ولایت - چھ تقریریں

انہی آیات کے تسلسل میں، اندرونی تعلقات کے بارے میں غوروفکر کیجئے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ (اے اہلِ ایمان! اگرتم میں سے کوئی اپنے دین سے پلٹ جائے )خدا کے دین کی نشرو اشاعت کی وہ ذمے داری جوتم نے خدا پر ایمان کے ساتھ قبول کی ہے، اگرتم اس سے سبک دوش ہونا چاہو اور اسے منزلِ مقصود تک پہنچانے سے کتر اؤ تو یہ نہ سمجھنا کہ یہ بوجھ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکے گا، یہ تمہاری غلط فہمی ہو گی، یہ افتخار ایک دوسری قوم کو نصیب ہوجائے گا۔

مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ (تم میں جو کوئی اپنے دین سے پلٹ گیااور مرتد ہوگیا، تو خدا وندِ عالم ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا، جن سے خود خداکومحبت ہوگی اور وہ بھی خداسے محبت کرتے ہوں گے )

کیا ہم خدا سے محبت کرنے والے لوگوں میں سے ہیں ؟

بسا اوقات ہم اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کرتے ہیں، جن سے خدا کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ کیاہمارے یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں ؟

اس بارے میں قرآنِ کریم میں ایک نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگرتم لوگ خدا سے محبت کرتے ہو، تو میری اتباع کرو، تاکہ خدا بھی تم سے محبت کرے ۔سورۂ آلِ عمران ۳۔ آیت ۳۱)

پس :یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ ۔ یعنی وہ لوگ احکامِ الٰہی کے سو فیصدتابع ہوں گے اور خدا بھی

ان سے محبت کرتا ہوگا اوریہ ایک دو طرفہ خاصیت ہے ۔

اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْن، اِن لوگوں میں پائی جانے والی صفات میں سے ایک اور صفت یہ ہے کہ یہ مومنین کے لئے منکسر اورخاکسارہیں۔ یہ خاکساری مومنین کے ساتھ اُن کے انتہائی گہرے بندھن اور تعلق کی علامت ہے ۔ ان لوگوں میں عام مسلمانوں کے سامنے کسی قسم کی نخوت، غروراور خوامخواہ کی خود پسندی نہیں پائی جاتی ۔یہ جب لوگوں کے سامنے آتے ہیں، توانہی کا حصہ بن جاتے ہیں، لوگوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں، انہی کے ہمراہ اور ہم سفر ہوتے ہیں، لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، اپنے آپ کو لوگوں سے علیحدہ نہیں کرتے، ایسا نہیں ہوتا کہ لوگوں سے فاصلے پر رہتے ہوں اور کبھی کبھار ان سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوں:اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (مومنین کے سامنے خاکساراور منکسر) اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ َ (کفار، دشمنانِ دین اورمخالفینِ قرآن کے مقابل، سراٹھا کے کھڑے ہوتے ہیں) یعنی اُن سے متاثر اور مرعوب نہیں ہوتے، اُن کے سامنے سر اٹھا کے رکھتے ہیں اورانہوں نے اپنے گرد فکرِ اسلامی کاایک ایسا حصار اور دائرہ کھینچا ہو اہوتا ہے کہ کسی صورت کفارسے متاثر نہیں ہوتے ۔

یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔ ان کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ یہ لوگ انتہائی بہادری اوردلاوری کے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کرتے ہیں۔جیسا کہ آیت میں ہے :وَ لااَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لااَآءِمٍ ( کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوتے) ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (یہ خدا کا وہ لطف، فضل اور تفضل ہے، جو وہ جسے چاہتا ہے عطاکرتا ہے، اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم ودانا ہے۔سورۂ مائدہ۵۔آیت۵۴)

بعد والی آیت اس قلب، اس امام اوراس پیشواسے اسلامی معاشرے کے مختلف حصوں کے تعلق کے بارے میں ہے ۔

خوب غور کیجئے، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ مسائل جن کے بارے میں اکثر یہ تصورپایا جاتا ہے کہ وہ قرآنی مسائل نہیں ہیں، اُن کے بارے میں قرآن کس طرح صراحت اور بلاغت کے ساتھ گفتگو کررہا ہے ۔

(قرآنِ کریم نے ) بیرونی روابط کے بارے میں گفتگو کی، اندرونی روابط کے بارے میں بات کی، اب اندرونی روابط کے مرکز ی نکتے، یعنی امام اورپیشوا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، قائد اور رہبرکے متعلق بات کرتا ہے : ”اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اﷲُ ۔“ولی اور قائمِ امر، وہ ہستی جسے اسلامی معاشرے اور امتِ اسلامیہ کی تمام سرگرمیوں کامحور ومرکز ہونا چاہئے، اور ان کے بارے میں اسی سے ہدایات لینی چاہئیں، وہ خدا ہے، لیکن خدا مجسم ہو کر تو لوگوں کے درمیان نہیں آ سکتا اورانہیں بنفسِ نفیس امر و نہی تو نہیں کر سکتا۔ پس پھریہ محور ومرکز کون ہے ؟ ” وَ رَسُوْلُہٗ۔“ واضح ہے کہ رسول اور خدا کے درمیان کسی قسم کی رقابت اور تنازع نہیں ۔ پیغمبر، خدا کا نمائندہ ہے ۔

لیکن جیسا کہ قرآنِ کریم نے کہا ہے : اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ۔(۱) رسول بھی ہمیشہ باقی نہیں رہے گا ۔

پس رسول کے بعدیہ ذمے داری کس کی ہوگی اسے بھی واضح ہونا چاہئے ۔لہٰذا خدا وندِ عالم اُن ہستیوں کا تعارف کراتا ہے:

وَالَّذِیْنَٰامَنُوا (اوروہ لوگ جو ایمان لائے )

لیکن کیا کسی کا بھی صرف صاحبِ ایمان ہوناکافی ہوگا ؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔اُس میں دوسری صفات بھی پائی جانی چاہئیں :

الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں )

وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ (اورجو رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہیں )

۱۔پیغمبر آپ کو بھی مرنا ہے اور اِن سب نے بھی مرجاناہے۔سورۂ زمر۳۹۔آیت۳۰