معاشرتی ذمے داری
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
اتَّقُوااللّٰہَ فِیْ عِبَادِہِ وَبِلَادِہِ، فَاِنَّکُمْ مَسْؤُو لُوْنَ حَتَّیٰ عَنِ الْبِقَاعِ وَالْبَھَاءِمِ۔
اللہ سے ڈرو، اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی، اس لیے کہ تم سے ہر چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہاں تک کہ زمینوں اور چوپایوں کے بارے میں بھی ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶۵)
امتِ اسلامیہ کی افسوس ناک صورتحال
دورِ حاضر میں امتِ اسلامیہ کی حالت افسوسناک، نا گفتہ بہ اور انحطاط پذیر ہے ۔وہ اسلام، جو اس امت کی عزت و کرامت اور زندگی کا سرچشمہ تھا، اسے میدانِ حیات سے خارج کر دیا گیا ہے اور اب صرف کتب خانوں میں اور علما و دانشوروں کے سینوں میں مقید اور رسوم و رواج کی حد تک باقی رہ گیا ہے ۔جبکہ مسلمان اسلامی ممالک پر غیروں کے تسلط اور غلبے کا نظارہ کرنے والے تماش بین بن کے رہ گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی اقوام بھی جب چاہیں ملتِ ِ اسلامیہ کی عزت و ناموس سے کھیل جاتی ہیں اور مسلمانوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
قومیت، فرقہ واریت، گروہ بندی اور مسلمان حکمرانوں کے ذاتی مفادات نے پیکرِ امت کو جگہ جگہ سے مجروح کر دیا ہے ۔
اسلامی ممالک کے انتہائی مال و دولت اور زرخیز زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود مسلمان فقر و مسکنت، ناتوانی اور محرومیت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور پسماندگی اور انحطاط ہر لحظہ انہیں اپنے شکنجے میں کستا چلا جارہا ہے اور ہر شعبۂحیات پر مسلط اور چھایا ہوا ہے ۔
اگر اس تاسف انگیز اور درد ناک ماحول میں زندگی بسر کرنے والے فرزند انِ امت کے کردار پر نظر دوڑائی جائے، تو اسکا نقشہ کچھ یوں سامنے آتا ہے ۔
۱ ۔ بے تعلقی
افرادِ امت کی اکثریت اجتماعی امور سے بے تعلق ہے، بیشتر لوگوں کی سوچ اور جدوجہد اپنے ذاتی مفاد کی حدود سے باہر نہیں نکلتی۔ جوانی میں ان کی سعی و کوشش کا محور صرف اور صرف اپنی تعلیم ہوتی ہے ۔اس کے بعد اگر ممکن ہوتا ہے تو مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور وہاں سے واپس پلٹنے کے بعد کوئی انتہائی اچھی ملازمت اور بلند عہدہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔پھر آراستہ گھر، نئے ماڈل کی کار اور خوبصورت شریکِ حیات کا حصول ان کا نصب العین بن جاتا ہے ۔
انہی میں سے اگر کسی کو اپنے ذاتی کاروبار کا موقع ملے تو وہ شب و روز اسکی لامحدود وسعت کی فکر میں رہتا ہے ۔ایک کے بعد ایک آفس کھولتا چلا جاتا ہے اور اگر فرصت کے کچھ لمحات میسر آتے ہیں تو انہیں مہنگے ہوٹلوں اور کھانے پینے کے مراکز میں بہترین خوش مزہ کھانوں یا سیر سپاٹے کی نذر کر دیتا ہے ۔ان تمام سرگرمیوں کے دوران اسکے پاس کوئی ایسا وقت نہیں ہوتا جس میں وہ اپنی اجتماعی ذمے داریوں اور معاشرے کے حوالے سے اپنے فرائض کے بارے میں غور وفکر کرے، اپنے دین، اپنے وطن اور انسانیت کو مصائب و مشکلات، رنج و الم سے نجات دلانے کی بابت سوچے۔آپ اس طبقے اور ان حیوانات کے درمیان انتہائی معمولی فرق پائیں گے جنہیں اپنے خورد و خواب کے سوا کسی چیز سے غرض نہیں ہوتی ۔
حضرت علی ؑ اپنے ایک کلام میں مذکورہ طرزِعمل کے حیوانی ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور معا شرتی مسائل سے بے تعلقی کی مذمت کرتے ہوئے، اس مؤقف سے نفرت کا اظہار کرتے اور اسے اپنانے سے منع فرماتے ہیں :
وَلَوْشِءْتُ لَاَ ھْتَدَ یْتُ الطَّرِیْقَ، إِلٰی مُصَفَّیٰ ھٰذَاالْعَسَلِ، وَلُبَابِ ھٰذَاالْقَمْحِ، وَنَسَا ءِجِ ھٰذَاالْقَزِّ، وَلٰکِنْ ھَیْھَا تَ أَنْ یَغْلِبَنِیْ ھَوَایَ، وَیَقُوْدَنِیْ جَشَعِیْ إِلَیٰ تَخَیُّرِالْأَ طْعِمَۃِ۔وَلَعَلَّ بِا لْحِجَازِ أَوِالْیَمَا مَۃِ مِنْ لَا طَمَعَ لَہُ فِی الْقُرْصِ، وَلَاعَھْدَ لَہُ بِا لشِّبَعِ۔أَوْأَبِیْتَ مِبْطَاناً وَحَوْلِیْ بُطُوْنٌ غَرْثَیْ وَأَکْبَادٌ حَرَّیٰ، ۔۔۔۔فَمَاخُلِقْتُ لِیَشْغَلَنِیْ أَکْلُ الطَّیِّبَاتِ کَالْبَھِیْمَۃِ الْمَرْبُوَطَۃِ ھَمَّھَا عَلَفُھَاأَوِالْمُرْسَلَۃِ شُغْلُھَا تَقَمُّمُھَا۔۔۔۔
اگر میں چاہتا تو خالص شہد، عمدہ گیہوں اور ریشمی کپڑوں کے حصول کے ذرائع پیدا کر سکتا تھا ۔لیکن ایسا کہا ں ہوسکتا ہے کہ خواہشات مجھ پر غلبہ کر لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے، جبکہ بہت ممکن ہے کہ حجاز یا یمامہ میں ایسے افراد بھی ہوں جنہیں ایک روٹی بھی ملنے کی آس نہ ہو اور کبھی انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہوا ہو ۔کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہوں اس حال میں کہ میرے گردوپیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں ۔۔۔۔میں اس لیے تو پیدا نہیں کیا گیا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں اور ان جانوروں کی مانند ہوجاؤں کہ جب وہ بندھے ہوئے ہوتے ہیں تو ان کی پوری فکر اپنے چارے کے لیے ہوتی ہے اور آزاد ہوتے ہیں تو ان کا تمام مشغلہ اِدہر اُدہر منہ مارکر چرنا ہوتا ہے۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب۴۵)
امام ؑ اسی کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :
أَتَمْتَلِئُ السَّاءِمَۃُ مِنْ رَعْیِھَا فَتَبْرُکَ ؟ وَتَشْبَعُ الرَّبِیْضَۃُ مِنْ عُشْبِھَا فَتَرْبِضَ؟ وَیَاْکُلُ عَلِیٌّ مِنْ زَادِہِ فَیَھْجَعَ ؟ قَرَّتْ إِذًا عَیْنُہُ إِذَا اقْتَدَیٰ بَعْدَ السِّنِیْنَ اأَمُتَطَاوِلَۃِ بِالْبَھِیْمَۃِ الْھَا مِلَۃِ وَالسَّاءِمَۃِ الْمَرْعِیَّۃِ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ جس طرح بکریاں پیٹ بھرنے کے بعد سینے کے بل بیٹھ جاتی ہیں اور گھاس سے سیر ہوکر اپنے باڑے میں لیٹ جاتی ہیں، اسی طرح علی بھی اپنے آس پاس کا کھانا کھا کر سوجائے ۔اسکی آنکھیں پھوٹیں اگر وہ زندگی کے طویل سال گزارنے کے بعد آوارہ مویشیوں اور چرنے والے حیوانات کی پیروی کرنے لگے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب۴۵)
۲ ۔ منفی طرزِعمل
بعض لوگ امت کی اس پسماندگی اور انحطاط کو درک کرتے ہیں اور اس درد ناک اور تاسف انگیز صورتحال پر رنجیدہ بھی ہیں لیکن اس کے ازالے کے لیے کوئی ذمے دار ی ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتے، بلکہ اس صورتحال سے چھٹکارے کے لیے کوششوں کا خود کو ذمے دار ہی نہیں سمجھتے، اور اپنے آپ کو ان حالات میں تبدیلی لانے کے لیے جدوجہد کا پابند نہیں سمجھتے۔
ان کے نزدیک ہر فرد کی ذمے داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرے، پابندی سے نماز پڑھے، حقوقِ شرعی ادا کرے اور محرمات سے پرہیز کرے ۔جب کبھی یہ لوگ معاشرے کی گمراہی اور امت کی زبوں حالی کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو ہائے افسوس، لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور رنجیدہ لہجے میں انا للہ وانا الیہ راجعون جیسے کلمات زبان سے جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہیں اس نے ان گمراہیوں، لغزشوں اور کٹھن حالات سے محفوظ رکھا ہے ۔
کیا یہ کہنا کہ انسان صرف اپنی اصلاح کا ذمے دار ہے درست اور عاقلانہ بات ہے ؟ کیا اسے دوسروں کی گمراہی، انحراف اور خرابیوں سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے ؟خواہ ساری دنیا گمراہی کے گہرے گڑھے میں جاپڑے !! نیز کیا اسے اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات، پریشانیوں اور مصائب دیکھنے کے باوجود صرف تأسف کے اظہار پر اکتفا کرنا چاہیے ؟
کیا روزِ قیامت خدا وندِ عالم ہم سے صرف نماز، روزے اور انفرادی فرائض کے بارے میں سوال جواب، حساب کتاب کرے گا ؟ کیا اجتماعی فرائض و ذمے داریوں اور اصلاحِ معاشرہ کے فریضے کے بارے میں ہم سے سوال نہیں کیا جائے گا ؟
ان سوالات کے جواب ہماری آئندہ گفتگو کے دوران واضح ہوجائیں گے ۔
۳ ۔ ذمے داری قبول کرنا
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کے بارے میں خود کو ذمے دار سمجھے جو اسکے سامنے واقع ہوتی ہیں، جو اسے نظر آتی ہیں ۔نیز اسے معاشرے کے اقتصادی مسائل کی اصلاح، سماج میں عدل و انصاف کے قیام اور دنیا میں امتِ اسلامیہ کی عزت و وقار کی حفاظت اور سر بلندی کے سلسلے میں اپنی ذمے داری قبول کرنی چاہیے اور اسے اس بات پر پکا اعتقاد رکھنا چاہیے کہ روزِ قیامت خداوندِ متعال اسکے اجتماعی کردار کے بارے میں بھی مواخذہ کرے گا ۔
مذکورہ مؤقف کی حقانیت کے ثبوت کے لیے درجِ ذیل نکات پیشِ خدمت ہیں ۔
اگر خدا وند متعال ہم سے سوال کرے کہ اس روئے زمین پر ہماری خلقت کا کیا مقصد ہے؟ تو اس سوال کے جواب کی تلاش کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی صریح آیات روئے زمین پر ہماری خلقت کا مقصد زمین کی اصلاح اور آباد کاری قرار دیتی ہیں ۔آیاتِ قرآنی کی رو سے انسان اس زمین پر خدا کا خلیفہ، نائب اور نمائندہ ہے ۔جب خداوندِ متعال نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کیا، تو فرشتوں سے فرمایا :
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔
میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۳۰)
ایک اور آیت میں فرمایا :
وَ ہُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ الْاَرْضِ۔
وہی وہ خدا ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا ۔ (سورۂ انعام ۶۔آیت ۱۶۵)
نیز فرمایا :
ہُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا۔
وہ ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اس کی آبادکاری تمہارے سپرد کی ہے ۔ (سورۂ ہود ۱۱۔ آیت ۶۱)
اگر ہم زمین پر خدا کے نمائندے، خلیفہ اور جانشین ہیں، تو کیا زمین پر ہونے والی سرگرمیوں کے ذمے دار نہیں ؟ کیا ایک تاجر جو باہر کسی مقام پر اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہے، اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ وہاں اپنے تجارتی معاملات کے بارے میں اس نمائندے سے سوال جواب کرے، اسکا محاسبہ کرے ؟ اسی طرح ایک ایسا شخص جو کسی کو اپنے کسی کام کے لیے اپنا نمائندہ اور کارندہ معین کرتا ہے، کیا اسے اس نمائندے سے یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ اسکے کاموں کو حسن و خوبی سے نمٹائے گا اور اسے نقصان سے محفوظ رکھے گا ؟
واضح بات ہے کہ جب خدا وندِ عالم ہمیں زمین پر اپنا نمائندہ اور خلیفہ قرار دے گا، تو ہم سے زمین میں اصلاحی عمل انجام دینے اور گمراہیوں اور تباہ کاریوں کے خلاف جدوجہد کا تقاضا بھی کرے گا ۔
ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلآءِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۔
اس کے بعد ہم نے تم کو روئے زمین پر ان کا جانشین بنادیا تاکہ دیکھیں کہ اب تم کیسے اعمال کرتے ہو ۔ (سورۂیونس ۱۰۔آیت ۱۴)
فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُوْلُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ۔
تو تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں میں ایسے صاحبانِ عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے ۔ (سورۂ ہود ۱۱۔آیت ۱۱۶)
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَٰاتَوُاالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَر۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا، تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ۔ (سورۂحج ۲۲۔آیت ۴۱)
یہ جان لینے کے بعد کہ ہماری خلقت کا مقصد زمین کی آباد کاری، اصلاح اور یہاں حق اور نیکی کا قیام ہے، کیا یہ بات صحیح ہوگی کہ ہم اپنی آنکھوں سے یہ درد ناک مناظر دیکھنے کے بعد بھی لاتعلقی کا کردار اپنائیں ؟
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
فَاِنَّکُمْ مَسْؤُولُونَ حَتَّیٰ عَنِ الْبِقَاعٍ وَالْبَھَاءِمِ۔
تم سے ہر چیز کے بارے میں باز پرس کی جائے گی یہاں تک کہ زمینوں اور مویشیوں کے بارے میں بھی ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶۵)
خدا وندِ عالم نے اس عظیم الشان دین (اسلام ) کو انسانوں کو شقاوت، جہل اور گمراہی سے نجات دلانے اور سعادت اور ابدی کمال کی سمت سفر کے لیے نازل کیا ہے، تاکہ یہ حیاتِ انسانی کے ہر میدان اور ہر پہلو کی تنظیم کرے ۔
ہر مسلمان بغیر کسی شک و شبہے کے اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اسلام اہلِ زمین کی سعادت اورقیادت کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔اس بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے :
وَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰای وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔
وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے ۔(سورۂ توبہ ۹۔آیت ۳۳ )
نیز ارشاد ہوتا ہے :
لَقَدْاَرْسَلْنَا رُسُلَنَابِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ (سورۂ حدید ۵۷۔آیت ۲۵)
ایک دوسری آیت میں آیاہے :
اِنَّآاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآاَٰرکَ اﷲُ۔
ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگوں کے درمیان حکمِ خدا کے مطابق فیصلہ کریں ۔ ( سورہ نسا ۴۔آیت ۱۰۵)
تاہم کس طرح اسلام کو اپنی زندگی میں لاگو کر کے اس کا اجرا کیا جاسکتا ہے ؟ کیا فرشتوں یا جنات کے توسط سے خدا کی براہِ راست مداخلت کے ذریعے اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن ہے ؟ یعنی کیا خدااسلامی قوانین کابالجبر نفاذ کرے گا ؟ یا جو لوگ اسلامی قوانین کی پابندی نہ کریں انہیں تباہ و برباد کر دے گا ؟
اگر براہِ راست آسمانی مداخلت ہو تو درحقیقت اس سے انسانی زندگی کی قدر و قیمت اور اہمیت ہی ختم ہوجائے گی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیاوی زندگی کو انسانوں کی آزمائش کا مقام بنایا ہے ۔لہٰذا اس امتحان گاہ میں انسان کو مکمل طور پر آزادی اور اختیار کا مالک ہونا چاہیے ۔
خدا وندِ عالم خود انسانوں کے توسط سے روئے زمین پر اپنی شریعت کا نفاذ چاہتا ہے، لہٰذا اس دین پر عمل پیرا انسانوں کو الٰہی شریعت کے نفاذ اور اسے جامۂ عمل پہنانے کے سلسلے میں فعال اور مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے ۔
جس طرح معاصر مکاتب جیسے کمیونزم اور کیپٹل ازم کے طرفدار، ان نظاموں کے نفاذ کے لیے جدید ذرائع کے ذریعے سے وسیع سرگرمیوں میں مشغول ہیں، اسی طرح فرزندانِ اسلام اور دین خدا کے پیروکاروں پر بھی فرض ہے کہ اسلام کی تبلیغ وترویج اور نفاذ کے لیے انتھک اور بے وقفہ جدوجہد کریں ۔
جب اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل پر اپنے دشمنوں سے جنگ کا فریضہ عائد کیا، تو ان لوگوں نے کاہلی کا مظاہرہ کیا اور خدا وندِ عالم سے کہا کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ کے ساتھ اس مہم کو انجام دے۔
اس موقع پر اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو کیا جواب دیا ؟ اور ان کا کیا انجام ہوا، قرآنِ کریم اس بات کو ہمارے گوش گزار کرتے ہوئے فرماتا ہے :
ٰیقَوْمِ ادْخُلُواالْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلااَا تَرْتَدُّوْا عَلآی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْاخٰسِرِیْنَ قَالُوْایَامُوْسٰٓی اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَوَ اِنَّا لَنْ نَّّدْخُلَہَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَی اﷲِ فَتَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ قَالُوْا یَامُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْافِیْھَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلااَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لااَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقاْا بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔
اور اے قوم اس ارضِ مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور میدان سے الٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ کہ الٹا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے ۔ان لوگوں نے کہا کہ موسیٰ وہاں تو جابروں کی قوم آباد ہے اور اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل گئے تو ہم یقیناًً داخل ہوجائیں گے ۔مگر دو انسان جنہیں خدا کا خوف تھا اور ان پر خدا نے فضل و کرم کیا تھا انہوں نے کہا کہ ان کے دروازے سے داخل ہو جاؤ، اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو یقیناًً غالب آجاؤ گے اور اللہ پر بھروسا کرو اگر صاحبانِ ایمان ہو ۔ان لوگوں نے کہا کہ موسیٰ ہم ہر گز وہاں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جاکر جنگ کیجیے، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار! میں صرف اپنی ذات اور اپنے بھائی کا اختیار رکھتا ہوں لہٰذا ہمارے اور اس فاسق قوم کے درمیان جدائی پیدا کر دے ۔ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کر دیے گئے کہ یہ زمین میں چکر لگاتے رہیں گے۔ لہٰذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو ۔ (سورۂ مائدہ ۵۔آیت ۲۱تا۲۶)
اگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام، انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں طرزِ حیات اور دستورِ عمل کے طور پر نفاذ اور اجرا کے لیے خدا وندِ متعال کی طرف سے نازل ہوا ہے، نیز خدا کی جانب سے اسکے نفاذ اور قیام کے لیے عالمِ غیب سے دخل اندازی کا امکان نہیں، تو اس عقیدے کی رو سے ہم پر اسلام کے رواج اور معاشرے میں اسکے نفاذ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔اس بارے میں خدا وندِ سبحان فرماتا ہے :
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنکُمْٰ اُمَّۃً وَّسَطًالِّتَکُوْنُوْاشُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا۔
اور ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے، تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں ۔ (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۱۴۳)
نیز فرماتا ہے :
کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍاُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر۔
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے منظرِ عام پر لایا گیا ہے، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو ۔ (سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۱۱۰)
یہیں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے انفرادی فرائض کی بجا آوری سے آگے بڑھ کر معاشرے میں انقلاب اور اسلامی قوانین کی بنیاد پر عوام الناس کی اصلاح بھی ہماری ذمے داری ہے ۔
پس اگر مسلمان نماز اور روزے وغیرہ جیسے اعمال کی پابندی کے ذریعے یہ سمجھتے ہوں کہ اس طرح وہ اپنے دین کی حفاظت کر رہے ہیں اور وہ معاشرتی سطح پر کسی انقلابی عمل اور اجتماعی کردار کے حامل نہ ہوں، تو کیا نتیجہ برآمد ہوگا ؟
ظاہر ہے کہ مومنین کی اس بے عملی کا ناقابلِ اجتناب اور حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ باطل اور برائیوں کو کھلا میدان مل جائے گا، پھر ظالم اور اشرار معاشرے پر مسلط ہوجائیں گے اور معاملات کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی ۔کیونکہ یہی معاشرتی حیات کی خاصیت اور رسم ہے۔ خداوندِ متعال فرماتا ہے :
وَلَوْلاَ دَفْعُ اﷲِالنَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ۔
اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا۔ ( سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۲۵۱)
اور اگر معاشرے پر ظالموں اور اشرار کی حکومت قائم ہوجائے اور وہ تمام معا ملات اورامور پر قابض ہوجائیں، تو کیا اسکے بعد نماز گزار اور روزہ دار افراد ان اشرار کے ظلم و ستم، ان کی تباہ کاریوں اور پابندیوں سے محفوظ رہ سکیں گے ۔یا یہ کہ ظالم سب سے پہلے انہی پر ہاتھ صاف کریں گے ؟ سب سے پہلے انہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا ؟
تاریخی تجربات اور ماضی کے حوادث و واقعات کا فراہم کردہ ثبوت یہ ہے کہ جب ظالم اور بدکار لوگ معاشرے کے معا ملات اور حکومت و اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، تو گوشہ نشین اور معاشرتی امور سے بے تعلق لوگوں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حد یہ ہے کہ وہ نماز گزاروں کو بھی آسانی کے ساتھ نماز ادا کرنے نہیں دیتے، انہیں بھی آرام و سکون سے نہیں رہنے دیتے ۔
اب چارۂ کار کیا ہے ؟
ہمیں علاج سے پہلے پرہیز اور حادثے سے پہلے احتیاط کی ضرورت ہے ۔لہٰذا ظلم و ستم، برائیوں اور گمراہیوں کے غلبے سے پہلے اور اس سے قبل کہ برائیاں اور تباہکاریاں ہم پر مسلط ہوجائیں اور ہمارے انفرادی فرائض و واجبات کی ادائیگی میں بھی مانع ہونے لگیں، ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے اور یہ وہ واحد راہِ حل ہے جسے دین اسلام نے بھی ہم پر لازم اور واجب کیا ہے ۔اس بارے میں خداوندِ منان کی ہدایت ہے :
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْامِنْکُمْ خَآصَّۃً۔
اور اس فتنے سے بچو جو صرف ظالمین کو پہنچنے والا نہیں ہے ۔ (سورۂ انفال ۸۔آیت ۲۵)
نیز حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے :
لَاتَتْرُکُواالْاَمْرَبِا لْمَعْرُوْفِ وَا لنَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کو کبھی ترک نہ کرنا، ورنہ تم پراشرار کی حکومت قائم ہوجائے گی، پھر تم دعا مانگو گے، تو قبول نہ ہوگی ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۴۷)
اور آپ ہی نہج البلاغہ میں ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
لَوْلَمْ تَتَخَاذَلُوْاعَنْ نَصْرِالْحَقِّ، وَلَمْ تَھِنُوْاعَنْ تَوْھِیْنِ الْبَاطِلِ، لَمْ یَطْمَعْ فِیْکُمْ مَنْ لَیْسَ مِثْلَکُمْ، وَلَمْ یَقْوَمَنْ قَوِیَ عَلَیْکُمْ۔
اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوتاہی کے مرتکب نہ ہوتے اور با طل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے، تو تم پر وہ قوم دانت نہ رکھتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہوتے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۶۴)
شریعتِ اسلام، نہایت صاف صاف الفاظ میں ہمیں معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کی اصلاح کا ذمے دار قرار دیتی ہے اور معاشرے میں انقلاب اور تبدیلی کے لیے جدوجہد ہم پر واجب قرار دیتی ہے ۔پس نیکیوں کی ترویج اور برائیوں کا انسداد، دو ایسے شرعی فرائض ہیں جو نماز اور روزے وغیرہ سے کم اہم نہیں ۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
وَ لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہیے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے، اور ایسے ہی لوگ نجات یافتہ ہیں ۔ (سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۱۰۴)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ۔
تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اپنے زیرِ نگراں لوگوں کا جوابدہ ہے ۔ (نہج الفصاحہ)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
مَاأَخَذَاللّٰہُ عَلَیٰ أَھْلِ الْجَھْلِ أَنْ یَتَعَلَّمُوْاحَتَّیٰ أَخَذَعَلَیٰ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یُعَلِّمُوْا۔
اللہ تعالیٰ نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہد لینے سے پہلے علما سے تعلیم دینے کا عہد لیا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۴۷۸)
اسی طرح آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:
وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَالنَّسَمَۃَ، لَوْلَاحُضُوْرُالْحَاضِرِوَقِیَامُ الْحُجَّۃِبِوُجُوْدالنَّاصِرِوَمَاأَخَذَاللّٰہُ عَلَی الْعُلَمَاءِ أَ لَّا یُقَارُّوْاعَلَیٰ کِظَّۃِ ظَالِمٍ وَلَاسَغَبِ مَظْلُوْمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَھَاعَلَی غَارِبِھَا۔
وہ خدا گواہ ہے جس نے دانے کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضر ین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور اللہ کا اہلِ علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبر دار ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک پر چین وقرارسے نہ بیٹھے رہنا، تو میں آج بھی خلافت (کے اس اونٹ) کی لگام اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس سے صرفِ نظر کرتا ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۳)
جی ہاں ! شریعتِ اسلامی جرم و جنایت، ظلم وستم دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہنے والے کو ظالم اور مجرم کا شریکِ کار قرار دیتی ہے ۔اور اس تماشائی کو بھی عذاب اور سزا کا مستحق سمجھتی ہے۔ اس بارے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
ان اللّٰہ اوحی الی نبیہ شعیب انی معذب من قومک ماءۃ الف، اربعین من شرارھم وستین من خیارھم! قال شعیب: یارب، ھولاء الاشرار، فماذنب الاخیار؟ قال:لانھم داھنوااھل المعاصی ولم یغضبوالغضبی۔
اللہ رب العزت نے اپنے ایک نبی حضرت شعیب پر وحی کی کہ میں تمہاری قوم کے ایک لاکھ افراد کو عذاب کا مزہ چکھاؤں گا ۔ان میں سے چالیس ہزار افراداشرار ہیں اور ساٹھ ہزار افراد نیک ہیں ۔حضرت شعیب نے عرض کیا : اے پروردگار ! اشرار کو تو ان کے کیے کی سزا ملے گی لیکن ان نیک افراد کا گناہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ لوگ گناہگار افراد کے ساتھ رہا کرتے تھے اور میرے ان سے ناراض ہونے کے باوجود یہ ان سے اظہارِ ناراضگی نہ کرتے تھے ۔
آنحضرتؐ ہی کا فرمان ہے :
من رای سلطاناجائزا۔۔۔فلم یغیرعلیہ بقول ولابفعل کان حقاعلی اللّٰہ ان ید خلہ مدخلہ۔
جو کوئی بھی ظالم بادشاہ کے دور میں زندگی بسر کرے۔ ۔۔۔اور اپنے قول یا عمل سے اسے بدلنے کی کوشش نہ کرے، تو خدا وندِ عالم کو حق حاصل ہے کہ جہاں اس (ظالم بادشاہ) کو ڈالے، اس شخص کا ٹھکانہ بھی وہیں قرار دے ۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
الرَّاضِیْ بِفِعْلِ قَوْمٍ کَالدَّاخِلِ فِیْہِ مَعَھُمْ ۔
کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہی ہے جیسے اس فعل میں شریک ہو۔ (نہج البلاغہ ۔کلمات قصار ۱۵۴)
نیزآپ ہی فرماتے ہیں :
اِنَّمَایَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضَيٰ وَالسُّخْطُ وَاِنَّمَاعَقَرَنَاقَۃَ ثَمُوْدَرَجُلٌ وَّاحِدٌفَعَمَّھُمُ اللّٰہُ بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوْہُ بِا لرِّضَيٰ، فَقَالَ سُبْحَانَہُ: فَعَقَرُوْہَافَاَصْبَحُوْانَادِمِیْنَ۔
یاد رکھو کہ (افعال و اعمال مختلف ہونے کے باوجود ) رضامند اور ناراضی ہونے کے جذبات ہی تمام لوگوں کو ایک حکم میں لے آتے ہیں ۔ آخرصالح کے ناقے کے پیر ایک ہی شخص نے کاٹے تھے لیکن اللہ نے عذاب سب پر نازل کیا، کیونکہ باقی تمام لوگ اس شخص کے اس عمل پر راضی تھے اور فرمایا : ان لوگوں نے ناقے کے پیر کاٹ ڈالے اور آخرمیں ندامت کا شکار ہوگئے۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ۱۹۹)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
فَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ لَمْ یَلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِیَ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ اِلَّالِتَرْکِھِمْ الْاَمْرَبِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَلَعَنَ اللّٰہُ السُّفَھَاءَ لِرُکُوْبِ الْمَعَاصِیْ وَالْحُلَمَاءَ لِتَرْکِ التَّنَاہِیْ۔
دیکھو خدا وندِعالم نے تم سے پہلے گزر جانے والی قوموں پر صرف اس لیے لعنت کی ہے کہ وہ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر چکی تھیں، جس کے نتیجے میں جہلا پر ارتکابِ گناہ کی بنا پر لعنت ہوئی اور علما پر انہیں اس سے باز نہ رکھنے کی بنا پر لعنت کی گئی ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۰)
خلاصۂ کلام
امت انحطاط اور پسماندگی میں مبتلا ہے اور اسکی یہ حالت انتہائی افسوس ناک اور غم انگیز ہے۔
ان حالات کے مقابل مسلمانوں کا موجودہ طرزِ عمل انتہائی غیر ذمے دار انہ اور غیر انسانی ہے۔
امت پر پڑنے والے مصائب و آلام کو دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کا تماشائی بنے رہنا اور ان مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں کوششوں سے لاتعلق رہنا ان کی خود غرضی اور عاقبت نا اندیشی کی انتہا ہے ۔
عقل و شرع کی رو سے درست مؤقف یہ ہے کہ ہر مسلمان موجودہ حالات کی اصلاح اور کمال و سعادت کی سمت انسانیت کی رہنمائی کے سلسلے میں اپنی ذمے داری سے عہدہ بر آہو۔
َ مختصر یہ کہ شریعتِ اسلامی انتہائی صراحت کے ساتھ اور واضح الفاظ میں وقوع پذیر ہونے والی صورتحال کی ذمے داری خود ہمارے کاندھو ں پر ڈالتی ہے اورہم پر واجب اور فرض کرتی ہے کہ ہم حوادث کا سامنا کریں، اپنی زندگی کے لیے راستے کاتعین کریں اور اپنی زندگی کوایک سمت اور رخ دیں ۔