وصیت کے اختتام پر فرمایا
علی ؑ کی وصیت • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی وصیت کے خاتمے پر فرماتے ہیں:
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ:قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو!ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم امیرالمومنین ؑ قتل ہوگئے اور عظمت میں ان جیسا کوئی نہیں کا نعرہ بلند کرکے مسلمانوں کا خون بہانے لگو۔ یہ نہ کہنے لگنا کہ آپ ؑ کے قتل کے عوض صرف ابن ملجم ہی کو قتل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ امام ؑ کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام حکمِ خدا کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔
دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔
قصاص میں طبقات کو دخل نہیں ہے۔ لہٰذااگر قاتل ادنیٰ درجے کاانسان ہو اور مقتول عظیم المرتبت انسان، تب بھی شریعت کے حکم کے مطابق اُسی شخص کو قتل کیاجائے گا جس نے قتل کیا ہے، کسی اور کو نہیںامیرالمومنین ؑ اپنے خاندان والوں کے ذہن میں اس خاص مسئلے میں اسلام کے اسی دستور کو راسخ کرنا چاہتے تھے، جو اُن احکامِ شریعت میں سے ہے جن پرآسانی سے صبر نہیں کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی میں اس اصول پر عمل کریں، صرف قتل اورقصاص کے مسائل ہی میں نہیںبلکہ ہمیں چاہئے کہ لوگوں کے درمیان رونما ہونے والے سیاسی، خاندانی، سماجی اور اقتصادی اختلافات اورتنازعات میں بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھیں آج بھی ہمارے معاشروں میں عام طو رسے یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر کسی ایک شخص کا دوسرے کسی شخص سے اختلاف ہوجائے، توان اشخاص سے تعلق رکھنے والے پورے پورے گروہ ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتے ہیں، اوراس گروہی اختلاف سے بعض حالات میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک دوسرے پر ظلم وستم ہوتا ہے، سبّ وشتم کیا جاتا ہے، ایک دوسرے کو قتل کردیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اسلام کے نقطۂ نظر سے ہر انسان اپنے عمل کا خودذمے دار ہے، دوسروں پر اسکے عمل کی ذمے داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ ہاں، اگر دوسرے اس فعل کا سبب ہوں، یا اس میں شریک ہوں، تب انھیں ذمے دارقرار دیاجاسکتا ہے۔ اس چیز کی خدا نے تمام شریعتوں میں تاکید فرمائی ہےفرماتا ہے:
اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰی وَ اِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰیآا اَلاَّ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔
کیا وہ اس چیز سے بے خبر ہے جو موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں ہے کہ جنھوں نے اپناپورا پورا حق ادا کیاہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا(سورۂ نجم۵۳۔ آیت۳۶تا۳۸)
اگرتمام انسان اس اصول کے مطابق عمل کریں، تواُن کا یہ عمل عین عدل کے مطابق ہوگا، اوراگروہ اس سے منحرف ہوجائیں، تو عدل کے راستے سے ہٹ جائیں گے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ اختلافات اوررنجشیں کبھی کبھی شادی بیاہ میں بھی رکاوٹ بنتی ہیںدیکھنے میں آتا ہے کہ ایک لڑکا کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے دادا کا لڑکی کے دادا سے اختلاف تھا، تو خاندان والے اس رشتے کے نہ ہونے پر زور دیتے ہیںیہ چیز نہ صرف خلافِ عدل ہے بلکہ ایک قسم کا فکری انحطاط بھی ہے۔
صرف جدید آلات (appliances)کے استعمال اور زندگی کی جدید سہولیات سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد پر ہمارا یہ کہنادرست نہیں ہے کہ ہم مہذب شہری ہیںہم اتنے ہی مہذب ہوں گے جتنا ہمارا اخلاق اور طرزِ عمل تہذیب کے مطابق ہوگا۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے اختلافات اورناچاقیاں بہت زیادہ ہیں کہ اگر ہم شرعی اصولوں اوراسلامی اخلاق کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے اُن میں ڈوب گئے تو یہ ہمیں جہل وعصبیت کی تباہ کن موجوں کے حوالے کردیں گے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، اسلام کی اصلیت اور حقیقت سے بہت دورہیں۔
حضرت علی علیہ السلام آخرمیں اس بات کی تاکیدبھی کرتے ہیں کہ قاتل کو اسلامی طریقے کے مطابق قتل کیاجائے، جو غیظ وغضب کی حالت میں قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے لہٰذافرماتے ہیں:
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ( صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ” اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اوراس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
مثلہ کے معنی ہیں کسی کو قتل کرنے سے پہلے یا بعد میں عبرتناک سزا دینے کے لئے اس کے ہاتھ پیر وغیرہ کاٹ ڈالنا۔
یہاں حضرت علیؑ ایک دوسرے اصول پر عمل کرانا چاہتے ہیںیہ اصول بھی عدالت ہی سے تعلق رکھتاہےخداوندعالم کا ارشاد ہے:
فَمَنِ اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ۔
لہٰذاجو تم پرزیادتی کرے، توتم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اُس نے کی ہے(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۹۴)
اگر کوئی شخص آپ کو ایک بار گالی دے، توآپ بھی اسے ایک بار گالی دے سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص آپ سے نازیبا بات کہے، توآپ بھی اسے نازیبا بات کہہ سکتے ہیں، لیکن اُس کے باپ کو نہیں۔ اور اگروہ آپ کوایک مرتبہ مارے، توآپ بھی اسے ایک مرتبہ مار سکتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اُنھیں وصیت کرتے ہیں کہ وہ آپ ؑ کے قاتل سے اسی انداز سے قصاص لیں، اوراس سلسلے میں غیظ وغضب کا شکار نہ ہوں، اس کا مثلہ نہ کریں، اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ نہ کاٹیںقصاص انسانوں کی اجتماعی زندگی کی حمایت وحفاظت کے لئے لیا جاتا ہے، نہ کہ غیظ وغضب نکالنے کے لئے۔
اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتاہے کہ ظلم وزیادتی کا اسی جیسا جواب جائز ہے، اس سے زیادہ جائزنہیں ہے۔ پس اگر کوئی شخص آپ کے رخسارپر طمانچہ مارے، توآپ بھی اسے ایک طمانچہ مار سکتے ہیںلیکن اس کے جواب میں اسے ضرب لگانایااسے قتل کرنا جائز نہیںاور اگر کوئی آپ کے کسی قریبی عزیز کو قتل کردے، توآپ کے لئے جائز نہیں ہے کہ آپ اُس کے گھر کوآگ لگادیں۔
حضرت علیؑ نے اس حکم کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے دکھایاہےروایت ہے:آپ اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے کہ وہاں سے ایک حَسین وجمیل عورت کا گزر ہوالوگوں کی نظریں اس کی طرف اُٹھ گئیں، یہ دیکھ کر آپ ؑ نے فرمایا:
ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو بھڑکانے کاسبب ہےلہٰذااگر تم کسی ایسی عورت کو دیکھو جو تمھیں خوبصورت لگے، توتم اپنی بیوی کے پاس جاؤ کہ یہ بھی عورت ہی ہےیہ سن کر ایک خارجی نے کہا:خدااس کافر کو قتل کرے، یہ کتنا بڑا فقیہ ہے!! یہ سن کر لوگ اسے قتل کرنے کے لئے اٹھے، توآپ ؑ نے فرمایا: ٹھہرو! گالی کا بدلہ گالی ہے یااس کے گناہ سے درگزر کرنا بہتر ہے(نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۴۲۰)
حضرت علیؑ اپنے اس عمل سے ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کو تمام امور میں اپنی شرعی ذمے داری کو پورا کرنا چاہئےخداوندعالم فرماتا ہے:
فَمَنِ اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ۔
لہٰذاجو تم پرزیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۹۴)
مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اسے گالی دوں یا معاف کردوں۔
خداوندعالم کاارشاد ہے:
وَ اَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔
اور اگر تم معاف کردو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۲۳۷)
حضرت علیؑ کے اس طرزِعمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم زیادتی کرنے والوں سے انتقام لینے میں بھی عدل سے کام لیںعدل ہی معاشرے کے استحکام کا ذریعہ ہے۔
یہ ہیں علی ؑ، یہ ہے آپ ؑ کی عظمت وبلندی، یہ ہے آپ ؑ کی محبت وشفقتآپ ؑ اپنے بلند مقام سے پکارپکار کر کہہ رہے ہیں کہ:
أَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَأْمُوْمٖ اِمَا مًایَقْتَدِیْ بِہٖ وَیَسْتَضِی ءُ بِنُوْرِ عِلْمِہٖ، أَلاَ وَاِنَّ اِمَامَکُمْ قَدِ اکْتَفٰی مِنْ دُنْیَا ہُ بِطِمْرَیْہِ، وَمِنْ طُعْمِہٖ بِقُرْصَیْہِ۔
تمھیں معلوم ہوناچاہئے کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے، جس کی وہ پیروی کرتا ہے اوراسی کے نورِعلم سے روشنی لیتا ہے۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے ساز وسامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پرقناعت کرلی ہے۔
الَاوَاِنَّکُمْ لَا تَقْدِرُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ، وَلٰکِنْ أَعِیْنُوْنِیْ بِوَرَعٍ وَاجْتِہَادٍ، وَعِفَّۃٍ وَسَدَادٍ۔
میں جانتا ہوں کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہےلیکن تم اتنا تو کرو کہ پرہیزگاری، سعی وکوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو(نہج البلاغہ۔ مکتوب۴۵)