علی ؑ کی وصیت

ایک اور پہلو سے اس کا تعلق معاشرے کی تنظیم سے ہےلہٰذا ضروری ہے کہ مختلف میدانوں میں معاشرے کی ضرورتوں کا مطالعہ کیا جائے، اور پھر ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کام کیاجائےمثلاًمعاشرے کوتربیت سے متعلق کچھ چیزوں کی ضرورت ہے، یا اسکی اقتصادی اورثقافتی ضرورتیں ہیں ان کے علاوہ بھی اس کی بہت سے حاجتیں ہیں، جن سے معاشرے کا توازن اوراعتدال برقرار رہتا ہے۔

ضروری ہے کہ افرادِمعاشرہ کی صلاحیتوں اور ان کی توانائیوں کا سراغ لگایا جائے اور ہر شخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام سپرد کیا جائےاس طرح صلاحیتوں میں کمال پیدا ہوگا اور معاشرے کے ہر میدان میں ایجاد ات واختراعات ہوں گیلیکن معاشرے سے جو غلطی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک آدمی نے کوئی کام شروع کیااوراس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی، تو دوسرے بھی اس کی دیکھا دیکھی وہی کام کرنے لگتے ہیں اس سے معاشرے کی آمدنی اور کمائی پر اثرپڑتا ہے، اقتصادی میدان میں جمود پیدا ہوتا ہےجبکہ تقسیمِ کار اورجداگانہ مشغلوں کی صورت میں ہر شخص انہماک کے ساتھ اپناکام کرتاہے، جس کے نتیجے میں کام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔

اورجب مختلف ادارے یالوگ ایک ہی قسم کاکام کرنے لگیں، توان کے لئے ایک ضابطہ ہوناضروری ہے، تاکہ ایسی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں جن سے ان اداروں کی فعالیت ہی ختم ہوجائے اور معاشرے کی صلاحیتیں متاثر ہوںظاہر ہے کہ جب ہم میں سے ہر ایک شخص وہی کام کرنے لگے گاجودوسراانجام دے رہا ہے، تواس طرح دوسرے کے کام میں رخنہ ڈالے گااور یوں پورا معاشرہ متاثر ہوگا۔

جب شخصی اورجماعتی مفادات کی بجائے معاشرے کی سلامتی اوراس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کام کیا جائے گا، تو یہ عمل خالص خدا کے لئے ہوگا، فی سبیل اللہ ہو گا۔

کوئی کام صرف ایک ہی شخص نہیں کررہاہوتا، بلکہ اس عمل اور اس کام میں بہت سی صلاحیتیں اورتوانائیاں، وسائل وذرائع اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ چنانچہ علما، مبلّغین، دانشوروں، سو ل سوسائٹی کے لئے کام کرنے والے لوگوں، مزدوروں، کارکنوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے کاموں میں مختلف لوگوں کی صلاحیتیں، توانائیاں اور وسائل وذرائع کام میں آتے ہیں۔

آپ جدیدٹیکنالوجی اورآلات کے استعمال سے مہذب اور ترقی یافتہ نہیں کہلائیں گے، بلکہ مہذ ب اور ترقی یافتہ کہلانے کے لئے آپ کو چاہئے کہ آپ اس طرح زندگی گزاریں جس سے ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے دوسروں کی زندگی بھی متاثرنہ ہوجب کاموں کو اس انداز سے کیا جائے گا، تو ہر میدان میں بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔

ہمارے معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے اختیارات کی حدود نہیں پہچانتے، اورنہ اپنے دائرے سے واقف ہوتے ہیںلہٰذاوہ دوسروں کے دائرے میں مداخلت کرتے ہیں، حالانکہ ان کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور نہ ان کے پاس اس کے امکانات ہوتے ہیںبعض تواس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ دوسروں کے کاموں کو ٹھپ کردیتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کومعاشرے میں نکھرنے اورپنپنے نہیں دیتےجس کی وجہ سے معاشرہ ان افراد میں چھپی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرپاتااب وہ اپنی بیکاری کا کوئی علاج نہیں کرسکتا یاوہ اس خلا کو پُر نہیں کرپاتا اور اس سے مفاد پرستوں کے لئے راستہ کھل جاتا ہے جو موقع کی تاک میں رہتے ہیںچنانچہ ان کے اقدام سے کبھی کبھی معاشرے کے مقاصدواقدار بھی متاثرہوتے ہیں، بلکہ خودرخنہ اندازی کرنے والے کو بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔

معاشرے میں زندگی بسرکرنے والے انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات ہی میں ڈوبانہ رہے، اوراسی کو محور تصورنہ کرے، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ دوسروں کی ترقی اورکمال کے لئے بھی مصروفِ عمل رہے۔ اس طرح معاشرے میں امن وسلامتی کو فروغ ملے گااور اس کی صلاحیتوں اورتوانائیوں میں نکھاراور استحکام پیدا ہوگا۔

یہ بات ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں، کہ جن مشکلوں سے معاشرہ دوچار ہے، انھیں معمولی یا غیراہم نہیں سمجھناچاہئےبلکہ انھیں مناسب طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایک ایسامنظم معاشرہ وجود میں لاناچاہئے جو ہلّڑ ہنگامے سے دور رہتے ہوئے صحیح طریقے سے اپنا فریضہ انجام دے، جس میں دوسروں کا احترام کیا جاتا ہواور عام لوگوں کی زندگی محفوظ ہو۔

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

جن چیزوں کی خدا نے قرآنِ مجید میں، رسول اللہ ؐنے اپنی حدیث میں اور حضرت علیؑ نے اپنے اس وصیت نامے میں تاکید فرمائی ہے، اُن میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا بھی شامل ہےآپ ؑ اس بات کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگر لوگوں کے درمیان اختلاف اورنزاع پیداہوجائے، تو انھیں اپنے آپسی تعلقات کو سلجھاناچاہئے۔

لوگوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کے سلسلے میں آپ ؑ کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس ذریعے سے اسلام معاشرے کے لئے اپنے متعین مقاصد کا حصول چاہتا ہے۔

معاشرے میں بہت سے اختلافات رونماہوتے ہیں۔ مثلاً زوجین کے درمیان، خاندان کے درمیان، پڑوسیوں کے درمیان، مالک اور ملازم کے درمیان، افسر اور ماتحت کے درمیان اور آپس میں خود کارکنوں کے درمیان، سیاسی قوتوں کے درمیان اور اسی طرح لوگوں کے درمیان اقتصادی، عسکری، ثقافتی اور مالی مسائل میں اختلافات جنم لیتے ہیں اسلام مؤمنین سے چاہتا ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں جنم لینے والے ان باہمی تنازعات کے خاتمے کے لئے اپنی صلاحیتوں کے مطابق جلد ازجلد اقدام اٹھائیں، تاکہ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکے، تو کم از کم اس میں کچھ کمی واقع ہواور معاشرے پر اس کے بُرے اثرات مرتب نہ ہوں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ میاں بیوی کے اختلافات کے بارے میں خداوند عالم نے ایک دستور وضع کیا ہے، جس کے ذریعے زوجین کے درمیان پیدا ہونے والے ایسے اختلافات کو حل کیا جاسکتاہے جوان کے درمیان جدائی پر منتہی ہوسکتے ہیں، اوریوں میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت آنے سے بچا جاسکتا ہےقرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا۔

اور اگردونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہو، تو۔

فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلااَا حًا یُوَفِّقِ اﷲُ بَیْنَہُمَا۔

’ایک حَکَم مردکی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے بھیجو، پھر اگر وہ دونوں (میاں بیوی) صلح چاہیں گے، توخداان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کردے گا(سورۂ نساء۴۔ آیت۳۵)

اس صورت میں مرداورعورت کی طرف سے ایک ایک حاکم وثالث مقرر کیا جائے اور وہ ایک خاندانی پنچائت بٹھائیں جو اختلاف کے اسباب کی تحقیق کرے، تاکہ ان کے درمیان اصلاح کا راستہ کھل جائے۔

اور قرآنِ کریم مسلمان معاشرے میں پیدا ہونے والے اختلافات کی اصلاح کے بارے میں فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ۔

مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذااپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ(سورۂ حجرات۴۹۔ آیت۱۰)

نیز فرماتا ہے:

وَ اِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا۔

اور اگر مؤمنین کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں، توتم ان کے درمیان صلح کرا دو(سورۂ حجرات۴۹۔ آیت۹)

ملاحظہ فرمائیے، خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ایسے موقع پر ہم غیرجانب دار بن کر خاموش بیٹھ جائیںجن لوگوں کواپنی اجتماعی اورسماجی ذمے داری کا احساس نہیں ہوتا وہ ایسا ہی کرتے ہیں، اور اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیںہمیں چاہئے کہ ہر اس کمزوری کا سدّباب کریں جو مومنین کے اختلاف کی وجہ سے معاشرے میں پیداہوسکتی ہے اور معاشرے پر اس کے منفی اثرات ہوسکتے ہیں ان منفی آثارسے آپ اپنے گھرمیں رہتے ہوئے بھی نہیں بچ سکتے، خواہ ان حوادث کے بارے میں آپ کا موقف غیرجانب دارانہ ہی کیوں نہ ہو، خواہ آپ کا موقف کچھ بھی ہوکیونکہ معاشرے کی مشکلوں کی مثال آگ کی سی ہے، جسے تیز ہوائیں اور زیادہ بھڑکادیتی ہیں، اور نتیجے میں وہ اپنی لپیٹ میں آنے والی ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے، چاہے وہ چیزخشک ہو چاہے ہری بھری۔

لہٰذا کوئی شخص بھی (معاشرے کی سلامتی سے تعلق رکھنے والے مسائل سے) لاتعلق نہیں رہ سکتانہ سیاسی معاملات سے، نہ اجتماعی مسائل سے اور نہ اقتصادی امورسےکیونکہ ان مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات اُنھی لوگوں تک محدود نہیں رہتیں جو انھیں جنم دیتے ہیں، بلکہ ان سے لوگوں کے تعلقات اوراُن کے مفادات متاثر ہوتے ہیںجب اختلافات کا دائرہ بڑھتا ہے، تواس سے تعلق رکھنے والے دیگرمسائل پیدا ہوتے ہیں۔ خصوصاً ذرائع ابلاغ کی ترقی کے بعد جس کے نتیجے میں پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے، اگر مغرب میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کا اثر مشرق پر پڑتاہے اور اگر مشرق میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کا اثر مغرب پر پڑتا ہےخداوندِ عالم فرماتا ہے:

وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً۔

اور اس فتنے سے بچو جو صرف ظالموں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا(سورۂ انفال۸۔ آیت۲۵)

اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکراسلامی معاشرے کو بہتری کی راہ پر لگانے والا ایک عمل ہے۔ اور وہی شخص یہ عمل انجام دیتا ہے جومعاشرے کے بگڑے ہوئے افراد کو راہِ راست پر لانا اپنی ذمے داری سمجھتا ہو، حتیٰ اُن لوگوں کو بھی جن کا اس سے کوئی براہِ راست تعلق نہ ہوکیونکہ یہ برائیاں کسی نہ کسی طریقے سے معاشرے کے دوسرے حصوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں، اورصرف بُرائی کے مرتکب افراد تک محدود نہیں رہتیں۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ:

لَتَامُرُنَّ بِالمعروف، ولتنھُنّ عن المنکر، او لیُسلّطنّ اللّٰہ شرارَکم علیٰ خیارکم، فیدعوا خیارُکم، فلا یُستجاب لہم۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، ورنہ تمھارے اچھے لوگوں پربُرے لوگوں کا تسلط ہوجائے گا اور تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو وہ قبول نہیں کی جائے گی(بحار الانوار۔ ج۹۰۔ ص۴۶۵۔ ب۲۴۔ ح۲۱)

کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنے کے نتیجے میں معاشرے کی اصلاح کا دروازہ بند ہوجائے گا۔

دوسری طرف خداوند متعال لوگوں کو اصلاح کی طرف متوجہ کرتا ہے، اور بہت سے امور کی قدروقیمت کو اُن میں پائے جانے والے اصلاح کے عنصر سے وابستہ کرتا ہے۔ لہٰذا فرماتا ہے:

لااَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّّجْواٰاہُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلااَاحٍم بَیْنَ النَّاسِ۔

ان کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی بھلائی اورخوبی نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ (ان کے ذریعے)نیکی یا صدقے کا حکم دیںیالوگوں کے درمیان صلح کرائیں(سورۂ نساء۴۔ آیت۱۱۴)

یہ آیۂ کریمہ اس بات کی تاکید کررہی ہے کہ لوگوں کی سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی، کیونکہ اکثر سرگوشیاں عصبیت اور ایسے بُرے خیالات کی بنیادپر ہوتی ہیں جن کے فاش ہونے سے سرگوشی کرنے والے ڈرتے ہیں۔

لیکن جو لوگ اچھے خیالات رکھتے ہیں، اُنھیں اس قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا، وہ انھیں لوگوں کے سامنے علانیہ بیان کرنے سے نہیں ڈرتے، سوائے ایسے حالات پیدا ہوجانے کی صورت میں جب اپنی بات کو ملت کے دشمنوں کے خوف سے چھپانا ضروری ہوجاتاہےکیونکہ دشمن نہیں چاہتے کہ لوگوں میں صلح ہو۔ آیت میں صدقے، امربالمعروف اورلوگوں کے درمیان صلح وصفائی کو مستثنا کیا گیاہےگویا اس چیز کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اپنی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں میں بھی لوگوں کے درمیان صلح وصفائی کی جانب متوجہ رہیں، تاکہ صلح وصفائی کرانے والوں کے لئے راہ ہموارہواورجولوگ اس سلسلے میں رخنہ اندازی کرناچاہتے ہیں اُن کا سدباب ہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ:

صدقۃ یحبّہا اللّٰہ: اصلاح بین الناس اذا تفاسدوا، وتقارب بینھم اذا تباعدوا۔

جس صدقے کو خدا پسند کرتا ہے، وہ لوگوں کے درمیان اس وقت صلح وصفائی کرانا ہے جب اُن کے درمیان فسادبرپا ہوجائے اور انھیں اس وقت ایک دوسرے کے قریب لاناہے جب اُن کے درمیان دوری اور فاصلہ پیدا ہو جائے(اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۲۰۹۔ ح۱)

اپنی اس وصیت میں امام علی علیہ السلام صادق وامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث نقل کرتے ہیں:

صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

یعنی جب ان دو میں سے کسی ایک چیزکو اختیار کرنے کی نوبت آئے، مثلاًیا توانسان مستحب روزہ رکھے، مستحب نماز پڑھے یا دو افراد، دو گروہوں، دو فریقوں کے درمیان صلح کرائے، تو یہاں اس کے لئے صلح کرانا مستحب روزے اور نماز سے افضل ہےبلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنے کوبھی جائز قرار دیا ہے، جائز ہی نہیں! بلکہ واجب قرار دیا ہے۔ اسی طرح جان کے اور ہتکِ عزت کے خوف کے وقت جھوٹ بولنا واجب ہے ایسے بہت سے مواقع ہیں جہاں جھوٹ بولنے کو واجب قرا ر دیاگیا ہےحدیث میں آیا ہے:

الکلام ثلاثۃ: صدق وکذب واصلاح بین الناس۔ قال، قیل:جعلت فداک ماالاصلاح بین الناس؟ قال:تسمع من الرجل کلاماً یبلغہ فتخبث نفسہ، فتلقاہ، فتقول:سمعت من فلانٍ قال فیک من الخیرکذا وکذا، خلاف ما سمعت منہ۔

کلام تین ہی ہیں: سچ، جھوٹ اور لوگوں کے درمیان اصلاحراوی کہتا ہے، عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں! لوگوں کے درمیان اصلاح سے کیامراد ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: کسی سے کسی دوسرے کے بارے میں ایسی بات سنو جو اگر وہ خود سن لے تو اسے بہت بُری لگے، اور تم اس شخص سے ملو جس کے متعلق وہ بات سنی ہے، توتم اس سنی ہوئی بات کے برخلاف اس سے اس طرح کہو کہ میں نے فلاں شخص کو تمہاری خوبیاں اور اچھائیاں بیان کرتے سنا ہے(اصولِ کافی ج۲۔ ص۳۴۱۔ ح۱۶۔ باب الکذب)

مثلاً آپ کسی سے یہ خلافِ واقع بات کہیں کہ فلاں شخص تمہاری بہت تعریف کر رہا تھا۔

صلاح وصفائی کے لئے کہی گئی بات کا تعلق کلام کی تیسری قسم سے ہے، جسے جھوٹ سے خارج قرار دیا گیاہےاورحدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ:

المصلح لیس بکاذب۔

صلح وصفائی کرانے والا جھوٹا نہیں ہے(اصولِ کافی ج۲ ص۲۱۰ ح۵)

تعلقات وروابط کی دنیا میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے پیشِ نظر ایک ایسی تنظیم کاقیام ضروری ہے جو لوگوں کی آپسی رنجشوں اورکشیدگیوں کو ختم کرائے، انھیں فتنہ وفساد اور تفرقہ اندازی میں نہ دھکیلے۔ جیسے ہمیں بہت سے لوگ اپنی اجتماعی سرگرمیوں میں ایسا ہی کرتے نظر آتے ہیںدوسری طرف ہمیں کچھ ایسے افراد نظرآتے ہیں جنھیں لوگوں کا میل محبت، صلح وصفائی کے ساتھ رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتاان کے دلوں میں بغض، حسد، عداوت اورکینہ بھرا ہوا ہوتا ہےیہ کینہ توزی وہ اپنی اولاد کوبھی میراث میں دے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی یہ بغض وعداوت ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہےوہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں، بھائی کو بھائی سے الگ کردیتے ہیں، اور پرسکون اور چین کی زندگی بسرکرنے والے لوگوں کے درمیان اختلافات پیدا کرتے ہیں۔

جو لوگ عیب جوئی کیاکرتے ہیں وہ اہلِ جنت کی سی زندگی بسر نہیں کرتے، کیونکہ اہلِ جنت کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے: اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (وہ بھائیوں کی طرح آمنے سامنے مسندوں پر بیٹھے ہوں گے۔ سورۂ حجر۱۵۔ آیت۴۷)

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے:

الا اخبرکم بشرارکم؟ قالوا: بلیٰ یا رسول اللّٰہقال: المشاؤون بالنمیمۃ، المفرقون بین الاحبّۃ المتلمسون للبراء العیب۔

کیا میں تمہیں تمہارے بُرے لوگوں سے آگاہ کروں؟ سب نے عرض کی:اے اللہ کے رسول آگاہ فرمائیے! فرمایا: جو سخن چینی کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں اوردوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں اور پاک اورنیک لوگوں میں عیب نکالتے ہیں(خصال۔ ص۱۸۳، نقل از میزان الحکمۃ۔ ح۲۰۷۰۱)

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔

لفظ اللہ اللہ کااستعمال ایک قسم کی فریاداوراستغاثے کے لئے ہوتاہے، اس طرح مذکورہ چیز کی اہمیت بتانا مقصود ہوتی ہےحضرت علی ؑ کے اس قول: ” فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ“ کے معنی ہیں ” انھیں کسی وقت بھوکا نہ رکھنا“ جبکہ لغت میں اغبّ کے معنی ایک دن چھوڑ کر کھانا کھلانا یا ایک روز کے بعد ملاقات کے لئے جانا ہیں، لیکن حضرت علیؑ کے اس فرمان کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یتیموں کو ایک روز کھانا کھلانا اور ایک دن نہ کھلانا، بلکہ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ خبردار ان کی خبرگیری سے غافل نہ ہونا۔

یتیم، معاشرے کے محروم طبقوں میں سے ایک خاص طبقہ ہے، جس کی خبرگیری کی اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے، کیونکہ ممکن ہے اس طبقے کی زبوں حالی سے خود اس کی اور پورے معاشرے کی ترقی اور استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

یتیموں کی یہ حالت اُن سے اُس طاقت کے چھن جانے کی وجہ سے ہوتی ہے جو اُن کو ثبات واستقلال عطا کرسکتی تھیاور یہ طاقت باپ ہے، جو اپنے چھوٹے بچوں کا خیال رکھتاہے، اُنھیں ہر نقصاندہ چیزسے محفوظ رکھتا ہے، اُنھیں تقویت پہنچاتا ہے، اُنھیں اپنی محبت کے گھنیرے سائے میں رکھتا ہے، اُن کا پورا خیال رکھتا ہے، اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، اُنھیں ہر کمزوری ا وربُرائی سے بچاتا ہے۔

اسی لئے اسلام نے یتیم کی کفالت معاشرے کی ذمے داری قرار دی ہے، اور اُن کا تمام بوجھ افرادِمعاشرہ کے کاندھوں پر ڈالاہے اوراُنھیں اس رجحان کے مطابق عمل کرنے سے منع کیا ہے جواُنھیں سہل پسندی کی وجہ سے مشکلوں میں پڑنے سے روکتا ہے۔

یتیم کیونکہ اس قوت سے محروم ہوچکاہوتاہے جس کے ذریعے وہ خود کومفادپرستوں سے بچا سکےعلاوہ از ایں یتیم کے پاس کوئی ایسی طاقت بھی نہیں ہوتی جو لوگوں کو اس سے ناجائز مادّی اورمعنوی فائدہ اٹھانے سے باز رکھ سکے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس محروم طبقے کی مجبوری سے لوگ مختلف قسم کے فائدے اٹھاتے ہیں، خصوصاً ان سے اخلاق کے منافی اور ناگفتہ بہ فوائدحاصل کئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے افرادِمعاشرہ کی یتیموں سے بے اعتنائی بھی فائدہ اٹھانے والوں کی مدد کرتی ہے۔

قرآنِ کریم چاہتا ہے کہ معاشرہ یتیم کے ساتھ اس انداز سے پیش آئے جس میں اُسکی بھلائی ہو، ایسی بھلائی جس میں اُسکی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا گیاہو، صرف اُسکی مادّی ضرورتیں پور اکرنے تک محدود نہ ہومعاشرے کے لئے ضروری ہے کہ وہ یتیم کی ہر اُس ضرورت کو پورا کرے جس سے اُس کی زندگی بہتر ہوسکےاُسے ایسے علم سے آراستہ کرے جو زندگی میں اُس پر ترقی کے دروازے کھول دے، انفرادی اور اجتماعی سطح پر اُسے ثبات واستحکام کے ساتھ امن وامان کی فضا فراہم کرے، اور اُسکی پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیداکرے، تاکہ اُسکے لئے معاشرے کی ترقی میں شامل ہونے کا امکان فراہم ہوجائے، اُسکے قلب میں ایمان کو راسخ اورمحکم کرکے، اُسے خدا پرست اورخداترس بنائے، اُسکی آخرت کو سنوارے باالفاظِ دیگر معاشرے پرلازم ہے کہ وہ یتیموں کے مختلف اورگونا گوں امور کو اسی طرح انجام دے جس طرح اُن کے سرپرست انجام دیتے۔

اِس سلسلے میں خدا کا واضح قول ہمارے سامنے ہےفرماتا ہے:

وَ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلااَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ۔

اوریہ لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو کہہ دیجئے کہ ان کی بھلائی بہترین نیکی ہے اوراگرتم ان کے ساتھ مل جل کررہو، تووہ تمہارے بھائی ہیں(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۲۲۰)

اسبابِ نزول میں منقول ہے کہ جب درجِ ذیل آیۂ کریمہ نازل ہوئی کہ:

وَ لااَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔

اورخبردار یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگراس طریقے سے جو بہترین طریقہ ہے(سورۂ انعام۶۔ آیت۱۵۲)

تو جس کسی کے یہاں کوئی یتیم تھا اُس نے اپنے کھانے سے اُس کا کھانااور اپنے مشروبات سے اُس کا مشروب جدا کردیا، اور اگر کبھی اُس کا کچھ کھانا بچ گیا، تواُسی کو کھلایا اور خراب ہوگیا تو پھینک دیا۔ انھیں یہ بات ناگوار ہوئی، تواس کا ذکر اُنھوں نے رسالتمآبؐ سے کیاجس پر خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا۔۔۔ ۔ ۔

جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں۔ ۔ (سورۂ نساء۴۔ آیت۱۰)

جب آیت کا مفہوم عام ہے، تواس کو صرف مادّی اور کھانے پینے کی چیزوں تک محدود نہیں کیاجاسکتا۔

اور یتیموں کے ساتھ گھل مل جانا، جواخوت وبرادری کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس کا یتیموں پر گہرااثرپڑتاہےکیونکہ انھیں ڈرانادھمکانا ان کے لئے بہت گراں ہوتا ہے، اس سے ان کے دل پر بُرااثر پڑتا ہے، اُن کے اندر نفسیاتی پیچیدگیاں پیداہوجاتی ہیں اوران کی فطری نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّ ثُھُمْ۔

دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ اُن کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہے۔ آپ ؐاُن کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

حضرت علیؑ نے اپنی اس وصیت میں جس دوسرے گروہ کا تذکرہ استغاثے سے مشابہ اندازکے ساتھ کیا ہے، وہ ہمسائے ہیں۔ یہ لوگ ہمسائیگی کے تعلق کی وجہ سے انسان سے مربوط ہوتے ہیں اور ایک ہی محلّے میں رہتے ہیں۔ ہمسائے کی حد چاروں طرف کے چالیس گھروں تک بیان ہوئی ہےہمسایہ صرف اسی کو نہیں کہتے جس کے گھر کی دیوار تمہارے گھر سے ملی ہوئی ہو۔

قدرتی طور پر کبھی کبھی ہمسایہ زیادہ میل جول کی وجہ سے رشتے داروں سے بھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس طرح آپ اپنے ہمسائے سے میل جول رکھتے ہیں، اُس طرح کا میل جول اپنے قریبی رشتے دار سے نہیں رکھ پاتے ہیں، ان سے صرف خاص مناسبتوں ہی پرملاقات ہوپاتی ہے، بالخصوص جب جغرافیائی لحاظ سے وہ دور رہتے ہوں۔ جبکہ ہمسائے سے صبح وشام ملاقات ہوتی رہتی ہےاسی طرح اُس کی بیوی سے آپ کی بیوی اوراُس کے بچوں سے آپ کے بچے ملتے رہتے ہیں اس کے علاوہ بھی ہمسایوں کے بہت سے امور مشترک ہوتے ہیں اوریہ امورآپ کی اوراُ ن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیںمثلاً محلّے کو بعض خدمات درکار ہوتی ہیں، یا گھر وں کے درودیوارقریب قریب ہونے کی باعث ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر تعلقات وروابط میں ہمسائے کا مسئلہ بہت زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے اور یہ پیچیدگیاں مستقل ساتھ رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور کبھی قدرتی طور پراس سے ہمسایوں کے لئے بہت سی مشکلیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔

لہٰذااسلام چاہتا ہے کہ ہمسایوں کے درمیان گہرے اور مضبوط تعلقات قائم کئے جائیںچنانچہ ہمسائیگی کا مسئلہ ایک ذاتی وانفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک دینی مسئلہ ہےیہاں تک کہ رسول اللہ ؐنے مسلسل اسکی اہمیت پرزور دیا ہے، جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے فرمایا ہے کہ: ” مَازَالَ یُوصِی بِھِم۔“ (رسولؐ برابر ان کے بارے میں سفارش فرماتے تھے) یہاں تک کہ مسلمان یہ سوچنے لگے کہیں آپ ؐہمسائے کو میراث میں بھی حقدار قرار نہ دے دیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے:

احسن مجاورۃ من جاورک تکن مومناً۔

اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اختیارکرو، اس طرح تم مومن بن جاؤگے(امالئ صدوق۔ ۱۶۸۔ ۱۳)

نیز فرمایا:

ما زال جبرئیل یوصینی بالجار، حتّٰی ظننت انّہ سیورّثہ۔

جبرئیل نے ہمسائے کے بارے میں مجھے اتنی تاکید کی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ میری میراث میں بھی حصے دار ہوگا(امالئ صدوق۔ ۵۲۰۔ ۱۱۴۵)

آنحضرت ؐ ہی سے مروی ہے:

حرمۃ الجار علیٰ الانسان کحرمۃ امّہ۔

انسان کے لئے ہمسایہ اسی طرح محترم ہے جس طرح اُس کے لئے اُس کی ماں محترم ہوتی ہے(وسائل الشیعہ۔ ج۸۔ ص۴۸۹۔ ب۷۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

انصار میں سے ایک شخص رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے فلاں خاندان کے ایک آدمی سے گھر خریدا ہےلیکن میرا قریب ترین ہمسایہ ایک ایساشخص ہے جس سے مجھے کسی نیکی کی امید نہیں ہے اور میں اس کے شر سے محفوظ نہیں ہوںراوی کہتا ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت علی ؑ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوذرغفاریؓ اور ایک دوسرے شخص شاید حضرت مقدادؓ سے فرمایا: مسجد میں جاؤ اور باآوازِ بلند یہ کہوکہ جس شخص کے شر سے اُس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو وہ مومن نہیں ہےچنانچہ انھوں نے بلند آوازسے یہ اعلان کیا(وسائل الشیعہ۔ ج۸۔ ص۲۸۷۔ ب۸۶)

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

ما آمن بی مَن بات شبعاناً وجارہ جائع۔

وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو شکم سیر ہوکر سو جائے اوراس کا پڑوسی بھوکا ہو(اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۶۶۸۔ ح۲۴)

رسول اللہ ؐ سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

جو شخص شکم سیر ہوکر سوجائے اور اس کا ہمسایہ بھوکاہو، وہ خدااورقیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ ہم نے عرض کی:اے اللہ کے رسولؐ! ہم ہلاک ہوگئےآپ ؑ نے فرمایا:اپنی ضرورت سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا اور لباس وغیرہ کے ذریعے خدا کے غضب سے بچو(بحار الانوار۔ ج۷۷۔ ص۱۹۱۔ ح۱۱)

ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں آنحضرت ؐ ہی کا ارشاد ہے:

اگر وہ تم سے مدد طلب کرے، تو تم اس کی مدد کو پہنچواگر وہ قرض مانگے، تواسے قرض دواگر وہ بیمارہو، تواس کی عیادت کرو۔ اگر مرجائے، تواس کے جنازے میں شرکت کرو۔ اس کی اجازت کے بغیر اتنی بلند عمارت نہ بناؤ کہ اس کے گھر میں ہوا کا گزر نہ ہوسکےاگر تم پھل خرید کرلاؤ توتحفے کے طور پراسکے یہاں بھجواؤاور اگر ایسا نہ کرسکو تو چھپا کے لاؤ اور تمہارے بچّے پھل کھاتے ہوئے باہر نہ نکلیں کیونکہ اس سے ہمسائے کے بچّے کی دل شکنی ہوگیتمہارے گھر کے لذیذ کھانے کی خوشبو اسے اذیت نہ دے، مگر یہ کہ اس میں سے کچھ اس کے یہاں بھی بھجواؤ(مسکن الفؤاد۔ ص۱۰۵، نقل از میزان الحکمۃ)

ان تعلیمات کے ذریعے خدا یہ چاہتا ہے کہ ہمسایوں کے مسلسل ساتھ رہنے کی وجہ سے جو مشکلیں پیدا ہوتی ہیں ان میں کچھ کمی آئےکیونکہ ہمسایوں کے درمیان کچھ مشکلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کاکوئی حل نہیں، سوائے اس کے کہ انسان کے اندر ایسی نفسیاتی حالت پیدا کردی جائے جس کا اثردوسرے تک پہنچےمثلاً خداوندعالم نے ازدواجی زندگی میں طاقتور کو کمزور کا مددگاربنایا ہے، اور وہ مردہے جو عام طور پر عورت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، وہ عورت کوحوصلہ فراہم کرتا ہے تاکہ اس پرمشکلات کم سے کم اثراندازہوں اوران کے درمیان جدائی کی نوبت آسانی سے نہ آسکے اوراگر عورت مرد کی اذیتوں کو برداشت کرتی ہے، اُن پر صبر کرتی ہے، تو اس عورت کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا راہِ خدا میں جہاد کرنے سے ملتا ہےحدیث میں آیا ہے: جہاد المرأۃ حسن التبعّل(عورت کا جہاد اچھی شوہر داری ہے۔ اصولِ کافی۔ ج۵۔ ص۹۔ ح۱)

یہی معاملہ ہمسایوں کا بھی ہوتا ہےجب کوئی انسان اپنے ہمسائے کے لئے ایک اچھا پڑوسی بنتا ہے، تواوّل تو وہ اپنی ہی مشکلوں کو کم کرتا ہے۔ کیونکہ روزانہ ہی اُس کا، اُسکی بیوی کا، اُسکے بچوں کا اپنے پڑوسی سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ چیزیں گھریلواور محلّے کے ماحول میں مشکلات کا ایک بے کنارسمندرایجاد کردیتی ہیں۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، بلکہ اگرمشکلوں کا حل ممکن نہ ہو، تب بھی انسان کو چاہئے کہ اسی طرح مل جل کرزندگی بسر کرے، یہاں تک کہ حُسنِ معاشرت سے اس مشکل کا حل نکل آئےبالکل اُسی طرح جیسے انسان بیماری میں زندگی گزارتا ہے اس کے لئے پرہیزی کھانا پینا مقرر کردیا جاتا ہے، اُسے ایسی چیزیں دی جاتی ہیں جواُسے پسند نہیں ہوتیں، یا تجارت میں بازار کے اتار چڑھاؤ کے مطابق چلنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ جلد یا بدیر حالات بدل جائیں۔

دوسرے، مشکلوں اور اذیتوں سے دوچار ہونے پر خداوندعالم انسان کو اپنی محبت، رضا اور ثواب سے نوازتاہےجس سے اسے اتنا زیادہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ہمسائے سے اپنا حق لے بھی لیتا تب بھی اسے اتنا فائدہ نہ ہوتا۔

ہمسایوں کے بارے میں حضرت علیؑ نے جو وصیت کی ہے، وہ درحقیقت اللہ اور اُسکے رسولؐکی وصیت ہےاس سے اجتماعی زندگی میں زیادہ امن وسکون پیدا ہوتا ہے اور اطمینان کی فضاقائم ہوتی ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔

اورقرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

یہاں حضرت علیؑ کے پیشِ نظر قرآنِ مجید کی وہ تمام تعلیمات ہیں جو انسان کی عقل، روح اورعمل کی سطح بلند کرتی ہیں۔ اور اس طرح آپ ثقلِ اکبر قرآنِ کریم کے ساتھ برتاؤ کے بنیادی قاعدے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ جیسا کہ خداوندعالم کا ارشا دہے:

قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ اﷲِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔

تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے(سورۂ مائدہ۵۔ آیت۱۵)

نیز فرمایا:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنہُاٰا اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔

یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نورکی طرف لے آئیں(سورۂ ابراہیم۱۴۔ آیت۱)

پھر فرماتا ہے:

یَّہْدِیْ بِہِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمٍِ

قرآن کے ذریعے خدا اپنی خوشنودی چاہنے والوں کی سلامتی کے راستوں کی جانب ہدایت کرتا ہے(سورۂ مائدہ۵۔ آیت۱۶)

مختصر یہ کہ قرآنِ مجید ایک نور ہے جس کے ذریعے ہماری عقلیں منور ہوتی ہیں، جس سے ہمارے دل روشن ہوتے ہیں اور ہماری زندگی میں اعتدال آتا ہے۔

پس قرآنِ مجید کوتجوید کے قواعد کے مطابق پڑھنا، یا مرنے والوں کو ثواب پہنچانے کے لئے اسکی تلاوت کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جو چیزپڑھ رہے ہیں اُس پر غور وفکربھی کریں۔

حضرت علیؑ اپنی اس وصیت میں دو نکات کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:

۱۔ قرآنِ مجید کے نازل کئے جانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسکی تعلیمات پر عمل کیا جائےاس کی تلاوت تو اس کے معنی کو سمجھنے اور اس کے مقاصد میں غور کرنے کا مقدمہ ہے۔

خداوندمتعال فرماتا ہے:

اَفَلااَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۔

توکیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غورنہیں کرتے ہیں، یاان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں(سورۂ محمد۴۷۔ آیت۲۴)

نیز فرماتا ہے:

وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنہُاٰا مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔

اور یہ کتاب جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی بابرکت ہے، اس کا اتباع کرو اور تقویٰ اختیار کرو، شاید تم پر رحم کیا جائے(سورۂ انعام۶۔ آیت۱۵۵)

دوسری جگہ فرماتا ہے:

اَلَّذِیْنَ ٰاتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلااَاوَتِہٖ اُولٰٓءِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔

اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے، وہ اس کی باقاعدہ تلاوت کرتے ہیں اورانہی کا اس پر ایمان بھی ہے، اور جو اس کا انکار کرے گااس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۲۱)

شاید یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ سے مراد غوروفکر اور فہم وشعور کے ساتھ پڑھنا ہو (واللہ عالم)اس طرح خدا کی آیتوں اوران میں بیان ہونے والی حق کی دلیل کو سمجھا جاسکتا ہے۔

دل کش آواز میں قرآن کی تلاوت کرنااور تجوید کے ماہرین کی قرأت سننا اچھی بات ہےلیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے، کیونکہ قرآنِ مجید کتابِ عمل اور دستورِحیات ہےیہ ساری چیزیں قرآن سے ہمارے رابطے کی برقراری کے لئے ہیں، جو اس پر عمل کا مقدمہ ہے، اور ان کے ذریعے مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ اچھے قاریانِ قرآن کی قرأت سننے کے مشتاق ہوتے ہیں، اُن کی قرأت کی نغمگی پر جھومنے لگتے ہیں، لیکن ذرا بتائیے قرآنی علوم ومعارف کے حصول اور اس میں غوروفکر کو اہمیت دینے والے کتنے ہیں؟ کتنے ہیں جو تفسیر کے درس میں شرکت کرتے ہیں جو ان کی عقل میں اضافے، ان کی روح میں بالیدگی اور حیات میں جدت پیدا ہونے کا باعث ہے؟

لہٰذا قرآنِ کریم کو صرف کانوں سے سن لینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ وہ ہماری عقلوں میں راسخ ہو۔ او رجب قرآن ہماری عقلوں میں راسخ ہوگا، تو لازماًہماری زندگی میں بھی اس کا اثرظاہر ہوگالہٰذاخداوندعالم کا ارشاد ہے:

فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ۔

پس میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو غور سے باتیں سنتے ہیں اور ان میں سے اچھی بات کا اتباع کرتے ہیں(سورۂ زمر۳۹۔ آیت۱۷، ۱۸)

کیونکہ یہ لوگ اتباع کی غرض ہی سے سنتے ہیں۔

۲۔ بے شک قرآنِ مجید تمام مسلمانوں کی طرح ہمارے لئے بھی نازل ہوا ہےہمیں چاہئے کہ تمام لوگوں سے زیادہ ہم اسے اہمیت دیںکیونکہ غیرمسلم تو احکامِ قرآن پر عمل کے پابند نہیں، قرآنی اصول واحکام کی پابندی کی ذمے داری اُن پر عائد نہیں ہوتیجبکہ اگر ہم زمینی حقائق کو دیکھیں، تووہ نظم وضبط اوران بعض تعلیمات پرجن پر قرآنِ مجیدمیں زور دیاگیا ہے، ہم سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔

ہم قرآن سے بہت دور ہوچکے ہیں، جبکہ قرآن ہماری کتاب ہے، اسی کے ذریعے ہم اسلام پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرناکیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

یہ چوتھی وصیت ہے جس میں حضرت علی ؑ نے فریاداوراستغاثے کا اندازاختیار کیا ہےجس سے اس چیز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کی وصیت کی گئی ہےنمازدین کا ستون ہےحدیث میں آیا ہے:

الصلوٰۃ عمود الدین۔ مثلہا کمثل الفسطاط، اذا ثبت العمود ثبت الاوتاد والاطناب، واذا مال العمود لم یثبت وتد ولا طنب۔

نماز دین کا ستون ہے۔ اسکی مثال چوبِ خیمہ کی سی ہے، جب تک چوبِ خیمہ اوراس کا ستون قائم رہتا ہے اس وقت تک رسیاں اس کی میخ اور کھونٹیاں بھی اپنی جگہ رہتی ہیں اور جب چوبِ خیمہ جھک جاتی ہے، تو میخ اکھڑ جاتی ہے اور رسیاں ٹوٹ جاتی ہیں(وسائل الشیعہ۔ ج۴۔ ص۲۷۔ ح۶)

ہو سکتا ہے کوئی یہ سوال کرے کہ نمازکیسے دین کا ستون ہے؟

جواب یہ ہے کہ دین خدا پر ایمان، اس سے ارتباط اوراس مستقل احساس کا نام ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات میں خدا کوپیشِ نظر رکھےیعنی بندہ خدا کو حاضر وناظر سمجھے، اورخدا کے حاضر وناظر ہونے کا احساس آسان کام نہیں ہے، کیونکہ خدا غیب میں سے ایک غیب ہے۔ ہاں، یہ احساس عمل سے پیدا ہوسکتا ہے اوریہ عمل ایسا ہوناچاہئے کہ انسان خود کو اپنے رب کے سامنے تصور کرے، اسی عمل کا نام نماز ہے۔

نماز دوسری عبادتوں سے ممتازمقام رکھتی ہےدوسری عبادتوں کے برخلاف انسان نمازکودن میں پانچ مرتبہ پڑھتا ہے، جبکہ روزہ سال میں ایک مہینے رکھتا ہے، حج اس پرزندگی میں ایک مرتبہ واجب ہوتاہے، بشرطیکہ وہ صاحبِ استطاعت ہو۔

لیکن نماز انسان کی پوری زندگی کے ہردن میں ہے، وہ نماز سے اپنی صبح کاآغاز کرتا ہے اور نماز پر اپنا دن ختم کرتا ہےاُس کی زندگی کا ایک حصہ اُن فرادیٰ نوافل نمازوں کی ادائیگی میں گزرتا ہے جو ہر نماز کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے نماز کے ذریعے چاروں طرف سے ہمیں گھیررکھا ہےکبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خدا اور خوداپنے آپ کو فراموش کردیتا ہے، ایسے میں نماز کا وقت آکراسے اس کے رب کی یاد دلاتاہےاس طرح انسان کو ہر وقت اور ہر جگہ خدا کے حضورکااحساس رہتا ہے۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد مسلمان اپنی صبح کا آغاز اس طرح کرتا ہے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہوجاتا ہے اور خدا کا تقرّ ب حاصل کرنے کے لئے نماز کی نیت کرتا ہےخدا کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نمازی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خدااس کے دل میں موجود ہے۔ اگر تم اس سے قریب ہونا چاہتے ہو، قربت سے قربِِ مکانی مراد نہیں ہے، بلکہ قربِ عقلی مراد ہےیعنی کوئی باطل فکر تمہاری عقل کو خدا سے دور نہ کرےتم اپنی زندگی میں ایسے کام انجام نہ دو جن سے خداخوش نہیں ہوتااور جنھیں خدا پسند نہیں کرتا، علاوہ ازایں تمہیں اس سے روحانی قرب ہونا چاہئے، جس سے انسان صاف و شفاف آفاق میں پرواز کرتا ہےدیکھئے نیت آپ کے اور خدا کے درمیان ایک قسم کا عہد ہے جس کے ذریعے آپ ہمیشہ خدا سے قریب رہ سکتے ہیں۔

اسی طرح جب آپ اذان دیتے، نماز پڑھتے، تکبیرکہتے اوراشہدان لاالٰہ الااللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ ادا کرتے ہیں، تو اس طرح آپ اپنے اسلام کی تجدید کرتے ہیںجب آپ نماز شروع کرتے ہیں، تو تکبیر کہتے ہیں اور تکبیر کے ذریعے آپ کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ اللہ بزرگ وبرترہے اورسب دوسرے اس سے چھوٹے ہیں اس کے بعد آپ سورۂ فاتحہ اوراس میں بیان شدہ اصولِ عقائد کا ذکرکرتے ہیں، اور پھر دوسرا سورہ پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ رکوع کی صورت میں خداوند عالم کے سامنے خضوع کا اظہار کرتے ہیں، پھرسجود میں جاتے ہیں جو انتہائی عبودیت کا نمونہ ہے۔ اور یوں نماز عقیدے کا عملی اظہاراور بارگاہِ الٰہی میں مستقل حاضری کا احساس ہے۔

آپ اپنے کام کاج میں منہمک رہتے ہیں، کبھی صبح سے دوپہر کے درمیان آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہےایسے میں ظہر کی نماز کا وقت آپہنچتا ہے، تاکہ آپ خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کریں اور آپ نے اسکی جو نافرمانی کی ہے اس پر توبہ کریں۔ اگر آپ ظہراورعصر کی نماز علیحدہ علیحدہ پڑھتے ہوں، تو ایسا ہی عصر کے وقت بھی ہوتا ہے اور یہی صورت مغرب اورعشاء کی نمازمیں بھی پیش آتی ہے۔

پس خدا وند متعال یہ چاہتا ہے کہ جوں ہی ہم اس سے دور ہوں، فوراًاس کی طرف لوٹ آئیں اوراگراسے بھلا بیٹھیں، تو اس کو یاد کریں۔

نماز کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ روحِ مومن کی معراج ہے۔ قرآنِ کریم میں اہلِ جنت اور اہلِ جہنم، مومنین اور کافرین کے درمیان ہونے والی جوگفتگونقل ہوئی ہے، اُس میں ہے کہ :

کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ اِلَّاآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ فِیْ جَنّٰتٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۔

ہر نفس اپنے ا عمال میں گرفتار ہے، سوائے اصحابِ یمین کے، وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کررہے ہوں گے، مجرمین کے بارے میں کہ آخر تمھیں کس چیز نے جہنم میں پہنچایا ہے، وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے(سورۂ مدّثر۷۴۔ آیت۳۸تا۴۳)

سورۂ مؤمنون میں چند خصائل وصفات کو مؤمن کی کامیابی کاسبب بتایاگیا ہے، ان ہی میں سے پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ہےارشاد ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلااَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۔

یقینامومنین کامیاب ہوگئے، جواپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں(سورۂ مؤمنون۲۳۔ آیت۱، ۲)

پھر فرماتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَواٰاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ۔

اورجواپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں(سورۂ مؤ منون ۲۳۔ آیت۹)

حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کی سب سے زیادہ امیدافزاآیت یہ ہے: وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ(اورآپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں، کہ بے شک نیکیاں بُرائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ سورۂ ہود۱۱۔ آیت۱۱۴)اور فرمایا: اے علی! قسم اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے، تم میں سے جو شخص وضو کرتا ہے اس کے اعضا سے گناہ دور ہوتے ہیں اور جب وہ تہہِ دل سے خدا کی طرف رخ کرتا ہے، تو وہ گناہ سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے شکمِ مادر سے پیدا ہوتے وقت تھا، اور اگر دو نمازوں کے درمیان اُس سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے، تو وہ بھی معاف کردی جاتی ہےاسی طرح آپ ؐنے پانچوں نمازوں کو شمار کرایا، پھر فرمایا: اے علی! نماز میری امت کے لئے ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر بہتی ہوبتاؤ اگر اس شخص کے بدن پر میل ہو اور وہ دن میں پانچ بار اس نہر میں نہائے، تو کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہے گی؟ خدا کی قسم میری امت کے لئے پانچ وقت کی نمازایسی ہی ہے(مجمع البیان۔ ج۵۔ ص۳۰۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے منقول ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

اوّل ما ینظر فی عمل العبد فی یوم القیامۃ صلا تہ، فان قبلت نظر فی غیرھا، وان لم تقبل لم ینظر فی عملہ بشیء۔

روزِ قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کو دیکھا جائے گااگر نماز قبول ہوگئی، تب دوسرے اعمال دیکھے جائیں گے، اوراگر نماز قبول نہ ہوئی، توکوئی عمل قبول نہیں ہوگا(بحار الانوار۔ ج۸۲۔ ص۲۲۷۔ ح۵۳)

حضرت علی علیہ السلام کی ایک اور وصیت میں منقول ہے کہ:

اوصیکم بالصلاۃ وحفظھما، فانّھا خیرالعمل، وھی عمود دینکم۔

میں تمہیں نمازاوراس کی حفاظت کی وصیت کرتاہوںبے شک، نماز بہترین عمل ہے اور یہ تمہارے دین کا ستون ہے(اصولِ کافی۔ ج۳۔ ص۲۶۶۔ ح۹)

نماز، انسان کازیادہ وقت نہیں لیتی، جبکہ بہت سے لوگ گھنٹوں ٹیلی ویژن دیکھتے اور کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور نماز کا وقت آنے پر اٹھتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے اُن پر ہزاروں من کا بوجھ لدا ہوا ہےخداوندعالم فرماتا ہے:

وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَانِانْفَضُّوْآ اِلَیْہَا وَ تَرَکُوْکَ قَآءِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اﷲِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ وَ اﷲُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ۔

اور اے پیغمبر جب یہ لوگ تجارت یا لہو و لعب کو دیکھتے ہیں، تواس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو تنہا کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خدا کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کھیل اور تجارت سے بہر حال بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے(سورۂ جمعہ۶۲۔ آیت۱۱)

یہ آیت نمازِ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہےاسبابِ نزول میں لکھا ہے کہ دحیّہ کلبی مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ اس وقت سامانِ تجارت لے کر مدینہ آئے جس وقت رسول اللہ ؐ خطبہ دے رہے تھےلوگ سامان خریدنے کے لئے اُن کی طرف دوڑے، مسجد میں صرف بارہ آدمی رہ گئے یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ ؐنے فرمایا:اگر یہ بار ہ آدمی نہ ہوتے توان پرآسمان سے پتھر برستے۔ اس موقع پرخدا نے سورۂ جمعہ کی مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر المیزان۔ ج۱۹۔ ص۲۸۸ )

اگرچہ یہ آیت سورۂ جمعہ کی ہے، لیکن نمازِ جمعہ ہی سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر نماز کے لئے، اور ہر اُس موقع کے لئے ہے جب کسی الٰہی فریضے کی ادائیگی اورکسی دنیاوی بات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو۔

انسان کو چاہئے کہ نمازکی شرائط پر عمل کرے اورگھریلو زندگی میں نماز کاماحول فراہم کرے۔ خداوندِ عالم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایاہے:

وَ اْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْہَا۔

اوراپنے اہلِ خانہ کو نماز کا حکم دیجئے اور اس پر صبر کیجئے(سورۂ طہ۲۰۔ آیت۱۳۲)

کیونکہ نماز کو سمجھ کرپڑھنے، اس میں خضوع وخشوع برقراررکھنے اوراس میں پڑھے جانے والے اذکار اوراسکے افعال سے سبق حاصل کرنے کے لئے صبر کی ضرورت ہوتی ہےلہٰذاانسان کو نمازپڑھنے میں اس شخص کی طرح عجلت نہیں کرنی چاہئے جواس سے بغیر کوئی سبق حاصل کئے اور بس فارغ وقت پُر کرنے کے لئے اس سے فراغت پاناچاہتا ہو۔

نمازاپنے گہرے معنی میں ہر اُس نعمت پر خداکا شکر ہے جو اس نے اپنے بندے کو عطا کی ہے، اورخداسے بندے کے لگاؤاوراُس سے محبت کا اظہار ہےروایت میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: جب خدا نے آپ کو جنت دینے کا وعدہ کیا ہے، تو پھرآپ نمازکیوں پڑھتے ہیں اور عبادت میں اتنی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آنحضرت ؐنے فرمایا:

افلا اکون عبداً شکوراً؟

کیا میں اس کاشکرگزار بندہ نہ بنوں؟

اسی بنیاد پر تارکینِ نمازخداوندِ عالم سے بد معاملگی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ابوحمزہ ثمالیؓ نے امام زین العابدینؑ سے جس دعا کی روایت کی ہے اس میں آیا ہے کہ:

تتحبّب الینا بالنعم، ونعارضک بالذنوب، خیرک الینا نازل، وشرّنا الیک صاعد، ولم یزل ولا یزال ملک کریم یا تیک عنّا فی کل یوم بعمل قبیح، فلا یمنعک ذالک ان تحوطنا بنعمک و تتفضل علینا بآلائک۔

تو اپنی نعمتوں سے ہمارے حق میں محبت سے کام لیتا ہے اور ہم گناہ کرکے تجھ سے دشمنی کرتے ہیںتیری برکتیں ہم پر مسلسل نازل ہوتی ہیں اور ہماری بدکاری تیری طرف بلند ہوتی ہےتو ازلی وابدی کریم ہےہم تیری بارگاہ میں بُرے افعال کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں لیکن یہ بھی تجھے ہم پر نعمتوں کی بارش سے نہیں روکتاتو ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے۔

دوسری طرف اگر انسان اپنے اہل وعیال، دوستوں اور اپنے ساتھ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے، تواُسے چاہئے کہ انھیں نماز کی تلقین کرے۔ کیونکہ نماز دین کا ستون ہے، اگر ستون گر جائے گا تو پوری عمارت گر پڑے گی اور یہ عمارت پوری زندگی ہےخداوندِ عالم کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّ قُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلآءِکَۃٌ غِلااَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اﷲَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔

اے ایمان لانے والو!اپنے آپ کواور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہوں گے، جس پرنہایت تندخواورسخت مزاج فرشتے مقررہیں، وہ حکمِ خدا کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اورجو حکم دیا جاتا ہے اُسی پر عمل کرتے ہیں(سورۂ تحریم۶۶۔ آیت۶)

کیونکہ اولاد کو دینی امور سکھانے کی ذمے داری ماں باپ پرعائد ہوتی ہے، اس لئے انھیں چاہئے کہ اولاد کے دینی وایمانی شعور کو پختہ کریں، اُن کے ذہنوں میں اسلامی عقیدے کو محکم کریں اور اُنھیں اس بات پر ابھاریں کہ وہ عملی زندگی میں اسلام کے پابند رہیں۔ قبل اسکے کہ کافروں، منحرفوں اور مستکبروں میں سے گمراہ کرنے والے انھیں کفر کے رنگ میں رنگیں اور کفر کے عادات و رسوم کا عادی بنائیں۔

اس سلسلے میں کوتاہی کرناایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کے شہروں کو فوجی حملے سے محفوظ رکھنے میں کوتاہی کرنا، کیونکہ امت کے افکار پر غیروں کا تسلّط جغرافیائی علاقوں پر اُن کے تسلّط سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ اس لئے کہ اس کے بعد کفار اورمستکبرین اسلام پرداخلی اور خارجی ہر محاذ سے حملہ کریں گے۔

اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: ” نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔“ اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمے داری پوری کرنا چاہئے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔

اوراپنے رب کے گھر کے بارے میں خداسے ڈرتے رہنا، جیتے جی اِسے خالی نہ چھوڑنا۔

حضرت علی علیہ السلام کی اس ندا سے حجِ بیت اللہ کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ یہ وہ پہلا گھر ہے جو روئے زمین پر لوگوں کے لئے بنایا گیاخداوندِ عالم کا ارشا دہے:

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّ ہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ ٰایٰتٌما بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرَاہِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ ٰامِنًا وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اﷲَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔

بے شک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، وہ بابرکت ہے اور عالمین کے لئے ہدایت ہےاس میں کھلی ہوئی نشانیاں مقامِ ابراہیم ہے، جو اس میں داخل ہو جائے گا وہ محفوظ ہوجائے گا۔ اور لوگوں پر واجب ہے کہ وہ خدا کے لئے اس گھر کا حج کریں، اگر اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اورجو کافرہوجائے توخداتمام عالمین سے بے نیاز ہے(سورۂ آلِ عمران۳۔ آیت۹۶، ۹۷)

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْ تُوْکَ رِجَالااًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔

اورلوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو، کہ وہ دور درازمقامات سے پیدل اورلاغر سواریوں سے تمہاری طرف آئیں گے، تاکہ اپنے منافع کامشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پراللہ کا نام لیں جو خدا نے انھیں بطورِ رزق عطا کئے ہیں(سورۂ حج ۲۲۔ آیت۲۷، ۲۸)

ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے آپ ؑ سے خانۂ کعبہ کے حج اور اس کے طواف کاسبب دریافت کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:

انّ اللّٰہ خلق الخلق۔۔۔ وامر ھم بما یکون من امرالطاعۃ فی الدین، ومصلحتھم من امر دنیاھم، فجعل فیہ الاجتماع من المشرق والمغرب لیتعارفوا۔۔۔

بے شک خدا نے مخلوق کو خلق کیا۔۔۔ ۔ اور انھیں اس چیز کا حکم دیاجو دین میں اطاعت ہے اورجس میں ان کادنیوی فائدہ ہے۔ اورحج میں مشرق اورمغرب کے رہنے والے جمع ہوتے ہیں، تاکہ ایک دوسرے کو پہچان لیں(علل الشرائع۔ ص۴۰۵۔ ح۶)

خانۂ کعبہ کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ خداوند عالم نے خاص حکم دے کر اسے بنوایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ وہ اس مقام پراپنے ہاتھوں سے ایک گھرتعمیر کریں۔ یہی حکم دوسری مسجدوں کی تعمیر کے لئے بھی ہےخدا نے یہ گھراس لئے تعمیر کرایا تھا، تاکہ تمام دنیا کے لوگ اس میں عبادت کریں اور پوری دنیا اس کا حج کرے، اس میں نماز پڑھےاسی طرح خدا یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اپنے شہر کی مسجد میں نماز ادا کریں، چنانچہ مسجد میں نماز پڑھنے کو گھر میں نماز پڑھنے سے افضل قرار دیاگیا ہے، اور لوگوں سے یہ مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ خدا کی عبادت کے لئے اس گھر کا حج کریں اور وہاں ایک دوسرے سے ملاقات کریںجیسا کہ خداوندعالم کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ: لِّیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ (تاکہ وہ اپنے منافع کو دیکھ لیںسورۂ حج ۲۲آیت۲۸)

لہٰذا حج ایک عالمی مناسبت ہے، جس کے دوران ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے امور کے بارے میں غوروفکر کریں اور فکر وخیال اور علوم واخبار کا تبادلہ کریں، تاکہ انھیں اپنے مضبوط اورمحکم روابط کا احساس ہو۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے والایہی کعبہ ہے، جوان کا قبلہ ہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ ایک خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیںحج ہی سے اُن میں اتحادویکجہتی کا احساس پیدا ہوتا ہے جو انھیں کسی بھی ایسی طاقت کے سامنے جھکنے سے روکتاہے جو انھیں تباہ کرنا چاہتی ہے۔

حج سے مسلمانوں کو بہت سے مادّی اورمعنوی فوائد حاصل ہوتے ہیںعبادت بھی ہوتی ہے اورایک دوسرے سے ملاقات بھی۔ اسی طرح لوگوں کے درمیان اقتصادی معاملات اور تجارت بھی ہوتی ہے۔

خدانے حج میں جن مناسک کو واجب کیا ہے، اُن میں بہت سے ایسے تربیتی امور ہیں جو زندگی میں انسان کی ڈگر کو صحیح کرنے میں کافی اثررکھتے ہیں۔

خدانے اپنے گھر کا طواف واجب کیا ہے، تو یہ اس بات کی دلالت ہے کہ جو مسلمان خدا کے گھر کا طواف کرتا ہے، وہ ظالموں سے مدد اور معاونت کے حصول کے لئے اُن کے گھر کا چکّر نہیں لگاتا، اور نہ ہی وہ فسق وفجور کے اڈے، قحبہ خانے اور کَلَب وغیرہ کے پاس پھٹکتاہے، وہ کافروں، مشرکوں اور فاسقوں کے گھر نہیں جاتاکیونکہ ان کا خداسے کوئی تعلق نہیں ہے، قرآنِ مجید میں حضرت لوط ؑ کی زبانی نقل ہوا ہے:

فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ وَ قَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ۔

پھر لوط ابراہیم پر ایمان لے آئے اور انھوں نے کہا کہ میں اپنے ر ب کی طرف ہجرت کررہاہوں(سورۂ عنکبوت۲۹۔ آیت۲۶ )

حج ایک انتہائی گہرے معنی ومفہوم کی حامل عبادت ہے، اس کا تعلق زندگی سے ہے، حتیٰ روایت میں آیاہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ حج کرتا ہے، وہ حج سے فراغت کے بعد ایسے ہی گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے جیسے پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک تھا۔

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

حقّ الحجّ ان تعلم انّہ وفادۃ الی ربّک، َ وفرار من ذنوبک، وبہ قبول توبتک، وقضاء الفرض الّذی اوجبہ اللّٰہ علیک۔

حج کا حق یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ حج تمہارا خدا کی طرف سفر اور گناہوں سے تحفظ ہے۔ اس کے وسیلے سے تمہاری توبہ قبول ہوتی ہے اوراس کے ذریعے وہ فریضہ انجام پاتا ہے جو خدا نے تم پر واجب کیا ہے(خصال۔ ص۵۶۶۔ ح۱)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحاجّ علیٰ ثلاثۃ اصناف: صنفٌ یُعتق من النّار، وصنفٌ یخرج من ذنوبہ کہیءۃ یوم ولدتہ امّہ، صنفٌ یُحفظ فی اہلہ ومالہ، وھو ادنیٰ ما یرجع بہ الحاجّ۔

حاجیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم اُن حاجیوں کی ہے جنھیں جہنم سے نجات دے دی جاتی ہے، دوسری قسم اُن حاجیوں کی ہے جو گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتے ہیں جس طرح پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک تھے، تیسری قسم اُن حجاج کی ہے جو اپنے مال اوراہل کی حفاظت کرلیتے ہیں۔ یہ وہ معمولی ترین فائدہ ہے جو حج کرنے والے کو پہنچتا ہے(اصولِ کافی۔ ج۴۔ ص۲۰۶۔ ح۴۰)

ہوسکتا ہے عام لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئے کہ حج کرنے والے کو لوگ حاجی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جبکہ حج دوسرے واجبات جیسے نمازاور روزہ وغیرہ ہی کی طرح ایک واجب عبادت ہے لیکن ہم نہیں سنتے کہ کسی نمازی کو مصلّی کے لقب سے پکاراجاتا ہو، جبکہ حج کرنے والے کو حاجی اورحاج کہا جاتا ہے۔ یہ شایداس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی معاشرے میں حج ایک انتہائی اہم عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔

لہٰذا جب کسی مردکو حاجی پکارا جائے، یاکسی عورت کو حجّن کہا جائے، تواس موقع پر اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس طواف کو یاد کرے جو اس نے خدا کے لئے کیا تھا، اس سعی کو یاد کرے جو اُس نے قربۃً الی اللہ صفا ومروہ کے درمیان کی تھی، عرفات ومشعر الحرام کے وقوف میں کثرت سے کئے گئے ذکرِ الٰہی کو یاد کرے، منیٰ میں جو اعمال بجا لایا تھا ان کا تصور ذہن میں لائے۔ شیطان کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر منڈواناوغیرہ جیسے مناسک اس لئے ہیں تاکہ آپ کو یہ احساس رہے کہ اس عبادی سفر میں انجام دی گئی یہ مختلف عبادات آپ پر لازم کرتی ہیں کہ آپ اپنی پوری زندگی کو خدا کے سامنے طواف قرا ردیں، اس کی رضا کے حصول کے لئے سعی کریں، انسانوں اور جنّاتوں میں سے ہر اُس شیطان کو کنکری مارنے کو زندگی کا شعار بنائیں جوآپ کی زندگی کو جہنم بنانے کی کوشش کرتاہے۔

اگریہ نہ کہا جاسکے کہ حج اپنے مختلف مناسک میں ساری عبادتوں کو سمیٹے ہوئے ہے، تو یہ تو بہرحال کہا جاسکتا ہے کہ حج اکثر عبادتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے خدا وند عالم اپنے آپ سے تعلق رکھنے والے اس عبادی عمل کے ذریعے چاہتا ہے کہ بندہ اپنی پوری زندگی میں اسی نہج کے مطابق عمل کرے جو خدا نے اس کے لئے حج میں وضع کی ہے۔ اس بات پر بہت سی حدیثوں میں بھی زور دیا گیا ہے، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ ہے:

ثلاث مَن لم یکنّ فیہ لم یتمّ لہ عمل: ورع یحجزہ عن معاصی اللّٰہ، وخلق یداری بہ الناس۔

جس شخص میں یہ تین خصلتیں نہ ہوں اس کا عمل ناقص ہے:ایسا ورع جو اسے خدا کی معصیت سے روکے، ایسا اخلاق جس سے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔

یعنی لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس سے اُن کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے، ایک حدیث میں رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:

اَمَرَنِی رَبّی بمداراۃ الناس کما اَمَرَنی باداء الفرائض۔

خدانے مجھے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کاحکم دیا ہے، اُسی طرح جیسے مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے(وسائل الشیعہ۔ ج۱۲۔ ص۲۰۰۔ ح۲۱)

تیسری خصلت حلم ہے:

وحلم یرد بہ جھل الجاھل۔

اورحلم سے جاہل کی جہالت کو دفع کیا جاتا ہے(اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۱۶۶۔ ح۱)

لہٰذاانسان کو لوگوں سے فراخ دلی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔

اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ:

ما یعبا بمن یوم ھذاالبیت اذا لم یکن فیہ ثلاث خصال: ورع یحجزہ عن معاصی اللّہ، وحلم یردّ بہ غضبہ، وحسن الصحابہ لمن صحبہ۔

جو شخص اِس گھر کے حج کاارادہ کرے اور اس میں یہ تین خصوصیات نہ پائی جائیں، توایسے شخص کی کوئی وقعت نہیں:ایساورع جواسے خدا کی معصیت سے بازرکھے، ایسا حلم جو اس کے غصے پر قابورکھے اور اپنے رفیق اورساتھی کے ساتھ اچھی ہمنشینی اور اچھی رفاقت(خصال۔ ص۱۴۸، ۱۸۰)

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا، توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

امام علی علیہ السلام نے اپنی وصیت میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ خانۂ کعبہ کو سال بھرلوگوں سے بھرارہنا چاہئے، چاہے حج پر آنے والوں کے ذریعے، چاہے عمرے کے لئے آنے والوں سے۔

فرماتے ہیں: ” فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔“ یعنی اگر لوگوں نے خانۂ کعبہ کوخالی چھوڑا تو ان پر عذاب نازل ہو گا۔ آپ ؑ کے درجِ ذیل قول سے بھی یہی مراد ہے:

لو ترک الناس الحج لما نوظرواالعذاب۔

اگر لوگوں نے حج چھوڑ دیا، تو ان پر عذاب نازل ہو گا(وسائل الشیعہ۔ ج۱۱۔ ب۴۔ ح۱)

سدیرسے مروی ہے کہ انھوں نے کہا:میں نے امام محمدباقرعلیہ السلام کے سامنے خانۂ کعبہ کا ذکر کیا، تو آپ ؑ نے فرمایا:

لوعطّلوہ سنۃ واحدۃ لم یناظروا۔

اگر لوگوں نے ایک سال کے لئے بھی خانۂ کعبہ( کا حج وعمرہ) چھوڑا، تو اُن پر عذاب نازل ہوگا۔

حج واجب ہے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشا دہے:

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلااً وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اﷲَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔

اور لوگوں پراللہ کے لئے اس گھر(کعبہ) کا حج واجب ہے، اگر وہ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اورجو کوئی کافرہوجائے، توخداتمام عالمین سے بے نیاز ہے(سورۂ آلِ عمران۳۔ آیت۹۷)

وَ مَنْ کَفَرَکی تفسیرمیں آیا ہے کہ ” جو شخص حج نہ کرے“ اوراس سے مراد عملی کفر ہےواضح رہے کہ خداکوا س بات کی ضرورت نہیں کہ لوگ اس کے گھر کا حج کریں، بلکہ حج سے خودانسان کو دنیاوی فوائدحاصل ہوتے ہیں اورآخرت میں بھی اسکے اجروثواب سے مستفید ہوتا ہے۔ اور اللہ توعالمین سے بے نیاز ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشادِ الٰہی ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اﷲِ وَ اﷲُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۔

اے لوگو!تم سب خدا کے محتاج ہو، اوراللہ صاحبِ دولت اور لائقِ حمدوثنا ہے(سورۂ فاطر۳۵۔ آیت۱۵)

اسکے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ مشرق اورمغرب کا سفر کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، لیکن جب حج کا زمانہ آتا ہے، تو اُن کے سرپر دنیاجہان کی مشغولیتیں اور مشکلیں سوار ہوجاتی ہیں!! یہ خدا سے کیسی محبت ہے؟

بعض افرادحج کی استطاعت کے باوجودحج نہیں کرتے۔ ان کی اولادیں مستطیع ہوجاتی ہیں، تو وہ انھیں بھی یہ کہہ کر حج سے روکتے ہیں کہ جب تمہاری شادی ہوجائے تب حج کو چلے جانا، گویا حج بڑے بوڑھوں کی عبادت ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی اولاد مختلف ملکوں کا سفر کرتی ہے اور وہ اسے کچھ نہیں کہتے، بلکہ بعض لوگ اسے ترقی یافتہ دین کہتے ہیں جو بدعت کی ڈگر پر چلتا ہےیہ لوگ خدا کے اس قول کا مصداق ہیں:

ِ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔

جوخود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کوبھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں(سورۂ نساء۴۔ آیت۳۷)

حج کواتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگرکوئی انسان استطاعت رکھنے کے باوجودحج نہ کرے، تو وہ دین سے خارج ہوجائے گاامام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَن مات ولم یحج حجۃ الاسلام، لم یمنعہ من ذلک حاجۃ تجحف بہ، او مرض لا یطبق فیہ الحج، اوسلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً او نصرانیاً۔

اگر کسی شخص کے حج کرنے میں کوئی حاجت یا بادشاہ یا مرض رکاوٹ نہ ہو اوروہ حج کئے بغیر مر جائے، توایسا شخص یہودی یا نصرانی کی موت مرے گا(وسائل الشیعہ۔ ج۱۲۔ باب۷۔ ح۱)

یعنی ایسے شخص کی موت مذہبِ اسلام پررہتے ہوئے واقع نہ ہوگی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

لو انّ النّاس ترکوا الحج، لکان علیٰ الوالی ان یجبرہم علیٰ ذالک وعلیٰ المقام عندہ، ولو ترکوا زیارۃ النبی(ص) لکان علی الوالی ان یجبرہم علیٰ ذالک وعلی المقام عندہ، فان لم یکن لہم اموال انفق علیہم من بیت مال المسلمین۔

اگر لوگ حج کرناچھوڑ دیں، توحاکمِ وقت کو چاہئے کہ وہ انھیں حج پر مجبورکرے اوراگرنبی کی زیارت چھوڑدیں، توحاکمِ وقت کوچاہئے کہ وہ انھیں آپ کی زیارت اور وہاں ٹھہرنے پر مجبور کرےاوراگر ان لوگوں کے پاس حج کرنے کے لئے پیسہ نہ ہو، توحاکم کوچاہئے کہ حج کے لئے انھیں بیت المال سے پیسہ دے(وسائل الشیعہ۔ ج۱۲۔ باب۶۔ ح۲)

جو کچھ بیان ہوا، اُس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حج انسان کو خداتک پہنچاتا ہےاگر آپ استطاعت رکھتے ہوئے حج کرتے ہیں، توآپ دنیا سے مسلمان اُٹھیں گے اوراگرحج کئے بغیرآپ کی موت واقع ہوگئی، تو آپ غیر مسلم کی مانند مریں گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔

اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔

قرآنِ مجید کی بکثرت آیات میں راہِ خدا میں جان اورمال سے جہاد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اوراس بات پرزوردیا گیاہے کہ یہ لفظ دشمن سے معرکہ آرائی کے معنی میں استعمال ہوگا، کیونکہ جہاد کے بارے میں اکثرآیتیں مسلمانوں اوردشمنانِ اسلام کے درمیان جنگ سے متعلق ہیںیہ الگ بات ہے کہ جہادصرف جنگ ہی میں منحصرنہیں ہے، بلکہ اس میں مقابلے کی وہ تمام صورتیں شامل ہیں جن کامردِ مسلم کوغیر مسلموں کے ساتھ مقابلے کے ان تمام میدانوں میں سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں اسے عظیم اسلامی مقاصد کو جامۂ عمل پہنانے کا مکلف قرار دیا گیا ہے۔

خواہشِ نفس سے مقابلے کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، بلکہ اسے جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ اس وصیت میں جہادکی ایک نئی قسم کوبھی داخل فرماتے ہیں اور وہ ہے جہاد باللسان، یعنی زبان سے جہاد۔

اس لحاظ سے ہم جہادکی مختلف اقسام کے بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ٹکراؤ اور مقابلے کے جو حالات پیدا کئے جاتے ہیں اُن کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیںمثلاً مسلمانوں کو کمزور کرنے، اُن کے حوصلے پست کرنے اوراُن کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے بہت سی چالیں چلی جاتی ہیں۔