علی ؑ کی وصیت

اب ہم امام ؑ کی وصیت کے خصوصی حصے پر پہنچ گئے ہیں یہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ حضرت علی ؑ اخلاق ومعنویت کی اُس بلندی پرفائز ہیں جہاں تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکا ہے، اوراس نقطۂ عروج پرپہنچے ہوئے ہیں جہاں تک کسی انسان کی رسائی نہیں۔ آپ ؑ کینہ اور عداوت کہی جاسکنے والی ہر چیزسے بلندوبالاانسان تھے، آپ نے اپنے قاتل تک سے عداوت کامظاہرہ نہیں کیا۔

حضرت علی علیہ السلام کی ذات عظمت کی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے، اور آپ ؑ کا قاتل ابن ملجم پستی اور کمینگی کی انتہاؤں پرملاحظہ فرمائیے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنْ اَبْقَ فَاَنَا وَلِیُّ دَمِیَ، ۔۔۔ وَاِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُلِیُ قُرْبَۃٌ۔

اگر میں زندہ رہا، تواپنے خون کا میں خود مختار ہوں۔۔۔ اور اگر میں اسے معاف کردوں، تویہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے(نہج البلاغہ۔ مکتوب۲۳)

حضرت علی ؑ اپنے فرزندوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس کو نرم بستر فراہم کرنا، اچھے طریقے سے کھانا پانی دیناآپ ؑ اپنے دشمنوں پر بھی مہربان ہیںہم قرآنِ مجید میں پڑھتے ہیں اور سیرتِ علیؑ میں دیکھتے ہیں کہ آپ ؑ نے اپنا نفس خدا کی رضاکے عوض فروخت کردیا تھا، لہٰذا خداوندعالم نے ارشاد فرمایا کہ:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِ وَ اﷲُ رَءُوْفاٌما بِالْعِبَادِ۔

اور لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو خدا کی مرضی کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، اور خدا اپنے بندوں پر بہت مہربان ہےسورۂ بقرہ۲۔ آیت۲۰۷

بس علیؑ اپنی ذات کے لئے کسی چیز کے طلبگار نہ تھےجب آپ ؑ گناہگاروں پرخدا کے عذاب کے متعلق گفتگو فرماتے تھے، جبکہ اس عذاب سے آپ ؑ کا کوئی تعلق نہ تھا، کیونکہ آپ ؑ معصوم تھے، آپ ؑ کا دل، آپ ؑ کی عقل، بلکہ آپ ؑ کی پوری سیرت معصوم تھی، پھر بھی جب آپ ؑ بارگاہِ الٰہی میں دعائے کمیل کی تلاوت فرماتے تھے، تو پروردگار سے محبت کی وجہ سے آپ ؑ کے رخساروں پر آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ آپ ؑ فرماتے تھے:

فھبنی یا الٰہی وسیِّدی ومولای وربِّی صبرت علیٰ عذابک، فکیف اصبر علیٰ فراقک؟ وہبنی یا الٰہی صبرت علیٰ حرّ نارک فکیف اصبر علی النظرالیٰ کرامتک۔

پروردگار! میرے آقا، میرے مولا! اگر میں تیرے عذاب پر صبر کربھی لوں توتیرے فراق پر کیسے صبر کروں گا؟ اورتیری آگ کی حرارت کوبرداشت کربھی لوں، مگر تیری کرامت کی نظر کے بدل جانے پر کیسے صبر کروں گا۔

حضرت علیؑ کی مراد یہ ہے کہ میں عذاب توبرداشت کرسکتا ہوں(اگرچہ آپ ؑ اس سے بہت بلند ہیں) لیکن خدا کا فراق میرے لئے ناقابلِ برداشت ہےحضرت علیؑ یہ چاہتے ہیں کہ ہم روح کی اس بلندی پر پہنچیں، اگرچہ ہمارے اندراس بلندی تک پہنچنے کی طاقت نہیں لیکن مؤمن انسان کی قدر وقیمت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے رب پر محکم ایمان کا ثبوت فراہم کرے، اور اس کایہ ایمان لوگوں کے ساتھ اس کے حسنِ سلوک کی بنیاد بن جائے، کیونکہ لوگ عیال اللہ اور بندگانِ خداہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی روح کی یہ بلندی اُس وقت اور واضح ہوجاتی ہے جب آپ ؑ اپنے قریبی خاندان والوں، اولادِ عبدالمطلب کو جمع کرتے ہیں۔

ابن ملجم کی ضربت کے بعد آپ ؑ نے محسوس کرلیا تھا کہ عنقریب آپ ؑ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اورآپ ؑ یہ بھی جانتے تھے کہ قبائل ابھی تک اپنی پرانی روش اور عادتوں پر باقی ہیں آج بھی اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کردیتا ہے، اور اگر مقتول کوئی بڑی شخصیت ہو، تواُس کے وارث یہ سمجھتے ہیں کہ قاتل کا پورا خاندان اس کاقاتل ہے اورانھیں یہ اختیار ہے کہ ان میں سے جسے چاہیں قتل کردیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ امام ؑ بسترِ مرگ پر ہیں او راپنے خاندان والوں سے فرما رہے ہیں کہ ابن ملجم کے بارے میں حکمِ خدا پر عمل کرنا، آپ ؑ اس سلسلے میں خدا کے اس قول کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:

وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلااَا یُسْرِفاْا فِّی الْقَتْلِ۔

اورجو شخص مظلوم قتل ہوتاہے ہم اسکے ولی کوبدلے کا اختیار دیتے ہیں، لیکن اسے بھی چاہئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے(سورۂ بنی اسرائیل۱۷۔ آیت۳۳)

وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۔

اور ہم نے اس میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان ہے(سورۂ مائدہ۵۔ آیت۴۵)

بے شک اسلامی عدالت کے اصول میں خداوندعالم کا یہ قول بھی ہے:

وَ لااَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔

اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا(سورۂ بنی اسرائیل۱۷۔ آیت۱۵)

لہٰذاجس کا جرم میں ہاتھ نہ ہو، اُس سے بازپرس بھی نہیں ہوگی۔