ولایت - چھ تقریریں

ایک انسان کو طاغوت اور شیطان کی ولایت کے تحت آنے سے کیوں بچنا چاہئے ؟

اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے، اورہم آپ سے چاہتے ہیں کہ آپ فوراً اپنے ذہن میں اس سوال کا اِس انداز سے تجزیہ و تحلیل کیجئے گا کہ آپ خوداپنے پاس موجود اسلامی اور مذہبی تعلیمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکیں ۔اسکے بعد اگر آپ کا جواب اُس جواب جیسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن میں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا، تب اس موضوع پر گفتگو کی گنجائش رہے گی۔

سوال یہ ہے کہ :کیا طاغوت کی حکومت میں رہتے ہوئے مسلمان نہیں رہا جاسکتا ؟

کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مسلمان شیطان کی ولایت کے تحت زندگی بسر کرے، لیکن رحمان کا بندہ ہو ؟

ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

کیا یہ ممکن ہے کہ: انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور اسکی حیات کے تمام گوشوں پر ایک غیر الٰہی عامل کی حکمرانی ہو، انسانوں کے جسموں اور اُن کی فکروں کی تنظیم و تشکیل اور اُن کا انتظام وانصرام ایک غیر الٰہی عامل کے ہاتھ میں ہو، یہی غیر الٰہی عامل افرادِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھی کبھی اِس رُخ پر اور کبھی اُس رُخ پر دھکیل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتی اور شیطانی عوامل کے قبضۂ قدرت میں زندگی بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھی ہو۔

کیا یہ چیزممکن ہے، یا ممکن نہیں ہے ؟

آپ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کیجئے اور اپنے ذہن میں اِس کا جواب تیار کیجئے، دیکھئے یہ ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا ؟

اِس سوال کا جواب دینے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزیہ وتحلیل کرناضروری ہے، تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔

ہم نے پوچھاہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان شیطان کی ولایت کے تحت ہو، اِسکے باوجود مسلمان بھی ہو ؟

اِس سوال کے دو اجزا ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزیہ و تحلیل کریں، اور دیکھیں کہ اِن کے کیا معنی ہیں ؟

پہلا جز یہ ہے کہ کوئی شخص شیطان کی ولایت کے تحت ہو۔

شیطان کی ولایت کے تحت ہونے کے کیا معنی ہیں ؟

اگر ولایت کے اُن معنی کو جو ہم نے آیاتِ قرآنی سے اخذ کئے ہیں، ”ولایتِ شیطان“ کی عبارت کے پہلومیں رکھیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ ولایتِ شیطان سے کیا مراد ہے ۔

ولایتِ شیطان سے مرادیہ ہے کہ شیطان (شیطان کے اُنہی مجموعی معنی کے مطابق جنہیں ہم نے بارہا بیان کیا ہے ) انسان کے وجود میں پائی جانے والی تمام توانائیوں، صلاحیتوں، تخلیقی قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شیطان کے معین کردہ دستور کے مطابق ہو، انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت میں ہو جس کا تعین شیطان نے کیا ہے، اُس انسان کی طرح جو کوہساروں سے نیچے بہنے والے سیلاب کی لپیٹ میں ہو۔ اس انسان کو یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ وہ سخت اور کھردری چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے، اُسے یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ وہ اس پانی میں بہتے ہوئے گہرے گڑھے میں جاپڑے، اُسے یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ پانی کی ان موجوں کے درمیان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود یہ کہ اُسے پسند نہیں ہوتا لیکن پانی کا یہ تیز و تند ریلا بغیر اُسکی مرضی کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے، وہ ہاتھ پاؤں بھی مارتا ہے، وہ کبھی اِس طرف اور کبھی اُس طرف سہارا بھی لیتا ہے، راستے میں آنے والے پودوں اور درختوں کو پکڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے، لیکن پانی کا تیز بہاؤ اُسے بے اختیار بہائے لئے جاتا ہے ۔

ولایتِ طاغوت اور ولایتِ شیطان اسی قسم کی چیز ہے ۔

لہٰذا آیتِ قرآن کہتی ہے:

وَجَعَلْنہُمْاٰا اَءِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ۔

ایسے رہنمااور قائدین بھی ہیں جو اپنے پیروکاروں اور زیرِ فرمان افراد کو دوزخ کی آگ اور بد بختی کی طرف کھینچے لئے جاتے ہیں۔ (سورۂ قصص ۲۸۔ آیت ۴۱)

قرآنِ مجید کی ایک دوسری آیت فرماتی ہے :

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اﷲِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَ بِءْسَ الْقَرَارُ ۔

کیا تم نے ان لوگوں کاحال نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے سپرد کر دیااور دوزخ جو بد ترین ٹھکانہ ہے، اس میں جاپڑے ۔(سورۂابراہیم ۱۴۔آیت۲۸، ۲۹)

کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کا کفران کیا ؟

وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کیا، کیا تھی؟

نعمتِ قدرت، جو پروردگار کی قدرت کا مظہر ہے، دنیوی طاقتیں، انسان کے معاملات کے نظم ونسق کی نعمت، انسانوں کی بکثرت صلاحیتوں، افکاراور قوتوں کو ہاتھ میں رکھنے کی نعمت، یہ سب کی سب چیزیں نعمت ہیں اور ایسے سرمائے ہیں جو انسان کے لئے خیر کا سرچشمہ ہوسکتے ہیں ۔

اِ س آیت میں جن افراد کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اُن کی فرمانروائی میں زندگی گزارنے والاہر انسان ایک عظیم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا، اور کما ل کے بلند ترین درجات تک رسائی پاسکتاتھا۔لیکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کیااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہیں استعمال نہیں کیا ۔

اسکے بعد فرماتا ہے :

وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ

اوروہ خودجانتے بوجھتے، اپنی قوم اور اپنے زیرِ فرما ن لوگوں کو نیستی و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے گئے

جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَ بِءْسَ الْقَرَارُ

اُنہیں جہنم کی طرف لے گئے، جس میں الٹے منھ پھینکے جائیں گے اور یہ کیسی بُری جگہ اور ٹھکانہ ہے

یہ آیت امام موسیٰ ابن جعفر علیہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھی اور ہارون کو یہ بات باور کرائی کہ تو وہی شخص ہے جو اپنی قوم کو اور اپنے آپ کو بد ترین منزل اورمہلک ترین ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔

ہارون نے (امام سے) سوال کیا تھا کہ کیا ہم کافر ہیں ؟ اُسکی مراد یہ تھی کہ کیا ہم خدا، پیغمبر اور دین پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ۔

لہٰذاامام ؑ نے اُسکے جواب میں اِس آیت کی تلاوت فرمائی، تاکہ اسے یہ بات ذہن نشین کرادیں کہ کافر فقط وہی شخص نہیں ہوتا جو صاف اور صریح الفاظ میں خدا کاانکار کرے، یا قرآن کوجھٹلائے، یا پیغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھیک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کی بہترین قسم سے ہے جو صریحاً اپنی بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے میں اپنے موقف کا اچھی طرح تعین کرتا ہے ۔

کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظیم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے میسّر ہیں اور اُنہیں غلط راستے میں استعمال کرے ۔ایسا شخص نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم میں جھونک دیتا ہے ۔

طاغوت کی ولایت ایسی ہی چیز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کی ولایت میں زندگی بسر کرتا ہے، اُسے گویااپنے اوپر کوئی اختیارحاصل نہیں ہوتا ۔ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ با لکل ہی بے اختیار ہوتا ہے ۔بعد میں جب ہم آیۂ قرآن کے معنی بیان کریں گے، تو اس نکتے کی تفسیر واضح ہوجائے گی۔ البتہ وہ شخص سیلابی ریلے کی زد پرہوتا ہے اوراُس میں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے، لیکن نہیں مار پاتا، وہ دیکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کی طرف جارہے ہیں اور اُسے بھی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}لیکن بے بس ہوتا ہے{

کیا آپ کبھی کسی مجمع میں پھنسے ہیں ؟ اِس موقع پر آپ کا دل چاہتا ہے کہ ایک طرف ہوجائیں، لیکن مجمع آپ کو ایک تنکے کی طرح اٹھا کر دوسری طرف پھینک دیتا ہے ۔

ایسا شخص جو طاغوت کے زیرِ ولایت ہو، وہ چاہتا ہے کہ نیک بن جائے، صالح زندگی بسر کرے، ایک انسان کی طرح زندگی گزارے، مسلمان رہے اور مسلمان مرے، لیکن ایسانہیں کر سکتا ۔

یعنی معاشرے کا ریلا اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے، اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھی نہیں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھی ہے، توسوائے اپنی قوت کے زیاں کے اسے کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہیں مارپاتا، بلکہ اِس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی وہ اپنی حالت کو بھی نہیں سمجھ پاتا ۔

مجھے نہیں معلوم آپ نے سمندر سے شکار ہوتی مچھلیوں کو دیکھا ہے یا نہیں ۔کبھی کبھی ایک جال میں ہزاروں مچھلیاں پھنس جاتی ہیں، جنہیں سمندر کے وسط سے ساحل کی طرف کھینچ کر لاتے ہیں، لیکن اُن میں سے کوئی مچھلی یہ نہیں جانتی کہ اُسے کہیں لے جایا جارہا ہے، ہر ایک یہ تصور کرتی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔لیکن درحقیقت وہ بے اختیار ہوتی ہے، اُسکی منزل وہی ہوتی ہے جس کی جانب جال کا مالک وہ شکاری اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔

جاہلی نظام کا غیر مرئی جال انسان کو اس سمت کھینچتا ہے جس سمت اس جال کی رہنمائی کرنے والے چاہتے ہیں۔اس نظام میں زندگی گزارنے والا انسان بالکل نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھی کبھی تو وہ اپنی دانست میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کامیابی کی منزل کی طرف گامزن ہے، جبکہ اُسے نہیں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کی طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَ بِءْسَ الْقَرَارُ۔

یہ ولایتِ طاغوت اور ولایتِ شیطان ہے ۔

یہ پہلی عبارت اُن دو عبارتوں میں سے ایک تھی جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال یہ تھا کہ کیا طاغوت اور شیطان کی ولایت اورحکومت میں رہتے ہوئے مسلمان نہیں رہا جاسکتا؟

اجمالاً ہم نے طاغوت کی ولایت اور حکومت میں زندگی گزارنے کو سمجھ لیا ہے۔ یعنی یہ جان لیا ہے کہ اِس سے کیا مراد ہے۔اگر ہم اِسکی تفسیر کرنا چاہیں، تو ایک مرتبہ پھر تاریخ کی طرف پلٹ سکتے ہیں ۔

آپ دیکھئے بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محوِ سفر تھا ۔ دیکھئے اُس دور کے اسلامی معاشرے میں علم ودانش کی کیسی عظیم لہر اُٹھی تھی، کیسے کیسے عظیم اطبّاپیدا ہوئے تھے، زبان دانی اور عموی علمی افلاس کے اُس دور میں عالمِ اسلام میں کیسے عظیم مترجمین پیدا ہوئے تھے، جنہوں نے قدیم تہذیبوں کے عظیم آثار کو عربی زبان میں ترجمہ کیااور اُن کی نشر و اشاعت کی ۔مسلمان تاریخ، حدیث، علومِ طبیعی، طب اورنجوم کے شعبوں، حتیٰ فنونِ لطیفہ میں بھی انتہائی ممتازمقام کے مالک تھے ۔ یہاں تک کہ آج بھی جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کی مانند ایک شخص، یاکوئی اور مصنف اورمستشرق ان ظاہری باتوں کو دیکھتاہے، تو اسلام کی دوسری، تیسری اور چوتھی صدیوں کو اسلام کے عروج کی صدیاں قرار دیتا ہے ۔

گسٹاف لو بون نے ”چوتھی صدی ہجری میں تاریخِ تمدنِ اسلام“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ایک ایسا تمدن جسے وہ ایک عظیم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھی صدی ہجری کواس عظیم تمدن کی صدی بیان کرتا ہے۔ مجموعی طور پر جب کوئی یورپی مستشرق دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری پر نگاہ ڈالتا ہے، تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامی معاشرے میں حیرت انگیزگرمیاں، صلاحیتیں اورلیاقتیں ظاہر ہوئی تھیں۔

لیکن ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تمام سرگرمیاں اور صلاحیتیں، جو اس دورمیں ظاہر ہوئیں، کیا ان کا نتیجہ اسلامی معاشرے اور انسانیت کے مفاد میں برآمد ہوا ؟

آج اُس زمانے کو دس صدیاں گزر چکی ہیں، اور ہم اس زمانے کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں ہیں اور غیر مسلم دنیا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کی بنیاد رکھی، یہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کی تشکیل کی، یہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبیعیات کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کیا خود اپنے حلقوں میں ہم حق و انصاف کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحیتوں کا نتیجہ ٹھیک ٹھیک، برمحل اور انسانیت اور اسلامی معاشرے کے مفاد میں برآمد ہوا ؟

آج دس صدیاں گزرنے کے بعداسلامی معاشرے کے پاس اُس میراث میں سے کیا باقی ہے ؟ اور کیوں باقی نہیں ہے ؟

آخر وہ علمی اورتہذیبی دولت ہمارے لئے کیوں باقی نہ بچ سکی ؟

ہم دس صدی پہلے کے اُس تابناک معاشرے کی طرح آج کیوں دنیا میں درخشاں اور جلوہ نما نہیں ؟ کیا اسکی وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمیاں اور جلوہ نمائیاں طاغوت کی حکمرانی میں رہتے ہوئے تھیں ۔

من آن نگین سلیمان بہ ہیچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قیادتوں نے اسلامی معاشرے کے ساتھ کھیل کھیلا، اوراپنانام اونچا کرنے اور یہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسی خلیفہ کے دورِ اقتدار میں فلاں کام ہوا، مختلف کام کئے۔

اگر یہ حکمراں طبیعیات، ریاضی، نجوم، ادب اور فقہ کے میدانوں میں علمی ترقی کی بجائے، فقط اتنی اجازت دیتے کہ علوی حکومت برسرِ اقتدار آ جائے، امام جعفرصادقؑ کی حکومت قائم ہوجائے، اسلامی معاشرے کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں امام جعفر صادقؑ کے ہاتھ میں آجائیں، پورے اسلامی معاشرے کی سرگرمیوں کاتعین امام جعفر صادقؑ کریں۔ اس صورت میں اگر مسلمان علمی اور ادبی لحاظ سے، ان باتوں کے اعتبار سے جن پر آج دنیا ئے اسلام فخروناز کرتی ہے سو سال پیچھے بھی رہتے، تب بھی یہ انسانیت کے فائدے میں ہوتا۔ انسانیت ترقی کرتی، اسلام پھلتا پھولتا، اسلامی معاشرے کی صلاحیتیں اور قوتیں صحیح راہ میں استعمال ہوتیں۔ پھر یہ صورت نہ رہتی کہ کتابیں تو ترجمہ کرتے، طب اور سائنس کے میدانوں میں ترقی کو بامِ عروج پر پہنچا دیتے، لیکن انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے، کہ اُس دور میں پایا جانے والا طبقاتی فرق آج بھی تاریخ میں بطور یادگار محفوظ ہے۔ بالکل آج کی دنیا کے غلیظ اور ذلت آمیز تمدن کی طرح، کہ آج کی بڑی حکومتیں عقلوں کو دنگ کر دینے والی اپنی ایجادات پر تو فخر کرتی ہیں، مثلاً کہتی ہیں کہ ہم نے فلاں دوا ایجاد کی ہے، فلاں کام کیا ہے، علمی لحاظ سے فلاں شعبے میں ترقی کی ہے، لیکن یہ حکومتیں انسانی اقدار اور اخلاقی اعتبار سے اب بھی ہزار ہا سال پرانی تاریخ جیسے حالات میں زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ آج بھی بے پناہ مال و دولت، بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ آج بھی غریب ممالک کے لاکھوں، کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ایک فی صد انسان دولت کی فراوانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اسکے باوجود یہ حکومتیں اپنی سائنسی ترقی پر نازاں ہیں۔

دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا عظیم اسلامی تمدن اسی صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور میں بہت زیادہ علمی ترقی ہوئی، لیکن امیر طبقے کا راج تھا، عیش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانیت اور انسانی فضیلتوں سے بے خبری اور طبقاتی اونچ نیچ انتہائی درجے پر موجود تھی۔ اُس زمانے میں بھی ایک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائی دیتے تھے، تودوسری طرف بسیار خوری بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بنتی تھی۔

آخر کیا وجہ تھی کہ اُس دور کا اسلامی معاشرہ اپنی علمی سرگرمیوں اور نشاط کے باوجودانسانی فضائل وکمالات کاگلستاں نہیں بن سکا ؟

دوسری اور تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھنے والی جن شخصیتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، اور جن کا نام ہم دنیا میں قابلِ افتخار ہستیوں کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں، وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کی۔ مثال کے طور پر معلی بن خنیس کا نام لیا جاسکتا ہے، جنہیں بیچ بازار میں سولی پر لٹکا یا گیا۔ یحییٰ ابن امِ طویل کا نام لیا جاسکتا ہے، جن کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے، جن کی زبان کھینچ لی گئی۔ محمدا بن ابی عمیر کا نام لیا جاسکتا ہے، جنہیں چار سو تازیانے مارے گئے ۔یحییٰ ابن زیدکا نام لیا جاسکتا ہے، جنہیں صرف اٹھارہ برس کے سن میں خراسان کی پہاڑیوں میں شہید کیا گیا ۔زید بن علی کا نام لیا جاسکتا ہے، جن کے جسد کو چار سال سولی پر لٹکائے رکھا گیا ۔

یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے ناموں کو ہم آج دنیائے انسانیت کے قابلِ فخر افراد کی فہرست میں جگہ دے سکتے ہیں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئی تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کیا ہے، بلکہ یہ اُس تمدن کے مخالفین میں سے تھے ۔

پس دیکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شیطان کی حکمرانی ہوتی ہے اور جن کے معاملات کی باگ ڈورطاغوتی اور شیطانی ہاتھوں میں ہوتی ہے، اُن معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے افراد کی قوتیں استعمال ہوتی ہیں، اُن کی صلاحیتیں بروئے کارآتی ہیں، لیکن بالکل اُسی طرح جیسے آج کی متمدن دنیا میں کام آتی ہیں، اُسی طرح جیسے اب سے دس گیارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں کام میں آتی تھیں۔یہ ساری ترقیاں اُسی طرح بے قیمت ہیں جیسے اعلیٰ اقدار اورانسانی فضیلتوں کی نظرمیں چوری سے کمایا ہوا مال بے حیثیت ہوتاہے۔ یہ ہوتی ہے طاغوت کی ولایت اورحکومت۔

ان خصوصیات کے ساتھ کیا طاغوت کی حکومت کے تحت ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کی جاسکتی ہے ؟

ذرا دیکھتے ہیں کہ دراصل مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے معنی کیا ہیں ؟

مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے معنی ہیں انسان کے تمام وسائل، قوتوں اور صلاحیتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختیار میں ہونا، اُسکے مال و دولت اوراُسکی تمام چیزوں کا خدا کے اختیار میں ہونا، اُسکی جان کا خدا کے اختیار میں ہونا، اُسکی فکر اور سوچ کا خدا کے اختیار میں ہونا ۔

اِس حوالے سے بھی ہمارے پاس معاشرے اورمدنیت کی صورت میں موجود اجتماعات اور طاغوتی نظاموں سے سرکشی اختیار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کی طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کی مثالیں موجود ہیں۔

پہلی مثال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے معاشرے کی ہے۔ مدینہ ایک ”بندۂ خدا“ معاشرہ تھا، ایک مسلمان معاشرہ تھا، وہاں جو قدم بھی اٹھتا راہِ خدا میں اٹھتا۔وہاں اگر یہودی اور عیسائی بھی اسلامی حکومت کے زیرِ سایہ زندگی بسر کرتے تھے، تو اُن کی زندگی بھی اسلامی زندگی تھی۔ اسلامی معاشرے میں عیسائی اور یہودی اہلِ ذمہ افراد بھی اسلام کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ایسے معاشرے میں اعمال کے لحاظ سے ایک شخص یہودی ہوتا ہے، لیکن معاشرے کے ایک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہیں زیادہ مسلمان ہوتاہے جوایک جاہلی نظام کے تحت زندگی بسر کرتا ہے ۔

زمانۂ پیغمبرؐ میں مال و دولت، نیزہ وتلوار، فکر اور سوچ، تمام انسانی اعمال، حتیٰ جذبات واحساسات بھی راہِ خدا میں ہوتے تھے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں بھی کم و بیش یہی صورت تھی ۔اِس لئے کہ امیر المومنین ؑ حاکمِ الٰہی اور ولئ خدا ہونے کے ناطے پیغمبراسلام ؐسے مختلف نہ تھے۔ لیکن وہ ایک بُرے معاشرے کے وارث تھے، اُن پیچیدگیوں اورمسائل کے وارث تھے، اوراگرامیرالمومنین ؑ کی جگہ خود پیغمبر اسلاؐم بھی ہوتے اور پچیس سال بعدایک مرتبہ پھرمسندِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے، تو یقیناً انہی مشکلات کا سامنا کرتے جو امیر المومنین ؑ کو درپیش تھیں ۔