ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم ہم پر واضح نہیں ہوتا، کئی ایسے الفاظ بولتے ہیں، پڑھتے ہیں، سنتے ہیں جن کی بنیاد اور وسیع معنی ہم نہیں جانتے، انہی الفاظ میں سے ایک لفظ ”ولایت“ہے۔کسی شیعہ کے لئے یہ لفظ اجنبی نہیں۔ہماری مذہبی تقاریر، کتب اور دعاؤں میں یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوااور ہوتا ہے ۔لیکن لوگوں کی اکثریت اسکے معنی سے آشنا نہیں، اسکے صحیح صحیح اور وسیع مفہوم سے لابلد ہے۔قریب قریب تمام ہی لوگ ولایت کے معنی صرف محبت ہی سمجھتے ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب اور ولایتِ فقیہ کی اساس پر وہاں حکومت کی تشکیل کے بعد ہمارے معاشرے میں ”ولایتِ فقیہ“ کی اصطلاح عام ہوئی، لیکن کیونکہ ہمارے یہاں اس نظریئے کی تفہیم اور تشریح پر خاطر خواہ کام نہیں ہواجس کی وجہ سے ولایت کے سیاسی، معاشرتی اور اجتماعی پہلوپوشیدہ رہے اور ولایت سے وابستگی محض ولئ فقیہ سے اظہارِ عقیدت تک محدودرہ گئی ۔
”ولایت“ایک انتہائی وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے، جس کے معنی حکومت، سرپرستی، بندھن، تعلق، اتصال دوچیزوں کا ایک دوسرے میں بل کھائے ہوئے ہونااور ایک دوسرے سے ولایت رکھنے والے افراد کا سیسہ پلائی دیوار کی مانندباہم پیوست اور جڑا ہوا ہونا ہیں۔
زیرِ نظر کتاب ”ولایت“کے بارے میں رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی چھ تقاریر کا مجموعہ ہے۔یہ تقاریر انقلابِ اسلامی کی کامیابی سے چار سال پہلے ماہِ مبارکِ رمضان میں مسجدِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام مشہدِ مقدس میں کی گئی تھیں۔ ان تقاریر میں رہبرِ معظم نے ولایت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں، معاشرے میں ولایت کے مختلف مظاہر پر روشنی ڈالی ہے اور ولایت کے ایسے مفاہیم کاذکر کیا ہے، جن پر عام طور سے ہمارے یہاں گفتگو نہیں ہوتی۔ساتھ ہی شیعی اور اسلامی معاشرے میں ولایت کی اہمیت، اسکی افادیت اور اسکے لازم ہونے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اہلِ اسلام پرایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے کوششوں کو لازم قرار دیا ہے جہاں ولایتِ شیطانی اور ولایتِ طاغوتی کی بجائے ولایتِ الٰہی نافذ ہو۔
امید ہے ہماری دوسری مطبوعات کی طرح یہ کتاب بھی صاحبانِ علم سے سندِ قبولیت پائے گی۔آخر میں ہم ہمیشہ کی طرح قارئین سے مفید آراء، مشوروں، تجاویز اور نقد ونظر کے متمنی ہیں۔