خدا کے ولی کی ولایت
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
بہر صورت یہ ولایت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے ۔انشاء اﷲ ہم ولایت کے ایک اور پہلو سے متعلق عرض کریں گے، جو شایدایک اور اعتبار سے اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اوریہ ولی اﷲ کی ولایت کا پہلوہے ۔
ہم شیعہ افراد کی باہمی ولایت کے متعلق جان چکے ہیں۔ ولئ خدا کی ولایت سے کیا مراد ہے ؟ علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت کے کیا معنی ہیں ؟ امام جعفرصادقؑ کی ولایت کا کیا مطلب ہے؟ یہ جو آج ہم لوگوں کے لئے ائمہ ؑ کی ولایت رکھناضروری ہے، اس سے کیا مراد ہے ؟
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ائمہ ؑ کی ولایت کے معنی یہ ہیں کہ ہم اُن سے فقط محبت کریں؟
یہ لوگ کس قدر غلط فہمی کا شکار ہیں، صرف محبت کرنا ولایت نہیں ہے ۔
کیا پورے عالمِ اسلام میں کوئی ایک فردبھی ایسا ملے گا جو ائمۂ معصومین ؑ اور خاندانِ پیغمبرؐ سے محبت نہ کرتا ہو؟
پس کیا یہ سب لوگ ولایت رکھتے ہیں؟
کیا کوئی ہے جوائمۂ اہلِ بیت ؑ کا دشمن ہو؟
وہ تمام لوگ جنہوں نے ابتدائے اسلام میں اُن کے خلاف جنگ کی، کیا وہ سب کے سب اُن کے دشمن تھے؟
نہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ائمہ ؑ سے محبت کرتے تھے، لیکن دنیا وی مفادات کی خاطر اُن کے خلاف جنگ پر تیار ہوئے، باوجود یہ کہ وہ جانتے تھے کہ یہ ہستیاں کن مراتب اور کن مقامات کی مالک ہیں۔
جب (عباسی خلیفہ)منصور کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی رحلت کی خبر دی گئی، تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔کیا آپ کے خیال میں وہ دکھاوا کر رہاتھا؟ کیا وہ اپنے نوکروں کے سامنے دکھاوے کارونا رو رہا تھا؟ کیا وہ ربیع حاجب کے سامنے دکھاوا کر نا چاہتا تھا؟ یہ دکھاوا نہیں تھا، واقعاً اس کا دل دُکھا تھا، واقعاً اسے امام جعفرصادق علیہ السلام کی موت کاافسوس تھا۔
لیکن امام ؑ کوکس نے ماراتھا؟
خود منصور کے حکم سے امام جعفرصادقؑ کو زہر دیا گیاتھا۔
لیکن جب اُسے بتایا گیا کہ کام ہو گیا ہے، تو اُس کا دل ہل کے رہ گیا۔
پس (کیا) منصور بھی ولایت رکھتا تھا؟
اسی قسم کی غلط فہمی کا شکار وہ لوگ ہیں جویہ کہتے ہیں کہ مامون عباسی شیعہ تھا۔
پتا ہے شیعہ کے کیا معنی ہیں؟
کیا ایسا شخص شیعہ کہلائے گاجو یہ جانتا ہو کہ امام رضا علیہ السلام حق بجانب ہیں؟
کیا اس کا فقط اتنا جاننا اسے شیعہ قرار دے دے گا؟
اگر ایسا ہو، تو پھر مامون عباسی، ہارون رشید، منصور، معاویہ اور یزید، یہ سب کے سب لوگ، دوسروں سے بڑھ کر شیعہ تھے ۔
وہ لوگ جو جنگوں میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف لڑے، کیا اُنہیں امام ؑ سے محبت نہ تھی ؟
کیوں نہیں، اُن میں سے اکثر حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرتے تھے۔
پس پھر کیاوہ شیعہ ہوئے ؟
پس کیا وہ ولایت رکھتے تھے ؟
نہیں، ولایت ان باتوں سے ہٹ کر ہے ۔ولایت ان چیزوں سے بالاتر ہے۔
جب ہم ولایتِ علی ابن ابی طالب ؑ اور ولایتِ ائمہؑ کو سمجھ لیں، اوریہ جان لیں کہ ولایت کیا ہے؟، تو پھر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی طرف پلٹیں، اور دیکھیں کہ کیاواقعاً ہم ولایت رکھتے ہیں ؟
اُس موقع پر اگر دیکھیں کہ ہم ولایت نہیں رکھتے، تو پھر ہمیں ولایتِ ائمہ ؑ کے حصول کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہئے اوراس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے ۔
کچھ لوگ اپنے دل میں ائمۂ اطہار ؑ کی محبت اور عقیدت رکھنے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن میں ولایتِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہے ۔
نہیں، یہ ولایت نہیں ہے۔ ولایت اس سے بالاتر ہے ۔
البتہ ہم آگے چل کراس بات کی وضاحت کریں گے کہ ولایتِ ائمۂ ہدیٰ علیہم السلام سے کیا مراد ہے۔ کس طرح ہم ائمہؑ کو اپنا ولی قرار دے سکتے ہیں، اور اُن کی ولایت کے حامل بن سکتے ہیں۔اس وضاحت کے بعد ہم سمجھ پائیں گے کہ ائمہ ؑ کی ولایت کے سلسلے میں ہمارا دعویٰ کس قدر لاعلمی پر مبنی اور خلافِ حقیقت ہے ۔
عیدِ غدیر کے ایام میں لوگ یہ دعا پڑھتے ہیں :
”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذی جَعَلَنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاٰیَۃِ عِلیّ بْنِ اَبیطٰالبٍ علیہ السَّلام۔“
ہم اکثر اپنے دوستوں سے کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذی جَعَلَنٰا نہ کہئے۔ممکن ہے ہمارا یہ کہنا جھوٹ ہو، بلکہ یہ کہئے کہ: اَلّٰلھُمَّ ا جْعَلْنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاٰیَۃِ عِلیّ بْنِ اَبیطٰالبٍ علیہ السَّلام۔(بارِ الٰہا ! ہمیں ولایت سے وابستہ لوگوں میں سے قرار دے )
کیونکہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم ولایت سے وابستہ ہیں بھی یا نہیں ؟
انشاء اﷲ ہمارے سامنے یہ نکتہ واضح ہوجائے گا کہ یہ بھی ولایت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے ۔
ہماری آج کی گفتگوکا خلاصہ یہ ہے کہ : امتِ اسلامیہ کی ولایت اور خدا اورراہِ خدا کے لئے کوشاں گروہ کی ولایت کے معنی یہ ہیں کہ اس گروہ میں موجود افراد کے درمیان زیادہ سے زیادہ قربت اوراتصال وجود میں آئے، اُن کے دل زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور نزدیک ہوں، اوریہ لوگ اپنے مخالف مراکز سے، ایسے لوگوں سے جن کی سوچ اُن کے خلاف ہو، اورجو اُن کے برخلاف عمل کرتے ہوں، حتیٰ الامکان دور ہوں۔
یہ ہیں ولایت کے معنی ۔
سورہ ممتحنہ کی ابتدائی آیات میںیہ حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ لہٰذا ہمارے خیال میں اس موضوع کی مناسبت سے اس سورے کا نام سورۂ ولایت رکھا جاسکتا ہے ۔
”بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ۔“( سورۂ ممتحنہ۶۰۔آیت۱)
بعض ترجموں میں ہے کہ میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنانا ۔یہ اس کے مکمل معنی نہیں ہیں ۔فقط دوستی اور محبت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسئلہ اس سے بالا ترہے ۔
اپنا ولی نہ بناؤ، یعنی اُنہیں اپنے گروہ کا حصہ نہ سمجھو، اپنے آپ کو اُن کی صف میں کھڑا نہ کرو۔ یعنی اپنے آپ کو اور اُنہیں ایک ہی صف میں تصور نہ کرو ۔ایک ایسا شخص جو خدا کا اور تمہارا دشمن ہے اُسے اپنے پہلو میں جگہ نہ دو، بلکہ اسے اپنا مدِ مقابل اور اپنا دشمن اور حریف سمجھو:
تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ (انہیں اپنی صفوں میں شامل نہ سمجھوکہ اُنہیں دوستی کے پیغام بھیجنے لگو)
وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَاجَآءَکُمْ مِّنَ الْحَقِّ (جبکہ تم اس بات سے واقف ہو کہ انہوں نے اس حق و حقیقت سے انکار کیا ہے جسے پروردگار نے تمہارے لئے نازل کیا ہے )
یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِیَّاکُمْ (یہ لوگ پیغمبرکو اورتمہیں تمہارے وطن سے باہر نکال رہے ہیں)
اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ رَبِّکُمْ (صرف اس جرم میں کہ تم اپنے پروردگار اﷲ پر ایمان رکھتے ہو )
اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ ( اگر تم ہماری راہ میں جہاد اور ہماری خوشنودی کے حصول کے لئے نکلے ہو، تو میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ )
اگر واقعاً تم سچ کہتے ہو، اور میری راہ میں جہاد اور کوشش کرتے ہو، تو تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنی صفوں میں جگہ دو، اور اُنہیں اپنا مدد گاراور ساتھی بناؤ ۔
البتہ بعد کی آیات واضح کرتی ہیں کہ خدا کی مراد کون سے کفار ہیں، اوران آیات میں کفار کو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
تُسِرُّوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ (تم اِ ن کے ساتھ خفیہ اور پوشیدہ طورپر محبت کرتے ہو)
وَاَنَااَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ (اور جو کچھ تم خفیہ اور علانیہ کرتے ہومیں اُس سب سے باخبر ہوں )
وَ مَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ (اور تم میں سے جو کوئی دشمنانِ خدا کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھائے گا اور اپنے آپ کو ان کی صف میں سمجھے اورظاہر کرے گا، وہ راہِ اعتدال سے بھٹک گیا ہے )
اس بات کا ذکر کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان آیات کی شانِ نزول ”حاطب بن ابی بلتعہ“ کے بارے میں ہے۔ حاطب بن ابی بلتعہ ایک کمزور ایمان مسلمان تھا، جب پیغمبر اسلام ؐ نے کفارِ قریش کے خلاف جنگ کا ارادہ کیا، تو حاطب نے سوچا کہ ممکن ہے پیغمبرکو اس جنگ میں شکست ہوجائے اور اس کے اعزہ و اقربا جو وہاں کفارمیں رہ رہے ہیں، اُنہیں کوئی نقصان پہنچ جائے۔ جبکہ وہ خود پیغمبرؐ کے سپاہیوں میں شامل ہے ۔اس نے ایک چالاکی کرنی چاہی ۔اس نے سوچا کہ اب جبکہ میں پیغمبرؐ کے ساتھ ہوں، اُن کی رکاب میں جہاد کر رہا ہوں، اور راہِ خداکے مجاہدین کا ثواب کمارہا ہوں، توکیوں نہ احتیاطاً کفار کے نام بھی ایک خط لکھ دوں، اور اُن سے اپنی محبت اور وفاداری کا اظہار کروں ۔کیا مضائقہ ہے؟جب میرا میدانِ جنگ میں اُن سے سامنا ہوگا، تو اس خط پر عمل نہیں کروں گا ۔لیکن کیا حرج ہے کہ میں ایک خط لکھ کر کفار کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرلوں اور ان کی ہمدردی حاصل کرلوں ؟خدا بھی خوش ہوجائے اور میرے کسی مفاد پر بھی ضرب نہ لگے ۔
کہتے ہیں ایک بڑے آدمی اور علاقے کے چوہدری کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ دیکھنے والوں میں سے کسی نے ایک شخص سے پوچھا : اِن میں سے کون حق بجانب ہے ؟ اُس نے کہا: دونوں ہی حق بجانب ہیں، دونوں ہی سے بنا کے رکھنی چاہئے !
لہٰذاحاطب نے قریش کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا اور اس پر اپنے دستخط بھی کردیئے۔تاکہ ان کے علم میں آ جائے کہ حاطب اُن کا خیر خواہ، دوست اور مہر بان ہے ۔پھراُس نے اس خط کو ایک عورت کے توسط سے مکہ بھیج دیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووحی کے ذریعے اس قصے کا علم ہوگیا ۔آنحضرت ؐنے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور ایک یادو دوسرے افراد کو روانہ کیااور انہوں نے راستے میں اس عورت کو ڈھونڈنکالا۔ ان لوگوں نے اسے ڈرا دھمکا کر اس سے یہ کاغذ برآمد کر لیا ۔
پیغمبراسلام ؐ نے حاطب سے پوچھا : تم نے ایساکیوں کیا ؟ کیوں تم دشمن کے سامنے جنگی اور فوجی راز افشاکررہے تھے ؟ اس نے کہا: اے اﷲ کے رسولؐ !وہاں میرے کچھ دوست اور ساتھی ہیں، عزیز رشتے دار ہیں، مجھے خوف ہوا کہ کہیں انہیں کوئی مشکل نہ اٹھانی پڑے ۔لہٰذا میں نے یہ خط لکھ کر مشرکین کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا چاہا تھا ۔
جواب میں آیت کہتی ہے : غلط فہمی کا شکار نہ رہو، ان کے دل تمہارے لئے نرم نہیں ہوں گے ۔جو لوگ فکری لحاظ سے تمہارے مخالف ہیں ۔وہ لوگ جن کے لئے تمہارا دین، تمہارا ایمان ضرر رساں ہے، اُنہوں نے تمہارے دین اور تمہارے ایمان کو نابودکرنے پر کمر باندھی ہوئی ہے۔ وہ کسی صورت تمہارے لئے مہر بان اور تمہارے دوست نہیں ہوں گے ۔
بعد والی آیت اس نکتے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے :
اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآءً (یہ اگر تم پر قابوپالیں، تو تمہارے دشمن ثابت ہوں گے)
اے ”حاطب بن ابی بلتعہ“ یہ نہ سمجھنا کہ اگر تم نے ان کی مدد کی، تو کل وہ تمہارا کچھ لحا ظ کریں گے۔ایسا نہیں ہے ۔بلکہ اگر تم نے ان کی مدد کی، تو یہ اور زیادہ تم پر مسلط ہوجائیں گے، تم پرمزید ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں گے ۔
وَّ یَبْسُطُوْآ اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَ اَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْٓءِ (اور اپنے ہاتھ اور زبان کو تمہارے خلاف استعمال کریں گے )
تمہیں اور زیادہ دبائیں گے، تمہاری تذلیل کریں گے، تمہیں بے حیثیت اور بے عزت کریں گے، تمہیں ایک انسان نہیں سمجھیں گے۔
یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری یہ مدد تمہارے کسی کام آئے گی۔
وَ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ (یہ چاہیں گے کہ تم بھی کافر ہوجاؤ)
اگرکل یہ تم پر مسلط ہوگئے، تو تمہیں ذرّہ برابر ایمانِ قلبی تک رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (یہ تو چاہتے ہیں کہ تم کافر ہو جاؤ) یہ نہ سمجھنا کہ یہ تمہیں مسلمان رہنے اور اسلامی فرائض پر عمل کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیں گے ۔
بعد والی آیت ”حاطب بن ابی بلتعہ“ کے عزیز واقارب اور تاریخ کے تمام حاطب بن ابی بلتعوں“ کے عزیزواقارب کے بارے میں ہے ۔ایک دو ٹوک جملے میں کہتی ہے کہ تم اپنے بچوں کے لئے، اپنے عزیزواقارب کے لئے اوراپنے رشتے داروں کی آسائش کے لئے خدا کے دشمن کے ساتھ ساز باز پرتیا رہو، اور خدا کے ناچیز بندوں کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے اور اپنے اعزہ کے مفادات کے حصول کے لئے حکمِ خدا کو نظر انداز کر رہے ہو اور خدا کے دشمن سے دوستی کر رہے ہو۔
آخر یہ اعزہ واقربا اور اولاد تمہارے کتنے کام آئیں گے ؟
یہ جوان جس کے روزگار کے لئے تم کفارِ قریش کے ساتھ ساز باز پر آمادہ ہو، تمہارے کتنے کام آئے گا؟
کیاوہ تمہیں عذابِ خدا سے نجات دلاسکے گا ؟
یہ بے خبر ”حاطب“ اپنے اعزہ، احباب اور رشتے داروں کو نقصان سے بچانے کے لئے کفاراوردشمنانِ پیغمبر ؐسے ساز باز کررہا تھا۔ آخریہ اعزہ اور اولاد، انسان کے کتنے کام آسکتے ہیں، کہ انسان ان کی خاطر پروردگارِ عالم کے عذاب اور اسکے غضب کو دعوت دے ؟
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ (تمہارے رشتے دار، اعزہ اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے )
یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ (روزِ قیامت تمہارے اور ان کے درمیان جدائی ڈال دے گا )
یا اسے اس طرح پڑھیں اوراسکے یہ معنی کریں کہ:
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (روزِ قیامت تمہارے رشتے دار اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے )
یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ (خدا روزِ قیامت تمہارے اور اُن کے درمیان جدائی ڈال دے گا )
جیسے کہ خدا وندِ عالم سورۂ عبس میں فرماتا ہے :
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیْہِ۔
جس دن انسان اپنے بھائی، اپنے والدین، اپنی مہربان زوجہ اور اپنی نور چشم اولاد سے گریز کرے گا۔ ( سورۂ عبس ۸۰۔آیت ۳۴ تا ۳۶)
وہی بچے، جن کی خاطر آج تم اس قدر فکر مند ہو، جان لو کہ روزِ قیامت تم اُن سے دور بھاگوگے، اور وہ تم سے دور بھاگیں گے، اور یہ دونوں ہی دوسرے انسانوں سے دور بھاگیں گے، ہرانسان دوسرے انسان سے دور بھاگے گا۔ان کے پاس ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی احوال پرسی کا یارا نہ ہوگا:
لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔
اس دن ہر ایک کو اپنی ایسی پڑی ہوگی کہ کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ ( سورہ عبس۸۰ ۔آیت ۳۷)
وہ لوگ جو اپنی آل اولاد کے آرام و آسائش کی خاطر دنیا اور آخرت کی کامیابی اور فلاح سے منھ موڑ لینے، اور بد بختیاں، شقاوتیں اورعداوتیں مول لینے پر تیار ہیں، اُنہیں قرآنِ مجید کی اس منطق سے آگاہ ہونا چاہئے، شاید وہ ہوش میں آجائیں۔
سورہ ممتحنہ میں بھی خداوندِ عالم فرماتا ہے:
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِا یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ وَ اﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔
اے مومنین !یہ بات جان لو کہ روزِ قیامت تمہارے رشتے دار اورتمہاری اولاد تمہارے کسی کام نہ آئے گی، اور روزِ قیامت تمہارے درمیان مکمل جدائی ڈال دے گا، اورتم جوکچھ کرتے ہو خدا اس سے خوب با خبر ہے۔
”قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ۔“( سورہ ممتحنہ ۶۰۔آیت۱تا ۴)
یہ حصہ ان آیات کا ٹیپ کا بند ہے، اس میں مومنین سے کہا گیاہے کہ: اے مومنین! تمہارے لئے ابراہیم ؑ اور ان کے پیروکاروں میں بہترین نمونۂ عمل ہے ۔
دیکھو کہ ابراہیم ؑ اور اُن کے ساتھیوں اور پیروکاروں نے کیا کیا ؟
تم بھی وہی کرو ۔
اُ نہوں نے کیا کیا تھا؟
اُنہوں نے اپنے زمانے کی گمراہ قوم اور اپنے زمانے کے طاغوت اور جھوٹے معبود سے کہا تھاکہ ہم تم سے اور تمہارے خدا ؤں سے بیزار ہیں، ہم تمہارے منکر ہیں اور تم سے منھ موڑتے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ بغض، دشمنی، کینہ اور عداوت برقرارر ہے گی:
حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہٗٓ۔
ہمارے اور تمہارے درمیان دوستی اورصلح و آشتی کا صرف ایک راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آؤ اور ہماراعقیدہ قبول کرلو۔
یہاں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اے مومنین تم بھی ابراہیم ؑ کی مانند عمل کرو ۔
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ (بے شک تمہارے لئے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ عمل ہے)
اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءآؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ (جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ہر اُس چیز سے بیزار ہیں جس کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو )
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا (ہم نے تم سے کفر کیا ہے اور ہمارے اورتمہارے درمیان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکی ہے )
حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہٗٓ (جب تک تم خدا ئے واحد پر ایمان نہ لے آؤ)
اِلَّا قَوْلَ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ۔(۱)
صرف ایک استثنائی معاملہ ایساہے جس میں حضرت ابراہیم ؑ نے کفار سے مکمل طور سے رابطہ منقطع نہیں کیا، اور وہ معاملہ یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے چچا (۲)سے کہا: لااَاَاسْتَغْفِرَنَّ لَکَ( میں تمہارے لئے استغفار کروں گا)
وَ مَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ (اورتمہارے دفاع کے لئے خدا ئے متعال کی جانب سے میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے )
یعنی انہوں نے اپنے والد سے کہا: یہ خیال نہ کیجئے گا کہ میں کیونکہ اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتا ہوں، لہٰذاآپ میرے والد ہونے کے ناطے، میرے توسط سے بہشت میں داخل ہوجائیں گے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، میں آپ کو جنت میں نہیں لے جاسکتا ۔میں آپ کے لئے درگاہِ الٰہی میں فقط دعا اور استغفار کر سکتا ہوں، تاکہ خدا آپ کے گناہوں کو بخش دے اور آپ مومن ہوجائیں ۔
” رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَ اِلَیْکَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ رَبَّنَا لااَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم۔“(۳)
یہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعائیں ہیں۔
اسکے بعد قرآنِ مجید کہتا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (تم مومنین کے لئے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ عمل موجود ہے ) لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِر (اُن لوگوں کے لئے جو خدا اور روزِ قیامت کی امید رکھتے ہیں ) وَ مَن یَتَوَلَّ فَاِنَّ اﷲَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (اورجو کوئی روگردانی کرے، اور اسکے حکم سے منھ پھیر ے اوربے توجہی کا مظاہرہ کرے، تو خدائے متعال بے نیازاورقابلِ حمدوثنا ہے اور اسکے دامنِ کبر یائی پر کوئی حرف نہیں آئے گا)
اگر تم دشمنوں سے ساز باز کروگے، تو تمہارے شرف و انسانیت کا دامن داغدار ہوجائے گا اور خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔
تمہیں ابراہیم ؑ کے اس جملے کو ذہن نشین رکھنا چاہئے۔ ابراہیم ؑ اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے زمانے کے کفار اور گمراہ لوگوں سے کہا تھا کہ:
اِنَّابُرَءآؤُا مِنْکُمْ۔ (ہم تم سے بیزار ہیں )
امام سجاد ؑ اور اُن کے اصحاب صلوات اﷲ علیہم اپنے زمانے کے گمراہ لوگوں سے اسی طرح گفتگو کیاکرتے تھے ۔بحار الانوار میں ایک حدیث ہے، جو کہتی ہے :چوتھے امام(امام زین العابدین ؑ )کے ایک ساتھی ”یحییٰ ابن ام طویل“ مسجدِ نبوی میں آتے اور لوگوں کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوجاتے۔اُنہی لوگوں کے سامنے جو بظاہر خاندنِ پیغمبر ؑ کے محب تھے، اُنہی لوگوں کے روبرو جن کے درمیان امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ نے بیس برس تک زندگی بسر کی تھی، اُنہی لوگوں کے مقابل جو نہ اُموی تھے اور نہ بنی امیہ سے وابستہ افرادتھے ۔
پھریہ کیسے لوگ تھے ؟
بزدل لوگ تھے، جنہوں نے بنی امیہ کی بنائی ہوئی خوف اور گھٹن کی فضا سے ڈر کر واقعۂ عاشورا اور کربلا میں آلِ محمد ؑ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، لیکن اپنے دلوں میں اہلِ بیت ؑ سے محبت اورعقیدت رکھتے تھے۔
یحییٰ ابن ام طویل، اس قسم کے لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور اس قرآنی کلام کو دُھرایاکرتے:
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآءُ (ہم نے تم سے منھ پھیرلیا ہے اور ہمارے اورتمہارے درمیان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکی ہے)
یعنی وہی بات کہتے تھے جو حضرت ابراہیم ؑ اپنے زمانے کے کفار، مشرکین، گمراہ اور منحرف لوگوں سے کہا کرتے تھے ۔
دیکھئے ولایت وہی ولایت ہے ۔حضرت ابراہیم ؑ بھی ولایت رکھتے تھے، امام سجاد ؑ کے شیعہ بھی اپنے زمانے میں ولایت رکھتے تھے۔ہمیں ایک دوسرے سے مل کر اور دشمنوں سے جدا رہنا چاہئے۔ اگر امام سجاد ؑ کے شیعوں میں سے کوئی شیعہ ان کے زمانے میں خوف کی وجہ سے یا لالچ کی وجہ سے دشمن کی صف میں شامل ہوا، تو وہ امام سجاد ؑ کی ولایت سے خارج ہوگیا۔اب وہ امام سجاد ؑ کے گروہ میں شامل نہیں ہے ۔لہٰذا امام سجاد ؑ کا قریبی شاگرد اس شخص سے کہتا ہے :
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآءُ۔
ہم نے تم سے منھ پھیرلیا ہے اور ہمارے اورتمہارے درمیان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکی ہے۔
یحییٰ ابن ام طویل کا شمار امام سجاد ؑ کے بلند پایہ اور انتہائی بہترین اصحاب میں ہوتا تھا ۔اس بلند پایہ مسلمان کا انجام یہ ہوا کہ حجاج بن یوسف نے انہیں گرفتار کر لیا، اُن کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا، اُن کا بایاں ہاتھ کاٹ ڈالا ۔اُن کے بائیں پیر کو قطع کر دیا، اُن کے دائیں پیر کو جدا کر ڈالا۔ لیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنی زبان سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اُن کی زبان بھی کٹوادی گئی، یہاں تک کہ وہ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس حال میں بھی انہوں نے شیعوں کی تنظیم کی، امام سجاد ؑ کے بعد شیعیت کے محل کی تعمیر کی اور اُسے مضبوط اور مستحکم کیا ۔
۱۔سورہ ممتحنہ ۶۰۔آیت۱تا ۴
۲۔ یہاں ” اَب“کے معنی باپ نہیں، بلکہ چچا ہیں، اور یہاں ”اَب“ سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کے چچا، یااُن کی والدہ کے شوہر ہیں۔بہرحال اُس شخص سے خطاب ہے جس کا نام آذرتھا ۔
۳۔سورۂ ممتحنہ۶۰۔آیت۴، ۵