا کے راستے سے بہکا دیں گے ۔ (سورۂانعام ۶۔آیت ۱۱۶)
امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں :
لَا تَسْتَوْحِشُوْافِیْ طَرِیْقِ الْھُدَیٰ لِقِلَّۃِ اَھْلِہِ۔
دیکھو ہدایت کے راستے پر چلنے والوں کی قلت سے گھبرانا نہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۹)
اور اسی طرح آپ، حضرت ابوذر غفاری کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
لَا یُؤْ نِسَنَّکَ اِلَّاالْحَقُّ، وَلَا یُوْحِشَنَّکَ اِلَّاالْبٰاطِلُ۔
تمہیں صرف حق سے انسیت ہونی چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۲۸)
آیا حق کا پیمانہ معاشرے کے عمائدین اور بزرگانِ قوم کی رائے ہے ؟ اور اس بنیاد پر جب ہم کسی مسئلے میں یا کسی تنازع میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حق کس طرف ہے، تو ہمیں اسکے لیے بزرگانِ قوم اور بڑی بڑی شخصیات کی جانب رخ کرنا چاہیے، اور جس چیز کو وہ حق قرار دیں اسی کو حق سمجھنا چاہیے، جس فریق کی جانب ان کا جھکاؤ ہو اسی کو صحیح جاننا چاہیے ؟
نہیں یہ پیمانہ بھی درست نہیں، کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ شخصیات اور بزرگ، حق سے بے خبر یا اس سے پھرے ہوئے ہوں، لہٰذا یہ ہمیں گمراہی اور عذاب کی آگ میں جھونک سکتے ہیں ۔قرآنِ کریم اس حقیقت کو ہمارے لیے مجسم کرتے ہوئے فرماتا ہے :
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ ٰیلَیْتَنَآاَطَعْنَا اﷲَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلاَ وَقَالُوْآرَبَّنَآ اِنَّآاَطَعْنَا سَادَتَنَاوَکُبَرَآءَنَافَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاَ۔
جس دن ان کے چہرے جہنم کی طرف موڑدیے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی اور کہیں گے کہ ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ ( سورۂ احزاب ۳۳۔آیت ۶۶، ۶۷)
حضرت علی ؑ نے حضراتِ طلحہ، زبیر اور جناب عائشہ سے جنگ کے دوران اس تنازع کے حل کے سلسلے میں نہایت کوشش کی، یہ لوگ اصطلاحاً بزرگ اور امت کے عمائدین میں شمار ہوتے تھے اور ان کے پیروکار وں کے پاس کیونکہ حق کی تشخیص کا کوئی درست معیار نہ تھا، اس لیے وہ انہی کو حق کا معیار اور پیمانہ سمجھتے تھے ۔
نہج البلاغہ میں ہے کہ ”حارث بن حوط“ امام علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں اصحابِ جمل کو گمراہ مان لوں گا ؟ امام ؑ نے جواب دیا :
یَا حَارِثُ! اِنَّکَ نَظَرْتَ تَحْتَکَ وَلَمْ تَنْظُرْ فَوْقَکَ فَحِرْتَ ! اِنَّکَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاہُ، وَلَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مِنْ أَتَاہُ۔
اے حارث ! تم نے نیچے کی طرف دیکھا ہے اور اوپر نہیں دیکھا ہے، اسی لیے حیران اورسرگرداں ہوگئے ہو ۔تم حق ہی کو نہیں پہچانتے ہو، تو کیا جانو کہ حقدار کون ہے اور باطل ہی کو نہیں جانتے ہو، تو کیا جانو کہ با طل پرست کون ہے ؟۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۲۶۲)
کیا حق کا معیارا و رپیمانہ، آباؤ اجداد کی سیرت ہوسکتی ہے ؟ اور آنے والی نسل کو اپنے اجداد کی تقلید کرنی چاہیے اور ان کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے، جیسا کہ دورِ حاضر کے بہت سے افراد کا یہی وطیرہ ہے ؟ مثلاً مسلمان والدین کے یہاں پیدا ہونے والا بچہ از خود مسلمان ہوتا ہے، اور جس مسلک سے اس کے والدین کا تعلق ہوتا ہے وہی وہ بھی اختیار کر لیتا ہے اور جس راستے پر اسکے ماں باپ چلتے ہیں، وہ بھی بلاچوں و چرا اسی پر چلنا شروع کر دیتا ہے ۔
یہ معیار بھی درست نہیں اور یہ انسان کے ذہن، عقل اور فکر کو جمود کی جانب لے جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اس قسم کی اندھی تقلید کی مذمت کرتا ہے اور اس قسم کے فکر و خیال کے پیروکار افراد کی تضحیک کرتے ہوئے کہتا ہے :
اِنَّاوَجَدْنَآٰابَاءَنَآعَلآی اُمَّۃٍ وَّاِنَّاعَلآی ٰاثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ قَالَ اَوَ لَوْ جِءْتُکُمْ بِاَہْدٰ ی مِمَّاوَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ ٰابَآءَکُمْ۔
ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں، تو پیغمبر نے کہا کہ چاہے میں اس سے بہتر پیغام لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ (سورۂز خرف ۴۳۔آیت ۲۳، ۲۴)
اور اسی بات کی طرف ہمیں متوجہ کرتے ہوئے امام علی ابن ابی طالب ؑ فرماتے ہیں :
وَلَقَدْکُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ، نَقْتُلُ آبَاءَ نَاوَاَبْنَاءََ نَا وَاِخْوَانَنَاوَاَعْمَامَنَا، مَا یَزِ یْدُ نَا ذٰلِکَ اِلَّااِیْمَاناً وَتَسْلِیْماً۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہوکر اپنے بزرگوں، بیٹوں، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے، اس سے ہمارے ایمان اور جذبۂ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا تھا۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۵۶)
پس اگراکثریت کی رائے، بزرگوں کی فکر اور آباؤ اجداد کی سیرت حق کا معیار و پیمانہ نہیں، تو پھرکس کسوٹی سے حق کو پہچانا جائے ؟