حضرت علیؑ کی وصیت
علی ؑ کی وصیت • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
حضرت علیؑ نے اپنے دونوں فرزندوں حسنؑ اورحسینؑ کی طرف رخ کیا اور اُن کے ساتھ اپنے تمام بیٹوں کو اور ہر اُس شخص کو مخاطب قرار دیا جس تک یہ وصیت پہنچےہم بھی اُنھی لوگوں میں سے ہیں جن تک یہ وصیت پہنچی ہے۔
آپ ؑ انسان کے سامنے ایک دستورِ عمل رکھنا چاہتے تھے، اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ اُس کا خود اپنے آپ، اپنے رب اور دوسرے انسانوں کے ساتھ کیاطرزِ عمل ہونا چاہئے۔
یہ وصیت امام علیؑ کی زندگی کے خلاصے کی مانند ہے، جس میں آپ ؑ کے وہ اسلامی تجربے بھی شامل ہیں جوآپ ؑ نے رسولؐ کے ساتھ تبلیغِ اسلام کے آغاز سے حاصل کئے تھے اورہر وہ چیزبھی موجودہے جس سے لوگوں کو سامنا ہوتاہے، یہاں تک کہ آپ ؑ کی حیاتِ مبارک کا آخری لمحہ بھی ہےیہ وصیت دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے:
۱عمومی وصیت: اس میں عبادات ومعاملات کے اہم پہلو شامل ہیں۔
۲خصوصی وصیت: اس میں آپ ؑ کے قاتل سے قصاص لینے اورآپ ؑ کی شہادت کے بعد اولادِ عبدالمطلب کے فرائض بیان ہوئے ہیں اور یہ بات بھی شامل ہے کہ ممکن ہے اس حق سے اسلامی معاشرے میں غلط فائدہ اٹھایا جائے۔