علی ؑ کی وصیت

بعض خطرات کا تعلق امت کے نظریات وعقائد سے ہےبہت سے لوگ امت کے عقائد کو کمزورکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، یا اس کے عقائد مسخ کرنے کے لئے کوشاں ہیں، یا انھیں تباہ کرنے کی فکرمیں ہیںکہتے ہیں اسلام پسماندہ لوگوں کا دین ہے، اسلام ماضی کا دین ہے، وہ دورِ حاضر کے مسائل حل نہیں کرسکتا، مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتا۔

علما ومفکرین پرلازم ہے کہ ایسے لوگوں سے مقابلہ کریں اوراس نظریاتی جنگ کے لئے تیار ہوںاس مقصد کے لئے انھیں اغیار کے پھیلائے ہوئے تمام شبہات رفع کرنے چاہئیں، تمام اعتراضات دورکرنے چاہئیں اورہر سوال کا جواب دینا چاہئے، یہاں تک کہ ملت اپنے عقیدے اور نظریئے پر بھروسہ کرے، اسے بہکانے والے غیروں کی پروا نہ رہے اوردوسروں کی طرف سے کئے جانے والے تمام حملوں سے محفوظ رہے اور اُن کی طرف سے پیدا کئے جانے والے تمام چیلنجوں کا جواب دے سکے۔

حدیثِ رسولؐ ہے:

اذا ظہرت البدع فی امّتی فلیُظہر العالم علمہ، فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃ اللّٰہ۔

جب میری امت میں بدعت ظاہر ہو، تواس وقت عالم کو اپنے علم کا اظہار کرنا چاہئے، اگراس موقع پر عالم اپنے علم کااظہار نہ کرے، تواس پر خدا کی لعنت ہے(اصولِ کافی۔ ج۱۔ ص۵۴۔ ح۲)

ایسی کسی بھی چیز کے ظاہر ہونے پر عالم کو(خواہ وہ رائج معنی میں عالم ہو خواہ عام معنی میں) فوری طور پر اسکی روک تھام کرنی چاہئے، اُسے اِس انتظارمیں نہیں رہنا چاہئے کہ لوگ اس سے سوال کریں تب وہ انھیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائے گااسے خود آگے بڑھناچاہئےکیونکہ امت اپنے دین سے واقف نہیں ہے، نہ اپنے اسلام کی تعلیم اور فکر سے آشناہے اور نہ معاشرے میں اپنے کردارسے آگاہ ہے یہ ایسی امت ہے جسے گمراہ افراد گمراہ کرسکتے ہیں اورمنحرف افراد منحرف کرسکتے ہیں۔ اور یہی سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ ائمۂ اہلِ بیت ؑ ہے۔

اس صورت میں ہم سمجھتے ہیں کہ کسی صاحبِ علم کے پاس گھر میں بیٹھے رہنے کاکوئی بہانہ نہیں، بلکہ اسے چاہئے کہ وہ لوگوں کے پاس جائے اور انھیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں اُن کی ذمے داریوں سے آشنا کرے خصوصاً جب اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کے عقیدے، شریعت، کتاب، سیاست اور معاشرت پرمختلف قسم کے اعتراض کئے جائیں، تو ان اعتراضات کی حقیقت سے لوگوں کوآگاہ کرنے کے لئے کوئی بھی صاحبِ علم خود کو بری الذمہ قرار دے کر الگ تھلگ نہیں رہ سکتاکیونکہ زیادہ تر لوگ حق وباطل میں تمیز نہیں کرپاتے ظاہر ہے کہ جو حق وباطل میں تمیز نہ کرسکے، وہ غیروں کی طرف سے پیش کئے ہوئے حق نما باطل کاشکار ہوجاتا ہے۔

اس صورت میں علما پرواجب ہے کہ وہ امت کو حقائق سے آگاہ کرنے اور اُس کی تعلیم وتربیت کے لئے قدم اٹھائیں اور امت پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ علماسے مسائل دریافت کرے۔ علم کو چھپانے والوں کے بارے میں خداوندِ عالم کا ارشا دہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْہُداٰای مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓءِکَ یَلْعَنُہُمُ اﷲُ وَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۔

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اورہدایتوں کوہمارے بیان کردینے کے بعدبھی چھپاتے ہیں اُن پر اللہ بھی لعنت کرتاہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۵۹)

پرانے زمانے میںیہ کہا جاتا تھا کہ لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنااور انھیں خدا کی طرف بلاناواجبِ کفائی ہےیعنی اگراس مقصد کے لئے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں، تودوسروں پریہ فریضہ واجب نہیں ہوتالیکن عہدِ حاضر میں تبلیغ واجبِ عینی ہےیہ علما ہی پر نہیں بلکہ امت میں سے ہر اُس فرد پر واجب ہے جو شریعت کے احکام جانتا ہے، یاقرآن کی تفسیر سے کسی حد تک واقف ہے، یااسلام کے کسی بھی مفہوم سے آگاہی رکھتا ہےخواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک پر واجب ہے کہ اپنے خاندان اور دوستوں کو اسلامی اصول وعقائد سے آگاہ کرےکیونکہ جس کے پاس جو کچھ علم ہے وہ خداکی امانت ہے۔

جس طرح علما پر یہ واجب ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اسی طرح نہ جاننے والوں پر بھی فرض ہے کہ وہ جاننے والوں سے سوال کریں۔

علما کے لئے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کوعام کرنے کے لئے تمام ذرائع سے استفادہ کریں اورفکری، سیاسی اورسماجی مسائل کوریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے نشر کریںکیونکہ دشمن نے اسلام پر سخت ترین حملہ کیا ہواہے، جس سے دفاع کے لئے اسی قوت اور مقدار میں جدوجہد کی ضرورت ہے۔

سیاسی کاموں کے ساتھ ساتھ اس بات کا پیشِ نظر رہنا بھی ضروری ہے کہ سیاسی جدوجہدمیں مشغولیت ہمیں فکری اورنظریاتی جدوجہدسے بازنہ رکھے، کیونکہ اس سیاست کی کوئی قدرو قیمت نہیں جس میں امت اپنے دینی اوراسلامی احکام سے واقف نہ ہوسیاست تو بس وہی ہے جس کی ایک بنیاد ہو اور جس کا محور ایک فکری اصول اورقاعدہ ہوکیونکہ جب لوگ اپنے اسلام ہی سے واقف نہیں ہوں گے، تو وہ راہِ راست اور گمراہی کے درمیان کیسے تمیز کرسکیں گے؟ اور جب وہ اپنی شریعت کے حلال اور حرام ہی سے واقف نہ ہوں گے، تو انھیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ اس سیاسی نظریئے کی کیا چیز حلال ہے اور کون سی چیزحرام ہے؟