گروہی صورت میں ہجرت کی تاریخی مثال، ائمۂ اہلِ بیت ؑ کے ماننے والے شیعوں کی ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگیا اور ہم تفصیل کے ساتھ امامت کی بحث تک نہیں پہنچ سکے، وگرنہ ولایت کے بعد امامت کی گفتگو کرتے اور آپ کو بتاتے کہ ائمہ ؑ کے زمانے میں شیعہ کس قسم کاگروہ تھے، اور یہ بات واضح کرتے کہ شیعوں کے ساتھ امام ؑ کے روابط وتعلقات اورپھر شیعوں کے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کی نوعیت کیا ہوا کرتی تھی ۔لیکن اب ہم مجبورہیں کہ اسے اجمالی طور پر عرض کریں ۔
شیعہ بظاہر طاغوتی نظام میں زندگی بسر کرتے تھے، لیکن باطن میں طاغوتی نظام کے یکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے میں بطورِمثال اُس گروہ کا نام لیا جاسکتا ہے جو حسین ابن علی ؑ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سیلاب کامقابلہ کیا اور اس سیلابی ریلے کی مخالف سمت چلے جو انہیں اپنے ہمراہ بہاکرلیجانا چاہتا تھا۔یہ تاریخ میں گروہی ہجرت اور انقلاب کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے ۔لیکن عام افراد، اور کلی طور پر عرض کریں کہ ایک فرد کسی طاغوتی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے مسلمان باقی نہیں رہ سکتا اور اُس کا وجود، اُس کے وسائل، اُسکی قوتیں اور اُسکی تمام تر صلاحیتیں احکامِ الٰہی کے تابع نہیں رہ سکتیں ۔ایساہونامحال ہے ۔
اگر ایک مسلمان طاغوتی ماحول اور طاغوتی نظام میں زندگی بسر کرے، تو بہر حال اسکی اسلامیت کا ایک حصہ طاغوت کی راہ پر ہوگا، وہ خدا کا سو فیصدبندہ نہیں ہوسکتا ۔
اصولِ کافی جو شیعوں کی معتبر ترین اور قدیم ترین کتابوں میں سے ہے، اُس میں اِس }درجِ ذیل{ حدیث کو کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے، آپ کتاب الحجہ کے باب ” اس شخص کے بارے میں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغیر خدا کی عبادت کی“ میں مطالعہ کیجئے، اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
اِنَّ اﷲَ لاٰ یَسْتَحِیی اَنْ یُعَذِّبَ اُمّۂ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَیْسَ مِنَ اﷲِ وَاِنْ کٰانَتْ فِی اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِیَّۃً وَاِنَّ اﷲَ لَیَسْتَحْیِی اَنْ یُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اﷲِ وَاِنْ کَانَتْ فی اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِیءَۃً۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : خدا ایسی امت کو عذاب دینے میں شرم محسوس نہیں کرتا جو ایسے امام کی تابع ہو جو خدا کی طرف سے نہیں، اگرچہ وہ اپنے اعمال میں نیکو کار اور پرہیز گار ہو۔ بے شک خدا ایسی امت کو عذاب دینے میں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کی جانب سے مقرر کردہ امام کی تابع ہو، اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصولِ کافی ۔ ج۲۔ص۲۰۶)
عجیب حدیث ہے، یہ حدیث کہتی ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولی کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں، اہلِ نجات ہیں، اگرچہ وہ اپنے انفرادی اور نجی افعال میں کبھی کبھار گناہوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شیطان اور طاغوت کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں وہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہیں، اگرچہ وہ اپنے انفرادی اور شخصی کاموں میں نیکو کار اور عملِ صالح انجام دینے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔یہ انتہائی عجیب بات ہے ۔اگرچہ حدیث کو کئی طریقوں سے بیان کیا گیا ہے، لیکن سب یہی ایک معنی دیتے ہیں ۔
ہم ہمیشہ اس حدیث کے مفہوم کی وضاحت میں ایک ایسی گاڑی کی مثال پیش کرتے ہیں جس میں آپ مثلاً نیشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر یہ گاڑی نیشاپور کی طرف چلے گی، تو آپ لازماً اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے اور اگر مثلاً طبس یا قوچان کی طرف جائے گی، تو لازماً آپ اپنی منزل (نیشا پور ) نہیں پہنچ سکیں گے ۔
اب اگر نیشاپور جا نے والی گاڑی میں سوار مسافر ایک دوسرے کے ساتھ انسانی آداب کے ساتھ میل جول رکھیں گے، تو کیا خوب، اور اگر انسانی آداب اور نیکی و احسان کے ساتھ باہم میل جول نہیں رکھیں گے، تب بھی آخرکار نیشا پور تو پہنچ ہی جائیں گے ۔ وہ اپنی منزل پر جا پہنچیں گے، چاہے انہوں نے راستے میں کچھ بُرے کام بھی کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھی آثار و نتائج ظاہر ہوں گے، جنہیں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔لیکن منزل پربہرحال پہنچ جائیں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑی جسے آپ کو نیشا پور لے جانا چاہئے، وہ آپ کو نیشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑی کے تمام ا فراد مودب ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی احترام آمیز سلوک کریں، ایک دوسرے کے ساتھ خنداں پیشانی سے میل جول رکھیں اور یہ دیکھیں کہ یہ گاڑی نیشاپور کی بجائے قوچان کی طرف جارہی ہے، لیکن یہ دیکھنے کے باوجود کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کریں، تو ٹھیک ہے کہ یہ لوگ بہت اچھے انسان ہیں، ایک دوسرے کے لئے انتہائی مہربان ہیں، لیکن کیا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکیں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
پہلی مثال میں گاڑی کا ڈرائیور ایک امین شخص تھا، ایک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰامٌ مِنَ اﷲ تھا، جس نے اُنہیں منزلِ مقصود پر پہنچادیا، اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ فی اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِیءَۃً ۔جبکہ دوسری مثال میں گاڑی کا ڈرائیور راستے ہی سے واقف نہ تھا، امین نہیں تھا، خواہشِ نفس کا پجاری تھا، مست تھا، راہ سے بھٹکا ہوا تھا، اُسے قوچان میں کوئی کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کی خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑی میں سوار لوگ کسی صورت اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے ۔اگرچہ یہ لوگ گاڑی کے اندر باہم انتہائی مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِی اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِیَّۃً۔ لیکن آخر کار عذابِ خدا کا سامنا کریں گے، اپنی منزل نہیں پا سکیں گے۔
لہٰذا، ایک ایسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ میں ہو، وہ اُس گاڑی کی مانند ہے جسے ایک غیر امین ڈرائیور چلا رہا ہو، اُس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے اور مسلمان نہیں رہ سکیں گے ۔
اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ اِن حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرآنِ کریم کی آیت دیتی ہے، اور کہتی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَتاْا مَصِیْرًا۔
وہ لوگ جو اپنے آپ پر ظلم کررہے ہوتے ہیں، جب فرشتے اُن کی روح قبض کرتے ہیں، تو اُن سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں لاچار بنا دیئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہیں: کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے۔(سورۂ نسا ۴۔آیت ۹۷)
قرآنِ کریم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر، اپنے مستقبل پر اور اپنی ہر چیز پر ظلم کیا ہے، جب اُن کی موت قریب آتی ہے، تو اُن کی روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہیں ! فِیْمَ کُنْتُمْ۔ تم کس حال میں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب آسمانی فرشتہ یہ دیکھتاہے کہ اس انسان کی حالت اسقدر خراب ہے، جب وہ اُس طبیب یا اُس جراح کی مانند جو ایک بیمار کے معالجے کے لئے آتاہے، یہ دیکھتا ہے کہ بیمار کی حالت بہت خراب، افسوس ناک اور مایوس کن ہے، تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاری یہ حالت کیسے ہو گئی ؟
ہمیں یہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بیچارے کی بری حالت پر، اسکی روح کی خستگی پر، اس بدبختی اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے، تعجب کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں : تم نے کہاں زندگی بسر کی ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے آپ پر اس قدر ظلم کیا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب میں کہتے ہیں :
قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔
ہم زمین پر جن لوگوں کے درمیان زندگی بسر کررہے تھے، ان میں لاچار تھے، ہم بے اختیار عوام میں سے تھے ۔
مستضعفین معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہیں جن کے اختیار میں معاشرہ نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ معاشرے کی پالیسیوں، اسکی راہ وروش، اسکی سمت و جہت، اسکی حرکت، اسکے سکون اور اسکی سر گرمیوں کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، یہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہیں جہاں اُن کی رسی کھینچنے والا چاہتا ہے، منھ اُٹھائے اسکے پیچھے چلے جاتے ہیں، انہیں کہیں جانے اور کچھ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
نرسری کلاس کے چند بچوں کو فرض کیجئے ۔اُن بچوں کو نہیں جن کی عمر سات برس ہوچکی ہے، کیونکہ آج کل سات برس کے بچوں کی آنکھیں اور کان بھی ان باتوں سے بہت اچھی طر ح آشنا ہیں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پیشِ نظر رکھئے، جنہیں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کی مانند آج نرسری اسکولوں میں بٹھا دیتے ہیں ۔ہمیں وہ مکتب یاد آتا ہے جس سے ہم چھٹی کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہمیں سمجھ نہیں ہوتی تھی کہ ہم کہاں جارہے ہیں، بچوں کو بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ کون سی چیز کہاں ہے ۔ایک مانیٹر، یا ایک ذرا بڑا لڑکا ہماری رہنمائی کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ، اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہمیں با لکل خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ ہم کہاں چلے جارہے ہیں، اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہیں یا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہیں۔ اب اگرکبھی اُس مانیٹر کا دل چاہتا کہ ہمیں گلی کوچوں میں پھرائے، تویکبارگی ہم دیکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہیں۔
زمین پر مستضعف لوگ وہ ہیں جنہیں ایک معاشرے میں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔نہیں جانتے کونسی چیز کہاں ہے ۔ نہیں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہیں اور یہاں سے چل کر کہا ں پہنچیں گے، اور کون انہیں لئے جارہاہے، اور کس طرح یہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائیں، اور اگر نہ جائیں تو انہیں کیا کام کرنا چاہئے۔
انہیں بالکل پتا نہیں ہوتا، با لکل بھی متوجہ نہیں ہوتے، اور با لکل کولھو کے بیل کی طرح جس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں، جومسلسل چل رہا ہوتا، جواسی طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر یہ حیوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پیرس میں ہونا چاہئے۔ لیکن جب غروبِ آفتاب کے قریب اُسکی آنکھیں کھولتے ہیں، تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ تووہیں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہیں ہوتا کہ کہاں چلا ہے، نہیں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ یہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحیح نظام پر نہیں چلائے جاتے، اور انسان کی کسی حیثیت اور قدر و قیمت کے قائل نہیں ہوتے، اُن معاشروں سے متعلق نہیں جو انسان اور انسان کی رائے کی عزت اور احترام کے قائل ہیں، اُس معاشرے سے تعلق نہیں رکھتی جس کے قائد پیغمبرؐ ہیں، جن سے قرآنِ کریم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْر ( اور معاملات وامورمیں ان سے مشورہ کرو۔ سورۂ آلِ عمران۳۔آیت۱۵۹) باوجود یہ کہ آپ خدا کے رسول ہیں، باوجود یہ کہ آپ کو لوگوں سے مشورے کی ضرورت نہیں، پھر بھی آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کریں اور اُنہیں عزت واحترام دیں، اُنہیں حیثیت دیں۔ ایسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہیں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو آمرانہ، ظالمانہ، یا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہیں، وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ(ہم زمین پرمستضعفین میں سے تھے )اُنہوں نے ہمیں اسی طرح کھینچا، اُٹھایااور پٹخ دیا، ہمیں قدموں تلے پامال کیا، بے آبرو کیا۔لیکن ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔ وہ یہ عذرپیش کرتے اوریہ جواب دیتے ہیں۔
ان کے جواب میں ملائکہ کہتے ہیں :
اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا۔
کیا پروردگار کی زمین یہیں تک محدود تھی ؟
کیا پوری دنیاصرف اسی معاشرے تک محدود تھی جس میں تم مستضعف بنے زندگی بسر کر رہے تھے؟
کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی، کہ تم اس قید خانے سے نکل کر ایک آزاد خطۂ ارضی میں چلے جاتے، جہاں تم خدا کی عبادت کرسکتے، ایک ایسی سرزمین پرجہاں تم اپنی صلاحیتوں کا استعمال صحیح راستے پر کر سکتے ۔
کیا دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کی منطق اورعقلمند انسانوں کی منطق بالکل یکساں ہے۔ انسان کی عقل بھی یہی کہتی ہے :
اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا۔
کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے۔
اب اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، وہ بیچارے کیا کہیں، پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔لہٰذا قرآنِ کریم ان بیچاروں کے انجام کے بارے میں کہتا ہے :
فَاُولٰٓءِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَتاْا مَصِیْرًا۔
وہ مستضعفین جن کی قوتیں اور صلاحیتیں طاغوتوں کے ہاتھ میں تھیں، اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے، اوریہ انسان کے لئے کیسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ یہاں بھی ایک استثنا پایا جاتا ہے، کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہیں کرسکتے، تمام لوگ اپنے آپ کو جاہلی نظام کی اس قید سے نجات نہیں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہیں، کچھ بوڑھے ہیں، کچھ بچے ہیں، کچھ عورتیں ہیں، جن کے لئے ہجرت ممکن نہیں ہے ۔
لہٰذا یہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہیں :
اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لااَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلا۔
سوائے اُن ضعیف و ناتواں مردوں، عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئی چارہ نہیں اور جن سے کچھ نہیں بن پڑتا ۔ (سورۂ نسا۴ ۔آیت ۹۸)
ان کے پاس خطۂ نور، خطۂ اسلام اور خدا کی عبودیت کی سر زمین کی جانب آنے کی کوئی راہ نہیں، اور جو کچھ نہیں کر سکتے۔
فَاُولٰٓءِکَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔،
پس وہ لوگ جو کچھ نہیں کر سکتے، امید ہے خدا وندِ متعال اُنہیں معاف کر دے ۔
وَکَانَ اﷲُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔
اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔ (سورۂ نسا۴ ۔آیت ۹۹)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے یہ خطاب حجت ہے، یہ نہ سمجھیں اور اُن کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختی، ضرراور نقصان کا باعث ہوگی، اوروہ بار بار اپنے آپ سے یہ نہ پوچھیں کہ مثلاً ہمارا کیا بنے گا؟کیا ہم کچھ کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ کیا کچھ حاصل بھی ہو گا یا نہیں؟
ایسے لوگوں کے جواب میں قرآنِ مجید فرماتا ہے:
وَ مَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً۔
اور جو بھی راہِ خدا میں ہجرت اختیار کرتا ہے، وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔ (سورۂ نسا ۴۔آیت ۱۰۰ )
دنیا اسکے لئے پرواز کا ایک کھلاآسمان ثابت ہوتی ہے، اور وہ آزادی کے ساتھ اس میں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلی میں ہم کتنا ہی اونچا اُڑ تے، پنجرے سے اونچا نہیں اُڑ سکتے تھے، لیکن اب ایک حیرت انگیز وسیع و عریض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائی دورکے بیچارے مسلمان مسجد میں بڑی مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے، اگر جذبۂ ایمانی زیادہ ہی جوش مارتا تو مسجد الحرام میں دو رکعت نماز ادا کرپاتے، اسکے بعد اُنہیں بُری طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور میں{یہی مسلمانی کی انتہا تھی، اس سے زیادہ نہیں۔لیکن جب ان لوگوں نے ہجرت کی اور آزاد
سر زمین میں، اسلامی معاشرے اور ولایتِ الٰہی کے تحت زندگی بسر کرنے لگے، تو دیکھا کہ یہ ایک عجیب جگہ ہے : یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۔( سورۂ مومنون ۲۳۔آیت۶۱ )
یہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ آیۂ قرآن اورتقویٰ اور عبادت کے ذریعے متعین اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا میں زیادہ جدو جہد اور زیادہ خدا کی عبادت انجام دے، جہاد اورراہِ خدا میں خرچ کرے، وہ زیادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکی معاشرے میں، اگر کسی کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا میں ایک درہم دیا ہے، تو اسے گرم سلاخوں سے ایذا پہنچائی جاتی تھی، شکنجوں میں کس کر اسے آگ سے جلایا جاتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کی، اور مدینۃ الرسول میں چلے آئے، تو دیکھا کہ کیسی کھلی فضا اور پرواز کی جگہ ہے، کس طرح انسان حسبِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً
اورجو کوئی راہِ خدا میں اور الٰہی اور اسلامی معاشرے کی طرف ہجرت کرتاہے، وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے
اب اگر تم نے راہِ خدا میں دار الکفر سے دار الھجرہ کی جانب حرکت کی، اور درمیانِ راہ میں خدا نے تمہاری جان لے لی، تب کیا ہوگا ؟
قرآن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کیونکہ تم نے اپنا کام کر دیا، جو فریضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے دیا، اور تم نے حتیٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کی ۔اسلام یہی چاہتا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنی توانائی کے مطابق، جتنی وہ صلاحیت رکھتا ہے اتنی، اور جتنی اسکی استطاعت ہے اتنی راہِ خدا میں جدوجہد کرے ۔
وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اﷲِ وَ کَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔
اور جوکوئی خدا اور رسول کی جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے میں اسے موت آجائے، تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورۂ نسا۴۔آیت ۱۰۰)
توجہ رکھئے گا کہ کیونکہ یہ گفتگو ولایت کے موضوع پر آخری گفتگو ہے، یہ بحث تقریباً آدھی باقی رہتی ہے، لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہیں کہ ہجرت دار الکفر، غیر خدا کی ولایت، شیطان اور طاغوت کی ولایت سے دارالہجرہ، دارالایمان، ولایتِ الٰہی کے زیرِ فرمان، ولایتِ امام کے زیرِ فرمان، ولایتِ پیغمبر اور ولایتِ ولئ الٰہی کے زیرِ فرمان سرزمین کی جانب ہوتی ہے ۔لیکن اگردنیا میں ایساکوئی خطۂ ارضی موجود نہ ہو، تو کیا کیا جانا چاہئے ؟
کیا دارالکفرہی میں پڑے رہنا چاہئے؟
یا ایک دارالہجرہ ایجاد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے ؟
خود پیغمبر اسلام ؐنے بھی ہجرت کی ۔لیکن پیغمبر ؐکے ہجرت کرنے سے پہلے ایک دارالہجرہ موجودنہیں تھا، آپ نے اپنی ہجرت کے ذریعے ایک دارالہجرہ ایجاد کیا ۔
کبھی کبھی یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنی ہجرت کے ذریعے دارالایمان کی بنیاد رکھے، ایک الٰہی اور اسلامی معاشرہ بنائے، اور پھر مومنین وہاں ہجرت کریں۔
یہ ہے ہجرت کے موضوع پرہماری گفتگو کا ماحصل ۔