ولایت - چھ تقریریں

کوفہ کا شمار تاریخِ اسلام کے انتہائی عجیب شہروں میں ہوتا ہے ۔آپ کے ذہن میں کوفہ سے متعلق کئی قسم کی باتیں ہوں گی ۔ جو کچھ ہم بیان کریں گے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔

کوفہ وہ شہر ہے جسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دارالخلافہ کے لئے منتخب کیا، جبکہ اُس زمانے کی عظیم اسلامی مملکت میں اوردوسرے شہربھی موجود تھے ۔یہ کوفہ کا ایک امتیاز ہے۔اس شہر کادوسراامتیاز یہ ہے کہ اہلِ کوفہ نے امیر المومنین ؑ کاساتھ دیتے ہوئے متعددجنگوں میں آپ کے ہمراہ شرکت کی۔یہ جنگِ جمل میں شامل رہے، جنگِ نہروان میں حصہ لیا، جنگِ صفین میں بھی کوفہ کے اطراف کے قبائل، یہاں کے جنگجو افراداور بعض دوسرے قبائل شامل تھے۔

پھر یہی کوفی تھے جن سے امیر المومنین ؑ شکوہ کیا کرتے تھے ۔آپ ان سے گلہ کیا کرتے تھے کہ جب میں تم سے جنگ کے لئے نکلنے کو کہتا ہوں، تو تم کیوں نہیں نکلتے ۔اسکے بعد یہی کوفہ تھا جس کے بزرگوں نے خط لکھا اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خدمت میں گئے اور اُن سے کہا کہ : آقا! چلے آئیے، ہم اس شہر کوآپ کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن امام حسن ؑ وہاں تشریف نہ لائے ۔پھر یہی شہر تھا جس کی ممتاز شخصیات نے حسین ابن علی علیہما السلام کے نام خط لکھا کہ : اِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْنَااِمٰامٌ۔ ہمارا کوئی امام اور پیشوا نہیں ہے، ہمارا کوئی حاکم ورہنما نہیں ہے، اور اب جبکہ خدا نے اس طاغوت کو نابود کر دیا ہے، آپ چلے آئیے ۔سلیمان ابن صرد، حبیب ابن مظاہر، مسلم ابن عوسجہ، وغیرہ جیسے یہ لوگ سچ کہہ رہے تھے ۔

پھر یہی اہلِ کوفہ تھے جو ایک انتہائی غیر مساوی جنگ میں حسین ابن علی ؑ کے مقابل صف آرا ہوگئے اور کربلا کا المیہ وجود میں آیا۔

کچھ ہی عرصے بعدانہی لوگوں کے ہاتھوں ایک ایسا تاریخی واقعہ ظہور میں آیا جس کا شمار تاریخِ اسلام کے انتہائی نادر اور پر شکوہ واقعات میں ہوتا ہے ۔اور وہ توابین کاواقعہ ہے، جنہوں نے توبہ کی غرض سے اور عاشورا کے واقعے میں امام حسین ؑ کی مدد کو نہ پہنچ سکنے کی تلافی کے لئے اپنی جانیں فداکرنے کی خاطر قیام کیا ۔پھر یہی شہر تھا جس میں بنی امیہ اور بنی عباس کے خلاف اکثر انقلابات کے بیج بوئے گئے، جو پھلے پھولے اور سرسبز ہوئے۔ ان لوگوں نے بے انتہا قربانیاں دیں، بے حساب مارے گئے، بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔

پھر انہی اہلِ کوفہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے بعض مواقع پر سُستی، کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیا ۔

اسکی کیا وجہ ہے ؟

کیا ان افرادکی دو روحیں اور دوچہرے تھے ؟!

کوفے کے بارے میں شناسائی ایک اہم مسئلہ ہے ۔

ہمارے خیال میں کوفہ کا مطالعہ اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اہلِ کوفہ کی نفسیات کا جائزہ انتہائی دلچسپ بحث ہوگی۔جو لوگ اس کام کی لیاقت رکھتے ہیں، ماہرین، معاشرہ شناس اورنفسیات داں، اُنہیں چاہئے کہ وہ بیٹھیں اورکوفہ کے بارے میں گفتگو کریں، سوچ بچار کریں، بحث کریں اور دیکھیں کہ یہ کیسا عجیب مقام ہے جہاں ایک موقع پرانتہائی حیرت انگیز عظیم انسانی کمالات کا مظاہرہ ہوتا ہے اوردوسرے موقع پر اس قدر بے ضمیری، کمینگی، سستی، کا ہلی اور ذلت کا ۔

ایسا کیوں ہے ؟

کوفہ وہ شہر ہے جس کے افرادکی تربیت امیر المومنین ؑ کے متین اور بلیغ کلمات کے سائے میں ہوئی ہے، آپ ہی نے اُن کی شخصیتوں میں نکھا ر پیدا کیا ہے، لہٰذا تاریخِ تشیع کے اکثر عظیم اور جری افراد اسی شہرِ کوفہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حتیٰ ان کی تعداد مدینہ سے تعلق رکھنے والے افرادسے بھی زیادہ ہے۔ اسکی وجہ امیر المومنین ؑ کی(مدتِ خلافت کے دوران)چند سالہ تعلیمات اور تلقینات ہیں۔امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ جیسی ہستی کا اِس شہر پر حکومت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ چار سال کے عرصے میں عالمِ اسلام کی سطح پریہ حکومت ناکامی سے دوچار ہوئی تھی، لیکن شہرِ کوفہ کی سطح پر یقینی طور پر کامیاب رہی تھی اورقطعی طور پر اس نے حیرت انگیز اور عجیب اثرات مرتب کئے تھے، اور کوفہ کو شیعیت کا گہوارہ اور شیعی خصوصیات اورفضیلتوں کی زاد گاہ میں تبدیل کردیا تھا ۔البتہ ہر وہ مقام جو اعلیٰ صفات اور فضیلتوں کی جائے پیدائش ہو، ضروری نہیں کہ وہاں رہنے والے تمام افراد اِ ن صفات کے مالک، با فضیلت اور آئیڈیل ہوں ۔

ہمیشہ ہی جوش و خروش سے بھرپورنظر آنے والے معاشرے میں لوگوں کا صرف ایک طبقہ معاشرے کے اس جوش و خروش کاترجمان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جگہ بسنے والے لاکھوں افراد میں سے صرف چند ہزار انسان مجاہدانہ عمل انجام دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مجاہدت اور ولولہ آفرینی کے لئے اس جگہ کا نام دنیا میں معروف ہوجاتا ہے ۔

کوفہ میں بھی انتہائی اچھے لوگوں پر مشتمل صرف ایک گروہ تھا، وگرنہ وہاں کے عام افراد دوسری جگہوں کے لوگوں ہی کی طرح تھے، ایسا نہ تھا کہ اُن سے بدترہوں، مشہد کے لوگوں کی طرح، تہران کے لوگوں کی طرح، اصفہان کے لوگوں کی طرح، مدینہ کے لوگوں کی طرح، دوسرے علاقوں کے لوگوں کی طرح ۔لیکن مملکتِ اسلامی کے اس گوشے (یعنی کوفہ) میں یہ مختصر گروہ اُس زمانے کی حکومتوں کے لئے خوف اور وحشت کا سبب تھا، اس لئے وہ حکومتیں ہمیشہ بد ترین عناصر، کمین ترین گورنروں، پست ترین آدمیوں اور اپنے نوکروں اور جلادوں کو اس شہر میں تعینات کیاکرتی تھیں، اوروہ لوگوں کے خلاف ظالمانہ طرزِ عمل اختیار کرکے، زہریلا پروپیگنڈا کرکے اوراُن کے درمیان فقر اور بیچارگی کورواج دے کر اِس شہر کے لوگوں سے ایسا سلوک کرتے تھے کہ وہ لوگ لاشعوری طور پر، بے سوچے سمجھے انتہائی شوق اور رغبت کے ساتھ بُرائیوں اورپستیوں کی طرف قدم بڑھائیں۔

اہلِ کوفہ کے ساتھ یہ سلوک اس لئے تھاکہ دوسرے شہروں کے برخلاف یہاں ایک مبارز اورممتاز گروہ پایا جاتا تھا، اور ان حکومتوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ معاون و مساعد خصوصیات جن سے یہ پاک طینت، بزرگ منش اور مجاہد گروہ فائدہ اٹھا سکتا تھا، انہیں وہاں کے لوگوں میں سے مکمل طور پر ختم کردیا جائے ۔لہٰذا وہ زہریلا پروپیگنڈا کیا کرتے تھے، لوگوں کو دباؤ اور گھٹن کے ماحول میں رکھتے تھے، انہیں دنیاوی اعتبار سے کمزور کرتے تھے۔مختصر یہ کہ طرح طرح کے ذرائع اختیار کرکے شہرِ کوفہ کے لوگوں پر دباؤ ڈالتے تھے ۔دوسرے شہروں کے یہ حالات نہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ ظالم و جابراور فریب کارحکومتوں کی سرگرمیوں کے زیر اثر کوفہ سے تعلق رکھنے والے عوام الناس کے ہاتھوں ناشائستہ اعمال انجام پاتے تھے ۔البتہ اِن بُرائیوں کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ اس شہر کے لوگ ہی بُرے تھے۔

بہر حال یہ کوفہ کے بارے میں ایک مختصر وضاحت تھی ۔اگرکچھ لوگ اسکی تاریخ کا مطالعہ کریں، اور اس پر سوچ بچار کریں، توبہت سی دلچسپ چیزیں اُن کے علم میں آئیں گی ۔

اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان جانتا تھا کہ کوفہ کے انقلابی اورجنگجولوگوں سے حجاج بن یوسف کے سوا کوئی اور نہیں نمٹ سکتا ۔لہٰذا اُس نے اپنے جلاد ترین اور پست ترین نوکر حجاج بن یوسف کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا ۔ حجاج بن یوسف آدھی رات کے وقت شمشیر زن افراد کے ایک گروہ کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوا ۔کسی کو اُس کی آمد کی خبر نہ ہوسکی ۔کوفہ کے لوگوں نے اپنے سابقہ حاکم کوبظاہر کوفہ سے باہر نکال دیا تھا، یا اسے عضوِ معطل بنا دیا تھا۔ حجاج آدھی رات کے وقت کوفہ میں داخل ہوااور فوراً مسجد کا رخ کیا ۔اُس آدھی رات کے وقت مسجدمیں نمازیوں، تہجد گزاروں اور مقدس افراد کے زمزمیسنائی دے رہی تھیں ۔

وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اُس نے اپنے غلاموں اور نوکروں کو ضروری ہدایات دیں۔ہر ایک کوایک مخصوص مقام پر متعین کیا اور خود اس اندازسے مسجد میں داخل ہوا کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکے، پھر بغیر کسی کو متوجہ کئے، اچانک لوگوں کے درمیان سے اٹھا اورمنبر پر جابیٹھا ۔

کیونکہ مسجدِ کوفہ بہت بڑی ہے، اس لئے پہلے تو لوگ متوجہ ہی نہ ہوئے، لیکن رفتہ رفتہ بعض لوگوں نے دیکھا کہ عجیب حالت بنائے ایک شخص خاموشی کے ساتھ منبر پر بیٹھاہوا ہے ۔اس موقع پر حجاج نے سر پر سرخ رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی اور اُس کا ایک سرا کھول کر اُسے ڈھاٹے کی سی صورت میں ناک تک لپیٹ رکھا تھا ۔اس حالت میں اُسکی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں اور وہ ایک عجیب سی چیز لگ رہا تھا ۔

تصور کیجئے تلوار سے مسلح ایک شخص، سرخ رنگ کی عبا اور پگڑی پہنے ہوئے اس انداز سے مسجدِ کوفہ کے منبر پر خاموش بیٹھا ہے۔اچانک ایک شخص سراٹھاتا ہے تو اسکی نظر اُس فرد پر پڑتی ہے جو اس عجیب صورت سے منبر پر بیٹھا ہوا ہے۔وہ شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے آدمی سے پوچھتا ہے: یہ کون ہے ؟ رفتہ رفتہ وہاں موجود ہر فرد ایک دوسرے سے یہی سوال کرتا ہے ۔آخر تمام لوگوں کی سر گوشیاں، جو علیحدہ علیحدہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے، گونجنے لگتی ہیں، اُن کی توجہ مبذول ہونے لگتی ہے اور وہ منبر کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔

ذرا غور کیجئے، آیتِ قرآن کیا کہہ رہی ہے :َ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی۔وہ شخص جو ایمان اور مومنین کی راہ سے ہٹے گا، ہم اسکی گردن میں پڑے طوق کو اور مضبوطی سے کس دیں گے ۔

تم جو مسلمان تھے، اور تم نے دیکھا تھا کہ تمہاری مسجد کے منبر پر ایک ایسا آدمی بیٹھا ہوا ہے جسے تم نہیں جانتے۔آخر تم کیوں یہ دیکھنے کے باوجود خاموش بیٹھے رہے ؟تمہیں چاہئے تھا کہ قریب جاکر اس سے پوچھتے کہ تم کون ہو ؟ اپنا تعارف کراؤ ۔اسی طرح دوسراآدمی، تیسرا آدمی کرتا اور سب کے سب افراد اس سے یہی سوال پوچھتے۔اگر تمام لوگ اس سے یہ سوال کرتے، تو صورتحال بدل جاتی۔ لیکن ان لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا، بے حوصلہ ہونے اور بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ وہ خودکوئی گفتگو کرے ۔

جب حجاج نے دیکھا کہ تمام افراد کا رُخ اسی کی طرف ہے، تو بولا: میرا خیال ہے کہ اہلِ کوفہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ۔

لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اُسے نہیں پہچانتے ۔حجاج نے کہا : چلو، میں خود تم سے اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں ۔اس نے اپنے سر سے پگڑی اُتاری، ڈھاٹے کو بھی ہٹایا، لوگوں پرایک نگاہ ڈالی اور یہ عربی شعر پڑھا :

اَنَابْنُ جَلاٰوَطَلَاعِ الثَّنایٰا
اذٰانَزَعَ الْعَمَامَۃَ تَعْرِفُونی

”جب میں اپنی پگڑی اتاروں گا توتم مجھے پہچان لوگے۔“ کیونکہ حجاج ایک مرتبہ پہلے بھی کوفہ آچکا تھا، لہٰذا ایک دو افراد نے کہا کہ ہمارے خیال میں یہ حجاج ہے۔ اور پھر حجاج، حجاج کی سرگوشیاں گونجنے لگیں۔جب اُن پر واضح ہوگیا کہ اُن کے سامنے منبر پر حجاج بیٹھا ہے، تو وہ خوف اوردہشت کا شکار ہوگئے ۔یہ دیکھ کر حجاج نے کہا : ہاں، تم لوگوں نے صحیح پہچانا ہے، میں حجاج ہوں۔

لوگوں پر رعب طاری ہوگیا، اُن میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہ سوچا کہ حجاج میری ہی طرح کا ایک انسان ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ اوپر جابیٹھا ہے اور میں نیچے ہوں، جو کچھ اُسکے پاس ہے وہ میرے پاس بھی ہے۔لوگ بزدلی کا شکار ہوگئے ۔

حجاج نے کہا:اے اہلِ کوفہ ! میں تمہاری گردنوں پر ایسے سر دیکھ رہا ہوں، جن کے پکے ہوئے پھلوں کی طرح اتارے جانے کا وقت آ گیا ہے ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ ان تنوں سے کچھ سر جدا ہونے چاہئیں ۔

لوگ یہ کھوکھلی باتیں سن کر مزید مرعوب ہوگئے۔آخر حجاج ایٹم بم لے کر تو کوفہ نہیں آیاتھا؟ اگر اُسکے پاس ایٹم بم ہوتا بھی، تو وہ اسے پھاڑ توسکتا نہ تھا ۔کیونکہ اگر وہ اسے پھاڑتا، تو کوئی باقی نہ بچتا جس پر وہ حکومت کرے ۔ضروری تھا کہ کچھ لوگ زندہ رہیں، سب کو تو نہیں مار ڈالتا ۔اگر وہ سب کو مار ڈالتا، تو پھرحکومت کس پرکرتا ؟ درو دیوار پر تو حکومت ہو نہیں سکتی ۔

لیکن لوگوں نے یہ بات نہیں سوچی ۔

حجاج یہ جملہ کہنے کے بعد کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ گردنوں پر موجود کچھ سروں کو اُتارلینے اور انہیں تن سے جدا کردینے کا وقت آ پہنچا ہے، بولا : اب میں فیصلہ کروں گا کہ کس کا سر اُتارنا چاہئے۔ اس نے اپنے غلام کو آواز دی ۔اس کا غلام کھڑا ہوا ۔حجاج نے کہا کہ اِن لوگوں کو امیر المومنین کا خط پڑھ کر سناؤ۔آپ جانتے ہیں کہ اس نے عبد الملک بن مروان کو امیر المومنین کہا تھا۔غلام نے عبدالملک بن مروان کا خط کھولا اور اسے پڑھنے کی تیاری کرنے لگا ۔اس خط کا آغاز اس جملے سے ہوا تھا : بِسْم اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ، مِنْ اَمِیرِالْمُؤْمِنینَ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ مَرْوان عَلیٰ اَھْلِ الْکُوفَۃِ۔یٰااَھْلَ الْکُوفَۃِ سَلاٰمٌ عَلَیْکُمْ (بسم اﷲ الرحمن الرحیم، امیر المومنین عبدالملک بن مروان کی جانب سے اہلِ کوفہ کے لئے ۔اے اہلِ کوفہ ! تم پر سلام ہو)

جب غلام یہاں تک پڑھ چکا، تواچانک حجاج نے اُس کی طرف رخ کیا اور کہا: خاموش ہوجاؤ، چپ ہوجاؤ ۔اسکے بعد اُس نے اہلِ کوفہ کو مخاطب کیا اور کہا : تم بہت بد تہذیب ہوگئے ہو، امیر المومنین تمہیں سلام کرتے ہیں اور تم اُن کے سلام کا جواب نہیں دیتے ؟!

غلام! دوبارہ پڑھو ۔

غلام نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا: مِنْ اَمِیرِالْمُؤْمِنینَ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ مَرْوان عَلیٰ اَھْلِ الْکُوفَۃِ۔یٰااَھْلَ الْکُوفَۃِ سَلاٰمٌ عَلَیْکُمْ۔ یہ سنتے ہی پوری مسجد سے صدا بلند ہوئی: وَعَلیٰ اَمِیرِالْمُؤْمِنین السَّلام۔

سلام کا یہ جواب سن کر حجاج کے لبوں پر پسندیدگی کے اظہار سے بھر پور ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اُس نے دل میں کہا کہ بس کام ہوگیا ۔اور واقعاً اہلِ کوفہ کا کام تمام ہوگیا ۔انہوں نے امیر المومنین کے سلام کا جواب دیا، جو درحقیقت امیر الکافرین اور امیر الفاسقین تھا ۔یعنی اِن لوگوں نے حجاج کو قبول کر کے دراصل اپنا کام تمام کرلیا :

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُداٰای وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی۔

اب جبکہ تم نے اس کا جواب دے دیا، اور اسکی تائید کر دی ہے، تو حجاج تمہاراحکمراں ہوا، تم نے حجاج کے لئے دروازہ کھول دیا ہے ۔خداتو معجزے کے ذریعے حجاج کو ختم کرکے اُس کی جگہ امام زین العابدین ؑ کو نہیں بٹھائے گا ۔اب حجاج تمہاراحکمراں ہوا، اور جب تک تم حجاج سے نفرت کااظہار کرکے اُسے حکمرانی سے بے دخل نہ کردو، اُس وقت تک تمہاری پوری زندگی، سوچ اور روح حجاج کے اختیار میں رہے گی ۔یہ کائنات کی سنت ہے، یہ سنتِ تاریخ ہے ۔

خط پڑھے جانے کے بعد حجاج منبر سے نیچے اُترا، دارلامارہ گیا اوروہاں جاکر کہا : کیونکہ اہلِ کوفہ میں سے کچھ لوگوں نے ایک باغی اور مداخلت کاربظاہر محمد بن اشعث }مراد ہے{ کا ساتھ دیا ہے، لہٰذا تمام اہلِ کوفہ آئیں اور اعتراف کریں کہ وہ کافر ہوگئے تھے، اور دوبارہ مومن بنیں ۔

تمام اہلِ کوفہ (یعنی ہوا کے رُخ پرچلنے والے تمام عوام الناس، وگرنا یقینی طور پر ایسے خواص بھی تھے جو ایساکرنے پر تیار نہیں ہوئے، اِن میں سے کچھ لوگ گھروں ہی میں رہے، کچھ نے تلواریں کھینچ لیں یادوسرے طریقے اختیار کئے )گروہ در گروہ اپنے کفر کا اقرار کرنے کے لئے دارلامارہ کی طرف چل پڑے۔(وہاں پہنچ کر) انہیں کرنایہ تھا کہ پہلے اس بات کا اقرار کریں کہ وہ دین خدا سے خارج ہوگئے ہیں اوردائرۂ اسلام سے باہر نکل گئے ہیں ۔ یہ اقرار کرنے کے بعد توبہ کریں اور کہیں کہ اب جب ہم نے توبہ کر لی ہے، تو انشاء اﷲ امیرہماری توبہ قبول کریں گے، تاکہ ہم مسلمان ہوجائیں ۔

ایک بوڑھا شخص حجاج کے پاس گیا ۔حجاج نے دیکھا کہ اس شخص میں کچھ حد تک آن پائی جاتی ہے ۔بولا : بڑے میاں!یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمہیں اپنے کفر کے بارے میں شک ہے ۔ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تمہیں شک ہے تو میں تمہیں تلوار سے اسکی سزادیتا ہوں ۔کیونکہ جو کوئی بھی اپنے کفر کااقرار نہیں کرتا تھا، وہ مارا جاتا تھا۔ بوڑھے نے فوراً جوب دیا : نہیں نہیں جنابِ عالی، میں تو تمام کفار سے زیادہ کافر ہوں ۔

یہ تاریخ ہے ۔تاریخ درس ہے۔

خوشترآن باشد کہ وصف دلبران
گفتہ آید درحدیث دیگران

تاریخ تفسیرِ قرآن ہے، قرآن کو تاریخ میں تلاش کیجئے ۔جان لیجئے کہ :

مردخرد مند جہان دیدہ را
عمر دوبا یست درا ین روزگار

تا بہ یکی تجربہ اندوختن
با دگری تجربہ بردن بہ کار

تاریخ ہماراماضی ہے ۔تاریخ میں غور و فکر کیجئے ۔تاریخ سے شغف پیدا کیجئے اور جو کچھ تاریخ میں پوشیدہ ہے، اُسے دریافت کرنے کی کوشش کیجئے ۔صرف قصیدہ سرائی اور داستانیں بیان کرنے پر اکتفا نہ کیجئے، بلکہ دیکھئے کہ تاریخ ہمیں کیا سبق دینا چاہتی ہے ۔حجاج کا قصہ ہم سے کیا کہتا ہے ؟ یہ بتا دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ یہی حجاج، انہی لوگوں کے ہاتھوں دردناک ترین طریقے سے مارا گیا جن کے لئے اُس نے لوگوں پر یہ مظالم ڈھائے تھے۔یہ حقیقت جاننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ : مَنْ اَعٰانَ ظٰالِماًسَلَّطَہُ اﷲُ عَلَیْہِ (جو کوئی ظالم کی مدد کرتاہے، تو خدا اسی ظالم کو اس پر مسلط کر دیتاہے ) یہ بھی ایک سنت ہے ۔

تاریخ کامطالعہ کیجئے، دیکھئے کہ اِس میں ہمارے لئے کیا کیا سبق موجود ہیں؟ اِس میں ہمارے لئے کیا کیا ہدایتیں ہیں ؟ اِ س میں ہمارے لئے کیا کیا پیغام، کیا کیا نصیحتیں پائی جاتی ہیں ؟

انتہائی غور و فکر کے ساتھ تاریخ کا جائزہ لیجئے ۔تب آپ دیکھیں گے کہ ہمارے لئے آیۂ قرآن کے معنی بیان ہورہے ہیں ۔

ہم نے تاریخ کے اُس حصے کے متعلق عرض کیاہے ۔حال کا اِس سے ارتباط اوراِس سے تعلق پیدا کرناخود آپ پر چھوڑاہے ۔ہم اسی مقام سے آیاتِ قرآنی کی طرف واپس پلٹتے ہیں، اور سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہیں:

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

جب قرآن کو پڑھ لیا تو شیطان مردودکے ضررسے خدا کی پناہ طلب کیجئے۔ سورہ نحل ۱۶۔آیت ۹۸

اب جب کہ تم نے قرآن کو پڑھ لیاہے اور معارفِ اسلامی کو سیکھ لیاہے، تو اپنے آپ کو شیطان کے ضرر سے خدا کی امان میں لے جاؤ، شیطان جو چاہتا ہے کہ تم قرآن کو نہ جانو، اُسے نہ سمجھو ۔ یعنی اس بات کی کوشش کرو کہ تمہیں حاصل ہونے والی قرآن کی معرفت، تم سے شیطان چھین نہ لے، اور تم پر راہِ عمل اور اسکی مزید فہم کے راستے بند نہ کر دے ۔لہٰذا شیطانِ مردود کے شر سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ میں چلے آؤ ۔

اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ
بے شک فساد پیدا کرنے والا شیطان ہر گز اُن لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبانِ ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے۔ سورہ نحل ۱۶۔آیت۹۹

وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدا کی ولایت کے زیرِسائے رکھتے ہیں اور ولایت اﷲ کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں، شیطان ان پر تسلط نہیں رکھتا ۔

اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ(بے شک شیطان کا غلبہ صرف اُن لوگوں پرہوتا ہے جو اُسکی ولایت قبول کرتے ہیں)

جن لوگوں نے اپنے گلے کی رسی خود اپنے ہاتھوں سے اسکے حوالے کی ہے: اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ۔یعنی شیطان کا غلبہ اور تسلط صرف اُن ہی لوگوں پرہوتا ہے اور اُس کا بس فقط اُن ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اُسکی ولایت قبول کرلیتے ہیں:وَ الَّذِیْنَ ہُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ(اور ان لوگوں پرہوتا ہے جواللہ کے بارے میں شرک کرتے ہیں۔سورۂ نحل۱۶۔آیت۱۰۰)

اور جیسا کہ ہم نے پہلے سورۂنسا میں کہا ہے کہ:

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ (ایسا شخص جو پیغمبر کے ساتھ لڑائی کرے اور ان سے جدا ہو)

مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُداٰای (اپنے سامنے راہِ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد )

وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ (اور مومنین کی راہ کے علاوہ کسی اور راہ کی پیروی کرے)

نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی (تواُس نے جس کسی چیز اور جس کسی شخص کی ولایت کو قبول کیا ہو ا ہے، ہم اسی کو اس کا ولی اور فرمانروا بنا دیتے ہیں)

وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا (اور اسے دوزخ میں اٹھا پھینکتے ہیں، اور یہ کیسا بُرا انجام ہے )

اِنَّ اﷲَ لااَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ (خدا اپنا شریک بنانے والے شخص کو معاف نہیں کرتا۔ سورۂ نسا ۴۔آیت۱۱۵، ۱۱۶)

یہاں، توحید اور شرک کے معنی کی جانب واپس آتے میں، تاکہ دیکھیں کہ شرک کیا ہے ؟ توحید کیا چیز ہے ؟ اور جس گناہ سے خدا درگزر نہیں کرتا وہ کیا ہے ؟

اِنَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ۔ خدا کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کرتا جس نے ولایت میں شرک کو قبول کیا ہوا ہو۔ایسا شخص جو مشرک ہوگیا ہے، جس نے خدا کی حاکمیت کا دائرہ غیر خدا کے سپرد کر دیا ہے، اُس کا وہ زخم جو اس گناہ و نافرمانی، بُرائی اور بد بختی کی وجہ سے اُسکی روح پر لگاہے، کبھی نہیں بھرے گا۔یعنی وہ ہر گزمغفرت نہیں پائے گا۔غفرانِ گناہ، یعنی نافرمانی، خطا، لغزش اورگمراہی کے نتیجے میں انسان کی روح پر لگنے والے زخم کا بھر جانا۔اور اس زخم کے بھر جانے سے مراد یہ ہے کہ اُسے خدا کی طرف سے مغفرت اور غفران مل گئی ہے ۔ اگر تم غیر خدا کی ولایت میں ہوئے، تو اس گناہ کا داغ اور دھبّا کسی صورت دور نہ ہوگا۔

وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ۔ لیکن اگر انسان چاہے تو شرک سے کمتر اور اس سے نچلے درجے کے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ البتہ خدااس شخص کی مغفرت کردے گا جو توبہ اور تلافی کرے اور خدا کی طرف واپس پلٹ آئے۔

وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلااً بَعِیْدًا۔

اورجو کوئی خدا کا شریک قرار دے گاوہ راہِ ہدایت سے بہت دور اور گمراہ ہوگیا ہے ۔ (سورۂ نسا ۴۔آیت ۱۱۶)

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی بیابان میں راستے سے بھٹک جاتے ہیں، لیکن صحیح راستے سے صرف ایک کلو میٹر دور ہوئے ہوتے ہیں۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ صحرا میں راستہ گم کر بیٹھتے ہیں اور مطلوبہ راستے سے دسیوں کلو میٹر دور چلے جاتے ہیں، اتنے دور کہ پلٹ کر آنا آسان کام نہیں رہتا، اوراِسکے لئے بہت زیادہ کوشش اور ہوشیاری درکار ہوتی ہے، ایک مضبوط رہنماچاہئے ہوتا ہے۔جن لوگوں نے خدا کے لئے شریک بنا لیاہوتا ہے، وہ صراطِ مستقیم اور ہدایت کے سیدھے راستے سے بہت دور ہوگئے ہوتے ہیں :فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلااً بَعِیْدًا۔بہت دور کی گمراہی سے دوچار ہوگئے ہوتے ہیں ۔ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّاآ اِٰنثًا (یہ لوگ خدا کے سوا جس کسی کو پکارتے ہیں، وہ بس چند عورتیں ہیں) وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا (اور وہ سرکش اورنیکی و فضیلت سے عاری شیطان کے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے۔سورۂ نسا ۴۔آیت ۱۱۷)

ہم نے یہاں لفظ ”مرید“ کے معنی سرکش کئے ہیں، لیکن آپ اسکے معنی نیکی اور فضیلت سے عاری بھی کر سکتے ہیں ۔یہ بھی ”مرید“ کے ایک معنی ہیں۔

خدا کے دھتکارے ہوئے شیطان پر خدا کی لعنت، ابتدا ہی سے اُس نے خدا کی مخالفت کا عہد کیا ہوا ہے، اور بنیادی طور پرطبیعی اور خصلتی اعتبار سے خدااور شیطان کے درمیان صلح وآشتی ہوہی نہیں سکتی۔اس مقام پر قرآنِ مجید شیطان صفت افراد اور دنیا کے شیاطین کی خصلت اور طبیعت کو بیان کرتا ہے : وَ قَالَ لااَاَ اتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۔ شیطان نے عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ میں بندگانِ خدا میں سے ایک خاص حصے کو اپنا طرفدار بنا لوں گا ۔یعنی کچھ بندوں کو راہِ راست سے گمراہی کی طرف کھینچ لے جاؤں گا، اُن کی عقل سلب کر لوں گا، اُن کی بصیرت زائل کر دوں گا، اُنہیں تیری ولایت کی بجائے اپنی ولایت اور فرمانروائی میں لے آؤگا: وَّ لااَاُاضِلَّنَّہُمْ وَ لااَاُامَنِّیَنَّہُمْ (اُنہیں شدت کے ساتھ دور دراز آرزؤں اور تمناؤں کا اسیر کر دوں گا)

ذرا لفظ ”وَ لااَاُامَنِّیَنَّہُمْ“ پر غور فرمائیے ۔اِس کلمے میں دور دراز آرزوئیں اوروہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان کو راہِ خدا میں ہر قسم کی جدوجہد سے روک دیتی ہیں۔

دس سال مزید خوشی، راحت اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارنے کی آرزو، بڑے بیٹے کو دولہا بنانے کی آرزو، اپنی بچیوں کو دلہن بنا دیکھنے کی آرزو، اس چھوٹے گھر اور اس چھوٹی دکان کو بڑا کرنے کی آرزو، فلاں ادارے اور تنظیم کا سربراہ اور صدر بننے کی آرزو، فلاں مقدار میں روپیہ کما لینے کی آرزو، اپنے بیٹے کوانجینئر دیکھنے کی آرزو ۔دور دراز آرزوئیں اور ایسی تمنائیں جن کے بوجھ سے انسان کی گردن جھک جاتی ہے، جو انسان کے گھٹنے ٹکا دیتی ہیں، جن کے سامنے انسان بے بس ہوجاتا ہے، اگر آپ ان آرزؤں کی تڑپ اپنے دل سے نکال دیں، تو ایک عمر آزاد رہیں گے، آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اوراپنے آپ کو کسی قید وبند کا اسیر محسوس نہیں کریں گے۔

لہٰذا شیطان کہتا ہے :

وَ لااَاُامَنِّیَنَّہُمْ (اُنہیں دور دراز آرزؤں کا اسیر کردوں گا) وَ لااَاٰامُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ ااٰاذَانَ الْاَنْعَامِ (اُنہیں حکم دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ ڈالیں) یہ جاہلیت کی غلط سنتوں میں سے ایک سنت کی جانب اشارہ ہے۔البتہ ممکن ہے اِس جملے میں ایک بڑا راز اور رمز پوشیدہ ہو جس پر حقیر نے بہت زیادہ کام نہیں کیاہے اور اِس بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اُسے دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا ہے ۔ظاہراً مسئلہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کی جاہلی سنت میں یہ دستور تھاکہ وہ لوگ جانور کے کان کاٹتے تھے، اُس میں سوراخ کرتے تھے، تاکہ اس ذریعے سے رزق، برکت اور سلامتی حاصل کریں۔ یہ زمانۂ جاہلیت کی سنت تھی، قرآنِ مجید غیر الٰہی سنتوں، افکار، طریقوں اوررسموں کی علامت کے طور پر اس کا ذکر کرتا ہے۔

دیکھئے کس قدر مضحکہ خیز اور کھوکھلی بات ہے ۔بنیادی طور پر شیطانی سنتیں سب کی سب اسی طرح ہیں : وَ لااَااٰامُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اﷲِ۔ قرآنِ کریم شیطان کی گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگ جو میرے حکم کے تابع ہیں میں اُنہیں حکم دوں گاکہ وہ الٰہی خلقت، فطرت اور سرشت میں ردوبدل کریں اورجن لوگوں کو میں تیری حکومت اور ولایت کے علاقے سے شکار کرکے اپنی ولایت کے ویرانے میں لے آؤں گا، اُنہیں حکم دوں گا اور اُنہیں اکساؤں گا کہ وہ خلقت اور فطرتِ الٰہی کوترک کر دیں، اور جس راہِ عمل کو تو نے اُن کے لئے مقرر کیا ہے اُس سے دور ہوجائیں ۔میں اُن کے لئے خلافِ فطرت قانون بناؤں گا، اوراُن کے سامنے خلافِ فطرت راستہ رکھوں گا، ایک ایسا راستہ جو اُنہیں انسان کی فطری منزل کے سوا کسی اور منزل پر پہنچاتا ہے: وَلااَااٰامُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اﷲِ۔ میں اُنہیں حکم دوں گاکہ وہ خدا کی خلقت، آفرینش اور فطرت کو بدل دیں ۔

یہ خدا کے ساتھ شیطان کا عہد ہے ۔اس عہدسے خدا سے اُس کی ضد اورخدا سے اُس کی عنادظاہر ہوتی ہے ۔ تمام شیطانوں کا لائحۂ عمل اور اسکیم یہی ہے۔ دنیا کے تمام شیطان یہی کرتے ہیں ۔یہ بات ذہن نشین رکھئے کہ اگر لوگ خداداد فطرت اورسرشت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیں، تو شیطان اُن کی راہ میں نہیں آئے گا ۔بلکہ وہ اُن لوگوں کو فطرت وسرشتِ الٰہی سے دور کرتا ہے جو اُسکی ولایت اور تسلط کو قبول کرلیتے ہیں۔ کیونکہ بغیر اسکے اس کا بس نہیں چلتا، اس کا کام آگے نہیں بڑھتا، اور اسکی شیطانیت بے کار ہوجاتی ہے ۔

لہٰذا اسکے بعد خدا ہمیں اور آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :

وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا

جو کوئی خدا کی بجائے شیطان کی ولایت قبول کرے گا وہ کھلے نقصان میں رہے گا

یَعِدُہُمْ وَ یُمَنِّیْہِمْ

شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں دور دراز آرزؤں اور تمناؤں میں مبتلا کرتا ہے

وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا

اور شیطان جو بھی وعدے کرتا ہے وہ دھوکے، فریب اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔
سورۂ نسا۴۔آیت۱۱۸تا۱۲۰