جہاد کی تیسری قسم جہادبالمال (مال کے ذریعے جہاد) ہےاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امت کے بعض افراد کو مالی استطاعت دی ہے اور بعض افراداس مال کے محتاج ہیںیا کسی خاص وجہ یا مفادِ عامہ کے لئے مختلف شعبوں جیسے تربیتی، حفظانِ صحت، اجتماعی وسیاسی یا فوجی وعسکری مسائل میں مال کی ضرورت ہوتی ہے۔
جہادبالمال کرنے والے مجاہدین کا قرآنِ مجیدنے بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہےارشاد ہے:
اِنْفِرُوْاخِفَافًاوَّ ثِقَالااًا وَّ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔
ہلکے ہویابھاری گھر سے نکل پڑواورراہِ خدامیں اپنے اموال اورجانوں سے جہاد کرو(سورۂ توبہ۹۔ آیت۴۱)
نیز فرماتا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْما سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَاﷲُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔
جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اُن کے عمل کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اورپھر ہر بالی میں سو دانے ہوں، اورخداجس کے لئے چاہتاہے اضافہ بھی کردیتا ہے اوروہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم ودانا بھی(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۲۶۱)
نیز فرماتا ہے:
فَضَّلَ اﷲُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً۔
خدا نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر امتیازعنایت کئے ہیں(سورۂ نساء۴۔ آیت۹۵)
مزیدفرماتا ہے:
اِنَّ اﷲَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ۔
بے شک خدا نے مومنین سے اُن کی جان اور اُن کے اموال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے(سورۂ توبہ۹۔ آیت۱۱۱)
خداوندِ عالم نے بعض مواقع پر مال خرچ کرنے کے بارے میں بھی گفتگو فرمائی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز ہم نے اُس کی راہ میں دی ہے اُس میں خدا ہی نے ہمیں اپنا نائب قرار دیا ہے۔
فرماتا ہے:
وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ۔
اوراس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمھیں اپنانائب بنایاہے(سورۂ حدید۵۷۔ آیت۷)
نیز فرماتا ہے:
وَّ ٰاتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اﷲِ الَّذِیْٓ ٰاٰتکُم۔
اور انھیں اللہ کے اس مال میں سے کچھ دے دو جو خدا نے تمہیں دیاہے(سورۂ نور۲۴۔ آیت۳۳)
اور فرماتا ہے:
فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاءِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ۔،
اور ان کے اموال میں مانگنے اور نہ مانگنے والوں کاایک حصہ معین ہے(سورۂ معارج۷۰۔ آیت۲۴، ۲۵)
اس سے ایک تواجتماعی کفالت کا باب کھلتا ہے اور دوسری طرف مختلف میدانوں میں امت کی جدوجہد میں مدد ہوتی ہےہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ فکری، سیاسی یا عسکری میدانوں میں جہادکی صلاحیت نہیں رکھتے، لیکن مال ودولت کے مالک ہوتے ہیںلہٰذا وہ مختلف تعمیری سرگرمیوں کے لئے اپنا مال ودولت پیش کرتے ہیں اس مال سے معاشرے میں سرگرمِ عمل افرادایسے کام انجام دے سکتے ہیں جن سے یتیموں، ناداروں اور مسکینوں کی کفالت ہوتی ہے، اورایسے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے جوتنگ دستی کی وجہ سے مجبورہوتے ہیں۔
معاشرے کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف میدانوں میں چلنے والی جہادی تحریکوں کی مدد کریں، مثلاًسیاسی، فکری اور عسکری جہاد وغیرہ میں تعاون کریںکیونکہ اگر قوم ان میدانوں میں جہادکرنے والوں کی مددنہیں کرے گی، تووہ اپنی تحریک کوجاری نہیں رکھ سکیں گے۔
اگر امت مالی جہاد کا فریضہ انجام دینے کی قدرت رکھتی ہو، تواسے یہ فریضہ انجام دینا چاہئےکیونکہ اسے اکثر ان لوگوں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے جو اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اوریہ کمزوریاں قوم کی مالی ضرورت ہی سے پیدا ہوتی ہیں اسی بنا پر وہ لوگ مختلف طریقوں سے امت میں انحراف پیدا کرتے ہیں اس میں شک نہیں ہے کہ ضروریات ہی انسان کو غلام بناتی ہیں۔ لہٰذا روایات میں آیا ہے کہ :استغنِ عمّن شئت تکن نظیرَہ۔ (جس سے بے نیاز ہونا چاہتے ہو، اُسی جیسے بن جاؤ)
اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
انّ اللّٰہ لم ینعم علیٰ عبدٍ نعمۃً اِلّا وقد الزمہ فیہا الحجّۃ من اللّٰہفمن منَّّ اللّٰہ علیہ فجعلہ قویاً فحجّتہ علیہ القیام بما کلّفہ، واحتمال مَن ہو دونہ ممّن ہواضعف منہ، فمن مَنَّ اللّٰہ علیہ فجعلہ موسعاً علیہ، فحجتہُ علیہ ما لہ ثمّ تعاہدہ الفقراء بفرائضہ ونوافلہ، فمن مَنَّ اللّہ علیہ فجعلہ شریفاً فی قومہ، جمیلاً فی صورتہ، فحجتہ علیہ ان یحمد اللّٰہ تعالیٰ علیٰ ذالک، وان لا یتطاول علیٰ غیرہ، فیمنع حقوق الضعفاء لحال شرفہ وجمالہ۔
بے شک خدا نے کسی بندے کو کسی نعمت سے نہیں نوازا، مگر یہ کہ اس سے متعلق خدا نے اس پر حجت قائم کردی ہےجس شخص پر خدا نے احسان کیا اور اسے قوی بنا یا، تو اس پر خدا کی حجت یہ ہے کہ جس بات کااُسے ذمے دار قرار دیا گیاہے اسے انجام دے اور اپنے سے کمزورکی دست گیری کرے اور جس شخص کو خدا نے مال و دولت سے نوازا ہے، اس پر اس کا مال حجت ہے، اُسے چاہئے کہ ناداروں کی مدد کرے۔ اور جس شخص کو خدا نے اس کی قوم میں شرافت وبزرگی عطا کی ہے اور حسن وجمال سے نوازاہے، اس پر خدا کی حجت یہ ہے کہ وہ خدا کاشکراداکرے اورغرور نہ کرے اورجن لوگوں کے یہاں حسن وجمال نہیں ہے ان کے حقوق غصب نہ کرے۔ (اصولِ کافی۔ ج۱۔ ص۱۶۲۔ ح۲)