تیسری تقریر: بہشتِ ولایت
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
ولایتِ فردی
ولایت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، دو نکتے قابلِ ذکرہیں۔
۱ ۔ ولایت رکھنے والے فرد اور ولایت کے حامل معاشرے سے اجمالی شناسائی۔
۲ ۔ جس معاشرے میں ولایت پائی جاتی ہے، اس کاکرداراور اسکے مظاہر۔
آیاتِ قرآنی میں غور وفکر، ولایت کے حوالے سے اہلِ بیت ؑ کی جدوجہد اوراس سے حاصل ہونے والے نتائج کی مدد سے جو کچھ پتا چلا ہے وہ یہ ہے کہ ولایت کے کئی مظاہرہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان معاشرہ اپنے وجود کے باہر موجود عناصر سے منسلک اور غیر مسلموں سے وابستہ نہ ہو۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ منسلک اور وابستہ نہ ہونا ایک بات ہے اور سرے سے کوئی رابطہ نہ رکھنا ایک علیحدہ بات ۔ہم ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ عالمِ اسلام کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے آپ کو دنیاسے الگ تھلک کر لینا چاہئے، اور کسی بھی غیر مسلم قوم، ملک اورطاقت سے رابطہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اُسے اُن سے وابستہ، پیوستہ اور اُن کا تابع نہیں ہوناچاہئے، اُسے دوسری طاقتوں میں مُدغم نہیں ہوجانا چاہئے۔بلکہ اُسے چاہئے کہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرے اور اپنے قدموں پر کھڑاہو ۔
ولایت کا دوسرامظہر، مسلمان عناصر کے درمیان گہرا داخلی اتحاد اور ربط و تعلق ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے کا متحد اور یک جہت ہونا ہے۔ جیسے کہ احادیثِ نبوی ؐاور احادیثِ معصومین ؑ میں ہے کہ :
مَثَل الْمُوْمِنِینَ فی تَوٰادِّھِمْ وَتَرَا حُمِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِاِذا اشْتَکَی بَعْضُھُمْ تَدٰاعی سٰاءِرُھُمْ بِالسَّہَرِوَالْحِمیٰ۔ (نہج الفصاحہ ۔حدیث نمبر۲۷۱۲۔ص۵۶۱)
حدیث میں انہی الفاظ کے نزدیک نزدیک کَمَثَلِ الْبُنْیٰانبھی آئے ہیں ۔ (مومنین کی مثال ) ایک ایسے جسدِ واحد اور عمارتِ واحد کی سی ہے، جسے ایک دوسرے سے پیوست اور باہم متصل ہونا چاہئے، اورجسے دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی مزاحمتوں اور ان کی عداوتوں کے مقابل متحد ہونا چاہئے ۔ یہ نکتہ قرآنِ مجید کی آیت: اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔ (۱) سے حاصل ہوتا ہے ۔
قرآنِ کریم کی ایک دوسری آیت نے اسی بات کومزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے :
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ۔
محمد، اللہ کے رسول ہیں، اورجو لوگ اِن کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے انتہائی سخت اورآپس میں انتہائی مہربان ہیں ۔(سورۂ فتح ۴۸۔آیت ۲۹)
جب یہ بیرونی مخالفین کے سامنے ہوتے ہیں، تو تم انہیں مضبوط، مستحکم اورباہر کی کوئی تاثیر اور اثر قبول نہ کرنے والا پاؤگے۔ لیکن یہ خودآپس میں انتہائی مہربان ہیں، کیونکہ ان کے درمیان دھڑے بندی نہیں ہے، اوراس عظیم جسد و پیکرِ اسلامی کے اعضا ایک دوسرے پر تاثیر ڈالتے ہیں، وہ سب ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے کو خیر اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں، سب ایک دوسرے کو حق کی زیادہ سے زیادہ پیروی کی وصیت کرتے ہیں، سب ایک دوسرے کو راہِ حق میں زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی کی نصیحت کرتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
جس طرح ہم نے پہلے مثال پیش کی، اُن دس کوہ پیما افراد کی مثال بیان کی جو کوہ پیمائی میں مصروف ہیں، جو پر پیچ پہاڑوں پر کمندیں ڈالتے ہوئے چل رہے ہیں، اور اگر ان میں سے کسی ایک کے پیروں کے نیچے سے کوئی ایک ڈھیلا یاایک پتھر نکل جائے، تو یہ اسے سر کے بل درّے کی گہرائی میں پھینک دینے کے لئے کافی ہے ۔اس صورت میں ان سب افراد کی سلامتی کا صرف ایک راستہ ہے، اور وہ یہ کہ وہ سب ایک دوسرے کی کمر کو انتہائی مضبوطی کے ساتھ رسی سے باندھ لیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں، تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک دوسرے کو آوازیں دیتے رہیں، کہ مثلاً فلاں تم راستے سے تو نہیں بھٹکے ہو، پیچھے تو نہیں رہ گئے ہو، بھوکے تو نہیں ہو ؟
وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر باخبر رہیں، دیکھتے رہیں کہ کہیں ان کے درمیان کوئی فرد فکری، مادّی اور حق و حقیقت کی شناخت کے اعتبار سے دوسروں سے کمزور تو نہیں ہے ۔اگر اُن کی صفوں میں کوئی ایسا فرد موجود ہو، توسب اس کی ہدایت ورہنمائی کی کوشش کریں، سب اُسے راہِ راست پر لانے کی سعی کریں ۔مختصر یہ کہ ایک ایسا گھرانہ تشکیل دیں جس کے افراد ایک دوسرے سے سو فیصدی مخلص ہوں ۔
یہ اسلامی معاشرے میں پائی جانے والی ولایت کے مختلف مظاہر میں سے ایک مظہر تھا۔
۱۔مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزت ۔(سورۂمائدہ ۵۔آیت ۵۴)