۵جہاد باللسان
علی ؑ کی وصیت • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
حضرت علی علیہ السلام کی وصیت میں جہاد باللسان کا ذکر بھی ہواہےاس سے مراد ہے زبان سے نیک باتوں کا حکم دینا اور بُرائیوں سے روکنا۔ رسول اللہ ؐسے منقول ہے:
لتاْمُرنَّ بالمعروف، ولتنھُنَّ عن المنکر، اولیعمنّکم عذاب اللّٰہ۔
تمہیں چاہئے کہ نیکی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، اگرایسا نہیں کروگے، تو تمھیں خدا کا عذاب گھیر لے گا۔
پھر فرمایا:
مَن رایٰ منکم منکراً فلینکرہ بیدہ ان استطاع، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، فحسبہ ان یعلم اللّٰہ من قلبہ اَنّہ لذلک کارہ۔
تم میں سے جو شخص کسی کو بُرا کام کرتے ہوئے دیکھے اوراسے روکنے پر قادر ہو، تو اسے ہاتھ کے ذریعے اس کام سے روکے، اورا گر ہاتھ سے نہ روک سکے، توزبان سے روکے، اوراگر زبان سے نہیں روک سکتا، تو دل میں اس سے نفرت کرےخدااس کے دل کا حال جانتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کررہا ہے(وسائل الشیعہ۔ ج۱۶۔ باب۳۔ ح۱۲)
لہٰذاانسان کوجہاں کہیں باطل نظر آئے، وہاں اُسے اس طرح حق بات کہنی چاہئے جس سے حق کی طاقت کا اظہار ہورسولِ مقبولؐ سے منقول ہے:
انّ افضل الجہاد کلمۃ عدلٍ عند امام جائر۔
افضل ترین جہاد یہ ہے کہ انسان ظالم حاکم کے سامنے حق بات کہے(اصولِ کافی۔ ج۵۔ ص۴۰۔ ح۱۶)
امام جعفرصادقؑ نے رسولِ مقبولؐ کے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے کہ :
ھذاعلی ان یامرہ بعد معرفتہ، وھو مع ذلک یقبل منہ والّا فلا۔
وہ یہ بات جاننے کے بعد یہ عمل انجام دے کہ اگرمیں اس ظالم بادشاہ کو عدل کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دوں گا، تو وہ اسے قبول کرلے گا، تو اس صورت میں اسے امامِ جائر اور ظالم حاکم کے سامنے حق بات کہنی چاہئے ورنہ نہیں۔ اصولِ کافی۔ ج۵۔ ب ۲۔ ح۱
یعنی انسان کو اپنی زبان سے نکلنے والی بات کا علم ہو کہ اس سے مقصد پورا ہوگا، تیر نشانے پر لگے گا اِدھر اُدھر نہیں، اگر اِدھر اُدھر لگے گا تو اس سے خود کو اور معاشرے کو نقصان پہنچے گا اوراس سے خدا خوش نہیں ہوگا۔
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
عبادتوں کی مختلف اصناف کے بارے میں وصیت فرمانے کے بعد امیرالمومنین ؑ نے اسلامی معاشرے کے افراد کے اجتماعی اور سماجی تعلقات کا موضوع شروع کیا ہے۔ اِن تعلقات میں ایک دوسرے سے روابط رکھنے کے طریقوں کو اہمیت دینا بھی شامل ہے۔
جب مسلمان ایک سماج کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں، تواُن پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلقات رکھیں۔ اِن تعلقات کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً میل ملاقات، گفت وشنید، تقوے اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون اورباہمی مشاورت۔
اسلامی معاشرے کے ہر ہر فردپر واجب ہے کہ وہ دوسرے کے لئے قربانی دے، گویااپنے آپ کو دوسرے کے لئے اس طرح پیش کرے کہ جس سے اُس کی عقل کھل جائے، دل روشن ہوجائے اور اُس کی زندگی میں نکھارآجائےظاہری تعلقات یا مادّی فائدہ رسانی ہی کو کافی نہ سمجھے۔
اجتماعی اورسماجی تعلقات معاشرے کی قوت اور سلامتی کی بنیادہیں، یہ ہراُس شخص سے ٹکرانے کی قوت فراہم کرتے ہیں جو معاشرے کو تباہ کرناچاہتا ہےکیونکہ جب لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہوں گے، تووہ ایک دوسرے کے علم سے آگاہ ہوں گے، ایک دوسرے کی صلاحیتوں اورمعلومات سے استفادہ کریں گے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی انسان کو زندگی میں ضرورت ہوتی ہےاس طرح تمام افرادِ معاشرہ ایک دوسرے کے ساتھ صلاحیتوں کا تبادلہ کرتے ہیں، یوں مختلف صلاحیتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کامل ہوتی ہیں اور معاشرے میں توازن قائم ہوتا ہے اوروہ خودکفیل اور قوی ہوتا ہےیہی نوعیت ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی بھی ہےمعاشرے کا ہر فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ اسلام کی بنیادپروجود میں آنے والے تعلقات کی بنا پر معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے دوسرے تمام افراد اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔
خداوندِ عالم نے اسی لئے مختلف خصوصیتوں کے حامل لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعارف پر زور دیا ہےفرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنکُمْاٰا مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنثٰی وَ جَعَلْنکُمْاٰا شُعُوْبًا وَّ قَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا۔
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اورتمھیں خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو(سورۂ حجرات۴۹۔ آیت۱۳)
تعارف کا بہترین طریقہ باہمی تعلقات ہیں، کیونکہ قطع تعلق کی صورت میں نہ ایک دوسرے کو پہچاناجاسکتا ہے اورنہ ایک دوسرے کے اندازِ فکر اور صلاحیتوں سے آگہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف قطع تعلق اُن لوگوں کے لئے آسانی فراہم کردیتا ہے جو اسلامی طاقت کو پاش پاش کرنے کے لئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیا کرتے ہیںقطع تعلق کی صورت میں وہ شخص آپ کے درمیان غلط فہمیاں پھیلائے گا جویہ نہیں چاہتا کہ آپ کے اور دوسروں کے درمیان تعلقات استوارہوںاس طرح افرادِمعاشرہ کے درمیان دشمنیاں اورعداوتیں پید اہوجاتی ہیں، جبکہ آپس کے تعلقات اور رابطوں کی صورت میں غلط فہمیوں کاازالہ آسان ہواکرتا ہے، اور ایک دوسرے کے متعلق سنی ہوئی باتوں کی حقیقت جانی جاسکتی ہے۔
مؤمنین کے درمیان قطع تعلق، ایک مہلک اورخطرناک مرض ہے، جس سے افرادِ معاشرہ پر غلط اثر پڑتا ہے، روابط اور تعلقات نہ ہونے کی بنا پر ان کے درمیان جدائی پیداہو جاتی ہے، کیونکہ جب کسی شخص کا دوسرے شخص سے سیاسی، اجتماعی، فکری اور عقیدتی یا فقہی مسئلے میں اختلاف ہوجاتاہے، تو اِن دونوں کے درمیان میل ملاقات کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے اور صاحب سلامت، سلام دعا بھی نہیں رہتی، جبکہ میل ملاقات کی صورت میں صلح وصفائی کا دروازہ کھلا رہتا ہے، جس کے ذریعے انسان آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرسکتے ہیں۔
قطع تعلق کے نتیجے میں اختلافات بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، اگرچہ ابتدا میں زیادہ نہیں ہوتےپھر نوبت یہاں تک جاپہنچتی ہے کہ گویا ہمارے درمیان کوئی مشترک چیز ہے ہی نہیں۔ اس صورت میں ہمیں خدا، رسول، قرآن اور شریعت بھی متحدنہیں کرسکتی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان نے ہماری زندگی پر کوئی عملی اثر نہیں چھوڑاہے، کیونکہ ہم نے وہ تمام اصول توڑ ڈالے ہیں جو ہمارا رشتہ دوسروں سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح ہماری اجتماعی اور سیاسی زندگی میں فاصلے پیداہوجاتے ہیں۔
روابط وتعلقات ہمیں متحد اورایک نقطے پر جمع کرتے ہیںکبھی کبھی معاشرے میں ایسی باتیں ابھرآتی ہیں جن سے ہمارے حلقوں میں اختلاف پیداہوجاتاہے اورہم اس اختلاف کو دورکرنے کی کوشش نہیں کرتے، جبکہ عین اسی وقت ہم اُن لوگوں کو باہمی گفتگو کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں جن کا ہمارے حلقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتامثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ مختلف اسلامی فرقوں کو تواتحاد کی دعوت دیتے ہیں، لیکن خود شیعیانِ اہلِ بیت ؑ کے درمیان تعلقات میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ دورِحاضرمیں بعض لوگوں نے اسلام اور مسیحیت کے درمیان گفتگو کا نظریہ پیش کیا ہے، لیکن یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان باہمی مکالمے کے لئے تیار نہیں ہیںبعض لوگ ملحدوں سے تعلقات رکھتے ہیں، لیکن مؤمنوں سے جدا رہتے ہیں! کیایہ طرزِ عمل تعصب اور پس ماندہ ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتا؟
حضرت علی علیہ السلام ایسا معاشرہ نہیں چاہتے، آپ ؑ نے بہت سی چیزوں کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ جب لوگوں نے حضرت عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا، توامام ؑ نے فرمایا:
لَاُ سْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ اُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَمْ یَکُنْ فِیْہَاجَوْرُ اِلَّاعَلَیَّ خَاصَّۃً۔
جب تک مسلمانوں کے معاملات صحیح طرح چلتے رہیں گے اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنے گی، میں نبھا کرتا رہوں گا(نہج البلاغہ۔ خطبہ۷۲)
گویاآپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب تک تنہا میری ذات پر ظلم ہوگااورمسلمانوں کے امور سلامت رہیں گے، اُس وقت تک میں برداشت کروں گا۔
لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
دیکھو !امربالمعروف اور نہی عن المنکرکوترک نہ کرنا، ورنہ بدکردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔
حضرت علی علیہ السلام کی عمومی وصیت کا یہ آخری فقرہ ہےامربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں بھی کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں(سورۂ آلِ عمران۳۔ آیت۱۰۴)
نیز فرماتا ہے:
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ کَانُوْا لااَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۔
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا تھا، اُن پر جناب داؤد اور حضرت عیسیٰ نے لعنت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی تھی اور وہ زیادتی کے مرتکب ہوتے تھے، وہ جو بُرا کام کرتے تھے اُس سے باز نہیں رہتے تھے، یقیناًوہ بُرا کام کرتے تھے(سورۂ مائدہ۵۔ آیت۷۸، ۷۹)
نیز فرماتا ہے:
اَلْمُنفِقُوْنَاٰا وَ الْمُنفِقٰتُاٰا بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ نَسُوا اﷲَ فَنَسِیَہُمْ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے سے ہیں، وہ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، اُنھوں نے اللہ کو بھلادیاہے، تواللہ نے بھی اُن کی پروا نہیں کی کہ منافقین ہی اصل میں فاسق ہیں(سورۂ توبہ۹۔ آیت۶۷)
اور فرماتا ہے:
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اﷲُ اِنَّ اﷲَ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگارہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں، وہ خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر عنقریب خدا رحمت کرے گا، بے شک خدا غالب اورحکمت والا ہے(سورۂ توبہ۹۔ آیت۷۱)
منکرہر وہ چیز ہے جسے خدا پسند نہیں کرتا، خواہ وہ چیز فردی ہو یا اجتماعی، سیاسی ہو یا عسکری اورجو چیزخدا کو پسند نہ ہو وہ انسان کی زندگی میں فساد پیدا کرتی ہے، اُس کے نفس کو تباہ کرتی ہے، اس کے معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اورمعروف ہر وہ چیزہے جس سے خدا خوش ہوتاہے، یاجو اسے پسند ہے اوروہ یہ چاہتا ہے کہ بندے اسے اختیار کریں اوراس پر عمل کریںاسی میں بندوں کی بھلائی ہے، اسی میں ان کی زندگی اور معاشرے کااستحکام ہے۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکراسلامی حکومت سے مربوط مسائل میں سے ہے، اس کا ربط اسلامی قوانین سے ہے جو معاشرے میں اس لئے نافذ کئے جاتے ہیں تاکہ معاشرے کا داخلی امن وامان برقرار رہے، مگر یہ کہ حکومت کی سیاست پر دوسری چیزوں کا اثر ہو اور وہ معاشرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرسکتی ہو۔ یہاں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک دوسرا موضوع سامنے آتا ہے۔
اگرچہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرہر مسلمان مردا ور عورت پر واجب ہے، لیکن اگر بعض افراد اس فریضے کی انجام دہی میں مشغول ہوں، تو باقی لوگوں پریہ واجب نہیں ہوتایعنی یہ واجبِ کفائی ہے۔ ہاں، اگرمعاشرے کاکوئی بھی فرداِس پر عمل نہ کرے، توسب افرادِ معاشرہ گناہ گارہوں گے۔
اوراگرمعاشرے میں بُرائی پھیل جائے، تواس صورت میں امربالمعروف اورنہی عن المنکرواجبِ عینی ہوجائے گا۔ یعنی سب مسلمانوں پر واجب ہوگاکہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ اس سلسلے میں معاشرے کی ضرورت اس وقت تک پوری نہیں ہوسکے گی جب تک کہ معاشرے سے بُرائی کو ختم کرنے اور نیکیوں کو رواج دینے میں تمام لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لائیں گے۔
لہٰذاکوئی مسلمان اپنے آپ کویہ کہہ کر اس فریضے سے بری الذمہ قرارنہیں دے سکتا کہ اگر فلاں شخص شراب پیتا ہے، یا جوا کھیلتا ہے، یا کسی ظالم وجابر کے لئے جاسوسی کرتا ہے، تومجھے کیا۔
اب تونوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو بُرائی سے روکتا ہے اور اسے نیکی کرنے کے لئے کہتا ہے، تواسے جواب ملتاہے کہ تم میرے ذاتی معاملات میں دخل دے رہے ہو؟
دورِ حاضر میں انسان کی آزادی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کسی کو اسکے نجی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں، خواہ وہ بدکاری ہی کررہا ہو، اسے کوئی نہیں روک سکتایہ ہمارے معاشرے میں پایاجانے والاعام خیال ہےیہ فکر مغرب سے ہمارے یہاں آئی ہے، اہلِ مغرب کا کہنا ہے کہ ہر شخص اپنے معاملات میں اُس وقت تک آزاد ہے جب تک اُس کی آزادی معاشرتی نظام میں خلل پیدا نہ کرے۔
لیکن اس حوالے سے ہمارے اصولوں اور غیر دینی اصولوں میں فرق ہےکیونکہ ہم خداپرایمان رکھتے ہیں اوراس بات کے معتقد ہیں کہ انسان اس کا بندہ اور غلام ہے، وہ اُس چیزمیں آزادہے جس میں خدا نے اسے آزادی عطا کی ہےخدانے انسان کو یہ آزادی نہیں دی ہے کہ مثلاًوہ خوداپنے آپ کو نقصان پہنچائے یا اپنی زندگی کا خاتمہ کردے۔ اگر کوئی ایسا کرنے لگے، توتمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اسے روکیں۔ اسی طرح کسی کے لئے یہ بات بھی جائز نہیں کہ خدا کی رضا کے بغیر کسی انسان میں کوئی تصرف کرے، جو خداکی ملکیت ہےمختصر یہ کہ ہمیں چاہئے کہ لوگوں کو اُن چیزوں میں تصرف سے باز رکھیں جن میں خدا نے اُنہیں تصرف کی اجازت نہیں دی ہے۔
پھر حضرت علی علیہ السلام اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ اگرلوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرناچھوڑ دیں گے، اور مسلمان نماز ترک کرنے، زکات ادا نہ کرنے اور ظالم کے لئے کی جانے والی جاسوسی کے نتیجے میں عام ہونے والی بُرائیوں کی جانب سے بے پروا ہوکرصرف اپنی ذات میں مگن رہنے لگیں گےجب جھوٹ، خیانت اور دھوکا دہی لوگوں کی عادت بن جائے گی، اور ہماری آئندہ نسلیں ایسے پست اخلاق اور خراب ماحول میں پروان چڑھیں گی، تو اس سے معاشرہ تیزی کے ساتھ بُرائی کی طرف بڑھے گا، معاشرے میں ایسے لیڈرپیدا ہوں گے جن کے چال چلن اور کردار سے بُرائی کو فروغ ملے گا، وہ سماج کو گناہ میں مبتلا کریں گے اور نتیجے میں سب کوہلاک کرڈالیں گے۔
ان ساری خرابیوں کی جڑیہ ہے کہ معاشرہ بُرائیوں کو نظر انداز کرتا ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس معاشرے کی صورت یہ ہو گی کہ وہ کسی ایسے فرد کواپنی قیادت کے لئے منتخب نہیں کرے گاجواُسے نیکیوں کا حکم دیتااوربُرائیوں سے روکتاہو، کیونکہ یہ اُس کی خواہشوں کے خلاف ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں منقول ہے:
کیف بکم اذا فسدت نساؤکم، وفسق شبابکم، ولم تامروا بالمعروف، ولم تنہوا عن المنکر؟ فقیل لہ: ویکون ذالک یارسول اللّٰہ؟ فقال:نعم وشرٌّ من ذالککیف بکم اذاامرتم بالمنکر ونہیتم عن المعروف؟ فقیل لہ:یا رسول اللّٰہ ویکون ذالک؟ قال نعم وشرٌّ من ذالک، کیف بکم اذارایتم المعروف منکراً والمنکرمعروفاً؟
اُس وقت تمہاراحال کیا ہوگا، جب تمہاری عورتیں بدچلن ہوجائیں گی اور تمہارے جوان بدکار ہوجائیں گے، تم نیکیوں کا حکم نہیں دوگے اوربُرائیوں سے نہیں روکو گے؟ عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول!کیاایساہوگا؟ فرمایا: ہاں، اس سے بھی بدترہوگا۔ اس وقت تمہارا کیا ہوگا جب تم بُرائی کا حکم دوگے اورنیکیوں سے روکوگے؟ عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول!کیاایسا ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اس سے بھی بدترہوگا۔ اس وقت تمہاراکیاحال ہوگا جب تم نیکی کوبدی سمجھوگے اور بدی کو نیکی؟ (وسائل الشیعہ۔ ج۱۶۔ باب۱۔ ح۱۲)
آپؐ ہی کا قول ہے:
لا تزال امّتی بخیرماامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر، وتعاونوا علی البرّ والتّقویٰ، فاذا لم یفعلواذالک نزعت منہم البرکات وسلّط بعضھم علیٰ بعض، ولم یکن لہم ناصر فی الارض ولا فی السماء۔
جب تک میری امت امربالمعروف او رنہی عن المنکرکرتی رہے گی اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتی رہے گی، تویونہی عافیت کے ساتھ رہے گیلیکن جب وہ بُرائیوں سے نہیں روکے گی اور نیکیوں کا حکم نہیں دے گی، تو اس سے برکت چھن جائے گی اوراس کے بعض افراد بعض پرمسلّط ہوجائیں گے، پھرنہ زمین پر کوئی اُن کا مددگارہوگااور نہ آسمان پر(وسائل الشیعہ۔ ج۱۶۔ باب۱۔ ح۱۸)
پہلی حدیث سے یہ نتیجہ برآمدہوتاہے کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرچھوڑنے سے معاشرہ بتدریج سماجی اوردینی انحطاط کاشکارہوجاتاہے۔ پہلے معاشرے میں بُرائیاں پیدا ہوتی ہیں، اور اُنھیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، یہ بُرائیں لوگوں میں پھیل جاتی ہیں، اورآخر کارنیکی اوربدی کی صورت بدل جاتی ہے، ایسے معاشرے کے افراد بدی کونیکی اور نیکی کو بدی تصور کرنے لگتے ہیں۔ قدرتی بات ہے کہ خداایسے معاشرے کی دعاقبول نہیں کرتاکیونکہ خدانے معاشرے کی تبدیلی کو خود اس کی تبدیلی سے مربوط کیاہے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:
لااَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۔
خداکسی قوم کے حالات کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کرلے(سورۂ رعد۱۳۔ آیت۱۱)
امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرتے وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ شائستہ طریقہ اختیار کریں، خندہ پیشانی کے ساتھ اور خوبصورت لہجے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکرکریں، جیسا کہ خداوندِ عالم فرماتا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔
آپ اپنے پروردگارکے راستے کی طرف حکمت اوراچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اوران سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے(سورۂ نحل۱۶۔ آیت۱۲۵)
نیز فرماتا ہے:
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔
اورمیرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں(سورۂ بنی اسرائیل۱۷۔ آیت۵۳)
لوگوں کے اندربھلائی اور خوبیوں کے بہت سے عناصر پائے جاتے ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کے قلوب اور عقول سے مخاطب ہوناجانتے ہوں، تاکہ ہم اُن کے قلب اورعقل کے دریچوں کو اچھائیوں کی طرف کھول سکیںیہ بھی ضروری ہے کہ ہم جلد نتائج کے حصول کی توقع نہ رکھیں، کیونکہ بعض امراض کے علاج کے لئے مہینوں درکار ہوتے ہیں اوربعض کا علاج برسوں میں ہواکرتا ہےاور پھر ہمارا لوگوں کو مکمل طور پر دینداربنانے کے لئے صرف وعظ و نصیحت پراکتفاکرنااوریہ سمجھنا کہ اگر انھوں نے ہماری بات نہ مانی، تو انھیں امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کوئی فائدہ نہیں، صحیح بات نہیں ہےہمیں اس سلسلے میں صبروتحمل اورحکمت ودانائی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح کبھی بہترین طریقہ جراحی(operation) ہواکرتا ہے، لیکن اس کی نوبت اُس وقت آتی ہے جب کوئی بھی علاج کارگرثابت نہ ہوایسی صورت میں نرم رویّہ اختیار کرنا خلافِ حکمت ہواکرتا ہے۔