ولایت - چھ تقریریں

دوسری تقریر: امتِ اسلامیہ کے باہمی تعلقات

ولایت - چھ تقریریں   •   رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای

اندرونی اور بیرونی تعلقات

اسلامی معاشرہ اور وہ سماج جو امتِ اسلامی کے طورپر تشکیل دیاگیا ہے، اور جسے احکامِ الٰہی اور الٰہی افکار کی بنیاد پر خدا کی معین کردہ مقتدرقوت (authority) کے توسط سے قانون سازی اور ان قوانین کے اجرا ونفاذ کے ذریعے چلایا جاتا ہے، اگر یہ امتِ اسلامی اُس قرآنی معنی میں ولایت کی حامل ہونا چاہے اور اپنے لئے اس کابندوبست کرنا چاہے جس کا ذکر ہم نے اس سے پہلے والی تقریر میں کیاہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ دو پہلو ؤں کا خیال رکھے۔ایک پہلو اسلامی معاشرے کے اندر ونی روابط ہیں، اور دوسرا پہلواس کے بیرونی روابط۔ یعنی عالمِ اسلام اور اسلامی معاشرے کے دوسرے معاشروں اور دوسری اقوام سے روابط و تعلقات۔

اندرونی تعلقات اور روابط کے حوالے سے ( عرض ہے کہ)امتِ اسلامیہ اُس وقت قرآنی معنی کے اعتبار سے ولایت کی حامل ہوگی جب اُس کی صفیں آپس میں پیوست، متصل اور جڑی ہوئی ہوں اور اُس کے مختلف ارکان اورگروہوں کے درمیان مکمل اتحاد واتفاق پایا جاتا ہو، پوری امتِ اسلامیہ میں کوئی تفرقہ اور اختلاف موجود نہ ہو، اور اس کے اندر مختلف صف بندیاں نہ پائی جاتی ہوں۔

اگر امتِ اسلامیہ کے اندر دو دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوں، تو قرآنی حکم یہ ہے کہ بقیہ مسلمانوں کو ان دو دشمنوں اور باہم بر سرِ جنگ گروہوں کے درمیان صلح و آشتی کے قیام کی حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہئے ۔

اگر وہ دیکھیں کہ ان دو متحارب گروہوں میں سے ایک صلح و آشتی پرآمادہ ہے، لیکن دوسرا اس پر تیار نہیں، یا اُن میں سے ایک کی بات ناحق ہے، جبکہ دوسرا حق بجانب ہے، اور جس گروہ کی بات ناحق ہے وہ حق بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں، تو اس موقع پر تمام عالمِ اسلام کو چاہئے کہ وہ اس ظالم گروہ کے خلاف یکجا ہوجائے، اُس سے جنگ کرے، یہاں تک کہ وہ گھٹنے ٹیک دے ۔

سورۂ حجرات کی نویں آیت میں خداوندِ عالم کاارشاد ہے :

وَ اِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا (اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جھگڑپڑیں، تو تم ان کے درمیان صلاح کراؤ)

فَاِنْ بَغَتْ اِحْداٰاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ (اگر ان دو گروہوں میں سے ایک گروہ نے دوسرے پر ظلم کیاہو، یعنی جارحیت اور ظلم روا رکھاہو، بدمعاشی کرناچاہی ہو، زور زبردستی کرنا چاہتاہو، تو اسکے خلاف جنگ کرو)

حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِلآی اَمْرِ اﷲِ(یہاں تک کہ وہ فرمانِ خداکی طرف پلٹنے پر مجبور ہوجائے)حکمِ خدا قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔

خداوند عالم کا یہ حکم اسلامی معاشرے کے اندراتحاد واتفاق کی حفاظت کے لئے ہے ۔

بیرونی روابط کے حوالے سے(عرض ہے کہ) امتِ اسلامیہ کو غیر مسلم دنیا اور اپنی امت سے باہر کے لوگوں کے ساتھ اپنے روابط اور تعلقات کواس طرح ترتیب دینا چاہئے کہ امتِ اسلامیہ ذرّہ برابر اُن کے زیرِ کنٹرول اور اُن کے افکار کے زیرِاثر نہ ہواور اُن کی سیاست کی معمولی سی بھی تاثیر قبول کرکے اپنی خود مختاری سے دستبردار نہ ہو ۔

مسلمانوں کا ایک قوم کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ایک کیمپ میں شامل ہونااور اُن سے پیوست ہوجانا قطعاً ممنوع ہے ۔

ایک معروف داستان ہے جس کا ذکرقابلِ اعتبار شیعہ کتب میں آیا ہے، اور جو امام جعفر صادق یا امام محمدباقر صلوات اﷲ علیہما کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔اُس زمانے میں عالمِ اسلام کا سکّہ (coin) روم میں ڈھلتا تھا۔ اس سلسلے میں روم نے کوئی دھمکی دی جس سے مسلمانوں کے لئے ایک مشکل کھڑی ہوگئی ۔ اس موقع پر امام ؑ نے خلیفۂ وقت کی رہنمائی کی ۔عجیب بات ہے۔ ہماری نظر سے فقط ایک، دو انتہائی استثنائی مواقع ہی ایسے گزرے ہیں جن میں ائمۂ ہدیٰ نے حکام کے ساتھ کچھخوش روئی کا مظاہرہ کیا ہو۔اُن میں سے ایک یہ مقام ہے کہ جہاں امام ؑ نے حکام کی رہنمائی کی اور فرمایا کہ اس طرح سے(اپنا) سکّہ ڈھالو ۔کیونکہ وہ لوگ چاندی کے سکّے کی ڈھلائی کا طریقہ نہیں جانتے تھے۔

لہٰذا بیرونی روابط کے میدان میں، غیر اسلامی گروہوں، بالخصوص اسلام دشمنوں کی ذرّہ برابرتاثیر قبول کرنا بھی ممنوع ہے ۔اسلامی معاشرے اور امتِ اسلامیہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیر مسلم دنیا سے اس پر بالا دستی کے سواکسی اورصورت سے روابط برقرار کریں ۔یعنی اگر ایسا ہو کہ امتِ اسلامیہ اور ایک غیر اسلامی حکومت کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم کیا جائے جس میں امتِ ِ اسلامیہ استحصال کا شکار ہو، جیسے تمباکو والے واقعے میں ہوا تھا، جسے آپ سب نے سن اور پڑھ رکھا ہے، تو عالمِ اسلام کو ایسے کسی تعلق کے قیام کا حق حاصل نہیں ہے ۔اسی طرح ہندوستان کے سلاطین اور مغل حکمرانوں نے بیرونی ممالک کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وہاں آئیں اوراپنی کمپنیاں قائم کریں۔ یہ ناجائزاور عالمِ اسلام کی ولایت کے برخلاف عمل ہے ۔انہیں یہ بات جاننی چاہئے تھی، اور سب کو جاننا چاہئے کہ جب ایسٹ انڈیاجیسی کمپنیاں اُن کی سرزمین میں داخل ہوں گی، تو وہ وہاں کے رہنے والوں پر کیا کیا بلائیں نازل کریں گی اور اس عظیم براعظم کی رگ وپے میں استعمار کوکس قدرنفوذ بخشیں گی ۔عالمِ اسلام اور امتِ اسلامیہ کو کسی صورت اس قسم کے روابط اور تعلقات کے قیام کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ بات پیشِ نظر رہے، کہ جب ہم غیر مسلم حکومتوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات نہ رکھنے کی بات کرتے ہیں، تو اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ عالمِ اسلام اور امتِ اسلامیہ سیاسی طور پردنیا سے الگ تھلک ہو جائے ۔یہ سیاسی گوشہ نشینی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ کہیں آپ یہ خیال نہ کریں کہ عالمِ اسلام کو نہ کسی سے تجارتی تعلقات رکھنے چاہئیں، نہ سیاسی روابط اور نہ سفارتی تعلقات، نہ اُسے کہیں اپنے سفیر بھیجنے چاہئیں، نہ کسی کے سفیر قبول کرنے چاہئیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہے ۔اُسے دوسروں کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنے چاہئیں، لیکن اُن کے ساتھ ولایت نہیں رکھنی چاہئے، اُن کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہئے، اُن کے ساتھ کوئی ایسا تعلق نہیں رکھنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ جب چاہیں عالمِ اسلام کو اپنے زیر اثر لے سکیں۔

پس قرآنی ولایت کے دومظہرہیں۔اس کاایک مظہریہ ہے کہ اسلامی معاشرے کے اندر تمام عناصر ایک مقصد، ایک سمت اور ایک راہ پر گامزن ہوں، اور دوسرا یہ ہے کہ امتِ اسلامیہ اسلامی معاشرے سے باہر تمام اسلام مخالف عناصر اور گروہوں سے اپنا رشتہ توڑ لے ۔

اس مقام پر ایک انتہائی باریک نکتہ موجود ہے، جو بتا تا ہے کہ لفظ ولایت کے قرآنی مفہوم کی رو سے ولایت کامفہوم وہی ہے جس کے شیعہ قائل ہیں ۔

یہ جو شیعیت میں امام کے ساتھ تعلق کو اس قدر اہمیت دی جاتی ہے، یہ جو ہم امام کے فرمان کو معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ سمجھتے ہیں، یہ کس مقصد کے لئے ہے اور اسکی بنیاد کیا ہے ؟

یہاں قرآنِ کریم ہم سے کہتا ہے کہ اگر ایک معاشرہ اورایک امت اس مفہوم میں قرآنی ولایت کی حامل ہو نا چاہتی ہو، یعنی اگر چاہتی ہو کہ اسکی تمام اندرونی طاقتیں، ایک سمت، ایک مقصد کی جانب اور ایک راہ پر گامزن ہوں، اگریہ چاہتی ہو کہ اسکی تمام داخلی قوتیں اس سے باہر موجوداسلام مخالف طاقتوں کے خلاف صف آرا ہوں، تو اسے اسلامی معاشرے میں طاقت کے ایک مرکزی نقطے کی ضرورت ہے، ایک ایسے محور کی ضرورت ہے جس سے اسکی تمام داخلی قوتیں منسلک ہوں، سب اسی سے ہدایت حاصل کرتی ہوں، سب اسی کی بات سنتی ہوں، اسی کی بات مانتی ہوں، اور وہ امت کی تمام مصلحتوں اور اسکے نقصان میں جانے والے تمام امور سے واقف ہو، تاکہ وہ ایک طاقتور، دور اندیش اور با بصیرت سپہ سالار کی طرح محاذِ جنگ پر ہر ایک کو اسکے مخصوص کام پر متعین کرے۔

ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک رہبر، ایک سپہ سالار اور ایک مرکز ی قدرت موجود ہو، جو یہ بات جانتی ہو کہ تم سے کیا بن پڑے گا، مجھ سے کیا ہوسکے گا، دوسرے انسان کیا کر سکیں گے، تاکہ وہ ہر ایک کو اسکی قابلیت کے مطابق کام سپرد کرے۔مثلاً بطورِ تشبیہ عرض ہے کہ کیا آپ نے قالین بافی کا کارخانہ دیکھاہے ؟ کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھ کر قالین بُنتے ہیں، ہر ایک شخص کام کرتا ہے، وہاں بیٹھا ہوا ہر بچہ اور ہر بڑا دھاگے سے بنائی کا کام کرتا ہے۔ اگر ان کا یہ کام ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہو، اگر ان کے اوپر ایک بالادست اتھارٹی نہ ہو، جوانہیں قالین کا ڈیزائن بتائے، اسکے بارے میں مخصوص ہدایات جاری کرے، تاکہ انہیں پتا چل سکے کہ انہوں نے کونسے دھاگے سے کام لینا ہے، اُسے کیسے پرونا اور کس انداز سے لے کر چلنا ہے۔اگر کوئی ایسی مرکزی اتھارٹی نہ ہو، تو پتا ہے یہ قالین کیسا بن کر تیار ہوگا؟آپ دیکھیں گے کہ اس کا دایاں حصہ مشرقی انداز کا ہے اور بایاں حصہ مغربی طرز کا، قالیچے کا ایک طرف کردی انداز کا ہے اور دوسرا طرف ترکمانی انداز کا، اس طرح ایک بے ترتیب نقش و نگارکی حامل اور ایک ناگوار قسم کی چیز بن کر تیار ہوگی ۔یہ جو آپ قالیچوں میں ایک خاص انداز، توازن اور ترتیب دیکھتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اسکی تیاری کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہوتی ہیں اور دوسرے ایک شخص مسلسل ان ہدایات کی جانب متوجہ کررہا ہوتا ہے۔