پانچویں تقریر: غیر خدا کی ولایت
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
اب تک کی گفتگوسے ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ ہر مسلمان اور ہر وہ شخص جو خدا کی بندگی کا دعویدار ہے، اُسے چاہئے کہ اپنا ولی اور فرمانروا اور اپنی پوری زندگی کی تمام سرگرمیوں کاقائد اور مختارِ کُل خدا کی طرف سے متعین شخص کو قراردے، اپنے آپ کو خداوندِ عالم کے مامور اور مقرر کردہ ولی کے سپردکرے، اﷲ کے ولی کے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کرے۔
مختصر یہ کہ اپنی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے لئے فقط خداوندِ عالم کواور ہر اُس شخص کو جسے خدا نے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیاہے اپنا حاکم اور فرمانروا سمجھے۔
البتہ ہم نے اس نکتے پر بھی گفتگو کی ہے کہ وہ اشخاص جنہیں خدا نے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ہے وہ کون لوگ ہیں، اور بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں انبیاؑ اور انبیا ؑ کے بعد اولیا اس منصب کے حقدارہیں۔ مختصر یہ کہ ولی اور الٰہی حکمراں یا تو نام اور علامات دونوں کے ساتھ معین ہوتا ہے، یا یہ کہ نام کے ساتھ اس کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ صرف علامات کے ذریعے اسے معین کیا جاتا ہے ۔
یہ وہ نکات تھے جنہیں ہم پہلے واضح کر چکے ہیں ۔
آج جو نکتہ پیشِ نظر ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی خدا کی ولایت قبول نہ کرے اور غیرِ خدا کی فرمانروائی میں چلاجائے، توپہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟دوسری بات یہ ہے کہ اس عمل کوکیا کہیں گے ؟اور تیسری بات یہ ہے کہ اس عمل کا نتیجہ کیا ہوگا؟
البتہ یہ وہ سوالات ہیں جو ولایت کے حوالے سے گفتگو کے دوران سامنے آتے ہیں ۔ لیکن جب ہم بحث و گفتگوکے بعد انہیں قبول کرلیں، اور ہمارا ذہن انہیں مان لے، تو پھر اسکے بعد اِن کا شماراسلام کے ثابت شدہ عملی اصولوں میں ہونے لگے گا۔ اگر چہ اصولِ ولایت کے بارے میں کی جانے والی گفتگو میں یہ مسائل فرعی اور ضمنی نوعیت کے ہیں، لیکن یہ خوداپنی جگہ ایک اصول ہیں ۔
قرآنِ کریم، خدا کی ولایت کے سوا ہر ولایت کو طاغوت کی ولایت قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ : جو کوئی بھی خدا کی ولایت کے تحت نہ ہو، وہ طاغوت کی ولایت کے تحت ہے ۔
طاغوت سے کیا مراد ہے ؟
لفظ طاغوت کا مادہ طغیان ہے ۔ یعنی سرکشی کرنااور انسان کی طبیعی اور فطری زندگی کے دائرے سے باہر نکل جانا۔مثلاً فرض کیجئے کہ انسان حصولِ کمال کے لئے پیدا ہوا ہے، اب جو کوئی انسان کو کامل ہونے سے باز رکھے، وہ طاغوت ہے ۔
انسانوں پر لازم ہے کہ وہ خدا ئی دستور کے مطابق زندگی بسر کریں ۔یہ ایک فطری، طبیعی اور انسانوں کی سرشت کے مطابق بات ہے ۔اب اگر کوئی انسانوں کی نشوونمااس طرح کرے، اُن کے ساتھ ایسا عمل کرے، اور اُن پر ایسا تصرف کرے کہ وہ خدائی دستور کی بجائے کسی اور آئین کے تابع زندگی بسر کریں، تو وہ طاغوت ہے ۔
انسان کواپنے وجود کو مفید اور ثمر آور بنانے کے لئے ہمیشہ جدوجہد اور سعی و کاوش میں مصروف رہنا چاہئے۔لہٰذا ہر وہ عمل جو انسان کوغیرسنجیدگی، سستی، کاہلی، عیش کوشی، عافیت طلبی کی ترغیب دے، وہ طاغوت ہے ۔
انسانوں کو خدا ئی فرمان کے تابع ہونا چاہئے ۔ہر وہ چیز جو انسان کو فرمانِ الٰہی کی اطاعت سے باز رکھے اور انسان کو خدا کے مقابل سرکش بنائے، وہ طاغوت ہے۔
پس طاغوت اسمِ خاص نہیں ہے، اور بعض لوگوں کا یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ طاغوت ایک بت کا نام ہے ۔ہاں، یہ ایک بت کا نام ضرور ہے، لیکن یہ بت کوئی متعین بت نہیں ہے۔کبھی یہ بت خود آپ ہوتے ہیں، کبھی آپ کا روپیہ پیسہ ہوتا ہے، کبھی یہ آپ کی راحت پسندی کی زندگی ہوتی ہے، کبھی یہ بت آپ کی خواہش ہوتی ہے، کبھی یہ بت وہ شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں آپ اپنا ہاتھ دے کراپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اپنا سر جھکا دیتے ہیں تاکہ وہ جہاں چاہے آپ کو لیجائے۔ کبھی یہ بت سونااور چاندی ہوتے ہیں، کبھی خودانسان بھی ہوتا ہے اور کبھی اجتماعی نظام اور قانون ہوتا ہے۔پس طاغوت ایک اسمِ خاص نہیں ہے ۔