علی ؑ کی وصیت

جہاد کی اقسام میں سے ایک جہاد بالنفس ہے اور یہ اُن دشمنوں کے خلاف جہاد کی اعلیٰ ترین قسم ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوتے ہیں، اُن کے شہروں پرقبضہ کرتے ہیں، ان پر سختی کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پراپنی قوت کے ذریعے اثرانداز ہوتے ہیں۔

خداوندعالم فرماتا ہے:

اَلَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَ جَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اﷲِ وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفَآءِزُوْنَ یُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّہُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا اِنَّ اﷲَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔

بے شک جو لوگ ایمان لائے اورہجرت کی اوراپنے اموال اوراپنی جانوں سے راہِ خدامیں جہادکیا، وہ خداکے نزدیک بڑے مرتبے پرفائزہیں، اوروہی درحقیقت کامیاب بھی ہیں اللہ ان کو اپنی رحمت، رضامندی اور باغات کی بشارت دیتا ہے، جہاں اُن کے لئے دائمی نعمتیں ہوں گی۔ بے شک خداکے یہاں اُن کے لئے بڑااجر ہے(سورۂ توبہ۹۔ آیت۲۰تا۲۲)

اور ارشادِ الٰہی ہے:

اِنَّ اﷲَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْراٰۃِ وَ الْاِنجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ۔

بے شک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے اُن کے جان ومال کوجنت کے عوض خریدلیا ہے، کہ یہ لوگ راہِ خدا میں جہاد کرتے ہیں اوردشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں، یہ وعدۂ برحق توریت، انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے(سورۂ توبہ۹۔ آیت۱۱۱)

حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں:

امّا بعد فانّ الجہاد بابٌ من ابواب الجنّۃ فتحہ اللّٰہ لخاصۃ اولیاۂ، وھو لباس التقویٰ، ودرع اللّٰہ الحصینۃ وجُنتہ الوثیقۃ، فمن ترکہ رغبۃً عنہ البسہ اللّٰہ ثوب الذلّ، وشملہ الیلاء، ودُیِّت بالصغار والقماءۃ۔

جہادجنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جسے خدانے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہےجہاد تقویٰ کا لباس ہے، خدا کی محکم ذرہ اور مضبوط سپر ہےجو اس سے روگردانی کرتا ہے خدااسے ذلت کا لباس پہنادیتاہے، اسے بلا میں مبتلا کردیتاہے اوراسے ذلت وخواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتاہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۲۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

فوق کلّ ذی برّ برّ، حتّی یُقتل المرء فی سبیل اللّٰہ، فا ذا قتل فی سبیل اللّٰہ فلیس فوقہ برّ۔

ہر نیکی کے اوپرنیکی ہے، یہاں تک کہ انسان راہِ خدا میں قتل ہوجائےجب وہ راہِ خدا میں قتل ہوجائے گا، تواس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں رہے گی(وسائلِ الشیعہ۔ ج۱۵۔ باب۱۔ ح۲۱)