تاریخ میں خوارج کااندازِ فکر
علی ؑ کی وصیت • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
جن لوگوں کی پیشانیوں پر سجدوں کی کثرت کی وجہ سے اونٹ کے گھٹنوں پر پڑنے والے گٹھوں کی طرح گٹھے پڑے ہوئے تھے، اُن کی عقلیں گم تھیں، وہ کسی صورت مذاکرات اور گفتگو کے لئے تیار نہ تھے۔
یہ لوگ حضرت علی ؑ سے علیحدہ ہوگئے، اور یوں امام ؑ کی حکومت کے علاقے میں ایک الگ گروہ پیدا ہوگیا، جو خوارج کے نام سے معروف ہوا۔
اپنی منطق اور اپنے کردار کے اعتبار سے یہ گروہ ہرجگہ اور ہر زمانے میں موجود رہا ہےہمیں ہر زمانے اور ہر موقع پر ایسے افراد نظرآتے ہیں جو بعض نعرے رٹ لیتے ہیں لیکن وہ ان کی گہرائی اور ان کے نتائج سے واقف نہیں ہوتے، اور یہ نہیں جانتے کہ معاشرے پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گےکسی بھی نعرے کے ایک نظری معنی ہوتے ہیں اور دوسرے عملی دنیا میں اس سے لئے جانے والے معنینعرہ کوئی ایسی چیز نہیں ہوتا جو ہوا میں تحلیل ہوجائے، بلکہ وہ معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ہم پوری تاریخ میں کثرت کے ساتھ اسلامی معاشرے میں اس جہالت کامشاہدہ کرتے ہیںیہاں تک کہ لوگوں کی ایک جماعت حضرت علی ابن ابی طالب ؑ سے کہتی ہے کہ: آپ (نعوذباللہ) کافر ہوگئے ہیںجبکہ اسلام کوعلی ؑ ہی کی عقل سے استحکام حاصل ہوا تھاجہاں اسلام کو عقل کی ضرورت تھی وہاں آپ ؑ نے عقل دی، جہاں اُسے جہاد کی ضرورت تھی وہاں آپ ؑ نے جہاد کے ذریعے اس کی مدد کی، اسلام کو زندگی عطا کی اور اس کے نظام کو باقی رکھا۔
اسی طرح ہم بہت سے مصلحین کو دیکھتے ہیں جو امت کی اصلاح اور اسے انحراف اورکج روی سے بچانے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں اور ان کا یہ اقدام جہل اور گمراہی سے دور ہوتا ہے، لیکن مذہبی اور عبادت گزار لیکن عقل اورایمان کی روشنی سے محروم زندگی گزارنے والے خوارج جیسے افراد اُن کے آڑے آجاتے ہیں، جو دوسروں کو کافر اور گمراہ قرار دینا ہی اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔