حضرت علی ؑ اسوۂ مکتب
ولایت - چھ تقریریں • رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای
مذکورہ بالا علامات اور نشانیوں کا مجموعہ، یعنی امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ ولی کے طور پر معین ہوتے ہیں۔اور یہ اس صورت میں ہے جب اس آیت میں استعمال ہونے والے ”واو“ کوواوِ حالیہ لیں ۔لیکن اگر با لفرض اس میں شبہ کریں اور کہیں کہ آیت کا مقصود وہ تمام مومنین ہیں جو ان خصوصیات کے حامل ہوں، توہم سوال کرتے ہیں کہ اس مکتب کے لئے کس ہستی کوعلامت (symbol)، اسوہ اورنمونہ قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ہمیں اسلامی معاشرے میں علی ابن ابی طالب ؑ ؑ ؑ کے سواکوئی ایسی ہستی نہیں ملتی ۔لیکن اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ اس آیت میں حضرت علی ؑ مدِ نظر نہیں تب بھی اُس وقت کے اسلامی سماج میں ایسے مضبوط اور محکم ایمانی گروہ کا مظہر علی ابن ابی طالب ؑ ؑ کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔
اس مقام پر یہ یاددہانی ضروری ہے کہ اگر ہم تشیع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ولایت کی گفتگو کریں، توہمارے پیشِ نظر مسئلے کا مثبت پہلو ہے، اُس کا منفی پہلو نہیں ۔ اور جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے، ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ شیعہ اپنے آپ کو پہچانیں، اپنی فکر کو پہچانیں، اپنے عقیدے کو زیادہ سے زیادہ راسخ کریں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہم اس بات کے بھی معتقدہیں کہ شیعوں کو چاہئے کہ آج برادرانِ اہلِ سنت کے ساتھ محاذ آرائی ترک کردیں۔ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے اُن کا بیرونی دشمن موجود ہے۔
ہم اپنی اس گفتگو میں تشیع کا اثبات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا مقصود دوسروں کی نفی کرنا نہیں ہے، ہم خوامخواہ عقیدے اور سلیقے کے اختلاف کو ہوا دینانہیں چاہتے ۔لیکن آپ کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آپ تشیع کو کس طرح سمجھتے ہیں۔جس تشیع کا ذکر ہم کر رہے ہیں وہ اسلام سے جدا کوئی اور چیز نہیں ہے ۔اسلام تشیع سے جدا کوئی چیز نہیں۔تشیع اسلام اور قرآن کے بارے میں جس نکتۂ نظر کاحامل ہے، وہ ایک درست، منطقی، عادلانہ اور عاقلانہ نکتۂ نظر ہے ۔
پس اس جانب متوجہ رہئے کہ ہم اصولِ اسلامی بیان کر رہے ہیں اور خود ہمارے پیشِ نظر جو گفتگو ہے وہ اسلام کے آئیڈیالوجیکل اصول کے بارے میں ہے ۔ہم نہیں سمجھتے کہ آپ اس کے برخلاف کوئی رائے رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پیشِ نظر مثبت مسائل اورمسئلے کا مثبت پہلو ہے ۔ہم اسلام کو اس طرح بیان کر رہے ہیں جیسا کہ مکتبِ تشیع میں سمجھتے اور جانتے ہیں اور دوسرے گروہ، جو ممکن ہے، اس سے مختلف سمجھتے ہوں، اوراس سے مختلف جانتے ہوں، اُن سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے اور اس بارے میں ہم اُن سے بحث بھی نہیں کرتے، نہ ہمارا اُن سے کوئی جھگڑا ہے، ہم باہم بھائی بھائی بھی ہیں اور دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے سامنے ایک دشمن موجود ہے، کیونکہ دشمن ہمارے سروں پر پہنچ چکا ہے ۔اس حالت میں ہمیں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا حق نہیں ہے ۔یہ بھی ہمارا مسلک ہے جسے ہم بیان کرنا چاہتے تھے ۔
تشیع اور شیعیت کے بارے میں گفتگو، شیعیت کی صداقت اور اسکے کھرے ہونے کی بنا پر ہے، اس لئے ہے کہ ہم تشیع کے معتقد ہیں اور اسلام کو تشیع کے نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں، اس لئے نہیں ہے کہ ہم شیعہ اورسنی کے درمیان اختلاف ایجاد کرنا چاہتے ہیں، ہر گز ہمارا مقصد یہ نہیں ہے، ہم اس اختلاف انگیزی کو حرام سمجھتے ہیں ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔(۱)
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اگر ہم ولایت کوملحوظ رکھیں، تو کیا ہوگا؟کیا اس کا ہمارے اوپر کوئی اثر بھی ہوگا؟
ہم نے ولایت کے تین پہلوؤں کو بیان کیا ہے، جواندرونی ربط وتعلق کی حفاظت، متضاد بیرونی مراکز سے رشتوں اور وابستگیوں کو توڑ دینااور جسدِ اسلامی اور امتِ اسلامی کے قلب، یعنی امام و رہبر کے ساتھ دائمی اور گہرے تعلق کی حفاظت ہیں۔
اب اگر ہم نے ان تین پہلوؤں کوملحوظ رکھا، تو کیا ہوگا ؟ قرآنِ مجید، بعد والی آیت میں
جواب دیتا ہے کہ :
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔
جو لوگ خدا، اسکے رسول اور اہلِ ایمان کی ولایت قبول کریں گے، اِس بندھن کا لحاظ رکھیں گے اور اسکی حفاظت کریں گے، وہی کامیاب اور غالب ہوں گے، اور سب سے زیادہ کامیاب یہی لوگ ہیں اور یہ تمام دوسرے گروہوں پر غلبہ پائیں گے۔) سورہ مائدہ۵ ۔آیت ۵۶(
۱۔ یہ وہی آیت ہے جس کے ہر جز کی تشریح کی گئی ہے اور یہاں اسے ایک مرتبہ پھر بیان کیا گیا ہے، اور اسکے معنی یہ ہیں کہ : تمہارا ولئ امر خدا ہے، اس کا رسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہیں ۔(سورہ مائدہ ۵۔آیت ۵۵)