قرآن کو کتاب اور عمل میں پڑھنا چاہئے
علی ؑ کی وصیت • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
اسی ذیل میں یہ بیان کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ بھی اسلام کے لئے کام کررہے ہیں، خواہ وہ فکری میدان میں کام کررہے ہوں یا اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہوں، یااسلام اور معاشرے کے لئے کوشاں ہوں، یا سیاسی میدان میں جدوجہد کررہے ہوں، یا کسی دوسرے میدان میں سرگرمِ عمل ہوں، اُن کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح وہ قرآن کوکتابی صورت میں پڑھتے ہیں اسی طرح اُنھیں چاہئے کہ قرآن کومعاشرے کے بیچوں بیچ متحرک اُن شخصیات کے کردار اور عمل میں بھی پڑھیں جن کی خدا نے قرآن کے مطابق تربیت کی ہےان میں سب سے پہلے ہمارے ہادی نبی اور امام رسولِؐ خدا ہیں آپ ؐہی نے ایک استاد کی حیثیت سے قرآن کے مطابق علیؑ کی تربیت کی ہے اور انھیں اپنے بعد دوسری قرآنی شخصیت بنایا ہے اور آپ فکری، جذباتی، کرداری، الغرض ہر اعتبار سے مکمل حق تھےہرحال میں حق تھے۔ آپ ؑ کے بارے میں رسولؐ فرماتے ہیں:
علی مع الحق والحق مع علی، یدور معہ حیثما دار۔
علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھحق علی ہی کے ساتھ رہتا ہے، وہ جہاں بھی ہوں(بحار الانوار۔ ج۲۸۔ ص۱۹۰)
ہمیں علی ؑ کی مانند کوئی اور شخصیت نظرنہیں آتی جو اس نوعیت کے کردار کی حامل ہواور رسولؐ کے بعدحق کا مرقّع ہوہم پرلازم ہے کہ علیؑ کے ساتھ اس وسیع افق پرزندگی گزاریں جس پر آپ ؑ نے اپنی پوری حیات بسر کی اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:
لَوْ کَشف لی الغطاء ما ازددت یقیناً۔
اگر میرے سامنے سے پردے اٹھا دئیے جائیں، تب بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا(مناقبِ آلِ ابی طالب۔ ج۱۔ ص۳۱۷)
ہم اسی لئے علیؑ کی ولایت کا عقیدہ رکھتے ہیں اُن کی ولایت حق کی ولایت ہے، اُن کی خلافت حق کی خلافت ہے۔
ہمیں برائے نام آپ ؑ کا اتباع نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظری اور فکری لحاظ سے بھی آپ ؑ کا پیروہوناچاہئےکیونکہ حضرت علیؑ نے ہمیں وہ علم دیا ہے جو رسولؐ کا علم ہےجب دنیا آپ ؑ کے افکار اور علم کا ذکر کرتی ہے، توعقیدت سے اس کا سرجھک جاتا ہے۔ آپ ؑ نے دنیا کو قرآن اور رسولؐ کا جو علم دیا ہے وہ اس سے ہمیشہ استفادہ کرے گی، اسی طرح دنیا میں ابھرنے والی اسلامی تحریکیں بھی آپ ؑ کی فکر سے فیض اٹھاتی رہیں گی۔ کیونکہ یہ وہ علم ودانش ہے جس نے ہمارے سامنے بہت سے لائحۂ عمل اور راستے رکھے ہیں، جو اسلامی مقاصد کو آگے بڑھانے کے دوران ہمارے کام آئیں گے۔