علی ؑ کی وصیت

امتِ مسلمہ کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنی آزادی کے لئے کوشش نہ کریںپس مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں سیاسی جہاد کریں، اس مقصدکے لئے اربابِ حل وعقد میں سے جو لوگ داخل وخارج میں امت کی سیاسی تحریک کی قیادت سنبھال سکتے ہیں انھیں چاہئے کہ امتِ مسلمہ کو عدالت اور آزادی کے ہدف کے لئے اکھٹا کریں، تاکہ ساری امت دشمن کے مقابل ایک صف میں کھڑی ہوجائے۔

یہ جہاد امت پر اس وقت فرض ہوگا جب وہ سیاسی اسباب کو بروئے کار لائے گی اور سیاست کو کھیل، دوسروں سے حساب برابر کرنے یامفاد پرستی کا حربہ نہیں سمجھے گی۔ سیاست کوامت کی حمایت وسلامتی کے لئے ذمے دارانہ خطوط پرآگے بڑھنا چاہئےکیونکہ مسلمانوں پرہر صورت میں اسلام کے فروغ کی ذمے داری عائدہوتی ہے، اُن پر انسانیت کی خدمت اور قیامِ عدل کے لئے جدوجہد لازم ہے اُن کو اس راہ پر نہیں چلنا چاہئے جس پر وہ لوگ چلتے ہیں جو اقدار اور عظیم مقاصد سے دوررہتے ہوئے انسان کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور زندگی کو اسکی گہرائی اور معنویت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔

اس بنیاد پر امتِ مسلمہ کی ہر جماعت اور گروہ پر لازم ہے کہ وہ خود کو امت کے امور کا ذمے دارسمجھے اوراسے جو چیلنجز درپیش ہیں اُن سے مقابلے کے لئے اسکی مدد کرے، اورسیاسی جہاد میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑے، یہاں تک کہ اس میدان میں امت خودکفیل ہوجائے۔

اس صورت میں امت کے ہرفردکا اُس شخص کے مقابل اٹھ کھڑے ہونا فطری بات ہے جو اس راہ میں روڑے اٹکاتاہے، یا اس پر ایسے حکام کو مسلّط کرتا ہے جو اُس پر ظلم کرتے ہیں، یااُس کے دشمنوں کی مدد کرتا ہے۔ امت پر لازم ہے کہ اس شخص کے خلاف جہادکرے جو اُس کے اُن منصوبوں پر پانی پھیرناچاہتا ہے اور اُن پالیسیوں کو ناکام بنانا چاہتا ہے جن سے اسکے معاملات منظم ہوتے اور اسکے امور کی اصلاح ہوتی ہے۔