ماہِ رمضان سے استفادہ
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
آخر میں پہلے تو خود اپنے آپ سے اور پھر محترم قارئین سے وعظ و نصیحت کے عنوان سے انتہائی خلوص کے ساتھ عرض ہے کہ:
ماہِ رمضان اس قدر فضیلت، برکت اور رحمت کی وجہ سے کیا واقعی ہماری گہری فکری اور عملی توجہ کا مستحق نہیں؟
خداوند ِعالم نے اس قدر برکت، لطف اور رحمت کا مہینہ ہمیں نصیب کیا ہےاس سے لا تعلقی یا اس پر شعوری اور سنجیدہ توجہ نہ دینا، کیا ایک اہم موقع ضائع کردینے کے مترادف نہیں ہے؟
وہ مہینہ جس میں خدا نے ہمیں اپنی رحمت کے دسترخوان پر مدعو کیا ہے، اور ہمیں اپنے خوانِ نعمت کا مہمان بنایا ہے، کیا مناسب نہیں کہ ہم اس دعوت کوقبول کریں اور اس دسترخوان کی معنوی برکات سے استفادہ کریں؟
کیا ہمیں پیغمبر اسلام ؐکا یہ فرمان یاد نہیں ہے کہ: اِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِّمَ فی ھٰذا الشَّھْرِالْعَظیِمِ(بے شک وہ شخص بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے کی برکات سے محروم رہے۔ عیون اخبار الرضاج ۱۔ ص۲۹۵)
اس مہینے کی معنوی برکتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ بقول رسولِ کریم ؐ:
جو کوئی اس مہینے میں ایک مومن کی دعوت ِافطار کرے، تویہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک غلام کو آزاد کیا ہواور ایسے شخص کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
اس موقع پر ایک شخص نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ !ہم سب لوگ اس بات کی قدرت نہیں رکھتے کہ کسی کو افطار کرائیںپیغمبر ؐنے اسے جواب دیا:
اِتَّقُوا النّٰارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ اِتَّقُوا النّٰارَ وَلَوْبِشَرْبَۃِماٰءٍ۔
آتش دوزخ سے بچو، چاہے پیاسے کو تھوڑے سے پانی کے ذریعے سیراب کرکے(عیون اخبار الرضا۔ ج۱ص۲۹۵)
یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس مہینے میں، اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان گناہوں سے پرہیز کرےلہٰذا جب حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مہینے کے سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا، تو آنحضرت ؐ نے جواب دیا:
أَفْضَلُ الَأ عْماٰلِ فی ھَذَا الشَّھْرِ اَلْوَرَعُ عَنْ مَحاٰرِمِ اللّٰہِ۔
اس مہینے میں بہترین عمل، ان کاموں سے پرہیز کرنا ہے جنہیںخداوند ِعالم نے حرام قرار دیاہے(عیون اخبار الرضاج۱ص۲۹۵)