پہلی تقریر: ولایت کا بنیادی مفہوم
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
ہماری گفتگو ولایت کے موضوع پر ہے ۔ہم ولایت کے موضوع کوجس طرح قرآنِ مجید سے اخذکرتے ہیں، اس طرح اِسے بہت ہی کم بیان کیا جاتا ہے ۔البتہ ایک شیعہ کی سماعتیں ولایت کے لفظ سے خوب اچھی طرح مانوس ہیں۔ہماری دعاؤں، خداوندِعالم سے ہماری مناجاتوں، ہماری روایات اور ہمارے یہاں رائج اور عمومی افکار میں ولایت کا موضوع انتہائی تقدس اور احترام کے ساتھ موجودہے ۔ہم ایک شیعہ کے طورپراپنے آپ کو ہمیشہ حاملِ ولایت سمجھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں ولایت پرقائم رکھے اور ہماری موت ولایت پر رہتے ہوئے واقع ہو۔
ہم ولایت کے بنیادی مفہوم کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔اس گفتگو میں ہم یقیناً علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت پر بھی پہنچیں گے، لیکن فی الحال ہماری گفتگو اس سے پہلے کے مراحل کے بارے میں ہے ۔
ہم چاہتے ہیں کہ ولایت کامفہوم قرآنِ مجید کی آیاتِ کریمہ سے اخذکریں ۔تاکہ آپ دیکھیں کہ ولایت کا اصول کس قدروسیع اور دل کش اصول ہے، اورکس طرح اگر ایک قوم، ایک گروہ، ایک عقیدے کے پیروکار افراد ولایت کے حامل نہ ہوں، توافراتفری اور انتشار کاشکار ہوجائیں گے ۔
اس گفتگو کی روشنی میں یہ بات بھی آپ کے سامنے آ جائے گی اور اسے آپ اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ کیوں ولایت نہ رکھنے والے شخص کی نماز، نماز نہیں ہوتی، روزہ، روزہ نہیں ہوتااور عبادات، عبادات نہیں ہوتیں۔
اس گفتگو سے یہ بات بھی بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ اور ایک ایسی قوم، جو ولایت نہیں رکھتی، اگر وہ اپنی تمام عمر نماز، روزے میں گزاردے اور اپنے تمام اموال کو صدقہ کر دے، تب بھی لطفِ خدا کے لائق نہیں ہوتی ۔
خلاصہ یہ کہ اس بحث کی روشنی میں ولایت کے بارے میں موجوداحادیث کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں، ان ہی میں سے یہ معروف حدیث بھی ہے، جس کے بعض جملات اور کلمات کو ہم بارہا دُھرایا کرتے ہیں :
لَوْاَنَّ رَجُلاً قٰامَ لَیْلَہُ وَصٰامَ نَہٰارَہُ وَتَصَدَّقَ بِجَمِیِع مٰالِہِ وَحَجَّ جَمیعَ دَھْرِہِ وَلَمْ یَعْرِفْ وِلاٰیَۃَ وَلِّیِ اﷲ فَیُوالیہِ وَیَکُونُ جمیعُ اَعْمٰالِہِ بِدَلاٰلَتِہِ اِلَیْہِ، مٰاکٰانَ لَہُ عَلَی اﷲِ عَزَّوجلَّ حَقُ فی ثَوٰابِہِ۔
اگر کوئی انسان رات بھر قیام کی حالت میں گزارے، صرف ماہِ رمضان ہی میں نہیں بلکہ پوری عمرسارے سال روزے رکھے، اپنا تمام مال واسباب راہِ خدا میں صدقہ کردے اور پوری زندگی ہر سال حج پرحج کئے جائے، لیکن وہ خدا کے ولی کی ولایت سے آشنا نہ ہو، تاکہ اس شناسائی کے بعد اسکی پیروی کرے اوراسکے نتیجے میں اسکے تمام اعمال خدا کے اس ولی کی رہنمائی کے تحت انجام پائیں، تو ایسے شخص نے جو کچھ انجام دیا ہے، وہ فضول، بے ثمر اور ناکارہ ہے ۔ (اصولِ کافی ۔باب دعائم الاسلام ۔حدیث پنجم)
اگر آپ اس گفتگو پر خوب اچھی طرح غور کریں، اور آیاتِ قرآنی سے جو نتائج اخذ کئے جائیں ان پر خوب توجہ دیں، تو یہ بات جان لیں گے کہ ولایت نبوت کا تسلسل ہے، نبوت سے جداکوئی چیز نہیں، بلکہ دراصل نبوت کا تتمہ، ضمیمہ اور اختتامیہ ہے۔
اب ہم دیکھیں گے کہ اگر ولایت نہ ہو، تو نبوت بھی ناقص رہ جائے گی۔ لہٰذا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم نبوت کے بارے میں ایک مختصر سی گفتگو کریں، اسکے کلیات بیان کریں، تاکہ ضمنی گفتگوکرتے ہوئے بتدریج ولایت کے موضوع میں داخل ہوں۔البتہ یہ بات بتادینا بھی ضروری ہے کہ اس موضوع پر گفتگوکرناانتہائی دشوارکام ہے، اور اسے تفصیل کے ساتھ بیان کرنا اس سے بھی زیادہ کٹھن، کیونکہ ولایت کے موضوع پر عام افراد کے اذہان میں اس قدر کمزور، کھوکھلے اور غیر منطقی مسائل جگہ بنا چکے ہیں، کہ جب آپ قرآن اور حدیث کے متن سے مطابقت رکھنے والی درست بات بیان کریں گے، تو ان دو میں سے کوئی ایک صورت پیش آئے گی ۔یا تو یہ کہ جوباتیں آپ بیان کریں گے وہ لوگوں کے اذہان میں موجودباتوں سے گڈ مڈ ہوجائیں گی، اور یا یہ کہ جو کچھ ولایت کے عنوان سے بیان کیا جائے گا، لوگ اس سے بیگانگی محسوس کریں گے ۔لہٰذا یہ بحث انتہائی مشکل اور دشوارہے ۔لیکن ہم خدا کے فضل سے توفیق طلب کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ اس گفتگو کو چند دنوں میں مکمل کردیں انشاء اللہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا؟
پیغمبرؐ انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے آئے ہیں، لوگوں کو اخلاقِ الٰہی سے مزین کرنے کے لئے آئے ہیں، مکارمِ اخلاق کو کامل کرنے اور اتمام تک پہنچانے کے لئے آئے ہیں، اور احادیث کے مضمون کے مطابق :اِنِّی بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکٰارِمَ الْاَخْلاٰقِ۔پیغمبر انسان ساز ی کے لئے آئے ہیں، انسان نامی اس خمیر کوسنوارنے اور اسے آراستہ وپیراستہ کرنے کے لئے آئے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ چاہئے کہ پیغمبرؐانسان سازی کے لئے کون سے راستے اختیار کرتے ہیں؟ کن ذرائع سے استفادہ کرتے ہیں؟ اور کس طریقے سے انسان بناتے ہیں؟
کیا کوئی مدرسہ قائم کرتے ہیں ؟
کیاکوئی فلسفی مکتب بناتے ہیں ؟
صومعہ اور عبادت خانہ تعمیر کرتے ہیں ؟
پیغمبرؐانسان بنانے کے لئے انسان سازی کا کارخانہ قائم کرتے ہیں ۔پیغمبرؐ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ چاہے انہیں دس سال، بیس سال تاخیر سے کامیابی نصیب ہو، لیکن جو چیز وہ تیار کریں وہ ایک انسان، دو انسان، بیس انسان نہ ہوں، بلکہ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ انسان سازی کا ایساکارخانہ قائم کریں جوخودکار(automatic) انداز میں پیغمبر کی پسند کے انسانِ کامل تیار کرے۔
پس پیغمبرؐ انسان بنانے کے لئے، انسان سازی کے کارخانے سے کام لیتے ہیں اوریہ کارخانہ اسلامی معاشرہ اوراسلامی نظام ہے ۔یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جو ہماری گفتگومیں توجہ کا مرکز رہے گا ۔
سب یہی کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ انسان بنانا چاہتے ہیں، تمام ہی لوگوں کا یہ کہناہے کہ پیغمبر تعلیم و تربیت کے لئے آئے ہیں اور سب یہ بات سمجھتے ہیں، (لیکن) جس بات کو توجہ کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبر ایک ایک انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے تنہائی میں لے جاکر اسکے کان میں خداکی محبت کے نغمے نہیں گنگناتے تھے ۔ انبیا ؑ نے ایسے علمی اور فلسفی مدارس (بھی) قائم نہیں کئے جن میں چند شاگرد وں کی تربیت کی ہواور اُنہیں لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے گوشہ و کنارِ عالم میں روانہ کیاہو۔پیغمبر کا کام ان امور سے زیادہ محکم، مضبوط اور گہرا ہے، (وہ) ایک ایسا کارخانہ قائم کرتے ہیں، جو صرف انسان پیدا کرتاہے، اور وہ کارخانہ ” اسلامی معاشرہ“ ہے ۔
اسلامی معاشرہ کیا ہے ؟ اور اس کی کیاماہیت ہے ؟
البتہ یہ ایک علیحدہ بحث ہے، جو ہماری اس گفتگو کا حصہ نہیں۔ لیکن اس مفہوم کی کچھ وضاحت کے لئے ہم اس پر مختصراً روشنی ڈالناضروری سمجھتے ہیں۔
اسلامی معاشرہ، یعنی وہ معاشرہ اورسماج جس کی حکمرانی کا سب سے بلند مقام خداکے پاس ہو۔اس معاشرے کے قوانین، الٰہی قوانین ہوں، اس معاشرے میں حدودِالٰہی جاری ہوں، اس معاشرے میں عہدہ اور منصب الٰہی تعلیمات کی روشنی میں تفویض کیا جاتا ہو اور انہی تعلیمات اور اصولوں کی روشنی میں عہدے اور منصب سے معزول کیاجاتا ہو۔
جس طرح بعض معاشرہ شناسوں میں معمول اور مروج ہے، اسی طرح اگر ہم معاشرے کی تصویر کشی ایک مثلث(triangle)کی صورت میں کریں، تو(اسلامی معاشرے کی)مثلث کی چوٹی top) (پر خدا ہوتاہے، اورتمام انسان اسکے نیچے ہوتے ہیں ۔اس معاشرے کے ادارے دینی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، صلح اور جنگ کے قانون احکامِ الٰہی کی بنیاد پربنائے جاتے ہیں، اجتماعی روابط، اقتصاد، حکومت، حقوق، تمام چیزوں کا تعین خد اکا دین کرتا ہے، دین الٰہی کی روشنی میں ان کا نفاذ ہوتا ہے، اور ان تمام قوانین کی پشت پر خدا کا دین ہوتا ہے ۔
اسے کہتے ہیں اسلامی معاشرہ ۔
اسی طرح جیسے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد وہاں ایک معاشرہ تشکیل دیا ۔اس معاشرے پر خدا کی حکمرانی تھی، اور عملاً حکومت کا کنٹرول خدا کے نمائندے رسول اﷲ ؐکے ہاتھوں میں تھا ۔آپ ہی قوانین و احکام وضع کرتے اور اُن کا اجرا کیا کرتے تھے۔ معاشرے کی ہدایت و رہبری اور اس کا نظم ونسق آنحضرت ؐکے ذمے تھا۔
ایک ایسے معاشرے میں جس کا سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے، نمازِ جماعت، نماز کے بعد خطبہ اور میدانِ جنگ میں پڑھے جانے والے ترانے، سب ایک ہی رنگ لئے ہوتے ہیں۔ اسی مسجد میں جہاں رسول اللہ ؐنمازِ جماعت قائم کیاکرتے تھے، لوگوں سے خطاب کے لئے منبر پر جایاکرتے تھے، درس دیتے اور تزکیہ و تعلیم کا کام انجام دیاکرتے تھے، وہیں جہادکا پرچم لایا جاتا تھا، پیغمبرؐ اسے باندھتے اور اسامہ بن زید، یا کسی دوسرے مومن سپہ سالار کے سپرد کرتے اور فرماتے کہ جاؤ : اِنْطَلِقُوا عَلَی اسْمِ اﷲ (اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو) اور اس موقع پر دشمن پر کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہدایات دیاکرتے تھے۔ اسی مسجد میں رسول اللہ ؐ خدا کاحکم جاری فرماتے تھے، اسی مسجد میں پیغمبر کی عدالت سجتی، اسی مسجد سے پیغمبرؐ معاشرے کا نظم و نسق اور اقتصاد چلاتے، اسی مسجد میں زکات جمع ہوتی اوریہیں سے تقسیم کی جاتی، اسی میں درس ہوتا، نماز ہوتی، دعا ہوتی اور جنگی ترانے ہوتے، مالی اور اقتصادی مسائل حل ہوتے، مختصر یہ کہ خانۂ خدا میں دنیا اور آخرت کے امور ایک ساتھ پیغمبر کی رہنمائی میں انجام پاتے۔ یہ ہے اسلامی معاشرہ ۔
انبیا ؑ ایسے ہی معاشرے کے قیام کے لئے آتے ہیں، اس معاشرے میں رہنے والا ہر فرد انسان بن جاتا ہے۔ اگر انسانِ کامل نہ بھی بن سکے(تب بھی)مجبور ہوتا ہے کہ انسانوں کا سا طرزِ عمل اختیار کرے۔ جوکوئی اچھا بننا چاہے، وہ پیغمبرؐ کے قائم کردہ معاشرے میں اچھا بن سکتا ہے۔ جبکہ غیر الٰہی معاشروں میں ایساممکن نہیں ہے ۔
غیر اسلامی اور غیرالٰہی معاشروں میں انسان اچھا بننا چاہتے ہیں، لیکن نہیں بن سکتے۔ دیندار بننا چاہتے ہیں، لیکن نہیں بن سکتے۔ چاہتے ہیں کہ نہ سود دیں اور نہ سودلیں، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں کر سکتے۔
ایسے معاشرے میں عورت چاہتی ہے کہ اسلام اُس سے جس پاکدامنی کا تقاضا کرتا ہے، وہ اُس کی حفاظت کرے، لیکن ماحول اُسے ایسانہیں کرنے دیتا۔ اس معاشرے میں پائے جانے والے عوامل اوراسباب انسان کو خدا کی یاد سے دور کرتے ہیں ۔ تصاویر، سنیماگھر، آزادانہ میل جول اور گفتگو، یہ سب باتیں انسان کو خدا سے دور کرتی ہیں اور انسان کے دل کو ذکرِ خدا سے بیگانہ کرتی ہیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں معاملہ اسکے برعکس ہوتاہے ۔
اسلامی معاشرے میں بازار، مسجد، حکومتی ادارے، دوست، رشتے دار، گھرانے کاسربراہ، گھر کا جوان، سب کے سب انسان کو خدا کی یاد دلاتے ہیں، خدا کی طرف کھینچتے ہیں، خدا کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، خداکے ساتھ اس کاربط و تعلق ایجاد کرتے ہیں، اُسے خدا کا بندہ بناتے اور غیرخدا کی بندگی سے دور کرتے ہیں ۔
اگر پیغمبرؐ کے زمانے کا اسلامی معاشرہ پچاس سال قائم رہتا، اور انہی کی قیادت برسرِ کار ہوتی، یا پیغمبرؐ کے بعد علی ابن ابی طالب ؑ، وہی رہبر ورہنما جنہیں پیغمبرؐ نے معین فرمایا تھا، پیغمبر کے جانشین بنتے، تو یقین جانئے پچاس سال بعداس معاشرے میں کوئی منافق نہ رہتا، تمام افرادِ معاشرہ حقیقی مومن بن جاتے ۔ اگر حکومتِ نبوی کے فوراً بعد حکومتِ علوی قائم ہوجاتی، تو یہ انسان ساز معاشرہ لازمی طور پر تمام دھوکے بازوں کو پاک دل بنادیتا، تمام منافق دلوں کو بھی مومن کر دیتا، وہ تمام افراد جن کی روح ایمان سے آشنا نہ تھی، وہ بھی خدا اور ایمان آشنا ہوجاتے۔ اسلامی معاشرہ ان خصوصیات کاحامل ہوا کرتا ہے ۔
انبیا ؑ ایساہی معاشرہ قائم کرنے کے لئے آتے ہیں ۔جب یہ معاشرہ بن جاتا ہے، تو جس طرح کارخانے سے بڑی مقدار میں پیداوار نکلتی ہے، اسی طرح انسان سازی کے اس کارخانے سے لوگ گروہ در گروہ مسلمان بن کر نکلتے ہیں ۔ ظاہری مسلمان بھی اور قلبی، واقعی اورباطنی مسلمان اورمومن بھی ۔پس پیغمبرؐ اس کام کے لئے آتے ہیں ۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ ہم ولایت کی گفتگو کو اسکی جڑ سے شروع کریں گے۔
ابتدامیں جب پیغمبراسلامی فکر لے کر آتے ہیں اور اُن کی دعوت شروع ہوتی ہے، تو کیا وہ تن تنہا معاشرے کا نظم و نسق چلاسکتے ہیں ؟ کیا معاشرے کو اداروں کی ضرورت نہیں ہوتی؟ کیا اِن اداروں کو چلانے کے لئے کچھ لوگ درکار نہیں ہوتے ؟ کیا اس معاشرے کے دفاع اور تحفظ اور اسکے دشمنوں کی سرکوبی کے لئے ایک فوج کی ضرورت نہیں ہوتی؟ کیا ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی جو پیغمبر کا ساتھ دیں اور اُن کی دعوت کو عام کریں ؟ یقیناًایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ تمام کا م معمول کے مطابق اسباب و وسائل کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔انبیا ؑ اپنی زیادہ تر سرگرمیوں میں عام اور معمول کے مطابق اسباب و وسائل ہی سے کام لیتے تھے ۔
پیغمبراس لئے آتے ہیں تاکہ اپنا مطلوب معاشرہ تعمیر کریں، ایسامعاشرہ جو انسان سازی کا کارخانہ ہو۔ اس کام کے لئے ایک متحد اور یکسو گروہ کی ضرورت ہے، جو دل کی گہرائیوں سے اس مکتب پر ایمان اور عقیدہ رکھتا ہو اور ثابت قدمی اور جوش وخروش کے ساتھ اس مقصد کی جانب گامزن ہو۔پیغمبر، ابتدائے کار ہی میں ایسے گروہ کی موجودگی ضروری سمجھتے ہیں۔ لہٰذا پیغمبر کا پہلا کام اس متحد اور باہم متفق گروہ کی فراہمی اور تیاری ہے۔لہٰذا وہ آیاتِ قرآنی پر عمل کرتے ہوئے مواعظِ حسنہ کے ذریعے ایک ایسا گروہ وجود میں لاتے ہیں :
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔
لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں۔(سورہ نحل ۱۶۔آیت ۱۲۵)
پیغمبر مواعظِ حسنہ، آیاتِ قرآنی اوراپنے کلام کی تاثیر کے ذریعے لوگوں کے دل خدا کے دین کی جانب جذب کرتے ہیں اور پہلے مرحلے میں اُنہیں اپنے گرد جمع کرتے ہیں ۔ پیغمبر کے گرد جمع ہوجانے والے ان لوگوں کے ذریعے ایک گروہ وجود میں آتا ہے۔ پس سب سے پہلے پیغمبراپنی دعوت پیش کرکے ایک گروہ اور ایک صف وجود میں لاتے ہیں۔ کفر کے محاذ کے با لمقابل ایک محاذایجاد کرتے ہیں۔
یہ محاذ کن لوگوں سے مل کر بنتا ہے ؟
صاحبِ ایمان، صاحبِ عقیدہ، مضبوط دل اور ثابت قدم مسلمانوں کے ملنے سے بنتا ہے، اُن لوگوں کے اکھٹا ہونے سے تشکیل پاتا ہے جنہیں لاٰ تَاْخُذُ ھُمْ فِی اﷲِ لَوْمَۃُ لاٰءِمٍ(کسی ملامت کرنے والے کی ملامت راہِ خدا سے نہیں ہٹا سکتی ۔نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۹۰)
یہ وہ اوّلین مسلمان ہیں جو جاہلی معاشرے میں ایک محاذ تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی یہ مکہ کے جاہلی معاشرے میں رہنے والے صدرِاسلام کے مسلمان ہیں۔ اب اگر اسلام اور مسلمین کے نام سے وجود میں آنے والے اس کمزور اور لاغرمحاذکو اس جاہلی اور مزاحمتوں اور مشکلات سے بھرے معاشرے میں باقی رکھنا چاہیں، اگریہ چاہیں کہ یہ گروہ، یہ صف اور یہ محاذ ختم نہ ہوجائے، تحلیل نہ ہوجائے، تو لازم ہے کہ مسلمانوں کا یہ گروہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ پیوست رہے، ان مسلمانوں کو اس طرح ایک دوسرے سے متصل اور منسلک کیا جائے کہ کوئی چیز اُنہیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرسکے ۔آج کی زبان میں اور آج کی ادبیات میں، ایک انتہائی شدید جماعتی نظم (party discipline)ان مسلمانوں کے درمیان قائم کیا جائے ۔انہیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پیوست کیا جائے ۔ انہیں مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ باندھا جائے اور دوسرے محاذوں، دوسری تحریکوں اور مخالف عوامل سے انہیں زیادہ سے زیادہ دور رکھا جائے ۔
کیوں،
اس لئے کہ یہ اقلیت میں ہیں ۔
ایک ایسا گروہ جو اقلیت میں ہے، ممکن ہے اسکی فکر اکثریت کی فکر سے متاثر ہوجائے، اِن کا عمل، اِن کی حیثیت، اِن کی شخصیت، ممکن ہے ان کی مخالف بقیہ اکثریت کی حیشیتوں، شخصیتوں اور اعمال میں گم یا نابود اور حل ہو کر ختم ہوجائے ۔
لہٰذا اُنہیں تحلیل ہونے سے بچانے کے لئے، انہیں نابودی سے محفوظ رکھنے کے لئے، انہیں ایک گروہ کی صورت میں باقی رکھنے کے لئے، انہیں زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل کیا جاتا ہے، اور انہیں ہر ممکن طریقے سے دوسرے محاذوں، دوسری صفوں سے جدا کیا جاتا ہے، تاکہ مستقبل میں ان کے مضبوط ہاتھوں سے اسلامی معاشرے کی تعمیر ہو، یہ اس کانظم و نسق سنبھالیں اوراسے آگے بڑھائیں، پیغمبر کے مددگاربنیں، اُن کوہ پیماؤں کے گروہ کی مانند جو ایک دشوار گزار پہاڑی راستہ عبور کررہا ہوتا ہے، دس افرادلاٹھیاں(sticks) ہاتھ میں لئے برف کے درمیان ایک تنگ اورپرُ خطر راستہ طے کررہے ہوتے ہیں، اورپہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے پیچ وخم کھاتی وادیوں سے گزرتے ہیں۔ ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں، اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ لیں، علیحدہ علیحدہ اور انفرادی طور پر آگے نہ بڑھیں ۔کیونکہ اگر وہ اکیلے رہ جائیں گے، تو ان کے لڑکھڑانے کا خطرہ ہے، انہیں مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک کردیتے ہیں، اور ایک دوسرے سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ بہت زیادہ وزن نہ لیں، اِدھرُ ادھر نہ دیکھیں، بلکہ صرف اپنے راستے پر نظر رکھیں، اور حواس فقط اپنے کام کی طرف متوجہ رکھیں ۔یہ لوگ ایک دوسرے کی کمر اور ہاتھوں کو مضبوطی سے ایک ساتھ باندھ لیتے ہیں، تاکہ اگر ان میں سے کوئی گرنے لگے، تو بقیہ لوگ اسے بچا سکیں ۔
کوہ پیماؤں کا اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے جڑا ہوا ہونا، صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ شدید متصل اور پیوست ہونے کی عکاسی کرتا ہے ۔
کیا قرآن و حدیث نے اس اتصال اور پیوستگی کو کوئی نام دیاہے ؟
اسلام کے ابتدائی دور سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی یہ پیوستگی، جو انہیں آپس میں اس طرح جوڑتی ہے جس کا توڑنا ممکن نہیں، جو معاشرے میں موجوددوسری صفوں سے یکسر جدا ہوتے ہیں، سختی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں، کیا قرآن اور حدیث میں انہیں کوئی نام دیاگیاہے ؟
جی ہاں، اس باہم پیوستگی اور اتصال کا نام ولایت ہے ۔
پس قرآن کی اوّلی اصطلاح میں، ولایت یعنی باہم پیوستگی اور ایک صف کی صورت میں یکجہت ہونا، ایک فکررکھنے والے، ایک مقصد کی جستجو میں سرگرداں اورایک ہی راہ پر گامزن لوگوں کے ایک گروہ کاسختی کے ساتھ آپس میں متصل ہونا ۔یہ لوگ ایک ہی منزل کی جانب گامزن ہوتے ہیں اور ایک ہی فکر اور ایک ہی عقیدے کو ماننے والے ہوتے ہیں۔
اس صف سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ متصل ہونا چاہئے ۔انہیں چاہئے کہ دوسری صف بندیوں، دوسرے مراکز اور دوسرے عناصرسے اپنے آپ کو جدا اور علیحدہ رکھیں ۔
کیوں؟
اس لئے، تاکہ ان کا خاتمہ نہ ہو جائے، وہ دوسروں میں تحلیل نہ ہوجائیں۔
اس چیز کوقرآنِ کریم میں ولایت کہتے ہیں۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے اوّلین گروہ کو اس طرح پیوستہ اور متصل کرتے ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں، انہیں ایک دوسرے کابھائی بناتے ہیں، انہیں ایک جسمِ واحد کی صورت میں ڈھالتے ہیں، ان کے ذریعے امتِ اسلامی تشکیل دیتے ہیں اور اسلامی معاشرہ وجود میں لاتے ہیں ۔
انشاء اﷲآپ آگے چل کر آیاتِ قرآنی میں دیکھیں گے کہ پیغمبرؐ صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے اس اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے دشمنوں، معاندوں اورمخالفوں کاراستہ روکتے ہیں، اپنے تیار کردہ اس گروہ کو معاشرے میں موجود دوسرے گروہوں سے جدا کرتے ہیں۔ انہیں یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین کے گروہ کے ساتھ مل جانے سے روکتے ہیں۔اور ان کی صفوں کو باہم منسلک اور متصل رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔اسلئے کہ اگر یہ مسلمان اس حالت میں نہ ہوں، اگران کے درمیان ولایت نہ پائی جائے، اگریہ سو فیصد ایک دوسرے سے پیوست نہ ہوں اور ان کے درمیان اختلاف وجود میں آجائے، تویہ اپنے کاندھوں پر پڑنے والی امانت کے اس بوجھ کواٹھانے سے قاصر رہیں گے اور اس بارِ گراں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکیں گے ۔
بعد میں بھی جب اسلامی معاشرہ ایک عظیم اُمت میں تبدیل ہوجاتا ہے، تب بھی ولایت کی ضرورت رہتی ہے ۔
ایک امت کے لئے کس طرح کی ولایت ضروری ہے، اور کس لئے یہ لازم ہے، اسکی وضاحت ہم بعد میں کریں گے ۔لیکن اگرہم یہیں ٹھہر کر کچھ غور کریں، تو وہ ولایت جس کا ذکر شیعہ کرتے ہیں اس کا کچھ مفہوم ہم پر واضح ہو جائے گا ۔
ظلمت سے بھری ایک دنیا میں، ایک جاہل سماج میں، ایک چھوٹے سے گروہ کو اپنی بقا کے لئے باہم مربوط اور متصل رہنے کی ضرورت ہے ۔ اگر وہ گروہ باہم پیوست اور جڑا ہوانہ ہو، تو اس کا باقی رہنا اور اپنی زندگی جاری رکھنا محال ہے۔ ہم نے مثال کے طور پر مکہ کے جاہل معاشرے میں اسلام کے ابتدائی دور کے مسلمانوں کے گروہ، یا پہلے پہل مدینہ میں آنے والے مسلمانوں کے گروہ کا ذکر کیا۔ اسکی دوسری مثال اسلامی تاریخ کے آغاز میں شیعہ مخالف اور اسلام مخالف خلافتوں کے زمانے میں شیعوں کاچھوٹاسا گروہ ہے ۔
کیا شیعہ آسانی کے ساتھ باقی رہ سکتے تھے ؟
کیا پروپیگنڈے کے حربے، پابندیاں، قید خانے، اذیتیں اور قتل و غارت اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ یہ گروہ باقی رہ سکے ؟
اور وہ بھی شیعوں کی مانند ایک فکری گروہ، جو اپنے زمانے کی حکومتوں کا بھرپور مخالف اور اُن کے لئے دردِ سرتھا ۔
لیکن اسکے باوجود یہ گروہ کیسے باقی رہ گیا ؟
اس لئے باقی رہ گیا کہ ولایت نے شیعوں کے درمیان ایک حیرت انگیز پیوستگی اورشیرازہ بندی پیدا کر دی تھی، تا کہ اس ولایت کے زیرِ سایہ شیعی تحریک وہاں پائی جانے والی دوسری طرح طرح کی تحریکوں کے درمیان محفوظ رہ سکے ۔
آپ ایک بہت بڑے دریا کا تصور کریں، جس میں کئی اطراف سے مختلف پانی داخل ہو رہے ہیں۔ یہ پانی تیز رفتاری کے ساتھ حرکت میں ہیں اور دریا کی سطح متلاطم ہے، اس پر گرداب وجود میں آرہے ہیں، پانی آپس میں پیچ وخم کھارہے ہیں، ایک دوسرے سے مختلف طرح طرح کے پانی اس دریا میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو تحلیل کر رہے ہیں، ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اوردریا آگے بڑھ رہا ہے۔
اِن آلودہ اورگدلے پانیوں کے درمیان میٹھے، صاف، لطیف اورشفاف پانی کا ایک دھارا بھی رواں دواں ہے، جواس بہاؤمیں ایک عجیب انداز سے آگے بڑھ رہا ہے ۔یہ پانی محفوظ اور سلامت ہے، اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی صورت اس کا رنگ خراب نہیں ہوتا، یہ کسی صورت دوسرے پانیوں کی تلخی اور کھاراپن اختیار نہیں کرتا، اپنے اُسی میٹھے ذائقے، اُسی شفاف رنگت اوراُسی خالص پن کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہتاہے ۔
آپ اُموی اور عباسی دور کے عالمِ اسلام کو اس دریا سے تشبیہ دیں جس میں طرح طرح کی فکری، سیاسی اور عملی تحریکیں ایک دوسرے کے دوش بدوش چل رہی تھیں۔آپ اوّل سے آخر تک نگاہ ڈال لیجئے، آپ تشیع کی تحریک کو دیکھیں گے کہ وہ اس عجیب طوفان کے درمیان پانی کی ایک باریک لکیر کی مانندایک ناچیز اور معمولی شئے نظر آئے گی، لیکن اِس طرح کہ اُس نے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہوا ہے، کسی صورت آلودہ نہیں ہوئی ہے، کسی صورت اُس کا ذائقہ خراب نہیں ہوا ہے، ہر گز وہ اپنی شفافیت سے محروم نہیں ہوئی ہے، ہر گزاُس نے دوسرے پانیوں کے رنگ، بو اور ذائقے کو اختیار نہیں کیا ہے، وہ باقی رہی اورمسلسل آگے بڑھی ہے۔
لیکن وہ کیا چیز ہے جس نے اسکی حفاظت کی ہے ؟
وہ کیا شئے ہے جواس شیعی تحریک کی بقا کا سبب بنی ہے ؟
وہ اس ولی کا وجودہے جو لوگوں اور اپنے پیروکاروں کو ولایت کی تلقین کرتا ہے، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے، انہیں ایک دوسرے کے لئے مہربان کرتا ہے، اُن کے درمیان ولایت کی ترویج کرتا ہے اور اس صف میں موجودافراد کے اتحاد و اتفاق اوریکجہتی کی حفاظت کرتا ہے ۔
شیعی ولایت کا ایک پہلو یہ ہے، جس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسکے اور بھی پہلو ہیں، ہم اُن کا بھی جائزہ لیں گے ۔
پس ولایت، یعنی باہم پیوستگی، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہونا۔
قرآنِ مجید مومنین کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیتا ہے، اور سچے صاحبانِ ایمان کو ایک دوسرے سے متصل اور باہم پیوست سمجھتا ہے ۔ہماری روایات میں شیعہ کو مومن کہا جاتا ہے۔ اس تصور کی رو سے، ایمان سے مراد، ولایت پر مبنی خاص شیعی طرزِ تفکر کا حامل ہونا ہے ۔یعنی اسلام کو شیعی نکتۂ نظر سے اپنانا اورجس منطق سے شیعہ اسے ثابت کرتے ہیں، اُس منطق سے اس کا اثبات کرنا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ائمۂ علیہم السلام کے زمانے میں اس قسم کے شیعوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط، متصل اورباہم پیوست کیا گیا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا گیا، تاکہ وہ تاریخ میں شیعی تحریک کو محفوظ رکھیں۔اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا، تو شیعہ ختم ہوجاتے، ان کے افکارنابود ہوجاتے۔ جیسا کہ بعض دوسرے فرقوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے، کہ انہوں نے اپنا رنگ کھو دیا ہے، ختم اور نا بود ہو گئے ہیں۔