کون فرد ولایت رکھتاہے ؟
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
اس کے بعدیہ سوال پیش آتا ہے کہ میں اور آپ ولایت رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ممکن ہے میں اور آپ ولایت رکھتے ہوں، لیکن کیا مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ولایت رکھتا ہے یا نہیں ؟
ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ کیا یہ دونوں (فرد اور معاشرہ) ایک ہی نہیں ہیں؟ کیا یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ؟ ہم جواب میں کہیں گے کہ : جی ہاں، اگر ایک عضو از خود سالم ہو، تو اس ایک عضوکے سالم ہونے کے اولاً تویہ معنی نہیں ہوں گے کہ پورا بدن سالم ہے اور ثانیاً یہ کہ اگر ایک سالم عضوایک غیر سالم بدن میں ہو، تووہ ایک سالم عضو کی تمام خوبیوں کامالک نہیں ہوسکتا ۔
پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ ولایت رکھنے والاایک انسان کس قسم کا آدمی ہوتا ہے۔ تاکہ اسکے ذریعے یہ جان سکیں کہ کیا میں اور آپ ولایت کے حامل ہیں، یا نہیں ؟ اگر یہ بات ثابت اور واضح ہوجائے کہ میں اور آپ ولایت کے حامل ہیں، تو اسکے بعد ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ معاشرے کو کیسا ہونا چاہئے تاکہ وہ ولایت کا حامل ہوسکے ؟
اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک بے ولایت معاشرے میں ولایت رکھنے والا ایک انسان پایا جائے۔(البتہ ہماری مراد مفروضے کے اعتبار سے ہے، جس کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مانع اور مضائقہ نہیں ہے، وگرنہ حقیقت میں بہت زیادہ مضائقہ ہے )
اب ذرا اس مسئلے کی جانب آتے ہیں کہ کیاایک انسان کے خود ولایت کا حامل ہوجانے سے اسکی ذمے داری ختم ہو جاتی ہے ؟
کیا بس اتنا کافی ہے کہ وہ خود ولایت کا حامل ہوجائے، چاہے اس کا معاشرہ ولایت سے محروم اورعاری ہی کیوں نہ ہو۔
کیا ایسی زندگی ایک مطلوب اور پسندیدہ زندگی ہوسکتی ہے ؟
اگر کوئی شخص خود ولایت کا حامل ہو، لیکن ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہوجو بے ولایت ہے، اور وہ معاشرے کی اس بے ولایتی کے حوالے سے کسی ذمے داری کا احساس نہ کرے، تو کیا اس کااس ذمے داری کا احساس نہ کرنا، خود اسکی ولایت کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا اوراُسے بھی خراب نہیں کردیتا ؟
یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ مسلمان مرد وزن، بالخصوص مسلمان جوانوں کوسوچنا چاہئے ۔ممکن ہے میرے پاس اتنی فرصت اور موقع نہ ہو، اور اگر میں ان میں سے ایک ایک نکتے کو اس طرح بیان کرنا چاہوں کہ وہ واضح ہو جائے، اور تمام لوگوں کی سمجھ میں آجائے، تو ان میں سے ہر ایک نکتے پر گھنٹوں گفتگو کی ضرورت ہوگی۔ افسوس کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے جو میں ان نکات کو اختصار کے ساتھ عرض کررہاہوں اور ان کے بارے میں غور و فکر اوران کی موشگافیوں کو آپ پر چھوڑ رہاہوں ۔
اب ہم اس نکتے کا جائزہ لیتے ہیں کہ اولاً ولایت کا حامل انسان، کس قسم کا انسان ہوتا ہے ؟ ثانیاً یہ کہ ہماری اور معاشرے کی اوراکھٹے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی اجتماعی ہیئت کیسی ہونی چاہئے کہ ہم ولایت کے حامل ہوسکیں، اوروہ کیا صورت ہے جس میں ہم ولایت کے حامل نہیں ہوں گے ؟ کس صورت میں ایک معاشرہ اسلام کا مطلوب ولائی معاشرہ بنتا ہے، اور کس صورت میں اور کن حالات میں، اسلام کی بتائی ہوئی ولایت سے محروم رہتا ہے ۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ولایت رکھنے والے ایک شخص کے ذاتی طورپر ولایت رکھنے سے اسکی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے؟ اور اب اس پر ولایت کا حامل معاشرہ بنانے کی ذمے داری عائدنہیں ہوتی ؟
چوتھامسئلہ یہ ہے کہ اگر انسان خودتوولایت کاحامل ہو، لیکن ولایت سے محروم ایک معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہو، اوراسے اپنے معاشرے کو ولایت کا حامل بنانے کی ذمے داری کا احساس نہ ہو، تو کیا اس میں ذمے داری کے اس احساس کانہ پایاجانا، خود اسکی ولایت کو نقصان نہیں پہنچائے گا ؟ کیا اسکی ولایت کو اسی بات نے ضعیف اور مخدوش نہیں کر دیا ہے کہ اس میں دوسروں کو ولایت کا حامل بنانے کی سوچ نہیں پائی جاتی؟
یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہمیں بحث اور گفتگو کرنی چاہئے ۔
اب ہم ان میں سے کچھ مسائل بیان کریں گے۔
اس بحث کے مکمل ہونے کے بعد آپ خود ولایت کے بار ے میں قرآن کے پیش کردہ اور حدیث کے بتائے ہوئے عالی اور عقل پسند معنی کا موازنہ اُن معنی سے کیجئے گا جو سست اورعمل سے جی چرانے والے آرام طلب افرادنے تصور کرلئے ہیں۔ تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ ان دونوں معنی کے درمیان کس قدر فرق پایا جاتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے ولایت کا حامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ جب کبھی اہلِ بیت ؑ میں سے کسی کا نام سنے تو علیہ السلام کہے۔ سمجھتے ہیں کہ ولایت کا حامل ہونا یہ ہے کہ انسان کے دل میں محبتِ ِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہو۔ البتہ بے شک اہلِ بیت ؑ کی محبت رکھنا واجب اور فرض ہے اور اُن کے اسمائے گرامی کو عزت و تکریم کے ساتھ زبان پر جاری کرنا، اُن کے نام پر مجالس کا انعقاد، اُن کی خوشی، غمی سے سبق لینا، اُن کے مصائب بیان کرنا، اُن کے مصائب اور مسرتوں پر اُن کاذکر کرنا اوراُن کی مظلومیت پر آنسو بہانا لازم ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں ولایت نہیں ہیں۔ ولایت اِن سے بالاتر ہے۔ ایسا شخص جو سید الشہدا ؑ کی مجلسِ عزا میں بیٹھ کر آنسو بہاتا ہے، وہ ایک اچھا کام کرتا ہے، لیکن اسے ولایت کا حامل ہونے کے لئے صرف اس اشک فشانی کوکافی نہیں سمجھنا چاہئے ۔
وہ لوگ جن کے ذہن پر بعض ایجنٹ عناصر اور مفاد پرستوں کی مفاد پرستانہ یا جاہلانہ تعلیمات و تلقینات اثر انداز ہوئی ہیں، انہیں ذرا توجہ سے سننا چاہئے، تاکہ بعد میں یہ نہ کہا جائے کہ کوئی سید الشہداؑ پر رونے کا مخالف ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ بسا اوقات سید الشہداؑ پر اشک فشانی ایک قوم کی نجات کا باعث بن سکتی ہے، جیسے کہ توابین قبرِ حسین ؑ کے سرہانے گئے اور وہاں بیٹھ کراُنہوں نے دو یا تین روز صرف اور صرف گریہ کیا، اور ان کی اس گریہ و زاری کانتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے مرجانے کا عہد کیا اور کہا کہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں جانے کے بعد زندہ لوٹ کر نہیں آئیں گے ۔یہ ہے امام حسین ؑ پر گریہ، کوئی اس گریئے کا مخالف نہیں ہے ۔
کوئی انسان حسین ابن علی ؑ اور علی ابن ابی طالب ؑ کی عظمت بیان کئے جانے کا مخالف نہیں۔ جو کوئی انہیں جانتا ہے، وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاناچاہئے۔ وہ گھرانہ جس کی میراث شہادت ہواور جس کا عزیز ترین اثاثہ راہِ خدا میں فدا کاری اور جانثاری ہو، اور جس کا پوراوجود خدا کے لئے وقف ہو، انسان کو اس گھرانے کاذکر عظمت ہی کے ساتھ کرناچاہئے ۔اس بات کا شیعہ اور غیرشیعہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ یورپ، امریکا، یا کسی بھی کفرستان میں چلے جائیے، اوروہاں اُن کے سامنے علی ابن ابی طالب ؑ جیسی شخصیت کے حالاتِ زندگی بیان کیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ ان کے کردار پر فخر کرتے ہوئے، ایک ایسے انسان پر افتخار کرتے ہوئے جس کی زندگی میں یہ تمام کے تمام افتخارات موجودہیں، وہ ان کے لئے تالیاں بجائیں گے، اُن کی تعظیم اور احترام کریں گے، اور ان کے نام کو آپ کی طرف سے ایک عزیز یادگار کی صورت اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں گے ۔
یہ چیزصرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے، جس کی بناپر آپ سمجھتے ہیں کہ ولایت یعنی بس یہی محبتِ اہلِ بیت ؑ ۔البتہ یہ اُس ولایت کاایک گوشہ اور شعبہ ہے جو انسان کوجنت میں لے جاتی ہے، یہ ولایت کاایک انتہائی اہم حصہ شمار ہوتی ہے ۔
کچھ لوگ ہیں جو واقعاً جہالت کی بنیاد پر، جو انشاء اﷲ جہالت ہی کی بنیاد پر ہے مفادپرستی کی بنیاد پر نہیں امام حسین ؑ پر گریہ کرنے جیسے مسائل اور ولایت و تشیع کے باب میں بعض سطحی مسائل کا ذکر کرکے ولایت کو صرف انہی مسائل میں منحصر کرتے ہیں، اور تعجب ہے کہ ولایت کوسمجھنے والے، ولایت کوجاننے والے اور ولایت رکھنے والے لوگوں کوانہی باتوں سے ہدفِ تنقید بناتے ہیں ۔
انسان کی سرشت میں ولایت پائی جانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ولی کے ساتھ فکری اور عملی طور پرزیادہ سے زیادہ وابستہ ہے، اور اسکی اس وابستگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
ولی کو تلاش کیجئے، خدا کے ولی کو پہچانئے، اسلامی معاشرے کے حقیقی ولی کاتعین کیجئے۔ اسکے بعد ذاتی طور پر فکری لحاظ سے، عملی لحاظ سے، جذبات واحساسات کے لحاظ سے، راہ ورسم اورروش کے اعتبار سے اپنے آپ کو اس سے متصل اور مرتبط کیجئے، اسکی اتباع کیجئے، اس انداز سے کہ آپ کی کوشش اسکی کوشش، آپ کا جہاد اس کا جہاد، آپ کی دوستی اسکی دوستی، آپ کی دشمنی اسکی دشمنی اور آپ کی صف اس کی صف ہو ۔اس طرح کا انسان ولایت کا حامل انسان ہوتا ہے۔
ایسا شخص جو ولی کو پہچانتا ہو، ولی کی فکر کو پہچانتا ہواوراس کا ہم فکر ہو، ولی کے عمل کو پہچانتا ہو اور اُس کا عمل ولی کے عمل سے ہم جہت ہو، وہ ولی کی اتباع کرتا ہو، اپنے آپ کو فکری اور عملی طور پر ولی سے منسلک قرار دیتا ہو، ایسا شخص حاملِ ولایت ہے ۔
جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہم نے ولایت کو صرف دل میں علی ؑ کی محبت رکھنے اور امیر المومنین ؑ کے لئے اشکوں کے چند قطرے بہالینے میں منحصر کر دیا ہے۔ لیکن ہمارا عمل، علی ؑ کے عمل کے برخلاف اور ہماری فکرعلی ؑ کی فکرکے مخالف ہے ۔ہم نے ولایت کو اپنے لئے ایک افسانہ، ایک فرسودہ قصہ اور ایک دیومالائی چیزبنا لیا ہے، اور اپنے دل کو مطمئن کئے ہوئے ہیں کہ ہم حضرت علی ؑ کی ولایت رکھنے والوں میں سے ہیں، اور اس بات پر خوش ہیں کہ وہ تمام امتیازات جو علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت رکھنے والوں کے لئے مخصوص ہیں، اُن سب کے ہم بھی قطعی اور یقینی طور پرحقدار ہیں ۔
خدا جانتا ہے کہ یہ علی ابن ابی طالب ؑ کے ساتھ انتہائی زیادتی اور اُن پربہت بڑی جفاہے، اسلام پر بہت بڑا ظلم ہے ۔کیونکہ ولایت اسلام سے تعلق رکھتی ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نظر میں ولایت کے لئے عمل ضروری ہے ۔
آپ ؑ فرماتے ہیں:
”وہ شخص جو اہلِ عمل ہے، وہ ہمارا ولی (دوست)ہے، اور وہ شخص جو اہلِ عمل نہیں، وہ ہمارا دشمن ہے۔“
امام جعفر صادقؑ ولایت کے یہ معنی بیان کرتے ہیں، کیونکہ آپ ؑ کی نظر میں ولایت اس جاہل یا اس مفاد پرست شخص کی نظر میں ولایت سے مختلف ہے جو امام ؑ کا نام لے کر دنیاوی مفاد حاصل کرتا ہے ۔ہمیں گہرائی کے ساتھ ولایت کے معنی سمجھنے چاہئیں ۔بصورتِ دیگرہم پوری عمر جنت کی امید میں گزارنے کے باوجود موت کے بعد اس کی بو بھی نہ پاسکیں گے ۔ انسان کاحاملِ ولایت ہونا، ولی کے ساتھ اُسکی مطلق پیوستگی اور وابستگی کا نام ہے ۔