معاشرے میں ظلم کی مختلف شکلیں
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
نہج البلاغہ میں عدالت کے مفہوم اور اسکے اجتماعی پہلو کی وضاحت کے لیے معاشرتی ظلم اور نا انصافی کی مختلف شکلوں اور اس بارے میں امام علی ؑ کے مؤقف کوواضح کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ چیزوں کو ان کی ضد ہی کے ذریعے پہچانا جاتا ہے ۔
۱ ۔فقر و محرومی
خدا وندِ عالم، جو انسانون کا خالق ہے، اس نے ایک ایک انسان حتیٰ ہر زندہ موجود کے رزق و روزی کی فراہمی کو اپنے ذمے لیا ہے ۔اس بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
”وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُہَا۔“
” اور زمین پر حرکت کرنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کا رزق خدا کے ذمے نہ ہو۔“ ( سورۂہود ۱۱۔آیت ۶)
یہ روزی کائنات کے اندر اور اسکی نعمتوں میں پنہاں ہے ۔ پس ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ خدا کے ان خزانوں سے اپنی روزی اور اپنا حصہ وصول کرے ۔البتہ ایسے افراد جو جسمانی یا معاشرتی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ براہِ راست قدرت کے ان خزانوں سے اپنی روزی اور حصہ حاصل کرسکیں، تو کیا ان کا ان خزانوں پر کوئی حق نہیں اور فقر و محرومی کی زندگی ان کا مقدر ہے اور انہیں بھوک سے مر جانا چاہیے ؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں بلکہ خدا وندِ عالم نے محنت مشقت اور کام و عمل کی طاقت رکھنے والوں نیز دولت مندوں پر واجب کیا ہے کہ وہ ان نا تواں لوگوں اور محتاجوں کی ضروریات اور روزی کا بندو بست کریں ۔ارشادِ الٰہی ہے :
وَفِیْٓاَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔
اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم افراد کے لیے ایک حق ہے ۔ ( سورۂ ذاریات ۵۱۔آیت ۱۹)
پس اگر مالدار اور ثروت مند لوگ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی محرومیت کے خاتمے کے لیے ان کی معاشی ضروریات پوری نہ کریں تو یہ ظلم، تعدی اور تجاوز ہے اور خدا وندِ ِ عالم ان سے خوش نہ ہوگا اور اسلام کی عادلانہ شریعت اس بات کو پسند نہیں کرتی ۔آئیے ہمارے ساتھ دیکھئے امیر المومنین ؑ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں :
إِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ فَرَضَ فِیْ اَمْوَالِ الْأَغْنِیْاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ فَمَا جَاعَ فَقِیْرٌ إِلَّا بِمَا مُتِّعَ بِہِ غَنِیٌّ، وَاللّٰہُ تَعَالَیٰ سَاءِلُھُمْ عَنْ ذٰالِکَ۔
خدا وندِ عالم نے دولتمندوں کے مال میں فقیروں کا رزق مقرر کیا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لیے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ کر رکھا ہوا ہے اور خدائے بزرگ و برتراس سے اس (عمل) کا مواخذہ کرے گا ۔ ( نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۳۲۸)
امام ؑ نے مکہ میں اپنے گورنر ”قثم بن عباس“ کو تحریر کیا :
وَانْظُرْ اِلَیٰ مَااجْتَمَعَ عِنْدَ کَ مِنْ مَالِ اللّٰہِ فَاصْرِفْہُ اِلَیٰ مَنْ قِبَلَکَ مِنْ ذَوِی الْعِیَالِ وَالْمَجَاعَۃِ، مُصِیْباً بِہٖ مَوَاضِعَ الْفَاقَۃِ وَالْخَلَّاتِ۔
جو اموال تمہارے پاس جمع ہوجائیں ان پر نظر رکھو اور تمہارے یہاں جو عیال دار اور بھوکے ننگے لوگ ہوں ان پر صرف کردو، یہ لحاظ رکھتے ہوئے کہ یہ (مال) حقیقی محتاجوں اور ضرورت مندوں تک پہنچے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۶۷)
آپ نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں یوں فرمایا :
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الطَّبَقَۃِ السُّفْلَیٰ مِنَ الَّذِینَ لَا حِیْلَۃَ لَھُمْ، وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْمُحْتَاجِیْنَ وَأَھْلِ الْبُؤْسَیٰ وَالزَّمْنَیٰ ۔۔۔۔
اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقے کے بارے میں جو مساکین، محتاج، فقرا اور معذور افراد کا طبقہ ہے، جس کا کوئی سہارا نہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۵۳)
اگر بے درد دولتمند وں اور خوش حال لوگوں کا طبقہ عدالت کی راہ سے ہٹ جائے، تجاوز کرے اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کو فقرومحرومی کا عذاب سہنے کے لیے تنہا چھوڑدے تو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا اسکے خطر ناک نتائج درج ذیل ہوں گے ۔
الف : طبقاتی تفریق
ایسے حالات میں چند لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگ جاتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت محرومی اور مشکلات کی شدت سے پیچ و تاب کھاتی ہے ۔جوں جوں وقت گزرتا ہے دولتمندوں کی دولت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور محروم و فقیر لوگ رنج و الم کے ساتھ دردناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔حضرت فرماتے ہیں :
اضْرِبْ بِطَرْفِکَ حَیْثُ شِءْتَ مِنَ النَّاسِ۔ فَھَلْ تُبْصِرُ اِلَّا فَقِیْراً یُکَابِدُُ فَقْراً، اَوْغَنِیًّا بَدَّلَ نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْراً۔
جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ، تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقروفاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولتمند نعمتوں کو کفر انِ نعمت سے بدل رہا ہے ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۔۱۲۷)
امام علی ؑ انتہائی صریح اور دوٹوک الفاظ میں طبقاتی معاشرے پر تنقید کرتے ہیں اور اسے قابلِ مذمت قرار دیتے ہیں ۔بصرہ میں اپنے گورنر ”عثمان بن حنیف“ کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں :
مَا ظَنَنْتُ أَنَّکَ تُجِیْبُ إِلیٰ طَعَامِ قَوْمٍ، عَاءِلُھُمْ مَجْفُوٌّ، وَغَنِیُّھُمْ مَدْعُوٌّ۔
مجھے تو یہ گمان بھی نہ تھا کہ تم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کر لوگے جن کے یہاں فقراو نادار وں کا داخلہ ممنوع ہوگا اور جہاں دولتمند مدعو ہوں گے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۴۵)
ب : گمراہی اور جرائم
مسلسل فقر و محتاجی درحقیقت جرائم اور بدعنوانیوں بشمول چوری، لوٹ مار اور دھوکا دہی وغیرہ کا موجب ہے ۔اس بارے میں امام علی ؑ فرماتے ہیں :
وَاِذَابَخِلَ الْغَنِیُّ بِمَعْرُوْفِہِ بَاعَ الْفَقِیْرُآخِرَتَہُ بِدُنْیَاہُ۔
اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا تو فقیر بھی آخرت کو دنیا کے عوض بیچنے پر آمادہ ہوجائے گا ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۳۷۲)
ج :معاشرتی بے چینی اور بد نظمی
پس ضرورت مند اور محتاج لوگ کب تک بھوک کی اذیت اور محرومیت برداشت کریں گے؟ یقیناًً ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور وہ ایک انقلاب اٹھادیں گے ۔امام ؑ فرماتے ہیں :
وَالْحَیْفَ یَدْعُوْ إِلَیٰ السَّیْفِ۔
اور ظلم و ستم (لوگوں کو)تلوار اٹھانے پر مجبور کردے گا ۔ (نہج البلاعہ ۔کلماتِ قصار ۴۷۶)
۲ ۔یکساں مواقع فراہم نہ ہونا
یہ معاشرتی ظلم و نا انصافی کی شکلوں میں سے دوسری شکل ہے ۔ اس شکل میں معاشرے میں موجود مالی اور اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع صرف ایسے گروہ کو فراہم ہوتا ہے جس کا تعلق حکومتی مشنری سے ہو اور جو حاکمِ وقت کے اقربا میں سے ہوں ۔ اس وجہ سے قیادت اور حکومت کے مراکز پر نا اہل لوگ قابض ہوجاتے ہیں اور پھر لوگوں کے حقوق اور ان کی شخصیت، کرامت اور عزت و احترام سے کھیلا جاتا ہے ۔جبکہ اہل اور لائق افراد موقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو میدان سے باہر نکال لیتے ہیں ۔ بنابرایں معاشرہ ان کے علم و تجربے، خدمات اور مختصر یہ کہ ان کے مفید وجود سے محروم ہوجاتا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس بارے میں سخت مؤقف کا مظاہرہ کیا اور جوں ہی آپ نے خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی فوراً ہی وہ تمام سیاسی اور اقتصادی امتیازات ان لوگوں سے سلب کر لیے جو انہیں سابق دورِ حکومت میں خاندان اور قبیلے اور دوستی کی بنیاد پر دیے گئے تھے اور اس بارے میں فرمایا :
وَاللّٰہِ لَوْ وَجَدْ تُہُ (المال) قَدْ تُزُوِّجَ بِہِ النِّسَاءُ، وَمُلِکَ بِہِ الْاِ مَاءُ، لَرَدَدْتُہُ، فَاِنَّ فِی الْعَدْلِ سَعَۃً، وَمَنْ ضَاقَ عَلَیْہِ الْعَدْلُ، فَالجَوْرُ عَلَیْہِ أَضْیَقُ ۔
خدا کی قسم ! اگر مجھے ایسا مال بھی کہیں نظر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہوتا، تو اسے بھی واپس پلٹا لیتا، کیونکہ عدل میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کو عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی صورت میں تو اور زیادہ تنگی محسوس ہوگی ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۵)
امام علی ؑ نے خلافت سنبھالتے ہی حکومتی مشنری میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کیا۔سابقہ حکومت کے تمام گورنروں کو معزول کردیا ۔انہی گورنروں میں شام کا طاقتور گورنر معاویہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح حضراتِ طلحہ و زبیر کے سلسلے میں بھی سخت مؤقف اختیار کیا۔ آپ نے سیاست میں مساوات کو رواج دیا اور لوگوں کے درمیان مال کی تقسیم کے دوران کوئی فرق نہ رکھا ۔اور جب آپ سے اس بارے میں بعض لوگوں نے گلہ کیا تو آپ نے اپنی عادلانہ سیاست کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا :
اَتَاْ مُرُوْنِّیْ اَنْ اَطْلُبَ النَّصْرَ بِا لْجَوْرِ فِیْمَنْ وُلِّیْتُ عَلَیْہِ ! وَاللّٰہِ لَا اَطُوْرُ بِہِ مَاسَمَرَ سَمِیْرٌ، وَمَا اَمَّ نَجْمٌ فِی السَّمَاءِ نَجْماً ! لَوْکَانَ الْمَالُ لِیْ لَسَوَّیْتُ بَیْنَھُمْ ۔فَکَیْفَ وَاِنَّمَا الْمَالْ مَالُ اللّٰہِ۔
کیا تم مجھے اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمے دار بنایا گیا ہوں ان پرظلم کر کے چند افراد کی امدادحاصل کرلوں ؟ خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارے کی طرف جھکتا رہے گا ۔میں ایسی چیز کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا ۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا تب بھی میں اسے برابر تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۲۴)
حد یہ ہے کہ ایک روز آپ کے بھائی عقیل بن ابی طالب، آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ انہیں بیت المال سے دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مال دیا جائے، تو آپ نے ان کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا اور جب عقیل نے اپنی درخواست پر اصرار کیا تو امام ؑ ؑ نے اپنے بھائی کو جو عملی جواب دیا اسکی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَاللّٰہِ لَقَدْ رَاَیْتُ عَقِیْلاً وَقَدْ اَمْلَقَ حَتَّیٰ اسْتَمَاحَنِیْ مِنْ بُرِّکُمْ صَاعاً وَرَاَیْتُ صِبْیَانَہُ شُعْثَ الشُّعُوْرِ، غُبْرَالْاَلْوَانِ مِنْ فَقْرِ ھِمْ کَاَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوْھُھُمْ بِا لْعِظْلِمِ، وَعَا وَدَنِیْ مُؤَکِّداً، وَکَرَّرَ عَلَیَّ الْقَوْلَ مُرَدِّداً، فَاَصْغَیْتُ اِلَیْہِ سَمْعِیْ، فَظَنَّ اَنِّیْ اَبِیْعُہُ دِیْنِیْ، وَاَ تَّبِعُ قِیَادَہُ مُفَارِقاً طَرِیْقَیِیْ فَاَحْمَیْتُ لَہُ حَدِیْدَۃً، ثُمَّ اَدْنَیْتُھَا مِنْ جِسْمِہٖ لِیَعْتَبِرَ بِھَا، فَضَجَّ ضَجِیْجَ ذِیْ دَنَفٍ مِنْ اَلَمِھَا، وَکَادَاَنْ یَحْتَرِقَ مِنْ مِیْسَمِھَا، فَقُلْتُ لَہُ: ثَکِلَتْکَ الثَّوَاکِلُ یَا عَقِیْلُ ! اَتَءِنُّ مِنْ حَدِیْدَۃٍ اَحْمَا ھَا اِنْسَا نُھَا لِلَعِبِہِ، وَ تَجُرُّنِیْ اِلَیٰ نَارٍ سَجَرَھَاجَبَّارُھَالِغَضَبِہِ اَتَءِنُّ مِنَ الْأَ ذَیٰ وَلَااَءِنُّ مِنْ لَظیً۔
خدا کی قسم میں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقے کی بنا پر گندم میں تمہارے حصے میں سے تین کلو کا مطالبہ کیا تھا ۔جبکہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بنا پر بکھرے ہوئے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنا دیا گیا ہو اور جب انہوں نے بار ہا مجھ سے تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبے کو دہرایا تو میں نے ان کی بات توجہ سے سنی ۔ اس پر وہ یہ سمجھے کہ شاید میں اپنا دین بیچنے اور اپنے راستے کو چھوڑ کر ان کے مطالبے پر چلنے کو تیار ہوگیاہوں ۔لیکن میں نے (ان کو ہوشیار اور بیدار کرنے کی غرض سے )ان کے لیے لوہا گرم کرایا اور پھر اسے ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں چیخ وپکار بلند کی جس طرح کوئی بیمار اپنے درد و الم سے چیختا پکارتا ہے اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس (گرم لوہے ) کے داغ دینے سے جل جائے تو میں نے کہا : رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں، اے عقیل ! آپ اس لوہے پر چلا اٹھے جسے فقط ایک انسان نے ہنسی مذاق میں تپایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے ۔آپ اذیت سے چیخیں چلائیں اور میں اذیت سے نہ چلاؤں ؟۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۲۱)
۳۔قانون کی گرفت سے محفوظ رہنا
سماجی ظلم کی تیسری شکل یہ ہے کہ قانون صرف غریب غربا کے لیے حرکت میں آئے لیکن صاحبانِ مقام و ثروت قانون کی گرفت سے محفوظ رہیں، یہ گروہ کتنا ہی گمراہ اور بے راہ رو ہو قانون کبھی اسکا راستہ نہ روک سکے ۔امام علی ؑ نے ظلم و ستم کے اس طریقے کے خلاف بھی سخت اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا ۔اس بارے میں فرماتے ہیں :
الذَّلِیْلُ عِنْدِیْ عَزِیْزٌحَتّٰی اَخُذَ الْحَقَّ لَہُ، وَالْقَوِیُّ عِنْدِیْ ضَعِیْفٌ حَتّٰی آخُذَ الْحَقَّ مِنْہُ۔
یاد رکھو کہ تمہارا ذلیل میری نظر میں عزیز ہے جب تک کہ میں اس کا حق نہ دلوادوں اور تمہارا عزیز میری نظر میں ذلیل ہے جب تک کہ اس سے دوسروں کا حق وصول نہ کرلوں ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۳۷)
جب ایک موقع پر آپ کے کسی فوجی اہلکار یا افسر نے، جسے قانونی تحفظ حاصل تھا، اپنے عہدے سے غلط فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو ڈرایا دھمکایا تو حضرت نے اسے قانونی تحفظ، اپنے منصب سے سوء استفادہ اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے سلسلے کے خاتمے کے لیے ان علاقوں کے خراج جمع کرنے والوں اور وہاں کے والیوں کے نام ایک مکتوب ارسال کیا جہاں سے آپ کی فوج کو گزرنا تھا، اس خط کا مضمون یہ تھا :
أَمَّا بَعَدُ، فَإِنِّیْ قَدْ سَیَّرْتُ جُنُوداً ھِیَ مَارَّۃُ بِکُمْ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، وَقَدْأَوْصَیْتُھُمْ بِمَا یَجِبُ لِلّٰہِ عَلَیْھِمْ مِنْ کَفِّ الْأَذَیٰ وَصَرْفِ الشَّذَیٰ، وَأنَاأَبْرَأُإِلَیْکُمْ وَإلَیٰ ذِمَّتِکُمْ مِنْ مَعَرَّ ۃِ الْجَیْشِ إِلاَّمِنْ جَوْعَۃِ الْمُضْطَرِّ، لَا یَجِدُ عَنْھَا مُذْھَباً إِلَیٰ شِبَعِہٖ، فَنَکِّلُوْا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْھُمْ شَیْئاً ظُلْماً عَنْ ظُلْمِھِمْ، وَکُفُّوْا أَیْدِیَ سُفَھَا ءِکُمْ عَنْ مُضَارََّ تِھِمْ وَالتَّعَرُّضِ لَھُمْ فِیْمَا اسْتَثْنَیْنَاہُ مِنْھُمْ۔وَأَنَا بَیْنَ أَظْھُرِالْجَیْشِ فَارْفَعُوْا إِلَیَّ مَظَالِمَکُمْ، وَمَاعَرَاکُمْ مِمَّا یَغْلِبُکُمْ مِنْ أَمْرِھِمْ، وَمَالَا تُطِیْقُوْنَ دَفْعَہُ إِلاَّ بِاللّٰہِ وَبِیْ، فَاَنَا اُغَیِّرُہُ بِمَعُوْ نَۃِ اللّٰہِ، إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔
اما بعد!میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیں جو عنقریب تمہارے علاقے سے گزریں گی اور میں نے انہیں ان تمام باتوں کی نصیحت کر دی ہے جو ان پر واجب ہیں کہ کسی کو اذیت نہ دیں اور کسی کو تکلیف میں مبتلا نہ کریں ۔اور میں تمہیں اور تمہارے اہلِ خانہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر فوج والے کوئی دست درازی کریں تو اس سے میں بے تعلق ہوں (کیونکہ انہیں کسی کو نقصان و آزار پہنچانے کا کوئی حق نہیں ) مگر یہ کہ کوئی شخص بھوک سے مضطرب ہو اور اسکے پاس پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ نہ ہو ۔اسکے علاوہ اگر کوئی ظالمانہ دست درازی کرے، تو اس کو سزا دینا تمہارا فرض ہے ۔لیکن اپنے سر پھروں کو سمجھا دو کہ جن حالات کو میں نے مستثنیٰ قرار دیا ہے ان میں کوئی شخص کسی چیز کو ہاتھ لگانا چاہے تو اس سے مقابلہ نہ کریں اور اسے نہ ٹوکیں ۔پھر اسکے بعد میں لشکر میں موجود ہوں ۔اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور سختیوں کی شکایت مجھ سے کرو، اگر تم انہیں (اس وقت تک ) دور کرنے کے قابل نہیں ہو، جب تک کہ اللہ کی مدد اور میری امداد شامل نہ ہو ۔میں انشااللہ خدا کی مدد سے حالات ٹھیک کر دوں گا ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب ۶۰)
۴ ۔ دوسروں کے حقوق کی پامالی
معاشرے کے ہر فرد کے کچھ حقوق اور احترام ہوتے ہیں اور ان حقوق و احترام اور آزادیوں کی پامالی ایک قسم کا ظلم ہے اور خدا وندِ عالم اس جرم میں ظالم کو سزا اور عذاب کا مزہ چکھائے گا اور اس سزا کی اذیت اور تکلیف اس ظلم سے کہیں زیادہ شدید اور سخت ہوگی جو اس نے مظلوم پر روا رکھا ہوگا ۔اس بارے میں امیر المومنین ؑ کا ارشاد ہے :
یَوْمُ الْمَظْلُوْمِ عَلَیٰ الظَّالِمِ أَشَدُّ مِنْ یَوْمِ الظَّالِمِ عَلَیٰ الْمَظْلُوْمِ ۔
مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ سخت ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھا تا ہے ۔ ( نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۲۴۱)
بنا بر ایں فقرا اور محروموں کا اس بھینٹ چڑھنا انتہائی ناگوار اور نا پسند یدہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی وہ سکت نہ رکھتے ہوں اور جس کے سامنے اپنے مسلّمہ حق کا تحفظ کرنے سے عاجز ہوں ۔امام ؑ فرماتے ہیں :
ظُلْمُ الضَّعِیْفِ اَفْحَشُ الظُّلْمِ۔
بدترین ظلم وہ ہے جو کسی کمزور و نا تواں پر کیا جائے ۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب۳۱)
نیز فرماتے ہیں :
وَبُؤْسَیٰ لِمَنْ خَصْمُہُ عِنْدَاللّٰہِ الْفُقَرَاءُ وَالْمَسَاکِیْنُ۔
اور سب سے زیادہ بدبختی اس کے لیے ہے جس کے دشمن بارگاہِ الٰہی میں فقرا و مساکین ہوں ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب ۲۶)
افرادِ معاشرہ اور حکام کا فرض ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکیں اور اس سے مظلوموں کے مسلّمہ حقوق بازیاب کرائیں ۔اس بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :
لَأُ نْصِفَنَّ الْمَظْلُوْمَ مِنْ ظَالِمِہِ۔
خدا کی قسم میں مظلوم کو ظالم سے اسکا حق دلاؤں گا ۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۳۴)
نیز فرماتے ہیں :
لَنْ تُقَدَّسَ اُمَّۃٌ لَا یُؤْخَذُ لِلضَّعِیْفِ فِیْھَا حَقُّہُ مِنَ الْقَوِیِّ غَیْرَمُتَتَعْتِعٍ۔
وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں کمزور کو طاقتور سے آزادی کے ساتھ اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ۔ ( نہج البلاغہ ۔مکتوب ۵۳)