ولایت - چھ تقریریں

ولایت رکھنے والا معاشرہ کیسا ہوتا ہے ؟

ولایت رکھنے والا معاشرہ وہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں اولاً تو ولی متعین ہو، اور ثانیاً وہ ولی اس معاشرے کی تمام قوتوں، تمام سرگرمیوں اور تمام فعالیتوں کا سرچشمہ اور مرکزِ ہدایت ہو، ایک ایسانقطہ ہو، جس پرسماج کے چھوٹے بڑے دھارے آکر ملتے ہوں، ایک ایسا مرکز ہو جس سے تمام احکام وفرامین جاری ہوتے ہوں، جوتمام قوانین کا اجراونفاذ کرتا ہو، سب کی نگاہیں اسی کی طرف لگی رہتی ہوں، سب اسی کی پیروی کرتے ہوں، زندگی کا انجن وہی اسٹارٹ کرتا ہو، کاروانِ حیات کا قافلہ سالار وہی ہو ۔ ایسا معاشرہ، ولایت رکھنے والا معاشرہ کہلائے گا۔

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد پچیس برس تک معاشرے کی باگ ڈورامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ پیغمبرؐ کے بعد پچیس سال تک اسلامی معاشرہ ولایت کے بغیر رہا تھا۔اس معاشرے میں کچھ مسلمان ولایت کے حامل تھے، ابوذرؓ ذاتی طور پر ولایت کے حامل تھے، مقدادؓ ذاتی طور پر ولایت رکھتے تھے، کچھ اور لوگ ذاتاً ولایت کے مالک تھے، لیکن اسلامی معاشرہ ولایت کا حامل نہ تھا ۔یہاں تک کہ اسلامی معاشرے پر حضرت علی ؑ کی حکومت قائم ہوئی اور اسلامی معاشرہ ولایت کا حامل ہوگیا۔

جب معاشرے میں امرونہی کا مرکزامام ؑ ہو، جب تمام امور کی باگ ڈورامام ؑ ہی کے ہاتھ میں ہو، جب عملاً معاشرے کانظم ونسق امام ؑ کے اختیار میں ہو، جب امام ؑ ہی جنگ کا حکم دے، جب امام ؑ ہی حملے کا فرمان جاری کرے، جب امام ؑ ہی صلحنامہ تحریر کرے، توایسی صورت میں معاشرہ ولایت کا حامل ہوتاہے۔بصورتِ دیگر معاشرہ ولایت کا حامل نہیں ہوتا ۔

اگر آپ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوں، تو خدا کا شکر ادا کیجئے ۔اگریہ نعمت آپ کو میسّرہو، تو خدا کا شکربجا لایئے ۔کیونکہ ولایت کی نعمت سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں۔ اور اگرآپ کو ایسا معاشرہ میسّر نہیں، تو اسکے قیام کے لئے کوشش کیجئے اور اپنی ذات میں اور انسانی معاشرے میں ولایت قائم کیجئے۔

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ علی ؑ کی طرح زندگی بسر کریں، کوشش کرنی چاہئے کہ علی ؑ کے نقشِ قدم پر چلیں، کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اور علی ؑ کے درمیان، جو خدا کے ولی ہیں تعلق قائم کریں۔

ان باتوں کے لئے کوشش کی ضرورت ہے، جدوجہد کی ضرورت ہے، ان کے لئے خونِ دل پینا پڑتا ہے۔اُسی طرح جیسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ائمۂ ہدیٰ علیہم السلام نے ولایت کے لئے جدوجہد کی، اسکے لئے صعوبتیں اٹھائیں ۔

ائمہ ؑ نے ولایت کو زندہ کرنے اوراسلامی معاشرے کے احیا کے لئے بھرپور جد وجہد کی، تاکہ وہ پودہ جوانسان کے نام سے اس زمین اور اس باغ میں کاشت ہوا ہے، ولایت کے جاں بخش اورحیات آفریں خوشگوار پانی سے اُس کی نشوونما کریں ۔ائمہ ؑ نے اس مقصد کے لئے کوشش کی۔ معاشرے میں ولایت کے قیام کے لئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اسلام کے ولی کو قوت بخشنے کے لئے ہمیں کیا کام کرنے چاہئیں ۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا، کبھی علی ابن ابی طالب ؑ، حسن ابن علی ؑ، حسین ابن علی ؑ، علی ابن حسین ؑ سے لے کر امامِ آخر تک تمام ائمہؑ اپنے ناموں اور خصوصیات کے ساتھ معین ہوتے ہیں اورکبھی ایسا ہوتا ہے کہ ولی کا تعین نام کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ ایک ولی کے توسط سے یا بعض صفات بیان کرکے اُس کا تعین کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے :

اَمَّا مَنْ کٰانَ مِنَ الْفُقَھٰاءِ، صٰاءِناً لِنَفْسِہِ حٰافِظاً لِدِیِنِہِ مُخٰالِفاً عَلیٰ ھَوٰاءُ مُطِیعاًلِاَمْرِمَؤلَاٰہُ فَلِلْعَوَامِ اَنْ یُقَلِّدُوہُ۔

فقہا میں سے جو فقیہ اپنے نفس پر مسلط ہو، خدا کے دین کامحافظ ہو، نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتاہواوراحکامِ الٰہی کا مطیع و فرمانبردارہو، توعوام کو چاہئے کہ اسکی تقلید کریں ۔ (وسائل الشیعہ۔ج۱۸۔ ص۹۵)

ان خصوصیات کو بیان کر کے ولی کاتعین کیاگیا ہے، اور یہ تعین بھی خدا کی طرف سے ہے۔ ہاں، اُس ولی کو نام لے کر معین کیا گیا ہے اور اِس ولی کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔آپ نے خود حساب کیا، اندازہ لگایا، نمونہ تلاش کیا، حضرت آیت اﷲ العظمیٰ آقائے بروجردی نظر آئے۔

جب انسان اپنا مقصد یہ بنائے کہ وہ معاشرے میں اسلامی قوانین اور الٰہی فرامین کااس انداز سے اِحیا کرے گا، اُنہیں اس طرح زندہ کرے گا جس طرح ولایت تقاضا کرتی ہے، تو پھر وہ اس مقصد کے لئے جدوجہد کرتاہے، اور اسکے لئے راستے اور طریقے تلاش کرتا ہے۔ فی الحال ہماری گفتگوراستوں اور طریقوں کے بارے میں نہیں ہے ۔

ایسا معاشرہ جو ولایت کا حامل ہوجائے، وہ ایک ایسے مُردے کی مانند ہے جس میں جان پڑگئی ہو۔ آپ ایک بے جان مُردے کا تصور کیجئے۔اس کا دماغ ہے لیکن کام نہیں کرتا، آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتی نہیں، دَہان ہے لیکن غذا نگل نہیں سکتا، معدہ، کلیجہ اور نظامِ ہضم ہے لیکن غذا کوہضم نہیں کرتا، رگ ہے جس میں خون ہے لیکن خون رواں نہیں ہے، ہاتھ ہیں لیکن ایک چھوٹی سی چیونٹی کو بھی اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتا۔

ایسا کیوں ہے ؟

ایسا اس لئے ہے کہ اُس میں جان نہیں ہے ۔لیکن جب اس میں جان ڈال دی جاتی ہے، تواس کا دماغ کام کرنے لگتا ہے، اعصاب کام کرنے لگتے ہیں، اسکے ہاتھ چیزوں کو گرفت میں لینے لگتے ہیں، اس کادَہان کا م کرنے لگتاہے، معدہ ہضم کرنے لگتا ہے، نظامِ ہضم جذب کرنے لگتا ہے، خون گردش کرنے لگتا ہے اور رواں ہوکر پورے بدن کوطاقت فراہم کرنے لگتا ہے، بدن کو گرم کرتا ہے، اسے کوشش اور جدوجہد پر لگاتا ہے، اور انسان چلتا ہے، دشمن کو مارتا ہے، دوستوں کو جذب کرتا ہے، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ کامل کرتا ہے ۔

ایک معاشرے میں ولایت کی اہمیت سمجھنے کے لئے آپ اس مثال کواپنی نگاہوں کے سامنے رکھئے۔ مُردہ جسم ہٹا کراُس کی جگہ انسانی معاشرہ لے آیئے، جان اور روح کی جگہ ولایت کو رکھ دیجئے ۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ولایت نہ ہو، اُس میں صلاحیتیں ہیں لیکن ناکارہ ہوجاتی ہیں، برباد چلی جاتی ہیں، نابود ہوجاتی ہیں، ضائع چلی جاتی ہیں، یا اس سے بھی بدتر یہ کہ انسان کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ دماغ ہوتا ہے اور سوچتا ہے، لیکن فساد پھیلانے کی بابت، انسان کشی کی بابت، دنیا کو جلا ڈالنے کی بابت، انسانوں کو برباد کر دینے کے بارے میں، استحصال، استبداد اور استکبار کی جڑیں مضبوط کرنے کے بارے میں ۔اُس کی آنکھیں ہوتی ہیں لیکن جو چیزیں اسے دیکھنی چاہئیں اُنہیں نہیں دیکھتا اور جنہیں نہیں دیکھنا چاہئے اُنہیں دیکھتا ہے۔اُس کے کان ہوتے ہیں لیکن حق کی بات نہیں سنتا۔اُس کے اعصاب حق کی بات کو دماغ تک پہنچاتے ہیں لیکن دماغ اعضاو جوارح کو حق کے مطابق حکم نہیں دیتا، اعضا و جوارح حق کے مطابق عمل انجام نہیں دیتے، دنیا کے حالات انسان کو حق کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔

بے ولایت معاشرے میں چراغوں کی لَو بلند نہیں ہوتی اور اُن کی روشنی نہیں بڑھتی ۔ اگر اُن میں تیل کا کوئی قطرہ ہوتا بھی ہے تو وہ ختم ہوکر یکسر خشک ہوجاتا ہے۔ وہ چراغ جنہیں پیغمبر ؐنے تیل فراہم کیا تھا، وہ بجھنے لگتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ وہ کیسے خشک ہوئے۔

آپ نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ دنوں تک ان چراغوں کی لَو بلند تھی، یہ روشنی پھیلا رہے تھے، ماحول کو منور کر رہے تھے، کیونکہ انہیں پیغمبرؐ نے تیل دیا تھا ۔لیکن کیونکہ ان چراغوں اور مشعلوں کے سر پر ولایت کا سایہ نہیں تھا، لہٰذاان کا تیل تہ میں بیٹھ گیا، خشک ہوگیا، اِن سے دھواں اٹھنے لگا، اِن کی روشنی مدہم ہوگئی، یہاں تک کہ معاویہ کا دور آگیا جنہوں نے اسلامی معاشرے کی باگ ڈوریزید کے سپرد کردی، اور پھر آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا ۔

وہی باتیں جوحضرت فاطمہ زہراعلیہاالسلام نے انصار اور مہاجر خواتین سے کہی تھیں، لیکن انہوں نے سنی اَن سنی کردی تھیں۔اُن ابتدائی ایام میں فاطمۃ الزہرا ؑ نے جو پیش گوئیاں کی تھیں، لیکن اُس دور کے غافل لوگوں نے نہ انہیں سنا نہ سمجھا، وہ تمام کی تمام پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔وہ ”سیفِ صارم“ وہ خونریز شمشیر، وہ تلوار جو حقیقتوں اور فضیلتوں کو قتل کررہی تھی، وہ ہاتھ جو انسان اور انسانیت کا گلاگھونٹ رہے تھے، ان سب کے متعلق فاطمہ زہراؑ نے بتادیا تھا، بلکہ اُن سے بھی پہلے پیغمبر ؐنے آگاہ کر دیا تھا ۔یہ لوگ دیکھ رہے تھے، سمجھ رہے تھے، بتا رہے تھے، لیکن اسلامی معاشرہ نہیں سمجھا۔اِس کے کان بند اور بہرے ہوگئے تھے۔

آج فاطمہ زہراؑ کی صدا کانوں میں گونج رہی ہے۔ اے حساس اور ہوشیارسماعتو سنو!جس معاشرے میں ولایت ہو، وہ معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جو تمام انسانی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے، وہ تمام چیزیں جنہیں خدا نے انسان کے کمال اور بلندی کے لئے دیا ہے، یہ معاشرہ اُن کی نشوونما کرتا ہے، انسانیت کے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرتا ہے، انسانوں کو کمال تک پہنچاتا ہے، انسانیت کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔اس معاشرے میں ولی، یعنی حاکم، یعنی وہ ہستی جس کے ہاتھ میں تمام امور کی باگ ڈور ہوتی ہے، پورے معاشرے کو خدا کی راہ پر ڈالتا ہے، اوراسے ذکرِ خدا کا حامل بناتاہے ۔مال و دولت کے لحاظ سے، دولت کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے، کوشش کرتا ہے کہ نیکیوں کو عام کرے، کوشش کرتا ہے کہ برائیوں کی جڑ اکھاڑ دے، اُن کا خاتمہ کر دے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔

وہ لوگ جنہیں اگرہم زمین میں اقتدار دیں تووہ نمازقائم کرتے ہیں، زکات ادا کرتے ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں، بُرائیوں سے روکتے ہیں اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیارمیں ہے ۔ (سورۂ حج ۲۲۔آیت ۴۱)

وہ لوگ جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار عطا کریں، تو وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز خدا کے ذکر اور اسکی جانب معاشرے کی توجہ کی علامت ہے ۔

اَقَامُوا الصَّلٰوۃ: نماز قائم کرتے ہیں، خدا کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، احکامِ الٰہی کے مطابق اپنے لئے راہِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔

وَ ٰاتَوُاالزَّکٰوۃ:دولت کی عادلانہ تقسیم کرتے ہیں، زکات ادا کرتے ہیں۔ قرآنِ مجیدکی رو سے زکات کا دامن انتہائی وسیع ہے۔ قرآنِ مجیدمیں زکات کی اصطلاح تمام مالی انفاقات اور صدقات پر محیط ہے ۔وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ، کلی اور مسلمہ طور پر اسکے معنی یہ ہیں کہ دولت کے لحاظ سے سماج میں توازن پیدا ہو۔ زکات کے بارے میں ایسی روایات بھی ہیں، جو کہتی ہیں کہ زکات دولت میں توازن کا موجب ہے ۔

وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَر: نیکیوں کو عام کرنا، اچھائیوں کو فروغ دینااورمنکرات کا قلع قمع کرناان حکمرانوں کے اوصاف میں سے ہے ۔

عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی فقط یہ ہیں کہ میں آپ کو تلقین کروں کہ جنابِ عالی! آپ فلاں برا کام نہ کیجئے، فلاں اچھا کام کیجئے ۔ جبکہ تلقین کرنا اور زبانی کہنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔

لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے کہا : آپ معاویہ کے خلاف جنگ کیوں کر رہے ہیں ؟ امام ؑ نے فرمایا: ” اس لئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے ۔“اچھی طرح سنئے اور نتیجہ نکالئے۔ جنگِ صفین میں امام ؑ سے کہاجارہا ہے کہ آپ کو معاویہ سے کیا واسطہ، آپ کوفہ جائیے وہ شام کا رُخ کرتاہے ۔امام ؑ فرماتے ہیں: خدا نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب کیاہے ۔

امام حسین ؑ مدینہ سے نکلتے ہوئے فرماتے ہیں :اُریدُاَنْ اَمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَاَنْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہتا ہوں ۔

دیکھئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا دائرہ کس قدر وسیع ہے ۔جبکہ ہماری نظر میں یہ کس قدر چھوٹا اور تنگ ہو چکا ہے ۔

بہر حال جب کسی معاشرے میں ولایت ہو، تووہاں نماز قائم ہوتی ہے، زکات ادا کی جاتی ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ بے جان جسم میں جان پڑ جاتی ہے ۔