ولی (امام ) کی خصوصیات
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
کوئی معاشرہ اگریہ چاہے کہ اُسکی تمام طاقتیں ایک نکتے پر مرکوز ہوں، اُسکی کوئی توانائی ضائع نہ جائے اور اُسکی تمام قوتیں یکجا ہو جائیں (اپنے مخالف گروہوں، صفوں اور قوتوں کے مقابل ایک بند مٹھی کی صورت کام کریں ) توایسے معاشرے کو ایک مرکز ی قوت کی ضرورت ہے، اس کا ایک دل اور ایک قلب ہونا چاہئے۔
البتہ اس مرکز اور اس قلب میں کچھ خصوصیات ہونی چاہئیں۔اسے انتہائی دانا ہونا چاہئے، قوتِ فیصلہ کا مالک ہونا چاہئے، ایک اندازِ فکر کا حامل ہونا چاہئے، اسے راہِ خدا میں کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، اور بوقتِ ضرورت اپنے آپ کو بھی فدا کر دینے پر تیارہونا چاہئے ۔
ہم ایسی ہستی کو کیا نام دیتے ہیں ؟
ہم اسے امام کہتے ہیں۔
امام، یعنی وہ حاکم اور رہنما، جو پروردگارِ عالم کی طرف سے اس معاشرے کے لئے معین کیا گیا ہو ۔اسی طرح جیسے خدا وندِ متعال نے حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں فرمایا : اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔(۱) یعنی میں نے آپ کو لوگوں کے لئے امام مقرر کیا ہے ۔
لیکن یہ جو ہم کہتے ہیں کہ امام کا تعین خدا کی طرف سے ہونا چاہئے، اس کی دوصورتیں ہیں : یاتو خدا امام کو نام اور نشان کے ساتھ معین کرتا ہے ۔ جیسے پیغمبر اسلام ؐنے امیر المومنین حضرت علی ؑ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ اور بقیہ ائمہؑ کو معین کیا ہے ۔ یا پھر خدا ئے متعال، امام کو نا م کے ساتھ معین نہیں کرتا، بلکہ صرف نشان کے ذریعے معین کرتا ہے، جیسے امام ؑ کا یہ فرمانا کہ:
فَاَمّا مَنْ کٰانَ مِنَ الْفُقَھٰاءِ صٰاءِناً لِنَفْسِہِ حٰافِظاً لِدِیِنِہِ مُخٰالِفاً عَلیٰ ھُوٰ اہُ مُطِیعاً لاَ مْرِمَوْلاٰہُ فَلِلْعَوامِ اَنْ یُقَلِّدُوہُ۔
علمائے دین میں سے جو کوئی اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو، اپنے د ین کی حفاظت کرتا ہو، جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو کچلا ہوا ہو اور خدا کے احکام (خواہ وہ انفرادی احکام ہوں خواہ اجتماعی ) کا مطیع ہو، تولوگوں کو چاہئے کہ اس کی تقلید (پیروی) کر یں ۔ (وسائل الشیعہ ۔ج ۱۸ ۔ص ۹۵)
اس روایت میں امام ؑ نے بغیر نام لئے ایک رہبر و رہنما کی خصوصیات اور علامات کا تعین کیا ہے ۔جو کوئی ان علامات پرپورااترتا ہو، وہ رہبر و رہنما ہو گا۔
ہم آپ کی خدمت میں لفظ ”امام“ کے معنی بیان کرنا چاہتے ہیں۔امام، یعنی پیشوا، یعنی حاکم، یعنی حکمراں، یعنی وہ ہستی جو جس طرف جائے لوگوں کو اسکے پیچھے پیچھے چلناچاہئے، جسے خدا کی طرف سے ہوناچاہئے، جسے عادل ہوناچاہئے، منصف ہوناچاہئے، دیندارہوناچاہئے، عزم و
ارادے کا مالک ہونا چاہئے اور اسی طرح کی اور باتیں جو امام کے حوالے سے ہیں، جن کی تفصیل میں جانے کا فی الحال موقع نہیں ہے۔
پس ولایت کے قرآنی اصول کی رو سے، امام کا وجود لازم ہے ۔اور اگر یہ عظیم الشان پیکر، جس کا نام امتِ اسلامی ہے، زندہ، کامیاب و کامران اور ہمیشہ مضبوط و مستحکم رہنا چاہتا ہے، تو اُس کا اِس متحرک اورپُر ہیجان قلب اور ہمیشہ مستحکم اور قدرت مند مرکز سے ربط ضروری ہے ۔
پس ولایت کے دوسرے مظہر کے معنی ہیں امتِ اسلامیہ کے ہر فرد کا، ہر حال میں اس قلبِ امت سے محکم اورمضبوط رابطہ ۔یہ رابطہ فکری بھی ہونا چاہئے اور عملی بھی۔ امام کو نمونۂ عمل قرار دینا، افکار و نظریات میں اسکی پیروی کرنا اور افعال، رفتار، سرگرمیوں اور اقدامات میں ٹھیک ٹھیک اس کے نقشِ قدم پر چلنا ولایت ہے ۔
لہٰذا علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے افکار اور اپنے افعال میں علی ؑ کے پیرو ہوں، آپ کے اور علی ؑ کے درمیان ایک مضبوط، مستحکم اور اٹوٹ بندھن قائم ہو۔ آپ علی ؑ سے جدا نہ ہوں۔ یہ ہیں ولایت کے معنی۔یہی وہ مقام ہے جہاں ہم اس حدیث کے معنی سمجھ سکتے ہیں کہ :
وِلاٰیَۃُ عَلیِّ ابْنِ اَبیطالبٍ حِصْنی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی اَمِنَ مِنْ عَذابی۔
علی ابن ابی طالب کی ولایت میرا قلعہ اور حصار ہے، جو کوئی اس حصار میں داخل ہوگا، وہ خداکے عذاب سے محفوظ رہے گا ۔
یہ ایک انتہائی خوبصورت حدیث ہے۔ یعنی اگر مسلمان اور قرآنِ کریم کے پیروکار افراد فکری اور نظریاتی لحاظ سے، عمل، جدوجہداور سرگرمیوں کے اعتبار سے علی ؑ کے ساتھ وابستہ ہوں، تو خدا کے عذاب سے امان میں رہیں گے ۔
ایک ایسا شخص جو قرآنِ کریم کو ناقابلِ فہم سمجھتا ہو، وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت رکھتا ہوں، اور فکری لحاظ سے علی ؑ کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں ؟جبکہ علی ابن ابی طالب ؑ نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں فرماتے ہیں :
وَاعْلَمُوا اَنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ ھُوَالنّٰا صفحُ الَّذِی لاٰ یَغُشُّ، وَالْھادِی الَّذِی لاٰ یُضِلُّ، وَالْمُحَدِّثُ الَّذِی لاٰ یَکْذِبُ، وَمٰاجَالَسَ ھٰذَا الْقُرآنَ اَحَدٌ اِلّا قٰامَ عَنْہُ بِزِیٰادَۃٍ اَوْنُقْصٰانٍ، زِیٰادَۃٍ فی ھُدیً وَنُقْصٰانٍ مِنْ عَمیً۔
اور جان لو کہ یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو فریب نہیں دیتا، ایسا رہنما ہے جو گمراہ نہیں کرتا اورایسا کلام کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بھی اس قرآن کے ساتھ بیٹھا، وہ اس کے پاس سے ہدایت میں اضافہ اور گمراہی میں کمی کرکے اٹھا ۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۴)
علی ؑ، قرآن مجید کا اس طرح تعارف کراتے ہیں اور لوگوں کو اسکی جانب مائل کرتے ہیں ۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں، کیا وہ علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت رکھتا ہے؟
ہر گز نہیں ۔
علی ؑ راہِ خدامیں اپنا پورا وجود فدا کرنے پر تیار ہیں۔ یہ ہے علی ؑ کا کردار۔ جبکہ یہ شخص راہِ خدا میں اپنا ایک پیسہ، اپنی جان، اپنا معاشرتی مقام، اپنی راحت وآرام، اپنی قیادت وسرداری قربان کرنے کو تیار نہیں۔ کیا ایسا شخص علی ؑ کی ولایت رکھتا ہے ؟!
علی ؑ کی ولایت ایسا شخص رکھتا ہے، جس کا فکری اورنظریاتی لحاظ سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی علی ؑ کے ساتھ اٹوٹ بندھن قائم ہو۔
اگر آپ درست طور پر غوروفکر کریں، تو ولایت کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں، وہ ولایت کے کئے جاسکنے والے دقیق ترین اور ظریف ترین معنی ہیں۔
اب ذرا غورفرمائیے گا، ہم قرآنِ کریم کی سورۂ مائدہ سے کچھ آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ان آیات میں ولایت کے ایجابی پہلو، یعنی داخلی تعلق کے قیام کا ذکربھی ہوا ہے، اور ولایت کے سلبی پہلو، یعنی خارجی تعلقات کے توڑنے کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی ان آیات میں ولایت کا وہ دوسرا پہلو، یعنی ولی کے ساتھ اتصال وارتباط بھی بیان کیا گیا ہے ۔ولی، یعنی وہ قطب، یعنی وہ قلب، یعنی وہ حاکم اور امام ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ۔
اے صاحبانِ ایمان! یہود و نصاریٰ کو ( یہود یوں اور عیسائیوں کو) اپنا اولیاء نہ بناؤ ۔
اَوْلِیَآء، ولی کی جمع ہے ۔ولی ولایت سے ماخوذ ہے ۔ولایت یعنی پیوستگی، ولی یعنی پیوستہ اور جڑا ہوا ۔یہود و نصاریٰ کو اپنے سے نہ جوڑو، ان سے منسلک نہ ہو، انہیں اپنے لئے اختیار نہ کرو
بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْض (اِن میں سے بعض، بعض دوسروں کے اولیا اور ان سے جڑے ہوئے ہیں )
یہ نہ سمجھو کہ وہ علیحدہ علیحدہ بلاکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن کی زبان میں وہ تمہارے دین کی مخالفت میںیکجا ہیں۔بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْض (یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں )
وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ (تم میں سے جو کوئی ان سے تولیٰ کرے گا، توبے شک وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا )
تولیٰ (تفعل کے باب سے )، یعنی ولایت کو قبول کرنا ۔جو کوئی ان کی ولایت کے دائرے میں قدم رکھے گااور اپنے آپ کو ان سے منسلک کرے گا، وہ اُن ہی میں سے ہوگا۔
اِنَّ اﷲَ لااَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (بے شک خدا ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرے گا )
۱۔سورۂ بقرہ۲۔آیت۱۲۴