اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔
حضرت علی علیہ السلام نے حسنینؑ کو اس لئے مخاطب قرار دیا ہے کہ یہ دونوں امام ہیں، اسلام کی زمام انھی کے ہاتھوں میں ہے، یہ دونوں اپنے اپنے مواقع پر اس اسلامی وصیت پر عمل کریں گےاس وصیت کا اسلامی اصولوں پر مبنی ہونا حضرت علیؑ کی عظمت سے تعلق رکھتا ہے، جیسا کہ آگے چل کر اس کے الفاظ سے واضح ہوگا۔
تقویٰ کی وصیت آپ ؑ نے اس لئے کی ہے کہ انبیا ؑ نے بھی اس کی وصیت کی ہے اور خداوندعالم نے بھی قرآنِ مجید میں تقویٰ کی وصیت کی ہے، فرماتا ہے:
وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ۔
اپنے لئے زادِ راہ فراہم کر لو، کہ بے شک بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے، اور اے صاحبانِ عقل ! مجھ سے ڈرو۔“ (سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۹
حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
اُوْصِیْکُمْ عِبَادَاللّٰہِ بِتَقْوَی اللّٰہِفَاِنَّہَا خَیْرُمَا تَوَاصَی الْعِبَادُ بِہٖ، وَخَیْرُعَوَاقِبِ الْاُمُوْرِعِنْدَاللّٰہِ۔
خداکے بندو! میں تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ جن چیزوں کی بندے ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں اُن میں تقویٰ سب سے بہتر اور خدا کے نزدیک ہر چیز کے نتیجے سے برتر ہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۷۱)
تقویٰ کی تفسیر کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے، کہ آپ ؑ نے فرمایا:
اَن لا یفقدک اللّٰہ حیث امرک، ولا یراک حیث نھاک۔
” خدا تمہیں اُس جگہ سے غائب نہ دیکھے جہاں ہونے کااُس نے حکم دیا ہے، اور اُس جگہ موجود نہ پائے جہاں رہنے سے اُس نے منع کیاہے۔“
(بحار الانوار۔ ج۷۰۔ ص۲۸۵۔ ح۸)
وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔
اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا، خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔
دنیا کی طرف میلان ورجحان پیدا نہ کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم دنیا سے اپنی ضرورتیں بھی پوری نہ کریں، کیونکہ دنیا وہ جگہ ہے جسے ہمیں خدا کے پسندیدہ اصولوں کے مطابق چلانا ہے اور اسے ایسی سمت پر لگانا ہے جس سے لوگ امن وسلامتی کی زندگی گزار سکیں اور روئے زمین پر اسے چھوٹی سی جنت بناسکیں تاکہ وہ اس جنت میں ” اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۔ “ (وہ بھائیوں کی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گےسورۂ حجر۱۵ آیت۴۷) دوسرے مومنوں کی طرف سے اپنے دلوں میں حسداورکینہ نہ رکھیں۔
لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم محض دنیا کے حصول کوساری کی ساری کامیابی اور دنیا سے محرومی کوساری کی ساری ناکامی نہ سمجھیںکیونکہ دنیا ہمارے سفر کی انتہا نہیں ہےخداوندعالم نے قارون کی قوم کا ایک قول نقل کرکے ہمیں اس دنیا، اسکی لذتوں اور اسکی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایک بہترین دستورِعمل عطا کیا ہےجب قارون سج دھج کر اپنی قوم کے سامنے آیا تو انھوں نے کہا:
وَ ابْتَغِ فِیْمَآ ٰاٰتکَ اﷲُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لااَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اﷲُ اِلَیْکَ۔
اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھرکا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاؤ اور نیکی کرو جس طرح کہ خدا نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیا ہے(سورۂ قصص۲۸۔ آیت۷۷)
خدا نے انسان کو دنیا میں جو کچھ عطا کیا ہے اس کی غرض وغایت آخرت ہےاور کسی عمل کے آخرت کے لئے ہونے کا معیار اُس کا عنوان، اُس کا باطن اور اُس کا مقصد ہوتا ہےپس اگر عمل کا مقصد خداکی رضا وخوشنودی ہے، تواس عمل کا عنوان خدا کی رضا ہی ہے اور اس کا مقصدآخرت میں بلند درجہ حاصل کرنا ہے اور اس کا سلسلہ ان عظیم اقدار سے جاملتا ہے جو انسان کی مصلحتوں سے تعلق رکھتی ہیں اس صورت میں ہر عمل اُخروی ہوگا خواہ اُس کی صورت مادّی اور دنیوی ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن اگر عمل کی بنیاداورغرض دنیوی ہو، اس کا مقصد دنیوی لذتوں اورشہوتوں میں غرق ہونا ہو، اپنی انانیت کی تسکین اور امتیازات کاحصول ہو، توایسا عمل دنیوی عمل ہے، خواہ اس کی صورت روحانی اور اُخروی ہی کیوں نہ ہویہی حال بعض ایسے نیک اعمال کابھی ہوتا ہے جو خدا کی خوشنودی کے لئے انجام نہیں دئیے جاتے، بلکہ فانی غرض کے لئے کئے جاتے ہیں، جیسے وہ نماز جولوگوں کی مدح وستائش اور دادوتحسین حاصل کرنے کے لئے پڑھی جاتی ہے۔
جب انسان آخرت کے راستے پر چلتا ہے، تو اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے مال کو اپنی حاجتوں، خواہشوں اور ذاتی لذتوں میں خرچ کرےکیونکہ اسکے مادّی جسم کی خصوصیت اس پر لازم کرتی ہے کہ وہ اسکی بقااور حفاظت کے لئے اس کی ضرورت کی ہر چیز فراہم کرے اور اس کی راحت کے اسباب مہیا کرے۔
اس آیت کی روشنی میں ہمارے سامنے اسلام کی یہ متوازن پالیسی آتی ہے جو کہتی ہے کہ انسان اپنے بدن اور روح دونوں کے تقاضوں میں اعتدال سے کام لے۔ اس کا یہ طرزِ عمل اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ آخرت میں خدا کی رضا ورحمت کے سائے میں جنّتی نعمتوں سے مستفید ہوگا۔
حضرت علیؑ نے ہمیں ایک اہم نقطے سے آگاہ کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب دنیا خود کو انسان کے سامنے پیش کرتی ہے، تو وہ انسان سے محبت نہیں کرتی، بلکہ یہ انسان کا امتحان ہوتا ہےاسی چیز کو خداوندعالم نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے:
لِیَبْلُوَنِیْٓ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ۔
وہ میراامتحان لینا چاہتا ہے کہ میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں(سورۂ نمل۲۷۔ آیت۴۰)
نیز فرماتا ہے:
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ وَ اَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِ کَلاَّ بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۔
لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب خدا نے اسے عزت اور نعمت دے کر آزمایا، تو وہ کہنے لگا کہ میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی ہے، اور جب آزمائش کے لئے اسکی روزی کو تنگ کردیا، تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے(سورۂ فجر۸۹آیت۱۵تا۱۷)
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا کی نظر میں مال ودولت کوبڑی قدر و منزلت حاصل نہیں ہے، جس طرح انسان اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ خدا نے کافروں کو بھی مال عطا کیا ہے جبکہ اپنے بعض دوستوں کواس سے محروم رکھا ہے۔
اصل بنیاد یہ ہے کہ انسان اپنی شرعی اور ایمانی ذمے داری پوری کرنے کے لئے عملی سمت میں قدم اٹھائے اور مال کو ان جگہوں پر خرچ کرے جنہیں خدا پسند کرتا ہےکیونکہ خدا سے انسان کے قریب اور دور ہونے کا معیار مال کی فراوانی نہیں ہے، بلکہ اصل معیار عمل ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقکُمْاٰا۔
بے شک خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے(سورۂ حجرات۴۹۔ آیت۱۳)
پس خدا کی بخشش وعطا عزت وسرفرازی نہیں ہے اور نہ ہی اس کاابتلا میں ڈالنااور نہ ہی روزی تنگ کرنااور اہانت وذلت سے گزارنا سرفرازی وقربت کا معیار ہےبلکہ اصل معیار اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے حکمت کے راستے پر چلنا ہے۔
وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔
اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
اہلِ دنیا کا مزاج یہ ہے کہ وہ نفع اور نقصان کے اسباب کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔
حضرت علیؑ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
الزُّھْدُ کُلُّہُ بَیْنَ کَلِمَتَیْنِ مِنَ الْقُرْاٰنِ: قَالَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ: لِّکَیْلااَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لااَا تَفْرَحُوْا بِمَآ ٰاٰتکُمْ(سورۂ حدید۵۷۔ آیت۲۳) وَمَنْ لَمْ یَاسَ عَلَی الْمَاضِی وَلَمْ یَفْرَحْ بِالْاَتِیْ فَقَدْ أَخَذَ الزُّھْدَبِطَرَفَیْہِ۔
زہد کی مکمل تعریف قرآن کے دوجملوں میں ہےخداوندعالم فرماتا ہے: جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا غم نہ کرواور جو چیزتمہارے ہاتھ آئے اُس پراِتراؤ نہیںلہٰذا جو شخص ہاتھ سے نکل جانے والی چیز پر افسوس نہیں کرتا اور ہاتھ آنے والی چیزپر اِتراتا نہیں، اُس نے زہد کو دونوں اطراف سے سمیٹ لیا ہے۔“ (نہج البلاغہکلماتِ قصار۴۳۹)
نفع اورنقصان دونوں ہی حالات کے تابع ہوتے ہیں۔ اس فکر اور قرآنی حقیقت کو ہم نے رات دن، نوروظلمت اور تاریکی وروشنی سے تشبیہ دی ہےانسان فطری طور پر اندھیرے میں گھٹن اور روشنی میں فرحت ونشاط محسوس کرتا ہےکیا ہم تعزیتی جلسے کے لئے رات ہی کا وقت مقرر کرتے ہیں؟ اور کیا جشنِ مسرت دن ہی میں مناتے ہیں؟ یہ بات واضح ہے کہ جب ہمارے افق پر سورج طلوع ہوتا ہے، تو دن ہوتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو رات ہوتی ہے۔
لہٰذااگر آپ کو کبھی کوئی نقصان پہنچے، توآپ مایوس ہوکے بیٹھ نہ جائیں، گھٹنے نہ ٹیک دیں، بلکہ اس نقصان کے اسباب کا سراغ لگائیں تاکہ مستقبل میں خسارے سے دوچار نہ ہوںاور اسی طرح جب آپ کو فائدہ پہنچے، تو اس پر اِترائیے نہیںہاں، اس فائدے کے اسباب کا پتا لگائیں، تاکہ مستقبل میں اور زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں۔
حضرت علی علیہ السلام، ابن عباس کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
اَمَّا بَعْدُفَاِنَّّ الْمَرْءَ لَیَفْرَحُ بِالشَّیْءٍ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لیَِفُوْتَہ، وَیَحْزَنُ عَلَی الشَّیْ ءٍ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیِبَہفَلَا یَکُنْ اَفْضَلُ مَا نِلْتَ فِیْ نَفْسِک مِنْ دُنْیَاکَ بُلُوْغَ لَذَّۃٍ اَوْ شِفَآءَ غَیْظٍ، وَلٰکِنْ اِطْفَآءَ بَاطِلٍ اَوْاِحْیَاءَ حَقٍ وَلْیَکُنْ سُرُوْرُکَ بِمَا قَدَّمَتَ، وَاَسَفُکَ عَلیٰ مَا خَلَّّفْتَ، وَہَمُّکَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ۔
انسان کبھی اس چیزکو پاکر خوش ہونے لگتا ہے جو اس کے ہاتھ سے جانے والی تھی ہی نہیں، اور اس چیزکی وجہ سے رنجیدہ ہوتاہے جواسے ملنے والی تھی ہی نہیںلہٰذا لذت کا حصول اور انتقام کی آگ کوٹھنڈا کرنا ہی تمہاری نظر میں دنیا کی بہترین نعمت نہ ہوبلکہ باطل کو مٹانا اور حق کو زندہ کرنا (تمہاری نظر میں بہترین نعمت) ہو اور تمہاری خوشی اس سرمائے پر ہونی چاہئے جو تم نے آخرت کے لئے فراہم کیا ہے اور تمہیں اس مال پر افسوس کرنا چاہئے جسے تم صحیح جگہ خرچ کئے بغیر چھوڑے جارہے ہو۔ تمہاری ساری فکر موت کے بعد کے بارے میں ہونی چاہئے(نہج البلاغہ۔ مکتوب۶۶)
وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔
اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔
ہر موقع پر تمہیں حق بات کہنی چاہئےعقیدے میں، شریعت میں، ذاتی تعلقات میں، سیاست میں، اجتماعیات میں، اقتصاد میں، امن وسلامتی کے معاملات میں، الغرض زندگی کے ہر معاملے میں حق تمہارے پیشِ نظر ہوناچاہئے کیونکہ خدا وند عالم نے کائنات کو حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، اور اللہ رب العزت انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اپنے ارادے کو اس طرح حق سے آراستہ کرے کہ زندگی کے ہر ہر گوشے میں اس کا طرزِ عمل حق پر مبنی ہو۔
اسی بات کی تاکید انسان کے دوسروں کے ساتھ تعلقات اور روابط کے بارے میں بھی کی گئی ہے۔ انسان کوچاہئے کہ دوسروں کے ساتھ ربط وضبط میں ہمیشہ حق کو مدنظررکھے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی اور اعلیٰ روحانی اقدار پر ایمان کے معاملے میں بھی ہمیشہ حق اسکے پیشِ نظر ہو۔ اور وہ ان اخلاقی اصولوں پر عمل کے معاملے میں بھی ہمیشہ حق پر کاربندرہے جن پر انسان کی انسانیت کا دارومدارہوتاہےنیزاسلام کے ان اصولوں پر عمل کے معاملے میں بھی ہمیشہ حق اسکے پیشِ نظر ہوجو تمام تر متغیرحالات میں ایک ثابت اور مستقل اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
آپ کے عمل سے آپ کوحاصل صلاحیتوں اور قوتوں کا اظہارہوتاہےفرائض کی ادائیگی اور لوگوں کی خدمت کے اعتبارسے آپ میں مختلف صلاحیتیں اور قوتیں پائی جاتی ہیں آپ کے پاس عقل کی قوت ہے، دل کی طاقت ہے، گویائی کی قوت ہے، دیکھنے کی طاقت ہے اور دوسرے اعضا کی طاقت ہےیہاں امام ؑ ایک فکردیناچاہتے ہیں اور وہ یہ کہ خدا نے ہر عمل کے لئے ایک ثواب رکھاہے اور انسان جو کام بھی خدا کے لئے انجام دیتاہے اُس کا اجر وثواب خدا کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔
تربیتی لحاظ سے یہ مسئلہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے انسان کو یہ شعور ملتا ہے کہ وہ اپنے انجام دیئے ہوئے ہرعمل کے ذریعے خدا سے رابطہ رکھ سکتا ہے اور وہ جو بھی کرتا ہے اسے اس کا صلہ ملتاہے اسی طرح جیسے انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھے فلاں شخص کے سبب رزق ملتا ہے، کیونکہ وہ اس کے یہاں کام کرتاہے اور وہ اسے اس کام کی اجرت دیتا ہےپس یہ اس شخص سے جڑجاتا ہے، اس سے مربوط رہتاہےیا جو شخص کسی کمپنی یا ادارے میں کام کرتا ہے وہ ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نفع بخش کام ملےبہت سا وقت اس طرح بیت جاتاہے کہ جس میں کوئی ایسا کام انجام نہیں دیاجاتا جس کا خدا کے یہاں کوئی اجروثواب مل سکےپس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا سے اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے کام کریں، تاکہ ہم عذاب سے امان میں رہیں اور خواہ ہمیں جنت میں صرف ایک ہی کمرہ مل سکے۔ پس ہمیں اس سے کہیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے جتنی ہم دنیا میں ایک فلیٹ کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔
لیکن مشکل مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کو نمازِ جمعہ وجماعت کی طرف دعوت دی جاتی ہے اوراسکے سامنے نمازِ جماعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ: ” جب نمازِ جماعت میں دس سے زیادہ آدمی شریک ہوتے ہیں، تو اس کا اتنا ثواب ہوتاہے جسے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔“ تب بھی اس شخص کے سر پردنیاوی کام ہی سواررہتے ہیں اور بسا اوقات وہ شب باشی اور کھیل تماشے وغیرہ ہی میں مشغول رہتا ہے اور نمازِ جمعہ قائم ہوجاتی ہے جس کا عظیم ثواب بیان ہوا ہے۔
ایک شخص نے امام جعفر صادقؑ سے اورآپ ؑ نے اپنے والد سے اورانھوں نے اپنے جدسے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
ایک اعرابی رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوا جسے قلیب کہاجاتا تھااس نے رسولؐ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے مختلف طریقوں سے حج کا ارادہ کیا، لیکن مجھے نصیب نہ ہوسکاتو رسولؐ نے فرمایا: یا قلیب! علیک بالجمعۃ فانھا حج المساکین۔ (اے قلیب! تم نمازِ جمعہ پڑھا کرو، کیونکہ نمازِ جمعہ مفلسوں کا حج ہے۔ وسائل الشیعہ۔ ج۷۔ ص۳۰۰۔ ح۱۷)
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورانھوں نے آپ سے سات خصلتوں کے بارے میں سوال کئےآپ ؐنے فرمایا:
اما یوم الجمعۃ فیومٌ یجمع اللّٰہ فیہ الاوّلین والآخرین۔ فما من مؤمن مشیٰ فیہ الی الجمعۃ الّا خفّف اللّٰہ عنہ اھوال یوم القیامۃ، ثمّ یؤمر بہ الی الجنۃ۔
اللہ تعالیٰ جمعے کے دن اوّلین وآخرین کو جمع کرتا ہےپھر جو مومن نمازِ جمعہ میں شرکت کرتا ہے، خدا اسے روزِ قیامت کے خوف سے امان میں رکھتا ہے اور اسے جنت میں جانے کا حکم دیتا ہے وسائل الشیعہ۔ ج۷۔ ص۲۹۸۔ ح۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:
مَن اتی الجمعۃایماناًواحتساباًاستانف العمل
جو شخص نمازِ جمعہ میں ایمان اور اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمانی کے ساتھ حاضر ہوتا ہے اس کا عمل ازسرِنو شروع ہوتا ہےوسائل الشیعہ۔ ج۷۔ ص۲۹۸۔ ح۱۰
یعنی اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اس حدیث سے بھی پہلے قولِ خداوندی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔
اے ایمان والو! جب تمھیں جمعے کے دن نماز کے لئے پکارا جائے تو ذکرِ خداکی طرف دوڑپڑواورکاروباربند کردو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جاننے والے ہو(سورۂ جمعہ۶۲۔ آیت۹)
ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بحث اپنی جگہ باقی ہے کہ نمازِ جمعہ واجب ہے یا مستحب؟ یہ واجبِ تخییری ہے یا واجبِ تعیینی؟
فرض کیجئے نمازِ جمعہ واجب نہیں ہےلیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مثلاًجو بھی نمازِ جمعہ پڑھے گا اسے ہزار روپے دئیے جائیں گے، توکیا مسجد میں تل دھرنے کی بھی جگہ رہے گی؟
سلام کے بارے میں حدیث میں آیاہے کہ:
للسلام سبعون حسنۃ، تسع وستون للمبتدی، وواحدۃ للراد۔
سلام کی ستر نیکیاں ہیں، اُنہتّر سلام کرنے والے کے لئے اور ایک جواب دینے والے کے لئے ہے۔ بحارالانوار۔ ج۷۸۔ ص۱۲۰۔ ح۱۷
مگر افسوس! ہم میں سے بہت سے لوگ ” السلام علیکم“ کہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، جبکہ جنت والے سلام کرنے میں کسی قسم کی پشیمانی محسوس نہیں کریں گےجیسے کہ خداوندعالم نے فرمایا ہے: تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۔ (سورۂ احزاب۳۳۔ آیت۴۴)
بالکل اسی طرح جیسے عربی میں ” صباح الخیر“ کہاجاتاہے یا دوسری زبانوں میں خوش آمدیداورمرحبا کہا جاتا ہے، مختلف تہذیبوں میں اس مقصد کے لئے طرح طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیںہم ملاقات کے موقع پر اظہارِ خیر سگالی کے لئے کسی خاص لفظ کے استعمال کے بارے میں تعصب سے کام نہیں لیتے، لیکن ایسے موقع پر ادا کئے جانے والے جس لفظ کاسرچشمہ ہمارا ایمان ہو، ضروری ہے کہ ہم اسی لفظ کو اپنی روزمرہ ملاقاتوں میں استعمال کریں اور اسے اپنے ایمان کا جز سمجھیں۔
جوعمل اجر وثواب کے لئے انجام دیا جاتا ہے، وہ انسان کو آخرت سے جوڑ دیتا ہےکیونکہ اس کی نیت اورجذبہ خدا پرآشکارا ہوتاہےوہ خدا کی رضا کے حصول میں سرگرداں ہےاس طرح اس کی دنیاآخرت میں بدل جاتی ہے اور عمل کا مادّہ بھی بدل جاتا ہےمادّی عناصرروحانی عناصر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، یہ عمل خدا کے یہاں ذخیرہ ہوجاتا ہے، اس کے ذریعے ثواب حاصل ہوتا ہے اوراسکے عذاب میں کمی واقع ہوتی ہےشاید خداوندِ عالم کا یہ قول:وَ ابْتَغِ فِیْمَآ ٰاٰتکَ اﷲُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ (اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کاانتظام کرو۔ سورۂ قصص ۲۸۔ آیت۷۷) اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شایدوصیت کے اس جملے کا مقصدیہی ہے کہ وہ انسان کو خدا سے غافل نہیں ہونے دیتا، باوجودیکہ وہ دنیا کے کاموں میں منہمک رہتا ہےکیونکہ وہ خداسے تعلق کے نتائج وحالات کو جانتا ہے، اور خدا کے جود وکرم کا متمنی ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی ؑ اپنی وصیت کے اس جملے میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم اپنے تمام اعمال میں خدا کے ثواب کو ملحوظ رکھیں، اور خدا سے کی جانے والی تجارت انتہائی نفع بخش تجارت ہے۔ خود خداوندِ عالم فرماتا ہے: مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا (جو کوئی بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا۔ سورۂ انعام ۶۔ آیت۱۶۰)
وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔
اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
انسان کا ہر عمل اسی دستورکے مطابق انجام دیاجانا چاہئےخواہ سیاسی معاملہ ہویا سماجی یا اقتصادی، خواہ عام کام ہو یا خاص۔
ظالم چھوٹا ہو یا بڑا، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہےچاہے سیاست میں ظالم ہویااجتماعی واقتصادی زندگی میں، چاہے گروہی سطح کا ظالم ہو یا تنظیمی سطح کا، چاہے اپنے بچوں اور بیوی کے حق میں ظالم ہو یا اہلِ محلہ اور ہمسایوں کے حق میں ظالم۔
ظلم کے سلسلے میں اسلام کا دستور یہ ہے کہ انسان ظلم سے یکسردور رہے، ظالم سے قطع تعلق کرے اوراس سے کوئی واسطہ نہ رکھےخداوندِ عالم فرماتا ہے:
وَ لااَا تَرْکَنُوْآ اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ۔
اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرناکہ جہنم کی آگ تمھیں چھو لے گی۔ (سورۂ ہود۱۱۔ آیت۱۱۳)
اگرآپ کے حالات آپ کوظالم سے تعلقات رکھنے پر مجبور کرتے ہوں، تواس صورت میں یا توآپ اس کی تائید ونصرت کریں گے یا اس کے لئے جنگ کریں گے، لوگوں سے بغض وعداوت رکھیں گےاسلامی نقطۂ نظر سے لوگوں کے ساتھ معاملات اورتعلقات میں ان چیزوں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
ظالم اورمظلوم کے معاملے میں انسان کو غیرجانبدار نہیں ہوناچاہئےاس کا موقف اثباتی ہونا چاہئےظالم سے کم از کم اتنی بیزاری اختیار کرے جتنا امکان ہواگر عملی طو ر پر ممکن ہو تواسے ظلم سے روکے، تا کہ وہ ظلم نہ کر پائے، یا زبان سے اس کی مخالفت کرے، اور زبان کے ذریعے اسے ظلم سے روکے، یا دل سے اس کی مخالفت کرے اور ظالم سے قطع تعلق کرےاپنی نگاہوں کے ذریعے اس سے بیزاری کا اظہار کرے، یااس سے ایسا سلوک کرے کہ وہ سمجھ لے کہ یہ اس کے فعل سے راضی نہیں ہےحدیث میں آیا ہے:
مَن رای منکم منکراً فلینکر بیدہ ان استطاع، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، فحسبہ ان یعلم اللّٰہ من قلبہ انّہ لذلک کارہ۔
تم میں سے جو شخص کسی ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھے، اُسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے ظلم کو روکے۔ اگریہ ممکن نہ ہو توزبان سے، یہ بھی نہ ہوسکے تو دل میں اس سے بیزاری اختیار کرے اور دلی بیزاری کے لئے اتناکافی ہے کہ خدا یہ جان لے کہ تم اس سے بیزار ہو(وسائل الشیعہ۔ ج۱۶۔ ص۱۳۵۔ ح۳)
اِس کے برخلاف ہمیں قول وفعل کے ذریعے یا روحانی اشتراک کے ذریعے مظلوم کی مدد کرنی چاہئےمظلوم خواہ کوئی ایک شخص ہویاجماعت، قبیلہ ہویاپوری امت وملتحضرت امام زین العابدینؑ کی دعا میں آیاہے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعْتَذِرُاِلَیْکَ مِنْ مَظْلُوْمٍ ظُلِمَ بِحَضْرَتِیْ فَلَمْ اَنْصُرْہُ۔
پروردگار!میں تجھ سے اس بات پرمعذرت چاہتاہوں کہ میرے سامنے کسی مظلوم پر ظلم کیا گیاہو اور میں اس کی مدد نہ کرسکاہوں(صحیفۂ سجادیہ۔ دعا۳۸)
یعنی اگر کوئی دیکھے کہ ایک شخص دوسرے شخص کوناحق مار رہا ہے اوروہ اسے روکنے پر قادربھی ہو، لیکن وہ عافیت طلبی کی وجہ سے مارنے والے کونہ روکے۔
جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھااورغیرجانب دار رہے، یاانھوں نے آپ ؑ پر ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا، یاآپ ؑ کے اور معاویہ کے درمیان ہونے والی جنگ میں گوشہ نشین رہے، حالانکہ اس جنگ کے ذریعے معاویہ نے آپ ؑ کے حق میں ظلم کیاتھا، کیونکہ آپ ؑ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کررہے تھے، اسے نافذ کررہے تھےحضرت علی ؑ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا:
خَذَلُواالْحَقَّ وَلَمْ یَنْصُرُواالْبَاطِلَ۔
ان لوگوں نے حق کو چھوڑ دیااور باطل کی بھی مدد نہ کی(نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۱۷)
یہ صحیح ہے کہ انھوں نے حق کے خلاف جنگ میں باطل کا ساتھ نہیں دیا، لیکن باطل کے خلاف حق کی مدد بھی نہیں کیاپنے اس طرزِ عمل کی وجہ سے وہ باطل کے لئے قوت بن گئے اور حق کو اپنی قوت سے محروم رکھا۔ اس طرح انھوں نے ظالم کو مظلوم پر فتح یابی کا موقع فراہم کیا۔
یہاں ایک نکتہ اورہے جو ان لوگوں سے متعلق ہے جو ظالموں کے گروہ میں ہوتے ہیں، ان کے مددگاراورحمایتی ہوتے ہیں، انتخابات میں اپنی نعرے بازی کے ذریعے اُن کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کے جلسوں اورمیٹنگوں میں شریک ہوتے ہیں اور اس طرح ظالموں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
بہر حال، ظالم کوئی بھی ہو، ان میں سے ہر ایک کا دوسرے سے ربط ہوتاہے، اگرچہ بذاتِ خودوہ ایک فردہوتاہے، دوسرے لوگوں کی مانندعام طاقت کامالک ہوتاہے، لیکن میری، آپ کی اور دوسرے لوگوں کی تائید اس کی قوت میں اضافہ کردیتی ہےاس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان لوگوں کی طاقت سے ظالم بنتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں۔
چنانچہ جن لوگوں نے اسے قوی بنایا ہے، وہ گویا اس کی قوت میں شریک ہیں، اور نتیجے میں اس کے ظلم میں بھی شریک ہیںپس ظالم لوگوں کے لئے نعرے بازی اور اُن کی مدد کرکے یہ لوگوں پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیںمنقول ہے کہ بنی امیہ کو اگر مددگار اور طرفدار نہ ملتے، تو وہ ہرگز اہلِ بیت ؑ کا حق غصب نہ کرپاتےبنی امیہ دوسرے قبائل کی طرح ایک قبیلہ تھا، اسے اہلِ بیت ؑ اور امام حسینؑ پر ظلم اور انھیں قتل کرنے کی طاقت اُن ہی لوگوں سے ملی تھی جنھوں نے اِس کی مدد اور حمایت کی تھی۔
جو شخص ظالم کے لئے عذر تراشی کرے، اس کے بارے میں اہلِ بیت ؑ سے نقل ہوا ہے کہ مثلاً وہ کسی کے بارے میں یہ سنے کہ فلاں نے فلاں کو قتل کردیا، یا اس کا مال چرا لیا، یا اس کی صورت کوبگاڑدیاہے اور یہ کہے اسے اس کا حق پہنچتا تھا، تویہ شخص اس ظالم کے منصب اور اس کی چودھراہٹ کا دفاع کررہا ہے۔
من عذر ظالماً بظلمہ سلّط اللّٰہ علیہ من یظلمہ فان دعا لم یستجب لہ ولم یاجرہ علی ظلامتۃ۔
جو شخص کسی ظالم کے ظلم کے لئے عذر پیش کرے گا، توخدا س پر ایسے شخص کو مسلّط کردے گا جو اس پر ظلم کرے گااگر وہ دعامانگے گا تومستجاب نہ ہوگی اور اس پر ہونے والے ظلم کے عوض اسے ثواب بھی نہیں ملے گا(اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۳۳۴۔ ح۱۸)
حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
الرَّاضِیْ بِفِعْلِ قَوْمٍ کَالدَّاخِلِ فِیْہِ مَعَہُمْ، وَعَلیٰ کُلِّ دِاخِلٍ فِی بَاطِلٍ اِثْمَانِ:اِثْمُ الفعل بِہٖ، واِثْمُ الرِّضَابِہٖ۔
جو شخص کسی گروہ کے عمل سے خوش ہوتاہے، گویاوہ اس عمل میں اس کا شریک ہے۔ اور جوغلط کام میں شریک ہوتا ہے اس کے دو گناہ ہوتے ہیں: ایک اس پر عمل کرنے کا گناہ اور ایک اس پر رضامند ہونے کا گناہ(نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۱۵۴)
اس اصولی مؤقف کے لحاظ سے عالمی استکبار کے حوالے سے ہمیں مخالفانہ مؤقف رکھناچاہئے۔ لہٰذاعالمی استکبار کے مقابلے میں ہم مخالفانہ مؤقف رکھتے ہیںکیونکہ وہ سیاسی، اقتصادی اورعسکری حوالوں سے لوگوں پر ظلم کرتا ہےاسی طرح صہیونی استکبار کے بارے میں بھی ہم مخالفانہ مؤقف رکھتے ہیںہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کا وجودغیر قانونی ہے، اس نے فلسطینیوں کو اُن کی سرزمین سے نکالا، اُن پر ظلم کیا، صرف اُن ہی پر نہیں بلکہ فلسطین سے ملحق علاقوں میں رہنے والوں پر بھی ظلم وزیادتی کیامیر المؤمنین ؑ کی اس وصیت کی رو سے جس نے ماضی میں اسلامی دستوراور راہِ عمل کی نشاندہی کی اورمستقبل میں بھی اپنا یہ کردار جاری رکھے گی ہم اسی طرح ہر ظالم کے مقابلے پر کھڑے ہوں گے اور ہر میدان میں اس کا مقابلہ کریں گے۔
اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔
میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
تمام انبیا ؑ نے اللہ سے ڈرنے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کی ہےاللہ کے تقویٰ کے سبب انسان حکمِ خدا کی اطاعت کرتا ہے اور اسے بجا لاتا ہے اور جن چیزوں سے اُس نے روکاہے اُن سے بازرہتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حضرت علیؑ نے تقویٰ اور نظمِ امور کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امور میں نظم تقویٰ میں سے ہے، تقویٰ کا حصہ ہےکیونکہ خدا وندِ متعال امور میں نظم کو پسند کرتا ہے، اس سے خوش ہوتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہےپھر امور کے نظم سے ہی معاشروں میں توازن اور تنظیم پیدا ہوتی ہے اورپورا معاشرہ ایک نظمِ عمومی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے لوگوں کے معاشرتی اور ذاتی حقوق کا لحاظ رکھتا ہےاس طرح مسلم اورغیر مسلم افراد ایک منظم معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر ایک اپنی اپنی ذمے داری اور فرض کو پہچانتا ہے، کوئی کسی کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرتی نظم ونسق کی حفاظت اوراسے ملحوظ رکھناایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتا ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ اسکے پابند رہیں۔ یہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہےکیونکہ یہ معاشرتی استحکام اور اسکے تمام شعبوں میں توازن پیدا کرتاہے حفظِ نظام اطاعتِ الٰہی ہے، بشرطیکہ اسے خوشنودئ خدا کے لئے پیشِ نظر رکھا جائےاورجس کام سے نظام میں خلل واقع ہوتاہو، وہ شرعاً جرم ہے۔
اس حوالے سے ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذہنی تربیت کے سبب اُن چیزوں کی بھی رعایت نہیں کرتے جن کا تعلق خود اُن کی اپنی زندگی سے ہوتا ہےیہی ذہنی تربیت انسان کے لئے اُن چیزوں پر تصرّف کو مباح کردیتی ہے جو رفاہِ عام اور عوام الناس کی خدمت کے لئے ہوتی ہیں اس کے لئے وہ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ظالم حکومت کی ہیں اور شریعت کی روسے ایسی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہےچنانچہ بعض افراد فقہی نظر کے تحت ان اموال کو مجہول المالک (جس کے مالک کا پتہ نہ ہو) قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت اس طرح مالک وحقدار نہیں ہوتی جس طرح افراد اپنے اموال کے مالک ہوتے ہیں۔
لیکن ہماری رائے اس کے برخلاف ہےفقہی نقطۂ نظر سے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت بھی اسی طرح مالک ہوتی ہے، جس طرح فرد مالک ہوتا ہےلہٰذا حکومت کے اس مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے جو لوگوں کی رفاہ کے لئے ہو۔
اگر ہم اس سے تھوڑا نیچے آئیں اور یہ کہیں کہ حکومت اس کی مالک بننے کی اہل نہیں ہے، اور اس کا سارا مال مجہول المالک کے زمرہ میں آتا ہے، توبھی اس میں ہرایک کاتصرف کرنا مباح نہیں ہوسکتاکیونکہ مجہول المالک مال میں تصرف کے لئے حاکمِ شرعی سے رجوع کرنا ضروری ہے، جو عام لوگوں کی مصلحتوں اور مفادات کا خیال رکھتا ہے، وہ اس میں اس طرح تصرف نہیں کرتا ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے جائز سمجھ لیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم اپنے ہی معاشرے سے چند مثالیں پیش کرسکتے ہیں، کہ لوگوں میں حکومت کے اموال میں تصرف کی ایسی عادت پڑ چکی ہے جو حکمِ خداسے مطابقت نہیں رکھتی۔