یہ رمضان المبارک کے مہینے کی انیسویں شب ہے، اس رات عبدالرحمن ابن ملجم کے ہاتھوں ایک عظیم جرم سرزدہواتھا، اسی رات اُس نے حضرت علی علیہ السلام کو حالتِ نمازمیں ضربت لگائی تھی، جس کے سبب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعداسلامی معاشرے کی سب سے عظیم ترین شخصیت امت سے جدا ہوئی تھی، ایسی شخصیت جس کی اُس وقت اسلامی معاشرے کو سخت ضرورت تھی۔
حضرت علی علیہ السلام کا قتل کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، بلکہ اُن سازشوں کے سلسلے کا نتیجہ تھا جن میں نمایاں ترین سازش حکمیت تھی، اسی حکمیت کے سبب جنگِ صفین بند ہوئی تھی، جو حضرت علیؑ پرمعاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے مسلط کی گئی تھی۔ کیونکہ معاویہ نے شرعی خلافت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ حضرت علی ؑ کی خلافت ہر اعتبارسے شرعی اور قانونی حیثیت کی حامل تھی۔ آپ ؑ کی خلافت پر امت کا اجماع تھا، جب کہ آپ ؑ سے پہلے خلفا کی خلافت پر امت کا اجماع نہیں ہوا تھا۔
جنگِ صفین میں معاویہ نے حضرت عثمان کے خون کا انتقام لینے کا نعرہ بلند کیاحضرت عثمان کا قتل گویا اُن کے لئے حضرت علیؑ کی حکومت وخلافت کے غیرشرعی ہونے کی حجت بن گیاتھا، جبکہ حضرت عثمان کے قتل سے حضرت علیؑ کا کوئی تعلق نہ تھا ” قمیصِ عثمان“ اسی زمانے سے ضرب المثل بن گئیاور یہ مثل اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص استحقاق کے بغیر اپنے موقف کو صحیح قرار دینے کے لئے ناحق شور مچاتا ہے۔
جنگ جاری تھی، اگر معاویہ کا فریب وحیلہ کارگر نہ ہوا ہوتا توحضرت علیؑ کی فتح یقینی تھی، لیکن معاویہ کے مشیر عمروبن عاص کے اشارے پریہ چال چلی گئی کہ اہلِ شام نیزوں پر قرآن بلند کریں اور قرآن کو حکم بنانے کا مطالبہ کریں، تاکہ فریقین مسئلے کو حل کرنے کے لئے خدا کے اس قول: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ۔ (۱) کی بنیاد پر قرآن سے رجوع کریں۔
چنانچہ حضرت علیؑ کے لشکر میں سے بعض سادہ لوح لوگوں پر اس کا جادو چل گیاوہ معاملے کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے، جبکہ حضرت علیؑ نے انھیں یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ لوگ دین اورقرآن کو نہیں مانتےآپ ؑ نے اپنے سپاہیوں سے یہ بھی فرمایا: انھوں نے نہ اس سے پہلے قرآن اٹھایا ہے اور نہ اس کے بعد اٹھائیں گے، اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ قرآن میں کیا لکھا ہےانھوں نے تمہیں دھوکا اور فریب دینے کے لئے قرآن اٹھایا ہےاُن لوگوں نے حضرت علی ؑ نے کہا :ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں قرآن کی طرف دعوت دی جائے اور ہم اسے قبول کرنے سے انکار کردیں۔ آپ ؑ نے فرمایا: میں نے ان سے اسی لئے جنگ کی ہے کہ وہ اس کتاب کے مطابق عمل کریں، لیکن انھوں نے حکمِ خدا کی نافرمانی کی اور اس سے کئے ہوئے عہد کو بھول گئے اور کتابِ خدا کو چھوڑدیا۔ (تاریخِ طبری۔ ج۳ص۳۴ )
معاویہ کی اس چال نے حضرت علیؑ کے لشکر میں اختلاف وانتشار پیدا کردیا، جس کی وجہ سے اُن کے لئے جنگ کا جاری رکھنا دشوار ہوگیاخود حضرت علی ؑ کو ان لوگوں کی طرف سے خطرہ لاحق ہوگیاجوبعدمیں خوارج کے نام سے مشہور ہوئےانھی لوگوں کے دباؤکی وجہ سے آپ ؑ نے مالکِ اشتر کوجنگ بند کرنے کاحکم دیا، جبکہ مالک کے ہاتھوں فتح ہونے ہی والی تھی۔
اس فتنے کے پیش نظر حضرت علیؑ نے حکمیت کو قبول کرلیاکیونکہ اس فتنے سے دوسرے مسلمانوں کی ذہنیت میں بھی کجی پیدا ہوسکتی تھیپھر ان مسلمانوں میں سے اکثر لوگ سادہ لوح تھےانھیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کتابِ خدا کو حَکم قرار دینے کاجو نعرہ معاویہ نے بلند کیا ہے، اور مسلمانوں کے خلیفہ حضرت علیؑ اس نعرے کو قبول نہیں کررہے ہیں، آخر اسکی وجہ کیا ہے؟ جوچیز انھیں معاویہ کے راستے سے نزدیک اور حضرت علیؑ کی نہج سے دور کررہی تھی، وہ معاویہ کا کتابِ خدا کوَ حَکم بنانے کا نعرہ تھااکثر موقعوں پرانسان ایسے نعروں کے سامنے نہیں ٹھہر پاتا، خواہ اس کا غلط نتیجہ برآمد ہو۔
بہر حال نوبت مذاکرات اورگفتگو تک پہنچیشام والوں نے اپنا نمائندہ عمرو بن عاص کو مقرر کیا اور خوارج نے ابوموسیٰ اشعری کو معین کیالیکن حضرت علیؑ نے ابو موسیٰ اشعری کو اپنا نمائندہ بنانے کی ان کی اس تجویز کو مسترد کردیا، کیونکہ ابوموسیٰ قابلِ اعتماد نہیں تھےحضرت علیؑ نے ابن عباس کو حَکم کے عنوان سے پیش کیا، تو خوارج نے کہا: ہماری نظر میں آپ اور ابن عباس یکساں ہیں، ہم ایسے شخص کوحَکم بنانا چاہتے ہیں، جو آپ کے اور معاویہ کے لئے برابر ہو(تاریخِ طبری۔ ج۳۔ ص۳۶ )پھر انھوں نے ابوموسیٰ ہی کو مقرر کرنے پر اصرار کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:جس کو تم نے طے کر لیاہے اسی کوبنالو۔ (تاریخِ طبریج۳۔ ص۳۷ )
عمروبن عاص اور ابوموسیٰ اشعری نے یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے امیر کو معزول کردے گا، اور اس کے بعد مسلمان جس کو چاہیں گے اپنا خلیفہ منتخب کرلیں گےاس طرح سرے سے یہ جھگڑاختم ہوجائے گا اور مسلمان سکون پائیں گےابوموسیٰ دھوکا کھاگئےعمروبن عاص نے ابوموسیٰ سے کہا: پہلے تم اپنے امیر کو معزول کروکیونکہ ابوموسیٰ عمر میں اس سے زیادہ تھے اور صحابی ہونے میں اس پر مقدم تھےچنانچہ ابوموسیٰ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم دونوں نے یہ طے کیا ہے کہ علیؑ اور معاویہ دونوں کو معزول کردیا جائے (پس میں علیؑ اور معاویہ دونوں کو معزول کرتا ہوں) جبکہ عمرو بن عاص نے کہا: ابوموسیٰ نے اپنے امیر کو معزول کردیا ہے، لیکن میں اپنے امیر کو برقرار رکھتا ہوں۔
اس سے انتشارا ورخلفشار پیدا ہوگیا۔ یہیں سے خوارج کا فرقہ وجود میں آیاانھوں نے حضرت علیؑ سے کہا: آپ نے شرک اورکفر کیا ہے، کیونکہ آپ نے دین خدا میں لوگوں کو حاکم بنایا ہے، جبکہ اللہ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں ہے۔
حضرت علیؑ نے ان سے گفتگو کی اور ان پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ بات صحیح ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی حاکم نہیں، لیکن معاشرے میں تو انسان ہی حاکم ہوگاحضرت علیؑ نے یہ بھی فرمایا: ان کی بات حق ہے، لیکن اس سے وہ جو مرادلیتے ہیں، وہ باطل ہےکیونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی امیر بھی نہیں ہے، جبکہ لوگوں کے لئے امیر کا وجود ضروری ہے، چاہے وہ نیک ہو یا بداگر نیک ہے، تو مومن اس کی حکومت میں اچھے کام کرے گا اور اگر بد ہے تو کافر لذت اٹھائے گا(نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۴۰)
۱۔ پھر اگر آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو اسے خدااور اس کے رسول کی طرف پلٹادو(سورۂ نساء۴۔ آیت۵۹)