ولایت - چھ تقریریں

ولایت کے مختلف پہلو

گزشتہ گفتگو ؤں کے تسلسل میں، ہمارامقصدولایت کے حوالے سے سامنے آنے والے مسائل کی تشریح ہے ۔ہماری گفتگو ولایت کے بارے میں ہے، اوراس بارے میں ہے کہ ولایت کیا ہے اور قرآنِ مجید میں کہاں سے اسکے بارے میں معلوم ہوتا ہے، اور یہ کتنے پہلوؤں، کتنی جہات اور کتنے جوانب کی حامل ہے ۔یہ چیزیں ہم اس سے پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ۔ہاں، کچھ مسائل ایسے ہیں جو ولایت کے لئے ضمنی مسائل شمار کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ خودان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ اپنی جگہ پراصولی اورایک خاص جہت کا حامل مسئلہ ہے۔ اسلام کی بنیاد پر معاشرے کی سمت متعین کرنے اور اسلامی معاشرے کی راہِ عمل کے تعین کے لئے ان مسائل سے استفادہ کرناچاہئے۔ آئندہ سطور میں ہم ان چند مسائل کو ترتیب وار بیان کریں گے ۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید سے ثابت کیاہے کہ مسلمان معاشرے کے اندرونی اتحادواتصال کو محفوظ رکھنے اوراُسے بیرونی وابستگیوں سے دور رکھنے کے لئے لازم ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک مرکزی قوت موجود ہو۔یہ قوت اس معاشرے کی تمام سرگرمیوں کی نگراں ہو، تمام میدانوں میں اس کی سمت اوراسکی پالیسیوں کا تعین کرے اور معاشرے کے تمام گروہوں اور دھڑوں کی رہنمائی اوراُن کی تنظیم کرے۔ ہم نے اسے ”ولی“ یعنی فرمانروا قرار دیاتھا۔یعنی وہ ہستی جس سے تمام قوتیں رہنمائی لیں، اور تمام کاموں میں اُس سے رجوع کیا جائے۔مختصر یہ کہ وہ ایک ایسا شخص ہو کہ فکری اور عملی، ہر دو میدانوں میں اسلامی معاشرے کا نظم ونسق اسی کے ہاتھ میں ہو۔ اسے ”ولی“ کہتے ہیں ۔

یہ شخص کون ہو سکتا ہے ؟

اگرآپ ہم سے کہیں کہ ”ہم ولی کو پہچاننا چاہتے ہیں؟“ توکیا ہمارے پاس کوئی ایسا مختصر جملہ ہے جس کے ذریعے ہم اسے بیان کر سکیں ؟ البتہ ہم نے اس سوال کا جواب گزشتہ گفتگو کے درمیان، گاہ بگاہ عرض کیا ہے، اور آپ بھی جانتے ہیں، کوئی انجانی بات نہیں ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ منطقی اسلوب اوراس نکتے کے فطری تسلسل کے لحاظ سے بھی ہم اس بات کا جائزہ لیں ۔

اس سوال کے جواب میں قرآنِ مجید کی ایک عبارت ہے، کہتاہے : وہ ہستی جو معاشرے کی واقعی ولی ہے ”خدا“ ہے۔ خدا کے سوا کوئی اوراسلامی معاشرے کا حاکم نہیں۔ یہ وہی بات ہے جو توحید بھی ہم سے کہتی ہے، اور نبوت بھی اسی اصول کو ہمارے لئے ثابت کرتی ہے ۔

اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ولایت بھی ہم سے یہی کہتی ہے۔ بنیادی طور پر ایک مکتب اور مسلک کے اصولوں کو اسی طرح ہونا چاہئے، کہ ان میں سے ہراصول وہی نتیجہ دے جو نتیجہ اسکے دوسرے اصول دیتے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مکتب کے ایک اصول سے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں، اسکے دوسرے اصولوں سے اسکے مخالف نتیجہ اخذ کریں ۔

افسوس کہ جو اسلام آج کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں ہے، اس کے بعض اصولوں سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں اُن کے بالکل برعکس نتائج دوسرے اصولوں سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔لہٰذا وہ ہستی جو اسلامی معاشرے میں امر و نہی کا حق رکھتی ہے، اور احکام وفرامین کے نفاذ اور معاشرے کی راہ و روش کے تعین کی حقدار ہے، مختصر یہ کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں حاکمیت کا حق رکھتی ہے، وہ خداوندِ عالم کی ذات ہے۔ وَاﷲُ وَلِیُّ الْمُوْمِنینَ۔

جن آیات میں ولی یا اولیا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ہم نے اُن آیات میں سوچ بچارکیا ہے، اوران سب کا تقریباً اجمالی مطالعہ کیا ہے، اور دیکھا ہے کہ یہ بات کہ ” خدااسلامی معاشرے کا ولی ہے، مومنین کا خدا کے سوا کوئی ولی اور مدد گار نہیں، اور خدا کو انسان کے تمام امور کا حاکم ہونا چاہئے“ ایک ایسا مسئلہ ہے، جو قرآنِ مجید کے مسلّمات میں شامل ہے ۔

جن افرادکے ذہن میں شاید مفاہیم خلط ملط ہوجائیں، ہم اُنہیں یہ یاد دہانی کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری گفتگو خداوندِ عالم کی تکوینی حاکمیت کے بارے میں نہیں ہے ۔یہ بات اپنی جگہ ثابت اور معلوم ہے کہ زمین اورآسمان کی گردش کوخدا وندِ عالم اپنے ارادۂ قاھرہ سے تنظیم کرتا ہے۔ ہماری گفتگو اس بارے میں ہے کہ انسانوں کی زندگی کے قوانین اور اسلامی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی روابط بھی خدا کے احکام وفرامین پر مبنی ہونے چاہئیں۔یعنی نظامِ اسلامی اور حکومت و نظامِ علوی کے زیر سایہ الٰہی، اسلامی اور قرآنی معاشرے کاقانونی حاکم وفرمانروا صرف اور صرف خداہے۔

اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ ”حاکم وفرمانرواخدا ہے“ سے کیا مراد ہے ؟

اپنے احکام پر عملدرآمد کرانے کے لئے خدا ئے متعال تو لوگوں کے سامنے آنے سے رہا؟

دوسری طرف انسانوں پر ایک انسان ہی حکومت کر سکتا ہے۔لازم ہے کہ انسانوں کے امور و معاملات کی باگ ڈور ایک انسان ہی کے ہاتھ میں ہو۔ البتہ یہ جو ہم ”ایک انسان“ کہتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم ”ایک“ پرزور دے رہے ہیں اور اجتماعی رہبری کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ ایسے انسان کی ضرورت ہے جو انسانوں کے امور و معاملات کی باگ ڈور ہاتھ میں لے۔ وگرنہ اگر انسانی معاشرے میں صرف قانون موجود ہو، چاہے وہ الٰہی قانون ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہاں حکومت کرنے کے لئے کوئی امیر، کوئی فرمانروا یا کوئی کمیٹی نہ ہو، مختصر یہ کہ اگر انسانی معاشرے میں قانون کے اجرااور نفاذ کے لئے کوئی ناظر ونگہبان نہ ہو، تو اس کا نظم و نسق قائم نہ رہ سکے گا۔

رہی بات یہ کہ یہ انسان کون ہوسکتا ہے ؟

وہ ایک یا کئی انسان، جنہیں انسان اور انسانی معاشرے پر عملاً حکومت کااختیارحاصل ہے، جنہیں عملاً معاشرے کا ولی تسلیم کیا گیا ہے، جنہیں عملاً معاشرے کی ولایت اپنے ذمے لینی ہے، کون لوگ ہوسکتے ہیں ؟

اس سوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ۔

تاریخی حقائق بھی اس سوال کے مختلف جواب دیتے ہیں ۔

بعض نے کہا ہے : اَلْمُلْکُ لَمِنْ غَلَب ۔مراد یہ ہے کہ جو کوئی غالب آجائے، وہی مملکت کا مالک ہوگا۔یعنی جنگل کاقانون ہے۔بعض نے کہا ہے کہ جس کسی میں زیادہ تدبیر پائی جائے، وہی حکمرانی کے لائق ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جسے لوگوں کی تائید حاصل ہو، وہی حکومت کا حقدار ہے۔بعض نے کہا ہے کہ جو کوئی فلاں اور فلاں قبیلے سے تعلق رکھتا ہو، وہی حکمراں بننے کا اہل ہے۔کچھ دوسرے لوگوں نے اور مختلف باتیں کی ہیں اور دوسری منطق اورافکار کا اظہار کیا ہے ۔

دین اور مکتب نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ : اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ۔ پروردگارِ عالم کی جانب سے عملاً جو ہستی معاشرے میں حکم وفرمان اور امر ونہی کی ذمے دار قرار دی گئی ہے، وہ اس کا ”رسول“ ہے ۔ لہٰذا معاشرے میں جس وقت ایک پیغمبر آجائے، تو پیغمبر کی موجودگی میں اُس کے سوا کسی اور حاکم کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ۔پیغمبر، یعنی وہ ہستی جس کا معاشرے پر اقتدار ہونا چاہئے۔

لیکن جب دوسرے انسانوں کی طرح پیغمبر کی بھی وفات واقع ہو جائے، تو پھر کون حاکم وفرمانروا بنے گا ؟

آیتِ قرآنی جواب دیتی ہے: وَالَّذِیْنَ ٰامَنُوا۔مومنین تمہارے ولی ہیں۔

کونسے مومنین ؟

کیادین و مکتب پر ایمان لانے والا ہر شخص اسلامی معاشرے کا ولی اور حاکم ہے ؟

اس صورت میں جتنے مومن ہوں گے، اُتنی ہی تعداد میں حاکم بھی ہوجائیں گے۔

آیتِ قرآن ایک معلوم اور متعین انسان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ، اور اسلام کے شارع اور قانون گزار کی نظر میں معین ایک ہستی کوحکومت کا حقدار قرار دیتے ہوئے، اسکے انتخاب یا انتصاب کی وجہ بھی بیان کرتی ہے، اور اس طرح ایک معیار فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا کہتی ہے کہ : وَالَّذِیْنَ ٰامَنُوا۔وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، اور واقعی ایمان لائے ہیں۔کیونکہلفظ ”ٰامَنُوا“ کے اطلاق کا لازمہ یہ ہے کہ ”وَالَّذِیْنَ ٰامَنُوا“ اُن لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے جنہوں نے اپنے عمل سے اپنے ایمان کی تصدیق کی ہے ۔پس الَّذِیْنَ ٰامَنُوا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ واقعاً مومن ہو، دوسری شرائط بھی ہیں : الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔ اوراُن مومنین میں سے ہوجو نماز قائم کرتے ہیں ۔یہ نہیں فرمایاہے کہ جونماز پڑھتے ہوں۔کیونکہ نماز پڑھنا ایک چیز ہے اور نماز کا قیام کرنا دوسری چیز۔ اگر نماز پڑھنا مقصود ہوتا، تو ”یصلّون“ کہا جاسکتا تھا، جو ایک مختصر تعبیر ہے ۔ایک معاشرے میں ”اقامتِ صلات، ، کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے میں روحِ نماز زندہ ہو، معاشرے میں نماز پڑھنے کا چلن عام ہو۔ اور آپ جانتے ہیں کہ نماز خواں معاشرے سے مراد ایک ایسامعاشرہ ہے جس کے تمام گوشوں میں ذکرِ خدا اور یادِ خدا مکمل طور پر موجزن ہو۔

آپ کے علم میں ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں خدا کا ذکر اور اسکی یاد موجزن ہو، اُس میں کوئی جرم، کوئی خیانت واقع نہیں ہوتی۔ اس معاشرے میں انسانی اقدار کی کوئی توہین نہیں ہوتی۔ایسا معاشرہ جس میں خدا کی یاد موجزن ہو، اور جس میں زندگی بسر کرنے والے افراد ذکرِ خدا میں مشغول ہوں، اُس کا رخ خدا کی جانب ہوتا ہے، اور لوگوں کے تمام کام خدا کے لئے ہوتے ہیں۔

معاشرے میں پائی جانے والی گھٹیا باتوں، مظالم اورظلم و زیادتی کے سامنے تسلیم ہوجانے کاواحد سبب خدا فراموشی ہے ۔ایسامعاشرہ جس میں خدا کی یاد پائی جاتی ہے، اُس کا حاکم علی ابن ابیطالب ؑ کی طرح ہوتا ہے، جو ظلم نہیں کرتا، بلکہ ظلم کاقلع قمع کرتا ہے ۔اسکے عوام ابوذر غفاریؓ کی مانند ہوتے ہیں، جو مار پیٹ سہنے کے باوجود، جلاوطن کئے جانے کے باوجود، ڈرائے دھمکائے جانے کے باوجود، بے وطن کئے جانے اور بے کس رہ جانے کے باوجود ظلم کے آگے سر نہیں جھکاتے، خدا کا راستہ نہیں چھوڑتے۔یہ وہ معاشرہ ہے جس میں ذکرِ خداہے، یہ وہ معاشرہ ہے جس میں قیامِ نماز ہے ۔ایسا مومن جو معاشرے میں نماز قائم کرتا ہے، یعنی معاشرے کا رُخ خدا کی جانب کرتا ہے، اور معاشرے میں ذکرِ الٰہی کو رائج اوربرقرار کرتا ہے، وہ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔۔۔ ان لوگوں میں سے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی، ہ لوگ: وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ۔ دولت کی عادلانہ تقسیم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں، راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں ۔اسکے فوراً بعد فرماتا ہے:وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔ یعنی رکوع کی حالت میں(زکات دیتے ہیں ) ۔یہ ایک خاص موقع اور داستان کی جانب اشارہ ہے۔ بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ: وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور یہاں کسی خاص واقعے کی جانب اشارہ نہیں ہے ۔لیکن عربی زبان سے واقفیت اس احتمال کو مسترد کردیتی ہے، اور ہُمْ رَاکِعُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ ایک انسان مساوات کو اس قدرپسند کرتا ہو، راہِ خدا میں خرچ کا اس قدرمشتاق ہو، فقر اور فقیر کو دیکھنا اسکے لئے اتناتکلیف دہ ہوتاہو کہ اپنی نماز ختم ہونے کا انتظار نہ کرے۔اس انسان میں راہِ خدا میں خرچ کی جانب اس قدر شدیدرجحان پایا جاتا ہے اور یہ انسان اس فریضے کی ادائیگی میں اس قدر محو ہوتاہے کہ اس سلسلے میں صبر نہیں کرسکتا، تحمل کی مجال نہیں رکھتا ۔جب وہ ایک فقیر کو دیکھتا ہے، ایک ایسا منظردیکھتا ہے جس منظر کو خداپسند نہیں کرتا، اور اسے بھی وہ پسند نہیں ہوتا، اور اس وقت اسکے پاس ایک انگوٹھی کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہوتی، تو وہ اسی حالتِ نماز میں اپنی وہ انگوٹھی اتار کر سائل کو دے دیتا ہے ۔لہٰذا یہ تاریخ میں ایک جانا پہچانا اورخاص واقعہ ہے، جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا تھا۔آنجناب ؑ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک فقیر آیا، آپ ؑ نے راہِ خدا میں اسے اپنی انگوٹھی عطا کردی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

پس جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔آیت اشارتاً علی ابن ابی طالب ؑ کو ولئ امرمقرر کر رہی ہے ۔البتہ اس انداز سے معین نہیں کررہی جس طرح تاریخ میں لوگوں کو زور زبردستی کے ساتھ معین کیا گیا ہے ۔مثلاً جب معاویہ اپنے لئے جانشین معین کرنا چاہتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ میرا جانشین میرا بیٹا ہے، اور وہی میرے بعد میرے تخت پر بیٹھے گا۔خدا ئے متعال اس انداز سے پیغمبر کا جانشین معین نہیں کررہا، لیکن کیونکہ سربراہِ حکومت کی خصوصیات خدا پر ایمانِ کامل، معاشرے میں قیامِ نماز اوراپنے آپ کو فراموش کردینے کی حد تک انفاق اور زکات کی ادائیگی سے لگاؤ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ ہی میں پائی جاتی تھیں، لہٰذا خداوندِ متعال حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کو خلیفہ کے طور پر معین اور نصب کر تے ہوئے اُن کی خلافت کا پیمانہ، کسوٹی اور حکمت بھی واضح کررہا ہے ۔اس بنیاد پر اسلام میں ولئ امر ایسا شخص ہوتا ہے جو خدا کا بھیجا ہوا ہو، ایسا شخص ہوتا ہے جسے خود خدا معین کرتا ہے۔

کیونکہ تصور یہ ہے کہ کائنات کی طبیعت کے مطابق یہاں کسی انسان کو دوسرے انسانوں پر حکمرانی کااختیارحاصل نہیں ہے، اور کیونکہ وہ واحد ہستی جسے حکومت کا حق حاصل ہے وہ خدا ہے، لہٰذا وہ انسانوں کی مصلحت کے مطابق جسے چاہے یہ حق دے سکتا ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کے کام بغیرمصلحت کے نہیں ہوتے، آمرانہ نہیں ہوتے، اُن میں زور زبردستی نہیں ہوتی۔بلکہ خدا کے کام انسانوں کی مصلحت کے مطابق ہوتے ہیں۔لہٰذا وہ معین کرتا ہے اور ہمیں (اسکے انتخاب کو ) تسلیم کرنا چاہئے ۔

خدا وندِ عالم پیغمبر اور امام کو معین کرتا ہے ۔اور امام کے بعدآنے والے حاکم کے لئے بھی کچھ صفات معین کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ ان صفات کے حامل لوگ ائمۂ معصومین ؑ کے بعد اسلامی معاشرے کے حکمراں ہوں گے ۔پس ولی کو خدا معین کرتا ہے ۔وہ خود ولی ہے، اُس کا پیغمبر ولی ہے، پیغمبر کے بعد آنے والے امام بھی ولی ہیں۔خاندانِ پیغمبر سے تعلق رکھنے والے امام متعین کئے گئے ہیں جن کی تعداد بارہ ہے، اور بعد کے مدارج میں، وہ لوگ جو خاص معیارات اور کسوٹیوں پر پورے اُترتے ہوں، اُنہیں حکومت اور خلافت کے لئے معین کیاگیاہے ۔

البتہ یہ ایک آیت تھی جسے ہم نے آپ کے لئے بیان کیا ۔قرآنِ کریم میں اور دوسری آیات بھی ہیں، جن میں سے بعض کاذکر ہم نے ان تقاریر میں کیا ہے، اور بعض کو خود آپ کو قرآن میں تلاش کرنا چاہئے ۔اس بارے میں بکثرت آیات ہیں ۔

اسلام سختی سے اس بات پرزور دیتا ہے کہ لوگوں کے امور کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے جو انسانوں کولے جاکر جہنم میں جھونک دیں ۔

کیا تاریخ نے ہمارے سامنے اس نکتے کی نشاندہی نہیں کی ہے؟ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ اسلام کے ابتدائی شاندار دور کے کچھ ہی عرصے بعد اسلامی معاشرے کے ساتھ کیا گیااوراسکے ساتھ کیا ہوا ؟ اور اس معاشرے پر کیا اُفتاد پڑی ؟یہ ایک ایسا معاشرہ بن گیاجس میں لوگ نیک افراد کی قدر نہیں کرتے، ایک ایسا معاشرہ بن گیاجس میں لوگ نیکی اور بھلائی کے پیمانوں کو بدل ڈالتے ہیں اور اپنے ناصح، خیر خواہ اور مصلح کو نہیں پہچان پاتے۔ اس معاشرے کے افراد کو اس حد تک پہنچانے کے لئے اُن پر کس قدر کام کیا گیا ہوگا؟ !

ظالم اور جابر حکمرانوں کی جانب سے اسلامی معاشرے میں کئے جانے والے مسموم پروپیگنڈے نے لوگوں کی معلومات کے دائرے اور اُن کے طرزِ فکر کو اس قدربدل ڈالاتھا اور اُن کی حالت یہ کردی تھی کہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ سمجھنے لگے تھے ۔لہٰذا جب انسان دوسری اور تیسری صدی ہجری کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے، اور حکومت اور خلافت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے لوگوں کی بے اعتنائی کودیکھتا ہے، تو حسرت ویاس کی تصویر بن جاتا ہے اورحیران ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کا پیمانۂ صبرحضرت عثمان کے زمانے میں لبریز ہوگیا تھا، اور جنہوں نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا، اور انہیں اس دردناک انداز سے خلافت سے معزول کر دیا تھا ؟ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو آج ایک عباسی خلیفہ کی شادی کی رات اس قدر خطیر رقم خرچ ہوتے دیکھ کربے حس وحرکت بیٹھے رہتے ہیں جس کے ذریعے اسلامی معاشرے کے ایک بڑے حصے کے حالات سدھارے جاسکتے تھے۔وہ دیکھتے ہیں کہ یہ مال کس قسم کے کاموں اور کیسی کیسی عیاشیوں پر خرچ کیا جارہا ہے، لیکن دم نہیں مارتے ؟ مسلمانوں کا پیسہ کس طرح ذاتی معاملات میں اُڑایا جارہا ہے اور وہ اسکے صحیح یا غلط ہونے سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ؟ !

اگر ایک ہزار افراد کاپیسہ کوئی ایک فرد اپنی ذات پر خرچ کرے۔اسے اپنی عیاشیوں پر نہیں بلکہ اپنے نماز اور روزے پر خرچ کرے، تب بھی کیا یہ عمل جائز ہے ؟ !

لوگ دیکھا کرتے تھے کہ اسلامی معاشرے کے بیچوں بیچ اس قسم کے کام انجام دیئے جاتے ہیں، اسکے باوجود اُن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی تھی ۔

شاید ہم نے کسی مناسبت سے یہ واقعہ بیان کیا ہوکہ ہارون رشید کا محبوب اور پسندیدہ وزیرجعفر برمکی ۲۸ تا ۳۰ سال کی عمرمیں اپنی انتہائی محبوبیت کے دور میں شادی کرتاہے ۔کیونکہ ہارون رشید، جعفر برمکی سے انتہائی محبت کرتا تھا، لہٰذا شادی کی اس تقریب میں شریک معزز مہمان دیکھتے ہیں کہ شادی کی رات دولہااور دلہن پرنُقل کی بجائے کوئی اور چیز نچھاورکی جارہی ہے ۔یہ مہمان جھپٹ پڑتے ہیں اور یہ چیزجتنی جس کے ہاتھ میں آتی ہے اتنی وہ اٹھا لیتاہے ۔ اس چیز کو اٹھاکر غور سے دیکھنے پر اُنہیں پتا چلتا ہے کہ یہ انگلی کے پورکے برابر نازک ڈبیائیں ہیں، جنہیں خالص سونے سے بنایا گیا ہے۔ جب وہ ان ڈبیاؤں کو کھولتے ہیں، تواُن کے اندر سے ایک انتہائی نازک کاغذ برآمد ہوتا ہے۔اورجب وہ اس کاغذ کو کھولتے ہیں، تو انتہائی تعجب کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ یہ اس قدر چھوٹا کیا گیاکاغذایک بڑا ورقہ ہے، جس پر تحریر ہے کہ ملک کے فلاں حصے کی زمین تمہاری ملکیت قرار دی گئی ہے !

خدا جانتا ہے کہ صرف ایک رات میں نہ جانے پانچ سو، آٹھ سو، ہزارجاگیروں کے فرمان انتہائی نازک کاغذ پرتحریر کرکے، سونے کی ڈبیوں کے اندر ایک دولہا دلہن پر نچھاور کئے گئے، اور انہیں ایسے لوگوں نے اٹھایا جنہیں خلیفہ جانتا بھی نہ تھا کہ وہ کون ہیں ۔مثلاً فرض کیجئے، فلاں وسیع باغ اور فلاں علاقہ ایک بچے کے ہاتھ لگ گیا، یا ایک بدمست بدمعاش کے ہاتھ چڑھ گیا، یا ایک کمین اور گھٹیا انسان کے ہاتھ میں آگیا ۔ان لوگوں سے خلیفہ توواقف نہیں تھا، اس نے توبس ڈبیائیں پھینک دی تھیں ۔اب اس علاقے میں جس کا قطعہ زمین اس شخص کے ہاتھ آیا، لوگوں کا کس قدر حق پامال ہوگا، کس قدر مال و دولت برباد ہوگا، کس قدر حقوق پامال اور ضائع ہوں گے، ان کے لئے یہ اہم بات نہیں تھی اور وہ ان باتوں کے بارے میں نہیں سوچتے تھے ۔

عین اسی زمانے میں جبکہ یہ فیاضیاں، بخششیں اورفضول خرچیاں جا ری تھیں، یحییٰ علوی، طبرستان کی پہاڑیوں میں ظلم و ستم کے خلاف بر سر پیکار تھے، اور اُن کی حالت یہ تھی کہ اُن کے اور اُن کے اہلِ خانہ کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے صرف ایک کپڑاہوتا تھا، جسے نماز پڑھتے ہوئے پہلے شوہر استعمال کرتااور اسکے بعد اپنی بیوی کو دے دیتا تھاکہ وہ اس سے اپنابدن چھپاکر نمازاداکرے ۔ پیغمبر کا گھرانہ جو ظلم و ستم کے خلاف برسر پیکار تھا، وہ اِن حالات میں زندگی بسر کر رہا تھااورلوگ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بے پروائی کا مظاہرہ کرتے تھے ۔

ہمارا مقصد ہارون سے گلہ شکوہ کرنانہیں ہے۔ہارون اگر یہ کام نہ کرے، تو وہ ہارون ہی نہیں ۔طبقۂ ہارون کا توتقاضا ہی یہ ہے۔ جب تک یہ طبقہ موجود ہے، ایسے کام انجام دئیے جاتے رہیں گے۔لہٰذا ہمیں اُس سے شکایت نہیں ہے ۔شکایت اور ہمارا گلہ اُن لوگوں سے ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کی طرح حساس نہیں رہے تھے ۔وہ ہوشیاری اورشعورجو اسلام کے ابتدائی دور میں ان کے اندر پایا جاتا تھا، وہ اس سے محروم ہوچکے تھے، اور اس صورتحال کے مقابل ذمے داری کا احساس کھوچکے تھے ۔یہ حالات دیکھ کراُنہیں کوئی دکھ نہیں ہوتا تھا ۔

آخر یہ لوگ ایسے کیوں ہوگئے تھے ؟

اسکی وجہ یہ تھی کہ انتہائی مضر، شرانگیز اورگھٹیا پروپیگنڈہ شدت کے ساتھ جاری تھا، اور پروپیگنڈے کے ذرائع اور مراکز سے لوگوں کے اذہان پر کام کیا گیا تھا ۔

اسلامی معاشرے کے مختلف طبقات پر اور مملکتِ اسلامیہ میں سالہاں سال لوگوں کے اذہان پر، لوگوں کی روحوں پر، لوگوں کی نفسیات پر کام کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں نوبت یہاں تک جاپہنچی تھی۔

پس آپ دیکھئے کہ اسلامی معاشرے میں حاکم کس قدر اہمیت رکھتا ہے، یہ بات کس قدر اہم ہے کہ حاکم کسے ہونا چاہئے ۔اسلامی معاشرے کا حاکم ایسے شخص کوہونا چاہئے جسے خدا نے معین کیا ہو۔

قرآنِ کریم کی ایک دوسری آیت کہتی ہے:

اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔

خدا اور اسکے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے درمیان موجود صاحبانِ امر کی بھی فرمانبرداری کرو ۔ (سورۂ نسا۴۔آیت۵۹)

صاحبانِ امر سے کیا مراد ہے ؟

وہ جاہل اور نادان مسلمان سمجھتاتھا کہ صاحبِ امر سے مراد ہر وہ شخص ہے جوحکمراں بن بیٹھا ہو اور ہروہ شخص جوفرمان دینے پر قادر ہو، وہ ”اولی الامر“ ہے ۔

ہم کہتے ہیں، نہیں، ایسا شخص اولی الامر نہیں ہے ۔اگر ہرفرمانروا اولی الامر ہے اورقرآن کی رو سے اسے قانونی حیثیت حاصل ہے، تو فلاں پہاڑ پر، فلاں طاقتور لٹیرے کا فرمان چلتا ہے، وہاں سارے معاملات اسی کے اختیار میں ہوتے ہیں ۔پس کیا وہاں وہ اولی الامر ہے ؟

شیعہ جس اولی الامرکے قائل ہیں، وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جسے خدا نے حکمرانی کا اختیار دیا ہو، وہ ایک ایسا شخص ہوتاہے، جو اگرچہ ”مِنْکُمْ“ کے مطابق انسانوں میں سے ہے، لیکن اس نے ولایت خدا سے حاصل کی ہے، کیونکہ ولایتِ کبریٰ کا مالک خدا ہے ۔

اب کیاہارون رشیدجیسے شخص کواُسکی اس حالت کے ساتھ، اُسکی ان بے حساب بخششوں اوراُسکی ان فضول خرچیوں کے ساتھ، اس آدم کشی کے ساتھ (کہ ایک روز اُس نے اسی جعفر برمکی اور اسکے خاندان کے بہت سے افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا، ان کونیست ونابود کر دیا اور بہت سے مومن مسلمانوں کو تہ تیغ کر ڈالا، اور اسی طرح کے دوسرے کام کئے ) اولی الامر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ !

اُس دور کا مفتی کہاکرتا تھا کہ ہارون اولی الامر ہے، اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ اُن لوگوں کی جنگ اور تنازع اسی مسئلے پر تھی، کہ وہ امام ؑ سے کہتے تھے کہ آپ کیوں اپنے زمانے کے اولی الامر کے خلاف ہیں ۔

پس اس مسئلے میں تشیع کانکتۂ نظر انتہائی ٹھوس اور گہراہے ۔ تشیع، قرآنِ مجید کے ذریعے یہ ثابت کرنے کے ساتھ کہ اولی الامر کا تقرر خدا کی طرف سے ہوتا ہے، ایسے معیاراور پیمانے standards) ( بھی لوگوں کے حوالے کرتی ہے جن کی موجودگی میں لوگ فریب نہ کھاسکیں، یہ نہ کہیں کہ علی ابن ابی طالب ؑ ہمارے سر آنکھوں پر لیکن ان کا جانشین ہارون رشید بھی ہمیں اسی طرح محترم ہے۔منصور عباسی کہاکرتاتھا کہ میں امام حسن ؑ کو خلیفہ مانتا ہوں، لیکن انہوں نے (نعوذباﷲ ) پیسے لے کر خلافت کو فروخت کر دیا تھا، لہٰذا اُنہیں خلافت کا حق حاصل نہیں اور جن لوگوں کو انہوں نے خلافت فروخت کی تھی ہم نے اُن سے بزور بازو خلافت چھینی ہے، لہٰذااب یہ ہماری ملکیت ہے۔وہ اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے، وہ لوگ بظاہرعلی ابن ابی طالب ؑ کی خلافت کے قائل تھے، اسکے باوجودمنصور عباسی کواُن کے جانشین کے طور پر قبول کرتے تھے۔ انہیں ان دونوں کے درمیان کوئی تضاد اور ٹکراؤ نظر نہیں آتا تھا ۔

لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔اگر تم علی ؑ کو مانتے ہو، تو تمہیں خلافت اور ولایت کے معیار کو بھی قبول کرناچاہئے ۔تمہیںیہ بات ماننی چاہئے کہ علی ابن ابی طالب ؑ کیونکہ ان تمام معیارات پر پورے اُترتے تھے، اس لئے ولی کے طورپراُن کا انتخاب ہوا تھا ؟

پس اگر کوئی ان معیارات پر پورا نہ اُترتا ہو، یااُس میں ان کے برعکس خصوصیات پائی جاتی ہوں، تو اُسے اپنے آپ کو علی ابن ابی طالب ؑ کا جانشین کہنے کا حق نہیں ہے ۔اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ شیعوں کی ولایت کااور ولئ امر ہونے کا دعویٰ کرے، اور کسی کو اسے ماننے کا حق بھی حاصل نہیں ہے ۔یہ وہ اوّلین نکتہ ہے جو ولایت کے مسئلے میں پیش آتا ہے ۔البتہ ہم نے دوسرے نکتے کی جانب بھی اسی جگہ اشارہ کیا ہے اور اس کے بارے میں آیت بھی بیان کی ہے ۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ آپ کس دلیل کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ولایتِ امر خدا کے اختیار میں ہے اور خدا کی چیز ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اس دعوے کی بنیاد ایک طبیعی حکمت ہے، جسے اسلامی تصورِکائنات میں مشخص اور معین کیا گیاہے ۔اسلامی تصورِ کائنات کی رو سے کائنات کی ہر چیز کا سرچشمہ قدرتِ الٰہی ہے : وَ لَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّہَارِ۔( روز و شب میں جو کچھ ساکن ہے وہ خدا کی طرف سے ہے ۔سورہ انعام ۶۔آیت ۱۳) جب تمام موجوداتِ خلقت کا مالک وہ ہے، اور تمام چیزوں پر تکوینی حکومت اسکے اختیار میں ہے، تو تشریعی اور قانونی حکومت بھی اسی کے اختیار میں ہونی چاہئے ۔اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

یہ دوسرا نکتہ تھا، اب ہم بعد کے نکات کی جانب آتے ہیں ۔

اب بعد کی آیات پر توجہ دیجئے، جو بیان کرتی ہیں کہ :

اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلآی اَہْلِہَا (بے شک خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کو پلٹا دو )

وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ، حکومت اور قضاوت کرو، تو عدل وانصاف کے مطابق کرو)

اِنَّ اﷲَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اﷲَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (بے شک پروردگار تمہیں بہترین چیز کی نصیحت کرتا ہے کہ بے شک پروردگار سننے اور دیکھنے والا ہے۔ سورہ نسا۴۔آیت۵۸) پس وہ تمہیں جس چیز کا حکم دیتا ہے اسکی بنیاد اُس کاکامل سننا، جاننا اور ہمہ گیرعلم و دانش ہے ۔کیونکہ وہ تمہاری اندرونی حوائج و ضروریات سے بھی باخبر ہے اور تمہارے مستقبل پر بھی نظر رکھتاہے ۔ لہٰذا تمہیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ تمہیں فراہم اور عطاکرتا ہے ۔

اس پہلی آیت میں امانت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، اور کہاگیا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے حوالے کرو، اوریہ درحقیقت دوسری آیت کے لئے زمین ہموار کرناہے ۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ امانت فقط یہ نہیں ہے کہ میں آپ کوایک روپیہ دوں اورآپ مجھے وہ ایک روپیہ واپس لوٹا دیں ۔امانت کے اہم ترین مظاہر اور نمونوں میں سے یہ ہے کہ انسان اُس شئے کو جو لوگوں کے درمیان خدا کی ہے اُسکے اصل مقام اور اُسکے اہل کے حوالے کرے ۔ ” اطاعتِ الٰہی“ جو انسان کا خدا کے ساتھ میثاق اور معاہدہ ہے، اُس پر صحیح صحیح عمل ہونا چاہئے ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے، اور جس کی اطاعت کا خدا نے حکم دیا ہے اسکی اطاعت کرے ۔یہ امانتداری کی بہترین مصداق ہے ۔

بعد والی آیت، یعنی سورۂ نسا کی انسٹھویں آیت میں ارشادِ الٰہی ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَٰامَنُوْآَ (اے ایمان لانے والو ) اَطِیْعُوااﷲ (خدا کی اطاعت کرو) وَاَطِیْعُواالرَّسُوْل (اور خدا کے رسول کی اطاعت کرو ) وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم (اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تمہارے درمیان صاحبِ امر ہیں )