۴ ۔ زبانی کلامی انقلابی بننا
نہج البلاغہ اور حیاتِ اجتماعی • حجت الاسلام شیخ حسن موسیٰ صفّار
بعض لوگوں کے نزدیک جہاد، بس جوش و خروش کی باتیں کرنے، انقلابی تحریروں اور تقریروں تک محدود ہے ۔لیکن جب کبھی ان سے ایثار و فداکاری کا تقاضا کیا جائے، یا جہادی اور مسلحانہ اقدام کی دعوت دی جائے تو فوراً کھسک لیتے ہیں اور مبارزے کے میدان میں قدم رکھنے سے گریز کرتے ہیں ۔امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ ایسی ہی صفات کے مالک اپنے بعض اصحاب سے فرماتے ہیں :
اَیُّھَاالنَّاسُ الْمُجْتَمِعَۃُ اَبْدَانُھُمْ الْمُخْتَلِفَۃُ اَھْوَآؤُھُمْ، کَلَا مُکُمْ یُوْھِی الصُّمَّ الصِّلَابَ وَفِعْلُکُمْ یُطْمِعُ فِیْکُمُ الْاَ عْدَاءَ! تَقُوْلُوْنَ فِی الْمَجَالِسِ کَیْتَ وَکَیْتَ، فَاِذَاجَاءَ الْقِتَالُ قُلْتُمْ حِیْدِیْ حَیَادِ۔
اے وہ لوگو ! جن کے جسم یکجا اور خواہشات جدا جدا ہیں ۔تمہارے زبانی دعوے تو سخت پتھروں کو بھی توڑ کے رکھ دیتے ہیں، لیکن تمہارا عمل ایسا ہے جو دشمنوں کو تم پر دندانِ آز تیز کرنے کا موقع دیتا ہے ۔اپنی مجلسوں میں تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کردیں گے، وہ کر دیں گے، لیکن جب جنگ چھڑتی ہے، تو تم اس سے پناہ مانگنے لگتے ہو۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۹)
کس ذریعے سے اور کس مقصد کے لیے جہاد کیا جائے
استعمار و استکبار، ظلم و ستم اور انحراف و بگاڑ کے خلاف اقدام کے لیے اسلام کو طرح طرح کے اسلحو ں اور قوتوں کی ضرورت ہے ۔پروپیگنڈہ بھی ایک قسم کا اسلحہ ہے، تحریرو تقریر بھی اسلحہ کی ایک قسم ہے، پیسہ اور مادّی امکانات بھی اسلحہ ہیں، سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں بھی اسلحہ ہیں ۔جنگ و جہاد کے مختلف مراحل میں ان تمام ہی اسلحوں سے کام لیا جاتا ہے ۔لہٰذا رسولِ اکرمؐ حضرت خدیجہ ؑ کے مال و دولت اور حضرت علی ؑ کی تلوار کو اسلام کی نصرت اور فتح مندی کے دو بنیادی اسباب قرار دیتے تھے ۔
قرآنِ کریم بھی بار ہا جان و مال سے جہاد کی تاکید کرتا ہے ۔حضرت علی علیہ السلام کا فرمان بھی ہے :
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِھَادِبِاَمَْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ۔
اور اللہ سے ڈرو اپنے جان، مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں۔ (نہج البلاغہ ۔مکتوب ۴۷)
اسلام کی نظر میں جہاد کے مقاصد کو مختصر طور پر درجِ ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔
۱ ۔ کفر و استکبار کی حکومتوں سے انسانیت کو نجات دلانے کی غرض سے، گوشہ و کنارِ عالم میں اسلام کا پیغام پہنچانے اور اسکی تبلیغ و تشہیر کے لیے جہاد ۔قرآنِ کریم فرماتا ہے :
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۔
اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو، یہاں تک کہ فتنے کا وجود نہ رہے اور سارا دین صرف اللہ کے لیے رہ جائے ۔ (سورۂ انفال ۸۔آیت ۳۹)
۲ ۔ دین، وطن اور جانوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے جہاد ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
من قتل دون مظلمۃ فھوشھید۔
جو کوئی اپنے حقوق کی حفاظت کے دوران ماراجائے، وہ شہید ہے ۔
۳ ۔ امت کی اصلاح کے لیے جہاد ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان اقاتل علی التنزیل وعلی یقاتل علی التاویل۔
ان سے میری جنگ نزولِ قرآن کے بارے میں ہے، اور علی ان سے تاویلِ قرآن کے بارے میں برسرِ پیکار ہوں گے ۔ (بحارالانوار ۔ج۳۲۔ص۲۹۹)
۴ ۔ مظلوموں اور لاچاروں کی نجات کے لیے جہاد ۔
خدا وندِ عالم فرماتا ہے :
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآاَخْرِجْنَامِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِالظَّالِمِ اَہْلُہَا۔
اور آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان لاچار مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیں کہ با رِ الٰہا ! ہمیں اس قریے سے نجات دلا دے جس کے باشندے ظالم ہیں ۔ (سورۂ نسا ۴۔ آیت ۷۵)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :
فَوَاللّٰہِ لَوْلَمْ یُصِیْبُوامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّارَجُلًاوَاحِداًمُعْتَمِدِیْنَ لِقَتْلِہِ بِلَا جُرْمٍ جَرَّہُ، لَحَلَّ لِیْ قَتْلُ ذٰلِکَ الْجَیْشِ کُلِّہِ ۔
خدا کی قسم! اگر وہ مسلمانوں میں سے صرف ایک بے گناہ فرد کو بھی عمداً قتل کرتے، تو میرے لیے اس پورے لشکر کو قتل کر دینا جائز ہوتا۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۷۰)