ولئ امرِ مسلمین حکمِ خدا کا نفاذکرتا ہے
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
یہاں دوسرے نظریات اورتصورات پر اسلامی نظریئے کے امتیاز کی وجہ اور اُن سے اسکے محلِ اختلاف کا پتا چلتا ہے ۔اسلامی نظریہ یہ نہیں کہتا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب حکومت کی ضرورت نہیں رہے گی، اوریہ کسی ایسے دن کی پیش گوئی نہیں کرتا جس دن معاشرے میں حکومت نہیں ہوگی۔جبکہ بعض دوسرے مکاتب، ایک ایسے دن کی پیش گوئی کرتے ہیں جب معاشرہ، ایک آئیڈیل معاشرہ بن جائے گا اور اس آئیڈیل معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ اس میں کوئی حکومت نہیں ہوگی۔لیکن اسلام ایسی پیش گوئی نہیں کرتا ۔
خوارج نے حکومتِ الٰہی کانعرہ لگا کرکہا کہ علی ابن ابی طالب ؑ کو (حکمران) نہیں ہونا چاہئے۔وہ کہتے تھے :لاٰحُکْمَ اِلاَّللّٰہ، یعنی حکومت صرف خدا کا حق ہے ۔جبکہ ان کے جواب میں امیر المومنین کا کہنا یہ تھا کہ:کَلَمِۃُ حَقٍّ یُرٰادُ بِھَاالْبٰاطِل (بات صحیح ہے لیکن اس کا مقصد باطل ہے ۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ ۴۰) ان کی بات درست ہے اور حقیقی حاکم خدا ہے ۔ وہ ہستی جواحکام و فرامین وضع کرتی ہے اورجس کے ہاتھ میں زندگی کے تمام امورکی باگ ڈور ہے، وہ خدا ہے ۔ لیکن کیا تمہارا کہنا یہ ہے کہ : لاٰحُکْم اِلاَّ لِلّہِ، یا یہ کہہ رہے ہو کہ:لاَاِمْرَۃَ اِلاَّلِلّہ؟ قانون اور حکومت خدا کی ہے، لیکن قانون کا اجراونفاذ کون کرے گا ؟ کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کو قانون کا اجرا نہیں کرنا چاہئے ؟ لہٰذا آپ نے ان کے جواب میں فرمایا: لاٰ بُدَّلِلنّا سِ مِنْ اَمیرٍ، بہرحال انسانی معاشرے کے لئے ایک امیر ضروری ہے، ایک حاکم اور فرمانروا ضروری ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اسکی حیاتِ اجتماعی کے لئے ایک مجرئ قانون ہونا لازم ہے ۔صر ف قانون کا ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسا فردبھی ہونا چاہئے جو اس قانون کا اجرا کرے، اور اسکے صحیح صحیح نفاذ پر نظر رکھے اوریہی اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم ہے ۔
لیکن کیا محض اولی الامر مراد ہے؟اور جو کوئی بھی فرما نروابن بیٹھے درست ہے ؟! جبکہ کثرت سے دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی جگہ دو افراد ایک دوسرے کے برعکس فرمان جاری کرتے ہیں۔ اس صورت میں کیا دونوں اولی الامر ہوں گے ؟! یا بکثرت دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان نے ایسا فرمان جاری کیا ہے جو عقل کے برخلاف ہے اور عقل و خرد اس فرمانروا کی نفی کرتی ہے ۔کیا پھر بھی ایسا فرمانروااولی الامر ہوگا ؟! یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے اوراہلِ سنت کے طرزِ فکرکے درمیان ایک بنیادی اختلاف پیدا ہوجاتا ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ اولی الامر اور فرمانروا، ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو خدا کے فراہم کردہ معیارات پر پورا اترتا ہو ۔ جبکہ اہلِ سنت عملاً اس قسم کی شرط کو شرط نہیں سمجھتے اور اسکے مطابق عمل نہیں کرتے ۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلااً
پس اگر کسی چیز میں تنازع اور اختلاف پیداہو جائے، تواُسے خدااور رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم خدااور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی تمہارے حق میں بہتراورانجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے
یہ آیت لائق حکمرانوں کی حکمرانی کے اچھے نتائج اور نالائق حکمرانوں کی حکمرانی کے بُرے نتائج کی جانب لوگوں کومتوجہ کرتی ہے۔ بعد والی آیت میں اس فرمان سے منھ موڑنے والے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے ۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ
کیا آپ نے اُن لوگوں کونہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں
وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتے ہیں، جبکہ وہ ایسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں جو خدا پر ایمان کے منافی ہیں ۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْت (اور اسکے باوجود چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کرائیں)
یعنی اپنے معاملات کے حل اور اُن کے بارے میں فیصلوں کے لئے طاغوت سے رجوع کریں، طاغوت سے رائے لیں، اس سے حکم حاصل کریں، اور اسکی رائے کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ان لوگوں کا یہ عمل ایمان کے منافی ہے ۔
وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ (جبکہ اُنہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں)
وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلااً بَعِیْدًا (اور شیطان توچاہتا ہی یہ ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے۔سورۂ نسا۴۔آیت۶۰)
ہمارے خیال میں یہاں شیطان سے مرادکوئی اور چیز نہیں بلکہ خود طاغوت ہے۔
یہ لوگ طاغوت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، اور اس بات سے غافل ہیں کہ یہ شیطان، جسے قرآنِ کریم میں طاغوت قرار دیا گیا ہے، انہیں راہِ راست سے دور کرتا ہے، اور انہیں گمراہی کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ شیطان انہیں اس راہِ راست سے اس قدر دور کر دیتا ہے کہ پھر ان کا اس پرپلٹ کر آنا کوئی آسان کام نہیں رہتا، بلکہ راہِ راست اور راہِ ہدایت پر واپس آنے کے لئے انہیں بہت زیادہ کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
بعد کا نکتہ ولایتِ خدا کے بارے میں ہے، اور مومنین کی طرف سے اسے قبول کرنے کی بنیاد بھی وہ حکمت ہے جو اسلامی تصورِ کائنات میں مقرر کی گئی ہے ۔ لہٰذایہ ایک فطری امر ہے۔
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا کی اطاعت کرنی چاہئے، اور ولئ امر خدا ہے، اسکی ایک فطری اور واضح حکمت ہے، کیونکہ تمام چیزیں خدا کی ملکیت ہیں، اور آیتِ قرآن: وَ لَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّہَارِ۔ میں اس نکتے کو اچھی طرح واضح کیا گیا ہے ۔