ماہِ رمضان

اسلام کی نظر میں دعا کی اہمیت اور اسکی تاکید

ماہِ رمضان   •   مجلسِ مصنّفین

قرآنِ مجید، گفتارِ پیغمبر ؐ اور فرامینِ ائمہؑ میں بارگاہ ِالٰہی میں دعا اور خدا سے مناجات کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہےچند مثالیں حاضرِخدمت ہیں:

۱خدا وندِ عالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:

قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآؤُکُمْ۔

آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔
( سورۂ فرقان ۲۵آیت ۷۷)

لہٰذا انسان کی شخصیت کا وزن اور اسکی اہمیت بارگاہ ِالٰہی میں دعا اور اس کے ساتھ تعلق سے وابستہ ہے۔

۲اللہ رب العزت فرماتا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۔

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عباد ت سے اکڑتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جنم میں داخل ہو ں گے۔
( سورۂ غافر ۴۰آیت ۶۰)

اس آیت میں دعا کے تعلق سے پانچ اہم نکات کی جانب اشارہ موجود ہے :

٭ دعا کرنا خدا کو پسند ہےوہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس سے دعا کریں اور اسکی بارگاہ میں دعا کرنے والے اور اس سے رازو نیاز کرنے والے بنیں۔

٭ دعا قبول کی جاتی ہےقبولیت ِ دعا کی شرائط فراہم کرکے، پروردگارِ عالم سے مثبت جواب پائیےخدا سے دعا کی استجابت اور قبولیت کی ایک شرط خود سازی اور اصلاحِ کردار ہے۔

٭ دعا، عبادت ہے اور عبادت کا ثواب رکھتی ہےنیز بندگی اور عبودیت کی علامت ہے، بلکہ بعض احادیث کے مطابق دعا بہترین عبادت ہے۔

معاویہ بن عمار نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: آپ کے چاہنے والوں میں سے دو افراد مسجد میں آتے ہیں ان میں سے ایک شخص دیر تک نمازیں پڑھتا رہتا ہے اور دوسرا زیادہ وقت دعائوں میں مشغول رہتا ہےبتائیے ان میںسے کونسا شخص افضل ہے؟ امام ؑ نے انہیں جواب دیا : اکثرھُماٰ دُعاٰءً (جوشخص زیادہ دعا میں مشغول رہتا ہے، وہ افضل ہے۔ اصو ل کافی۔ ج ۲ص ۴۶۶)

٭ دعا ومناجات سے دور رہنے والے لوگ، مغرور اور متکبر ہوتے ہیں۔

٭ ذلت آمیزعذاب ِجہنم، دعا اور مناجات نہ کرنے والے لوگوں کا منتظر ہے۔

رسولِ کریم ؐ اور ائمۂ معصومین ؑ کے کلمات و فرمودات میں، دعا کی اہمیت کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔

ایک کلام میں پیغمبرؐ فرماتے ہیں :

الدُّعاٰ ئُ سَلاٰحُ الْمُؤْمِنِ، وَ عَموُدُ الدِّینِ، وَ نُورُ السَّماٰواٰتِ وَ الْاَ رْضِ

دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
تفسیر مجمع البیانج ۸ص ۵۲۹

یعنی دعا مومن کی تقویت کا باعث، اسکے دین اور عقیدے کے استحکام کا موجب اور ہر جگہ اسکی روح کی نورانیت کا سبب ہےنہایت واضح بات ہے کہ ان خصوصیات کا حامل ہونا خود سازی اور تہذیب ِ نفس کی بنیادی علامات میں سے ہے۔

پیغمبراسلامؐ نے اپنے ایک دوسرے کلام میں فرمایاہے:

الدُّعاٰئُ مُخُّ الْعِباٰدَۃِ وَلاٰیَھْلِکُ مَعَ الدُّعاٰءِ اَحَدٌ

دعا عبادت کا مغز (جوہر) ہے، دعا کرنے والوں میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔
بحار الانوارج۹۳ص ۳۰۰

یعنی دعا، انسان کی فکر اور سوچ کو تقویت دیتی اور کھولتی ہے، نیز اسے شادابی اورتازگی بخشتی ہے اور جو لوگ دعا و مناجات سے لگائو رکھتے ہیں وہ ان کے نتائج سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیشہ عافیت میں رہتے ہیں اور ہر گز ہلاکت میں مبتلا نہیں ہوتے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :

الدُّعاءُ مَفاٰتِیحُ النَّجاٰحِ، وَ مَقا لِیدُالْفَلاحِ

دعا، کامیابی کی کنجیاں اور نجات کے خزانے ہیں۔
اصول کافیج۲ص ۴۶۸