ولایت - چھ تقریریں

مسلمان معاشرے کے لئے ولی کا ضروری ہونا

ولایت - چھ تقریریں   •   رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای

ولایت کے مظاہر میں سے ایک اورمظہر، جوان سب سے زیادہ اہم ہے اور پہلے اور دوسرے معنی کی ولایت کی بقا کا ضامن بھی ہے، وہ یہ ہے کہ خودمعاشرے کے اپنے اندر ایک مقتدر مرکزی قیادت موجود ہو۔ کیونکہ اسلامی معاشرے کو ایک جسدِ واحد کی مانند ہونا چاہئے، جس کے مختلف اعضا اندر سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور پیوستہ ہوں اور باہر بھی بیرونی عناصر کے مقابل ایک بند مٹھی اور ایک جسدِ واحدکی مانند عمل کریں۔ یہ وحدت اور یکسوئی انہیں منظم کرنے والی ایک مرکزی قوت کے بغیر ممکن نہیں ۔

لہٰذا اگر اسلامی معاشرے کے مختلف گوشوں میں، ہر گوشے پرعلیحدہ علیحدہ خود مختار قوتوں کی حکومت ہو، تو اس جسم کے اعضاایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے، اور ایک راستے پر گامزن نہیں ہوسکیں گے ۔یہ بالکل ایسا ہوجائیگا جیسے انسان کے اعصاب سے کام لینے والے نظام کودومختلف مراکز سے کنٹرول کیا جائے، ایک کا تعلق دائیں طرف سے ہو اوردوسرے کا تعلق بائیں طرف سے۔ اس صورت میں ایک عمل انجام دینے کے لئے دایاں اور بایاں حصہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر کام نہیں کریں گے۔ مثلاً ایک وزن اٹھانے کے لئے دایاں ہاتھ تو تیار ہوگا، لیکن بایاں ہاتھ کسی صورت یہ بوجھ اٹھانے پر تیار نہ ہوگااور مٹھی بھینچ لے گا ۔لہٰذا اگر انسان کا اعصابی نظام کنٹرول کے دو مختلف مراکز سے حکم حاصل کرے گا، تو بدن کی حالت میں خلل واقع ہوجائے گا اور عمل کی انجام دہی، یا دشمن سے بچاؤ کے موقع پر مضحکہ خیز صورت اختیار کرلے گا، اور دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ۔

اسلامی معاشرہ بھی اگربر وقت اپنے دشمن سے بچنا چاہے، تو اس کے اندر کنٹرول کا مرکز محفوظ ہونا چاہئے، اور اگر ایک اسلامی معاشرہ اپنے دشمن سے جنگ کرنا چاہتا ہے، تو لازم ہے کہ اس معاشرے کے تمام گروہ یکجا ہوکر دشمن کے مقابل آئیں اور اس کا سا منا کریں، اور آپس میں ہم آہنگ ہوکر اس پر ایک کاری ضرب لگائیں ۔ایسا نہ ہو کہ معاشرے کاہر گروہ اپنی مرضی سے عمل کرنے لگے۔ کیونکہ اس صورت میں انگور کے باغ میں جانے والے ان تین افراد کاسا قصہ پیش آجائے گا جسے ملا نے نقل کیا ہے، اور دشمن ایک سازش کے ذریعے ان سب کا کام تمام کردے گا۔ اسی طرح جیسے تاریخ اورتاریخِ اسلام میں بارہا ایسا ہوا ہے ۔

پس اگر اسلامی معاشرہ بر وقت اپنے مفاد ات کا حصول چاہتا ہے اور اپنے آپ کو ضرر اور نقصان سے محفوظ رکھنے کا متمنی ہے، تواندرونی طور پر اس کے اعضا کو ایک دوسرے کے لئے ملائم اور باہم متحد ہونا چاہئے، اور دشمن کے مقابل ایک بند مٹھی اور ایک دستِ واحد بن جانا چاہئے ۔

مختصر یہ کہ اگر وہ ولایت کے ان دومظاہر اور دو پہلوؤں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تولازم ہے کہ اُن کے اندر کنٹرول کا ایک مقتدر مرکز موجود ہو، تاکہ معاشرے کے تمام فعال اورسرگرم عناصر اپنا فکری، عملی، دشمن کوب اور دوست نواز لائحۂ عمل اسی مرکز سے حاصل کریں۔ یہ مرکز اسلامی معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو منظم کرے، اور ہر ایک کو اُس کے لائق کام سپرد کرے، ان کے درمیان ٹکراؤ اور تصادم کا راستہ روکے اورتمام قوتوں کی ایک سمت میں رہنمائی کرے ۔

ایسا مرکز اور ایسی ہستی، خدا کی جانب سے ہونی چاہئے، اُسے عالم، آگاہ اورمعصوم ہونا چاہئے، اُسے اسلام کے تمام تعمیری عناصر کا عکاس ہونا چاہئے، اُسے قرآن کا مظہر ہونا چاہئے۔ ایسی ہستی کوہماری اسلامی تعلیمات میں ولی کہاجاتا ہے ۔

پس مذکورہ بالا دو پہلوؤں سے اسلامی معاشرے کی ولایت تقاضاکرتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک ولی کاوجود ضروری ہے ۔

یہ بھی ولایت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔